الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
33. بَابُ غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ مِنْ خُزَاعَةَ وَهْيَ غَزْوَةُ الْمُرَيْسِيعِ:
33. باب: غزوہ بنو المصطلق کا بیان جو قبیلہ بنو خزاعہ سے ہوا تھا اور یہی غزوہ مریسیع (بھی کہلاتا) ہے۔
(33) Chapter. The Ghazwa of Banu Al-Mustaliq which belongs to the tribe of Khuzaa. It is also called the Ghazwa of Al- Muraisi.
حدیث نمبر: Q4138
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
قال ابن إسحاق: وذلك سنة ست. وقال موسى بن عقبة: سنة اربع. وقال النعمان بن راشد عن الزهري: كان حديث الإفك في غزوة المريسيع.قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَذَلِكَ سَنَةَ سِتٍّ. وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: سَنَةَ أَرْبَعٍ. وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ رَاشِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ: كَانَ حَدِيثُ الإِفْكِ فِي غَزْوَةِ الْمُرَيْسِيعِ.
‏‏‏‏ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ یہ غزوہ 6 ھ میں ہوا تھا اور موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ 4 ھ میں اور نعمان بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ واقعہ افک غزوہ مریسیع میں پیش آیا تھا۔

حدیث نمبر: 4138
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد , اخبرنا إسماعيل بن جعفر , عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن , عن محمد بن يحيى بن حبان , عن ابن محيريز , انه قال: دخلت المسجد فرايت ابا سعيد الخدري فجلست إليه فسالته عن العزل , قال ابو سعيد: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بني المصطلق , فاصبنا سبيا من سبي العرب , فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة واحببنا العزل , فاردنا ان نعزل وقلنا نعزل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهرنا قبل ان نساله , فسالناه عن ذلك , فقال:" ما عليكم ان لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ , أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْعَزْلِ , قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ , فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ , فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ , فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ وَقُلْنَا نَعْزِلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ , فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ , فَقَالَ:" مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو اسماعیل بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے ‘ انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے ابومحیریز نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اندر موجود تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے عزل کے متعلق ان سے سوال کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی المصطلق کے لیے نکلے۔ اس غزوہ میں ہمیں کچھ عرب کے قیدی ملے (جن میں عورتیں بھی تھیں) پھر اس سفر میں ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور بے عورت رہنا ہم پر مشکل ہو گیا۔ دوسری طرف ہم عزل کرنا چاہتے تھے (اس خوف سے کہ بچہ نہ پیدا ہو) ہمارا ارادہ یہی تھا کہ عزل کر لیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ آپ سے پوچھے بغیر عزل کرنا مناسب نہ ہو گا۔ چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قیامت تک جو جان پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔

Narrated Ibn Muhairiz: I entered the Mosque and saw Abu Sa`id Al-Khudri and sat beside him and asked him about Al-Azl (i.e. coitus interruptus). Abu Sa`id said, "We went out with Allah's Apostle for the Ghazwa of Banu Al-Mustaliq and we received captives from among the Arab captives and we desired women and celibacy became hard on us and we loved to do coitus interruptus. So when we intended to do coitus interrupt us, we said, 'How can we do coitus interruptus before asking Allah's Apostle who is present among us?" We asked (him) about it and he said, 'It is better for you not to do so, for if any soul (till the Day of Resurrection) is predestined to exist, it will exist."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 459


