الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
39. بَابُ غَزْوَةُ خَيْبَرَ:
39. باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
(39) Chapter. Ghazwa of Khaibar.
حدیث نمبر: 4196
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن يزيد بن ابي عبيد، عن سلمة بن الاكوع رضي الله عنه، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، فسرنا ليلا، فقال رجل من القوم لعامر: يا عامر، الا تسمعنا من هنيهاتك؟ وكان عامر رجلا شاعرا، فنزل يحدو بالقوم يقول: اللهم لولا انت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فداء لك ما ابقينا والقين سكينة علينا وثبت الاقدام إن لاقينا إنا إذا صيح بنا ابينا وبالصياح عولوا علينا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هذا السائق؟"، قالوا: عامر بن الاكوع، قال:" يرحمه الله"، قال رجل من القوم: وجبت يا نبي الله، لولا امتعتنا به فاتينا خيبر فحاصرناهم حتى اصابتنا مخمصة شديدة، ثم إن الله تعالى فتحها عليهم، فلما امسى الناس مساء اليوم الذي فتحت عليهم اوقدوا نيرانا كثيرة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ما هذه النيران؟ على اي شيء توقدون؟"، قالوا: على لحم، قال:" على اي لحم؟"، قالوا: لحم حمر الإنسية، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اهريقوها واكسروها"، فقال رجل: يا رسول الله، او نهريقها ونغسلها؟، قال:" او ذاك"، فلما تصاف القوم كان سيف عامر قصيرا , فتناول به ساق يهودي ليضربه ويرجع ذباب سيفه، فاصاب عين ركبة عامر فمات منه، قال: فلما قفلوا , قال سلمة: رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو آخذ بيدي قال:" ما لك؟"، قلت له: فداك ابي وامي زعموا ان عامرا حبط عمله، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" كذب من قاله، إن له لاجرين، وجمع بين إصبعيه إنه لجاهد مجاهد , قل عربي مشى بها مثله". حدثنا قتيبة، حدثنا حاتم، قال: نشا بها.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَسِرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرٍ: يَا عَامِرُ، أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ؟ وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا أَبْقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَبَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟"، قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى فَتَحَهَا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذِهِ النِّيرَانُ؟ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟"، قَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ:" عَلَى أَيِّ لَحْمٍ؟"، قَالُوا: لَحْمِ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْ نُهَرِيقُهَا وَنَغْسِلُهَا؟، قَالَ:" أَوْ ذَاكَ"، فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ قَصِيرًا , فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ عَيْنَ رُكْبَةِ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا , قَالَ سَلَمَةُ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي قَالَ:" مَا لَكَ؟"، قُلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ، وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ , قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، قَالَ: نَشَأَ بِهَا.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ ان سے یزید بن ابی عبید نے اور ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر کی طرف نکلے۔ رات کے وقت ہمارا سفر جاری تھا کہ ایک صاحب (اسید بن حضیر) نے عامر سے کہا: عامر! اپنے کچھ شعر سناؤ ‘ عامر شاعر تھے۔ اس فرمائش پر وہ سواری سے اتر کر حدی خوانی کرنے لگے۔ کہا اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہمیں سیدھا راستہ نہ ملتا ‘ نہ ہم صدقہ کر سکتے اور نہ ہم نماز پڑھ سکتے۔ پس ہماری جلدی مغفرت کر، جب تک ہم زندہ ہیں ہماری جانیں تیرے راستے میں فدا ہیں اور اگر ہماری مڈبھیڑ ہو جائے تو ہمیں ثابت رکھ ہم پر سکینت نازل فرما، ہمیں جب (باطل کی طرف) بلایا جاتا ہے تو ہم انکار کر دیتے ہیں، آج چلا چلا کر وہ ہمارے خلاف میدان میں آئے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون شعر کہہ رہا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے تو انہیں شہادت کا مستحق قرار دے دیا ‘ کاش! ابھی اور ہمیں ان سے فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر ہم خیبر آئے اور قلعہ کا محاصرہ کیا ‘ اس دوران ہمیں سخت تکالیف اور فاقوں سے گزرنا پڑا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح عطا فرمائی۔ جس دن قلعہ فتح ہونا تھا ‘ اس کی رات جب ہوئی تو لشکر میں جگہ جگہ آگ جل رہی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ آگ کیسی ہے ‘ کس چیز کے لیے اسے جگہ جگہ جلا رکھا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم بولے کہ گوشت پکانے کے لیے ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس جانور کا گوشت ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بتایا کہ پالتو گدھوں کا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام گوشت پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایسا نہ کر لیں کہ گوشت تو پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں ہی کر لو پھر (دن میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے جنگ کے لیے) صف بندی کی تو چونکہ عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی ‘ اس لیے انہوں نے جب ایک یہودی کی پنڈلی پر (جھک کر) وار کرنا چاہا تو خود انہیں کی تلوار کی دھار سے ان کے گھٹنے کا اوپر کا حصہ زخمی ہو گیا اور ان کی شہادت اسی میں ہو گئی۔ بیان کیا کہ پھر جب لشکر واپس ہو رہا تھا تو سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ‘ کیا بات ہے؟ میں نے عرض کیا ‘ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ‘ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عامر رضی اللہ عنہ کا سارا عمل اکارت ہو گیا (کیونکہ خود اپنی ہی تلوار سے ان کی وفات ہوئی)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جھوٹا ہے وہ شخص جو اس طرح کی باتیں کرتا ہے ‘ انہیں تو دوہرا اجر ملے گا پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا ‘ انہوں نے تکلیف اور مشقت بھی اٹھائی اور اللہ کے راستے میں جہاد بھی کیا ‘ شاید ہی کوئی عربی ہو ‘ جس نے ان جیسی مثال قائم کی ہو۔ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا ‘ ان سے حاتم نے (بجائے «مشى بها» کے) «نشأ بها» نقل کیا یعنی کوئی عرب مدینہ میں عامر رضی اللہ عنہ جیسا نہیں ہوا۔

