الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
70. بَابُ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ:
70. باب: وفد عبدالقیس کا بیان۔
(70) Chapter. The delegation of Abdul-Qais.
حدیث نمبر: 4371
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني عبد الله بن محمد الجعفي، حدثنا ابو عامر عبد الملك، حدثنا إبراهيم هو ابن طهمان، عن ابي جمرة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" اول جمعة جمعت بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجد عبد القيس بجواثى" يعني قرية من البحرين.(مرفوع) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" أَوَّلُ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى" يَعْنِي قَرْيَةً مِنَ الْبَحْرَيْنِ.
مجھ سے عبداللہ بن محمد الجعفی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، (یہ طہمان کے بیٹے ہیں۔) ان سے ابوجمرہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثی کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی بحرین کا ایک گاؤں تھا۔

Narrated Ibn `Abbas: The first Friday (i.e. Jumua) prayer offered after the Friday Prayer offered at the Mosque of Allah's Apostle was offered at the mosque of `Abdul Qais situated at Jawathi, that is a village at Al Bahrain .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 657


   صحيح البخاري4371عبد الله بن عباسأول جمعة جمعت بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله في مسجد عبد القيس بجواثى
   صحيح البخاري892عبد الله بن عباسأول جمعة جمعت بعد جمعة في مسجد رسول الله في مسجد عبد القيس بجواثى من البحرين
   سنن أبي داود1068عبد الله بن عباسأول جمعة جمعت في الإسلام بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله بالمدينة لجمعة جمعت بجواثاء قرية من قرى البحرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1068  
´دیہات (گاؤں) میں جمعہ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جواثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین ۱؎ کا ایک گاؤں ہے، عثمان کہتے ہیں: وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گاؤں ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1068]
1068۔ اردو حاشیہ:
ظاہر ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی سے شروع کیا تھا، وہ لوگ عبادات کے معاملے میں بہت ہی محتاط ہوا کرتے تھے اور وہ زمانہ نزول وحی کا تھا۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو یقیناًً وحی کے ذریعے سے کوئی ہدایت نازل کر دی جاتی۔ جواثاء کی مسجد کے آثار بھی موجود ہیں، چھوٹی سی جگہ میں ہے اور صرف دو صفوں کا دالان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1068   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4371  
4371. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی مسجد، یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثیٰ کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی، علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4371]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ اس حدیث کو یہاں صرف وفد عبد القیس کے تعارف کے سلسلے میںلائے ہیں اور بتلایا ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گاؤں جواثی نامی میں جمعہ قائم کیا تھا۔
یہ دوسرا جمعہ ہے جو مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں قائم کیا گیا۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ گاؤں میں بھی قیام جماعت کے ساتھ قیام جمعہ جائز ہے۔
مگر صدافسوس کہ غالی علماءاحناف نے اقامت جمعہ فی القری کی شدید مخالفت کی ہے۔
میرے سامنے تجلی بابت اپریل سنہ1957ء کا پرچہ رکھا ہو اہے جس کے ص19 پر حضرت مولانا سیف اللہ صاحب مبلغ کا ذکر خیر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ دیہات میں جو جمعہ پڑھتے ہیں مجھ سے لکھا لو وہ دوزخی ہیں۔
یہ حضرت مولانا سیف اللہ صاحب ہی کا خیا ل نہیں بلکہ بیشتر اکابر دیوبند ایساہی کہتے چلے آرہے ہیں۔
اس مسئلہ کے متعلق ہم کتاب الجمعہ میں کافی لکھ چکے ہیں۔
مزید ضرورت نہیں ہے۔
ہاں ایک بڑے زبر دست حنفی عالم مترجم وشارح بخاری شریف کی تقریر یہاں نقل کردیتے ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ احناف کی عائد کردہ شرائط جمعہ کا وزن کیا ہے اور گاؤں میں جمعہ جائز ہے یا نا جائز۔
انصاف کے لیے یہ تقریر دل پذیر کافی وافی ہے۔
ایک معتبر حنفی عالم کی تقریر:
جواثی بحرین کے متعلقات میں سے ایک گاؤں ہے۔
نماز جمعہ مثل اور فرض نمازوں کے ہے جو شروط اور نمازوں کے واسطے مثل طہارت بدن وجامہ اور سوائے اس کے مقرر ہیں وہی اس کے واسطے ہیں، سوائے مشروعیت دو خطبہ کے اور کوئی دلیل قابل استدلال ایسی ثابت نہیں ہوئی جس سے اور نمازوں سے اس کی مخالفت پائی جائے۔
پس اس سے معلوم ہوا کہ اس نماز کے واسطے شروط ثابت کرنے کے واسطے مثل امام اعظم اور مصر جامع اور عدد مخصوص کی سند صحیح پائی نہیں جاتی بلکہ ان سے ثابت بھی نہیں ہوتا اگر دو شخص نماز جمعہ کی بھی پڑھ لیں تو ان کے ذمہ سے ساقط ہوجائے گی اور اکیلے آدمی کا جمعہ پڑھنا ابوداود کی اس روایت کے خلاف ہے۔
الجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ اور نہ آنحضرت ﷺ نے سوائے جماعت کے جمعہ پڑھا ہے اور عدد مخصوص کی بابت شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے جیسا کہ ایک شخص کے اکیلا نماز پڑھنے کے واسطے کوئی دلیل نہیں پائی ہے۔
ایسا ہی اسّی یا تیس یا بیس یا نو یا سات آدمیوں کے واسطے بھی کوئی دلیل نہیں پائی گئی اور جس نے کم آدمیوں کی شرط قرار دی ہے دلیل اس کی یہ ہے، اجماع اور حدیث سے وجوب کا عدد ثابت ہے اور عدم ثبوت دلیل کا واسطے اشتراط عدد مخصوص کے اور صحت نماز دو آدمیوں کے باقی نمازوں میں اور عدم فرق درمیان جمعہ اور جماعت کے شیخ عبد الحق نے فرمایا ہے۔
عدد جمعہ کی بابت کوئی دلیل ثابت نہیں اور ایسا ہی سیوطی نے کہا ہے اور جو روایتیں جن سے عدد مخصوص ثابت ہوتا ہے وہ سب کی سب ضعیف ہیں قابل استدلال کے ان میں سے کوئی نہیں اور شرط امام اعظم یعنی سلطان کی جو فقط حضرت امام ابو حنیفہ ؒ سے مروی ہے دلیل ان کی یہ ہے أَرْبَعَةٌ إِلَى السُّلْطَانِ وفي روایة إلی الأئمةِ الجمعةُ الزَّكَاةُ وَالْحُدُودُ وَالْقَضَاءُ أخرجه ابن أبي شیبة۔
لیکن یہ روایت آنحضرت ﷺ سے ثابت نہیں بلکہ یہ چند تابعیوں کا قول ہے ان میں سے حسن بصری ہیں اور عبد اللہ بن محریز اور عمر بن عبد العزیز اور عطاء اور مسلم بن یسار، پس اس سے حجت خصم ثابت نہیں ہوسکتی اور یہ روایت جو بزار نے جابر ؓ سے۔
طبرانی نے ابو سعید ؓ سے اور بیہقی نے ابو ہریرہ ؓ سے ان لفظوں سے أَنَّ اللَّهَ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْكُمُ الْجُمُعَةَ فِى شهرکم ھذا وَلَهُ إِمَامٌ عَادِلٌ أَوْ جَائِرٌ، الحدیث نکالی ہے اضعف ہے بلکہ موضوع ہے اور ابن ماجہ سے جو روایت میں ولہ امام عادل او جابر کا لفظ نہیں اور یہی محل حجت کے ہے۔
بزار کی روایت میں عبد اللہ بن محمد سہمی ہے، وکیع نے کہا ہے کہ وہ وضاع ہے اور بخاری نے کہا ہے کہ وہ منکر الحدیث ہے اور ابن حبان نے کہا ہے اس سے حجت پکڑنی درست نہیں اور بیہقی کی روایت زکریا سے ہے اس کو صالح اور ابن عدی اور مغنی نے کذب اور وضع سے مہتم کیا ہے۔
(فضل الباری ترجمہ صحیح بخاری ترجمہ مولانا فضل احمد شائع کردہ شرف الدین اور فخر الدین حنفی المذہب لاہور در سنہ1886عیسوی پارہ نمبر3، ص: 301)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4371   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4371  
4371. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی مسجد، یعنی مسجد نبوی کے بعد سب سے پہلا جمعہ جواثیٰ کی مسجد عبدالقیس میں قائم ہوا۔ جواثی، علاقہ بحرین کا ایک گاؤں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4371]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو وفد عبدالقیس کے تعارف کے سلسلے میں بیان کیا ہے۔
بتایا ہے کہ جب یہ قبیلہ مسلمان ہوا تو نماز پنجگانہ کے بعد جمعہ کی ادائیگی کا فکر ہوا تو انھوں نے بحرین کے علاقے میں ایک جواثی نامی گاؤں کا انتخاب کیا۔