   صحيح البخاري6603سعد بن مالكأوإنكم لتفعلون ذلك لا عليكم أن لا تفعلوا فإنه ليست نسمة كتب الله أن تخرج إلا هي كائنة
   صحيح البخاري2229سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ذلكم فإنها ليست نسمة كتب الله أن تخرج إلا هي خارجة
   صحيح البخاري5210سعد بن مالكما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا هي كائنة
   صحيح البخاري2542سعد بن مالكما عليكم أن لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة
   صحيح البخاري7409سعد بن مالكما عليكم أن لا تفعلوا فإن الله قد كتب من هو خالق إلى يوم القيامة
   صحيح البخاري4138سعد بن مالكعن العزل خرجنا مع رسول الله في غزوة بني المصطلق فأصبنا سبيا من سبي العرب فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة وأحببنا العزل فأردنا أن نعزل وقلنا نعزل ورسول الله بين أظهرنا قبل أن نسأله فسألناه عن ذلك فقال
   صحيح مسلم3546سعد بن مالكما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا هي كائنة
   صحيح مسلم3547سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا فإنما هو القدر
   صحيح مسلم3554سعد بن مالكما من كل الماء يكون الولد وإذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء
   صحيح مسلم3549سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ذاكم فإنما هو القدر
   صحيح مسلم3544سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ما كتب الله خلق نسمة هي كائنة إلى يوم القيامة إلا ستكون
   صحيح مسلم3550سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ذاكم فإنما هو القدر
   صحيح مسلم3553سعد بن مالكليست نفس مخلوقة إلا الله خالقها
   جامع الترمذي1138سعد بن مالكلم يفعل ذلك أحدكم
   سنن أبي داود2170سعد بن مالكلم يفعل أحدكم ولم يقل فلا يفعل أحدكم فإنه ليست من نفس مخلوقة إلا الله خالقها
   سنن أبي داود2172سعد بن مالكما عليكم أن لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة
   سنن أبي داود2171سعد بن مالككذبت يهود لو أراد الله أن يخلقه ما استطعت أن تصرفه
   سنن النسائى الصغرى3329سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا فإنما هو القدر
   سنن ابن ماجه1926سعد بن مالكأو تفعلون لا عليكم أن لا تفعلوا فإنه ليس من نسمة قضى الله لها أن تكون إلا هي كائنة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم359سعد بن مالكما عليكم ان لا تفعلوا، ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهى كائنة
   بلوغ المرام878سعد بن مالك كذبت اليهود ،‏‏‏‏ لو أراد الله أن يخلقه ما استطعت أن تصرفه
   المعجم الصغير للطبراني492سعد بن مالك العزل ، فقال : لا عليكم أن لا تفعلوا ، فإنما هو القدر
   مسندالحميدي764سعد بن مالكفلم يفعل ذلك أحدكم
   مسندالحميدي765سعد بن مالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 359  
´عزل مع الکراہت جائز ہے`
«. . . عن ابن محيريز انه قال: دخلت المسجد فرايت ابا سعيد الخدري فجلست إليه فسالته عن العزل، فقال ابو سعيد الخدري . . .»
. . . ابن محیریز (تابعی) سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا پھر میں ان پاس بیٹھ گیا اور عزل کے بارے میں پوچھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 359]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2542، من حديث مالك، ومسلم 125/1438، من حديث ربيعه بن أبى عبدالرحمٰن به]
تفقه:
➊ عزل سے مراد یہ ہے کہ شرمگاہ میں دخول کے بعد انزال اندر نہ کیا جائے بلکہ شرمگاہ سے باہر انزال کیا جائے۔ یہ عزل مع الکراہت جائز ہے۔ کراہت کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں عزل کی ممانعت ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عزل نہیں کرتے تھے اور عزل کو ناپسند کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 2/595 ح1303، وسنده صحيح] جبکہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عزل کرتے تھے۔ [ايضاً ح1301، وهو حديث صحيح]
➌ اگر کسی شخص کی لونڈی اس سے حالتِ حمل میں ہے تو مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اسے بیچنا جائز نہیں ہے۔ [التمهيد 3/136]
➍ تقدیر برحق ہے اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔
➎ تمام معاملات میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنے میں ہی نجات اور کامیابی ہے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یا حدیثِ رسول کے مقابلے میں اجتہاد وقیاس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
➐ ان احادیث میں ضبطِ ولادت کی دلیل نہیں ہے، اس لئے کہ عزل لونڈیوں سے کیا جاتا تھا جن سے اولاد مطلوب نہیں ہوتی بخلاف آزاد عورتوں کے کہ ان سے اولاد مطلوب ہے۔
➑ بغیر شرعی عذر کے شادی سے انکار کرنا فطرت سے جنگ ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 161   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1926  
´عزل کا بیان۔`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟ ایسا نہ کرنے میں تمہیں کوئی نقصان نہیں ہے، اس لیے کہ جس جان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونا مقدر کیا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔‏‏‏‏ ۱؎ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1926]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عزل کا مطلب ہے عورت سے جماع کرتے وقت جب انزال ہونے لگے تو پیچھے ہٹ جائے تاکہ حمل ٹھہرنے کا اندیشہ نہ رہے۔