Narrated Salama bin Al-Akwa`: We went out to Khaibar in the company of the Prophet. While we were proceeding at night, a man from the group said to 'Amir, "O 'Amir! Won't you let us hear your poetry?" 'Amir was a poet, so he got down and started reciting for the people poetry that kept pace with the camels' footsteps, saying:-- "O Allah! Without You we Would not have been guided On the right path Neither would be have given In charity, nor would We have prayed. So please forgive us, what we have committed (i.e. our defects); let all of us Be sacrificed for Your Cause And send Sakina (i.e. calmness) Upon us to make our feet firm When we meet our enemy, and If they will call us towards An unjust thing, We will refuse. The infidels have made a hue and Cry to ask others' help Against us." The Prophet on that, asked, "Who is that (camel) driver (reciting poetry)?" The people said, "He is 'Amir bin Al-Akwa`." Then the Prophet said, "May Allah bestow His Mercy on him." A man amongst the people said, "O Allah's Prophet! has (martyrdom) been granted to him. Would that you let us enjoy his company longer." Then we reached and besieged Khaibar till we were afflicted with severe hunger. Then Allah helped the Muslims conquer it (i.e. Khaibar). In the evening of the day of the conquest of the city, the Muslims made huge fires. The Prophet said, "What are these fires? For cooking what, are you making the fire?" The people replied, "(For cooking) meat." He asked, "What kind of meat?" They (i.e. people) said, "The meat of donkeys." The Prophet said, "Throw away the meat and break the pots!" Some man said, "O Allah's Apostle! Shall we throw away the meat and wash the pots instead?" He said, "(Yes, you can do) that too." So when the army files were arranged in rows (for the clash), 'Amir's sword was short and he aimed at the leg of a Jew to strike it, but the sharp blade of the sword returned to him and injured his own knee, and that caused him to die. When they returned from the battle, Allah's Apostle saw me (in a sad mood). He took my hand and said, "What is bothering you?" I replied, "Let my father and mother be sacrificed for you! The people say that the deeds of 'Amir are lost." The Prophet said, "Whoever says so, is mistaken, for 'Amir has got a double reward." The Prophet raised two fingers and added, "He (i.e. Amir) was a persevering struggler in the Cause of Allah and there are few 'Arabs who achieved the like of (good deeds) 'Amir had done."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 509


