الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
36. بَابُ غَزْوَةِ الْحُدَيْبِيَةِ:
36. باب: غزوہ حدیبیہ کا بیان۔
(36) Chapter. The Ghazwa of Al- Hudaibiya.
حدیث نمبر: 4166
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس , حدثنا شعبة , عن عمرو بن مرة , قال: سمعت عبد الله بن ابي اوفى , وكان من اصحاب الشجرة قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اتاه قوم بصدقة , قال:" اللهم صل عليهم" , فاتاه ابي بصدقته , فقال:" اللهم صل على آل ابي اوفى".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى , وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَةِ قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَةٍ , قَالَ:" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِمْ" , فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ ان سے عمرو بن مرہ نے ‘ انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ وہ بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی صدقہ لے کر حاضر ہوتا تو آپ دعا کرتے کہ اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما۔ چنانچہ میرے والد بھی اپنا صدقہ لے کر حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! آل ابی اوفی رضی اللہ عنہ پر اپنی رحمت نازل فرما۔

Narrated `Abdullah bin Abi `Aufa: (Who was one of those who had given the Pledge of allegiance to the Prophet beneath the Tree) When the people brought Sadaqa (i.e. rak`at) to the Prophet he used to say, "O Allah! Bless them with your Mercy." Once my father came with his Sadaqa to him whereupon he (i.e. the Prophet) said. "O Allah! Bless the family of Abu `Aufa."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 484


   صحيح البخاري6332عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح البخاري4166عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح البخاري6359عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح البخاري1497عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   صحيح مسلم2492عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   سنن أبي داود1590عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   سنن النسائى الصغرى2461عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   سنن ابن ماجه1796عبد الله بن علقمةاللهم صل على آل أبي أوفى
   بلوغ المرام492عبد الله بن علقمة‏‏‏‏اللهم صل عليهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1796  
´زکاۃ نکالنے والے کو زکاۃ نکالنے پر کیا دعا دی جائے؟`
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی اپنے مال کی زکاۃ لاتا تو آپ اس کے لیے دعا فرماتے، میں بھی آپ کے پاس اپنے مال کی زکاۃ لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم صل على آل أبي أوفى» اے اللہ! ابواوفی کی اولاد پر اپنی رحمت نازل فرما ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1796]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سونے چاندی اور نقدی (اموال باطنہ)
کی زکاۃ صاحب نصاب کو خود حاضر ہو کر ادا کرنی چاہیے۔
غلے اور مویشیوں (اموال ظاہرہ)
کی زکاۃ اسلامی حکومت کا مقرر کردہ افسر صاحب نصاب کے پاس پہنچ کر وصول کرے۔

(2)
اسلامی معاشرے میں عوام اور حکومت کے مابین محبت اور احترام کا تعلق ہوتا ہے۔
زکاۃ وصول کرنے والے کو چاہیے کہ زکاۃ ادا کرنے والے کا شکریہ ادا کرے اور اسے دعا دے۔

(3)
آل کے لفظ میں وہ شخص خود بھی داخل ہوتا ہے جس کی آل کا ذکر کیا جاتا ہے اس کے علاوہ اس کی اولاد اور وہ افراد جو اس کے زیردست ہیں اور وہ ان کا سردار سمجھا جاتا ہے، وہ بھی آل میں شامل ہوسکتے ہیں۔
بعض اوقات آل سے متبعین اور پیروکار بھی مراد لیے جاتے ہیں، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْ‌عَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ (المومن، 40: 4)
اور جس دن قیامت قائم ہوگی (ہم کہیں گے)
فرعون کی آل کو شدید ترین عذاب میں داخل کردو۔
اس آیت میں آل سے اولاد مراد نہیں کیونکہ فرعون لاولد تھا۔
اور اس کی بیوی (حضرت آسیہ علیہا السلام)
مسلمان تھیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1796   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 492  
´عاملین زکاۃ کے لیے خیر و برکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا`
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جب لوگ زکوٰۃ لے کر حاضر ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے یوں دعا فرماتے «اللهم صل عليهم» یا اللہ! ان پر رحم و کرم فرما۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 492]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خود حاضر ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زکاۃ پیش کرتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے خیر و برکت اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کی دعا کرتے۔
➋ نماز اور روزے کی طرح زکاۃ بھی فرض ہے، جس طرح نماز اور روزے کو خود ادا کر کے فریضے کی ادائیگی ہوتی ہے، اسی طرح زکاۃ بھی خود ادا کر کے اس فریضے سے اپنے آپ کو جلدی بری کرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 492   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1590  
´زکاۃ وصول کرنے والا زکاۃ دینے والوں کے لیے دعا کرے۔`
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد (ابواوفی) اصحاب شجرہ ۱؎ میں سے تھے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی قوم اپنے مال کی زکاۃ لے کر آتی تو آپ فرماتے: اے اللہ! آل فلاں پر رحمت نازل فرما، میرے والد اپنی زکاۃ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابواوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1590]
1590. اردو حاشیہ: رسول اللہ ﷺ کو حکم دیا گیا تھا کہ اہل صدقات کے لیے خاص دعا فرمایا کریں۔ سورہ توبہ میں ہے: ﴿خُذ مِن أَمو‌ٰلِهِم صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُم وَتُزَكّيهِم بِها وَصَلِّ عَلَيهِم ۖ إِنَّ صَلو‌ٰتَكَ سَكَنٌ لَهُم ﴾ [التوبة:130) آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے۔ لہذا امام اور عاملین کو چاہیے کہ اصحاب زکوۃ کے لیے عمومی دعا ضرور کیا کریں۔ یہ آیت کریمہ دلیل ہے کہ زکوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ اور زکوۃ کی وصولی اما م وقت کی ذمہ داری ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1590   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4166  
4166. حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ سے روایت ہے، اور وہ اصحاب شجرہ میں سے ہیں، انہوں نے فرمایا: جب لوگ نبی ﷺ کے پاس صدقہ لے کر آتے تو آپ ان کے لیے دعا فرماتے: اے اللہ! ان پر رحمت نازل فرما۔ چنانچہ میرے والد بھی آپ کے پاس صدقہ لے کر آئے تو آپ نے دعا فرمائی: اے اللہ! ابی اوفی کی اولاد پر رحمت نازل فرما۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4166]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ ان خوش قسمت حضرات میں سے تھے جنھوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ ﷺ سے بیعت رضوان کی تھی۔

ابن اسحاق نے اس بیعت کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو قتل عثمان کی خبرملی تو آپ نے فرمایا:
اگریہ بات صحیح ہے تو ہم قریش سے جنگ لڑیں گے۔
پھر آپ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا اور فرمایا:
وہ اس بات پر بیعت کریں کہ میدان جنگ سے راہ فراراختیار نہیں کریں گے۔
اس کے بعد آپ کو یہ خبرپہنچی کہ قتل عثمان کی خبرغلط تھی اور حضرت عثمان ؓ واپس تشریف لے آئے۔

جب رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو سب سے پہلے ابوسنان ؓ بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔
(فتح الباری: 559/7، 560)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4166   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.