(2)
لونڈیوں سے اس لیے عزل کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہ ہو کیونکہ اولاد ہونے کے بعد اگر لونڈی کو بیچا جائے تو اس کا بچہ پہلے مالک کے پاس رہ جائے گا۔
اس طرح ماں بیٹے میں جدائی ہو جائے گی جو نامناسب ہے۔

(3)
اگر نہ کرو تو کوئی حرج نہیں۔
اس میں اشارہ ہے کہ اجتناب بہتر ہے تاہم سختی سے منع نہیں کیا گیا بلکہ صحیحین میں حضرت جابر سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن نازل ہو رہا تھا۔ (صحیح البخاري، النکاح، باب العزل، حدیث: 5209، وصحیح مسلم، النکاح، باب حکم العزل، حدیث: 1440)

 یعنی ہم نبی اکرم ﷺ کے عہد میں بھی ایسا کرتے تھے اور اگر یہ فعل حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اس سے منع فرما دیتا۔
بنا بریں علمائے کرام اس کی بابت لکھتے ہیں کہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہ کیا جائے کیونکہ اسے اولاد پیدا کرنے کا حق ہے، لہٰذا اگر عورت بیماری یا کمزوری کی وجہ سے حمل وولادت کی مشقت برداشت نہ کرسکتی ہو تو عزل کیا جا سکتا ہے، نیز مانع حمل گولیوں کا بھی بالکل یہی حکم ہے۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمة الله عليه  اس کی بابت یوں لکھتے ہيں کہ عورتوں کو درج ذیل دو شرطوں کے بغیر مانع حمل گولیاں استعمال نہیں کرنی چاہییں:

(ا)
عورت کو اس کی واقعی ضرورت ہو، مثلا:
وہ بیمار ہو اور ہر سال حمل کی متحمل نہ ہو سکتی ہویا بے حد لاغر اور کمزور ہو یا کچھ اور ایسے موانع ہوں جن کی وجہ سے ہر سال حمل ہونا اس کے لیے جان لیوا اور نقصان دہ ہو۔

(ب)
شوہر نے اسے اس کی اجازت دے دی ہو کیونکہ شوہر کا یہ حق ہے کہ بیوی اس کے لیے اولاد پیدا کرے، علاوہ ازیں ان گولیوں کے استعمال کے لیے طبيب سے یہ مشورہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کا استعمال نقصان دہ تو نہیں لہٰذا جب یہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں تو پھر ان گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسی گولیاں استعمال نہ کی جائیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مانع حمل ہوں کیونکہ یہ قطع نسل کے مترادف ہو گا جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیئے:
(فتاوی اسلامیہ، (اردو)
: 3؍215، 216 مطبوعہ دارالسلام)