   صحيح البخاري4196سلمة بن عمرواللهم لولا أنت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فداء لك ما أبقينا وألقين سكينة علينا وثبت الأقدام إن لاقينا إنا إذا صيح بنا أبينا وبالصياح عولوا علينا فقال رسول الله من هذا السائق قالوا عامر بن الأكوع قال يرحمه الله قال رجل من القوم وجبت يا نبي الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4196  
4196. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ ایک آدمی نے حضرت عامر ؓ سے کہا: اے عامر! تم ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے ہو؟ حضرت عامر ؓ شاعر تھے، اپنی سواری سے اتر کر حدی خوانی کرتے ہوئے یہ شعر سنانے لگے:گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شاہ عالی صفات۔۔۔ تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اور نہ دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ تجھ پر صدقے جب تلک ہم زندہ رہیں؛ بخش دے ہم کو لڑائی میں عطا کر ثبات۔۔۔ اپنی رحمت ہم پہ نازل کر شہ والا صفات؛ جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی بات۔۔۔ چیخ چلا کر انہوں نے ہم سے چاہی ہے نجات یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: یہ کون حدی خواں ہے؟ لوگوں نے کہا: حضرت عامر بن اکوع ؓ! آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اب تو حضرت عامر ؓ کے لیے شہادت یا جنت لازم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4196]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں جنگ خیبر کے کچھ مناظر بیان ہوئے ہیں یہی باب سے وجہ مطابقت ہے۔
عامر ؓ شہید جن کا ذکر ہوا ہے رئیس خیبر مرحب نامی کے مقابلہ کے لیے نکلے تھے۔
ان کی تلوار خود ان ہی کے ہاتھ ان کے گھٹنے میں لگی اور وہ شہید ہو گئے۔
بعض لوگوں کو ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ہوا جس کی اصلاح کے لیے رسول کریم ﷺ کو عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4196   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4196  
4196. حضرت سلمہ بن اکوع ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ہم نبی ﷺ کے ہمراہ خیبر کی طرف نکلے تو ہم رات بھر چلتے رہے۔ ایک آدمی نے حضرت عامر ؓ سے کہا: اے عامر! تم ہمیں اپنے شعر کیوں نہیں سناتے ہو؟ حضرت عامر ؓ شاعر تھے، اپنی سواری سے اتر کر حدی خوانی کرتے ہوئے یہ شعر سنانے لگے:گر نہ ہوتی تیری رحمت اے شاہ عالی صفات۔۔۔ تو نمازیں ہم نہ پڑھتے اور نہ دیتے ہم زکاۃ۔۔۔ تجھ پر صدقے جب تلک ہم زندہ رہیں؛ بخش دے ہم کو لڑائی میں عطا کر ثبات۔۔۔ اپنی رحمت ہم پہ نازل کر شہ والا صفات؛ جب وہ ناحق چیختے سنتے نہیں ہم ان کی بات۔۔۔ چیخ چلا کر انہوں نے ہم سے چاہی ہے نجات یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا: یہ کون حدی خواں ہے؟ لوگوں نے کہا: حضرت عامر بن اکوع ؓ! آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی اس پر اپنی رحمت نازل فرمائے۔یہ سن کر حضرت عمر ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! اب تو حضرت عامر ؓ کے لیے شہادت یا جنت لازم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4196]
حدیث حاشیہ:

حضرت عامر ؓ حضرت سلمہ بن اکوع ؓ کے حقیقی چچا تھے۔
وہ رئیس خیبر مرحب کے مقابلے کے لیے نکلے تو ان کی تلوار خود ان کے ہاتھ سے ان کے گھٹنے پر لگی اور وہ اس زخم کی تاب نہ لا کر شہید ہو گئے حضرت اسید خضیر ؓ کے ساتھ اور لوگوں نے ان کے متعلق خود کشی کا شبہ ظاہر کیا اور کہا کہ ان کے عمل تو ضائع ہو گئے۔
(صحیح البخاري، الدیات، حدیث: 6891)
ان باتوں کا اثر حضرت سلمہ بن اکوع ؓ پر ہوا انھوں نے پریشانی کے عالم میں اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے لوگوں کی اصلاح کے لیے حضرت عامر ؓ کی فضیلت کا اظہار ضروری خیال کیا۔

حضرت عامر ؓ نے جو اشعار پڑھے ہیں وہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہیں جو انھوں نے غزوہ خندق کے موقع پر پڑھے تھے لیکن اس حدیث میں ان اشعار کی نسبت حضرت عامر ؓ کی طرف کی گئی ہے یہ سرقہ نہیں بلکہ خیالات کی موافقت ہے۔
ممکن ہے کہ اشعار تو عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے ہوں لیکن حضرت عامر ؓ نے انھیں یاد کر لیا تھا اس لیے ان کی طرف منسوب کر دیے گے۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں ممکن ہے کہ ان اشعار میں دونوں شعراء کا مضمون ملتا جلتا ہو کیونکہ دونوں کے اشعار میں کمی بیشی ہے۔
ایک کے اشعار کے کچھ ابیات ایسے ہیں جو دوسرے کے اشعار میں نہیں ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حضرت عامر ؓ نے حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کے اشعار سے مددلی ہو۔
(فتح الباري: 7/580)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت عامر ؓ نے جب اشعار پڑھے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اے عامر! تیرا پروردگار تجھے بخش دے۔
(صحیح مسلم، الجهاد،حدیث: 4678۔
(1807)
)

رسول اللہ ﷺ جب کسی شخص کو مخاطب کر کے یوں فرماتے تو وہ جنگ میں ضرور شہید ہو جاتا۔
حضرت عمر ؓ اس وقت اونٹ پر سوار تھے انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے دعائیہ کلمات سن کر عرض کی:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ! آپ نے ہمیں ان سے مزید فائدہ کیوں نہیں اٹھانے دیا۔
(فتح الباري: 582/7)

چونکہ اس حدیث میں غزوہ خیبر کا ذکر ہے اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4196   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.