یہ دوسرا مقام ہے جہاں مسجد نبوی کے بعد دنیائے اسلام میں جمعہ قائم کیا گیا واضح رہے کہ 8 ہجری تک مسجد نبوی کے علاوہ کسی دوسری جگہ پر جمعہ نہیں ہوتا تھا۔

اس سے معلوم ہوا کہ دیہاتوں میں جمعہ کا اہتمام ہونا چاہیے جیسا کہ وفد عبدالقیس کے ذمہ داران حضرات نے اس کا اہتمام ایک بستی میں کیا تھا، چنانچہ امام بخاری ؒ نے اس حدیث پر ان لفاظ میں عنوان قائم کیا ہے:
(بابُ الجُمُعَةِ فِي القُرٰى وَالمُدُنِ)
شہروں اور بستیوں میں جمعے کا اہتمام۔
(صحیح البخاري، الجمعة، باب: 11)

بحرین، بحرعمان کے کنارے پر واقع ایک علاقے کا نام ہے اور جواثی بصرہ کے قریب ایک قلعہ ہے۔
(عمدة القاري: 337/12)
قدیم تاریخی اصطلاح میں بحرین بصر ہ اور عمان کے درمیان ساحل خلیج کے علاقوں پر مشتمل ہے۔
عہد نبوی میں سعودی عرب کا مشرقی ساحل بحرین کہلاتا تھا جس میں موجودہ جزائر بحرین اور قطر بھی شامل تھے۔
اس کا دارالحکومت ہجر تھا جواب ہفوف کہلاتا ہے۔
دارین بحرین کی بندرگاہ ہے جو موجودہ شہر قطیف کے مشرق میں جزئرہ نما تاروت پر واقع ہے موجودہ امارات بحرین جو خلیج فارس کے اندر ہے، سعودی عرب اور قطرکے مابین چند جزیروں کے مجموعے کا نام ہے جس کا دارالحکومت منامہ ہے۔
عہد نبوی کا بحرین اب سعودی عرب کا مشرقی علاقہ "الاحساء" کہلاتا ہے جو منطقہ شرقیہ کا حصہ ہے۔
(ائلس سیرت نبوی صلی اللہ علیه وسلم 30۔
طبع دارالسلام)

بہر حال قبیلہ عبدالقیس بحرین کے علاقے میں آباد تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4371   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.