(4)
خاندنی منصوبہ بندی کا موجودہ تصور یہ ہے کہ زیادہ بچے ہوں گے تو ان کا خرچ برداشت کرنا اور دیکھ بھال کرنا مشکل ہو گا۔
یہ ایک غلط تصور ہے۔
جاہلیت میں جو لوگ اس ڈر سے بچوں کو قتل کر دیتے تھے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرً‌ا﴾ (بنی اسرائیل: 31)
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
ان کو بھی ہم ہی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔
یقیناً ان کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔
مغرب کے عیسائی ممالک مسلمانوں کو اس کی ترغیب اس لیے دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی افرادی قوت میں اضافے سے خوف زدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ خود اپنے لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے لگے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1926   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 878  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول! میری ایک لونڈی ہے۔ میں اس سے عزل کرتا ہوں اور اس کا حاملہ ہونا مجھے پسند نہیں اور میں وہی چاہتا ہوں جو مرد چاہتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزل تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود نے جھوٹ بولا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے تو اسے تو پھیر نہیں سکتا۔ اسے احمد، ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں نسائی اور طحاوی نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 878»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب ما جاء في العزل، حديث:2171، والنسائي، النكاح، حديث:3329، وأحمد:3 /33، والطحاوي في مشكل الآثار:2 /372، وحديث البيهقي(7 /230)يغني عنه.»
تشریح:
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے: جس چیز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو جھوٹا قرار دیا ہے وہ ان کا یہ خیال ہے کہ عزل کی صورت میں حمل کا تصور ہی نہیں اور انھوں نے اسے‘ زندہ درگور کرنے کے ذریعے سے نسل کو قطع کرنے کے مقام پر رکھا ہے۔
مگر میں ان کے اس نظریے اور خیال کی تکذیب کرتا ہوں اور خبر دیتا ہوں کہ عزل حمل کو ہرگز نہیں روک سکتا جب اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے۔
اور جب اس کا ارادہ ہی تخلیق کا نہ ہو تو پھر وہ حقیقت میں زندہ درگور کرنا ہی نہیں۔
حدیث جدامہ میں بھی اسے خفیہ زندہ درگور کرنے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ مرد حمل سے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عزل کرتا ہے۔
اسی بنا پر اس کے ارادے اور قصد کو زندہ درگور کرنے کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔
لیکن ان دونوں میں فرق ہے کہ زندہ درگور تو براہ راست ایک ظاہر عمل ہے اور اس میں قصد اور فعل دونوں جمع ہوتے ہیں مگر عزل کا تعلق صرف قصد و ارادے سے ہے، اسی وجہ سے اسے وأد خفی کہا گیا ہے۔
اس سے دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جدامہ کی حدیث عزل کی تحریم پر دلالت نہیں کرتی‘ اس میں صرف کراہت و ناپسندیدگی کا اظہار ہے کیونکہ اس میں تقدیر کا مقابلہ ہوتا ہے اور عزل کرنے والا اپنی تدبیر کے ذریعے سے تقدیر کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
دور جدید کے جو ڈاکٹر رگ کاٹ کر قوت تولید کو قطع کر دیتے ہیں تاکہ نسل کو محدود کر دیا جائے گو قوت جماع باقی رہنے دیتے ہیں‘ تو اسے عزل پر قطعاً قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
عزل تو وقتی اور ظنی سبب ہے بلکہ منع حمل کے لیے درحقیقت یہ سبب ہے ہی نہیں۔
اس کے باوجود عازل خود مختار ہے اگر چاہے تو یہ فعل کرے اور چاہے اسے ترک کرے۔
اور جہاں تک رگ تولید کو کاٹ دینے کا تعلق ہے تو وہ ایسا سبب ہے جو قطعی اور دائمی ہے۔
اس رگ کے کٹ جانے کے بعد مرد کا اختیار باقی نہیں رہتا‘ نیز اس میں اللہ کی تخلیق کو بدل دینا‘ جسمانی نظام کو تبدیل کر دینا اور بعض قوتوں کے عمل کو بے کار کر دینا ہے۔
اور رگ تولید کو کاٹنے کا یہ عمل کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا کر دینے کا سبب بن جاتا ہے جو کہ کٹی ہوئی رگ کی جگہ‘ دل اور پھیپھڑے وغیرہ تک سرایت کر جاتا ہے۔
ہر باخبر آدمی اس کے برے نتائج اوراثرات کو خوب جانتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 878   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1138  
´عزل کی کراہت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟۔‏‏‏‏ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1138]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے،
خصوصاً جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلا ہی جاتاہے،
اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔
تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1138   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2170  
´عزل کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل ۱؎ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ وہ ایسا نہ کرے)، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس نفس کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا ۲؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: قزعہ، زیاد کے غلام ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2170]
فوائد ومسائل:
مباشرت کرتے وقت مرد اپنی منی عورت کی فرج میں نکالنے کی بجائے باہر نکالے اسے عزل کہتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2170   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4138  
4138. حضرت ابن محریز سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا، میں نے وہاں حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا تو ان کی خدمت میں بیٹھ گیا اور ان سے عزل کے متعلق سوال کیا۔ حضرت بو سعید خدری ؓ نے فرمایا: ہم غزوہ بنو مصطلق میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہمیں عرب کی قیدی عورتیں دستیاب ہوئیں، پھر ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی کیونکہ ہمارے لیے مجرد رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کریں، پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود ہیں تو پھر ہم آپ سے پوچھے بغیر کیونکر عزل کریں؟ چنانچہ ہم نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم ایسا نہ بھی کرو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ جو روح قیامت تک پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4138]
حدیث حاشیہ:
عزل کا مفہوم یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ ہم بستری کرے اور جب انزال کا وقت قریب ہو تو آلہ تناسل کو نکال لے تاکہ بچہ پیدا نہ ہو۔
قطع نسل کی یہ بھی ایک صورت تھی جسے آنحضرت ﷺ نے پسند نہیں فرمایا آج طرح طرح سے قطع نسل کی دنیا کے بیشتر ممالک میں کوشش جاری ہے جو اسلام کی رو سے قطعاً نا جائز ہے۔
وقد ذکر ھذہ القصة ابن سعد نحوما ذکر ابن إسحاق وإن الحرث کان جمع جموعا وأرسل عینا تأتیه بخبر المسلمین فظفروا به فقتلوہ فلما بلغه ذالك وتفرق الجمع وانتھی النبي صلی اللہ علیه وسلم إلی الماء وھو المریسیع فصف أصحابه القتال ورموھم بالنبل ثم حملوا علیھم حملة واحدة فما أفلت منھم انسان بل قتل منھم عشرة وأسر الباقون رجالا ونساء۔
(فتح الباري)
خلاصہ یہ کہ غزوہ بنو مصطلق میں مسلمانوں نے دس آدمیوں کو قتل کیا اور باقی کو قید کر لیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4138   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4138  
4138. حضرت ابن محریز سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں مسجد میں داخل ہوا، میں نے وہاں حضرت ابوسعید خدری ؓ کو دیکھا تو ان کی خدمت میں بیٹھ گیا اور ان سے عزل کے متعلق سوال کیا۔ حضرت بو سعید خدری ؓ نے فرمایا: ہم غزوہ بنو مصطلق میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نکلے تو ہمیں عرب کی قیدی عورتیں دستیاب ہوئیں، پھر ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی کیونکہ ہمارے لیے مجرد رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ ہم نے چاہا کہ عزل کریں، پھر ہم نے سوچا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہم میں موجود ہیں تو پھر ہم آپ سے پوچھے بغیر کیونکر عزل کریں؟ چنانچہ ہم نے آپ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: تم ایسا نہ بھی کرو تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ جو روح قیامت تک پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4138]
حدیث حاشیہ:

غزوہ بنو مصطلق میں عورتیں قیدی بن کر مسلمانوں کے ہاتھ لگیں۔
مجاہدین کو بیویوں سے جدا ہوئے عرصہ گزرگیا تھا۔
اس لیے انھیں اپنی لونڈیوں سے جماع کرنے کی خواہش ہوئی لیکن یہ بھی خطرہ تھا کہ اگر انھیں حمل ٹھہر گیا تو امہات اولاد قرارپائیں گی اور انھیں فروخت نہیں کیا جا سکے گا۔
اس لیے انھوں نے عزل کرنا چاہا تو اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے اسے ممنوع قراردیا۔

اس حدیث کو خاندانی منصوبہ بندی کے لیے بطور دلیل پیش کیا جا تا ہے۔
حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہیں فرمایا بلکہ بعض روایات میں عزل کرنے کو خفیہ طور پر زندہ درگورکرنے سے تعبیر فرمایا، نیز یہ ایک بیوی اور خاوند کا پرائیوٹ اور انفرادی معاملہ ہے۔
اس پر قومی تحریک کی بنیاد رکھنا نری حماقت ہے اس کی مزید تفصیل کتاب النکاح میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4138   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.