الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
8. بَابُ : الْمُقَابَلَةِ وَهِيَ مَا قُطِعَ طَرَفُ أُذُنِهَا
8. باب: سامنے سے کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی منع ہے۔
Chapter: An Animal With Its Ears Slit From The Front
حدیث نمبر: 4377
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني محمد بن آدم، عن عبد الرحيم وهو ابن سليمان، عن زكريا بن ابي زائدة، عن ابي إسحاق، عن شريح بن النعمان، عن علي رضي الله عنه، قال:" امرنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نستشرف العين والاذن، وان لا نضحي بمقابلة، ولا مدابرة، ولا بتراء، ولا خرقاء".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحِيمِ وَهُوَ ابْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ النُّعْمَانِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَسْتَشْرِفَ الْعَيْنَ وَالْأُذُنَ، وَأَنْ لَا نُضَحِّيَ بِمُقَابَلَةٍ، وَلَا مُدَابَرَةٍ، وَلَا بَتْرَاءَ، وَلَا خَرْقَاءَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (جانوروں کے) آنکھ اور کان دیکھ لیں اور کسی ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان سامنے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، اور نہ دم کٹے جانور کی، اور نہ ایسے جانور کی جس کے کان میں سوراخ ہوں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الضحایا 6 (2804)، سنن الترمذی/الضحایا6(1498)، سنن ابن ماجہ/الضحایا 8 (3142)، (تحفة الأشراف: 10125)، مسند احمد (1/80، 108، 128، 149)، سنن الدارمی/الأضاحی3(1995)، ویأتی فیما یلی: 4378-4380 (ضعیف) (اس کے راوی ’’ابواسحاق‘‘ مختلط اور مدلس ہیں، نیز ’’شریح‘‘ سے ان کا سماع نہیں ہے، اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے، مگر مطلق کان ناک دیکھ بھال کر لینے کا حکم صحیح ہے، دیکھئے حدیث نمبر 4381، اور حاشیہ نمبر حدیث 4374)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن جملة الاستشراف صحيحة

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابو داود (2804) ترمذي (1498) ابن ماجه (3142) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 354

   جامع الترمذي1503علي بن أبي طالبنستشرف العينين والأذنين
   جامع الترمذي1498علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء
   سنن أبي داود2804علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذنين لا نضحي بعوراء ولا مقابلة و
   سنن ابن ماجه3143علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن
   سنن النسائى الصغرى4377علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن لا نضحي بمقابلة ولا مدابرة ولا بتراء ولا خرقاء
   سنن النسائى الصغرى4378علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن لا نضحي بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا شرقاء ولا خرقاء
   سنن النسائى الصغرى4381علي بن أبي طالبنستشرف العين والأذن
   بلوغ المرام1165علي بن أبي طالبنستشرف العين والاذن ولا نضحي بعوراء ولا مقابلة ولا مدابرة ولا خرقاء ولا ثرماء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4377  
´سامنے سے کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی منع ہے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم (جانوروں کے) آنکھ اور کان دیکھ لیں اور کسی ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان سامنے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، اور نہ دم کٹے جانور کی، اور نہ ایسے جانور کی جس کے کان میں سوراخ ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4377]
اردو حاشہ:
جانور کی خوبصورتی اس کے کان آنکھ ہی سے ہوتی ہے، اس لیے آپ نے ان میں ہلکا سا عیب بھی قبول نہیں فرمایا، خصوصاً اس لیے بھی کہ مشرکین بتوں کے نام پر جانوروں کے کان کچھ حد تک کاٹ دیتے تھے۔ چونکہ کن کٹنے جانور کے بارے میں یہ شبہ قائم ہے کہ شاید وہ کسی بت کے لیے نامزد ہو، لہٰذا اس قسم کے ہر جانور کو قربانی میں ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ دم بھی جانور کی خوبصورت میں اصل ہے، لہٰذا دم کٹا جانور بھی ممنوع ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4377   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3143  
´کن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے؟`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی کے جانور) کی آنکھ اور کان غور سے دیکھ لیں (آیا وہ سلامت ہیں یا نہیں)۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3143]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور کے کان سلامت ہونے چاہییں۔

(2)
آنکھیں دیکھ لینے کا مقصد یہ ہے کہ جانور کی دونوں آنکھیں سلامت ہوں۔
جس کو ایک آنکھ سے نظر نہ آتا ہو اس کی قربانی درست نہیں۔

(3)
قربانی کا اصل مقصد اللہ کے لیے اچھی چیز قربان کرنا ہےاس لیے بے عیب جانور ذبح کرنا چاہیے۔
گوشت کھانا ایک اضافی فائدہ ہےاصل مقصد نہیں۔
ورنہ آنکھ یا کان کا عیب گوشت کھانے کے مقصد میں رکاوٹ نہیں بنتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3143   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1165  
´(احکام) قربانی کا بیان`
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قربانی والے جانور کی آنکھ، کان اچھی طرح دیکھ لیں۔ جو جانور یک چشم ہو یا اس کے کان کا سامنے والا یا پیچھے والا حصہ کٹ کر لٹک گیا ہو یا کان درمیان سے کٹا ہوا ہو یا دانت گر پڑے ہوں تو ایسے جانور ہم قربان نہ کریں۔ اسے احمد اور چاروں نے نکالا ہے ترمذی، ابن حبان اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1165»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الضحايا، باب ما يكره من الضحايا، حديث:2804، والترمذي، الأضاحي، حديث:1498، والنسائي، الضحايا، حديث:4379، وابن ماجه، الأضاحي، حديث:3142، وأحمد:1 /95،101، 108، وابن حبان (الإحسان):7 /566، 5890، والحاكم:4 /224.»
تشریح:
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابی داود اور سنن ابن ماجہ میں اسی روایت کو حسن قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فاضل محقق کو یہاں سہو ہو گیا ہے۔
علاوہ ازیں دیگر محققین نے بھی اسے حسن قرار دیا ہے۔
دیکھیے: (الموسوعۃ الحدیثیۃ مسند الإمام أحمد:۲ /۱۳۶‘ و ۲۱۱)
بنابریں مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہونے کے باوجود دیگر شواہد کی بنا پر قابل عمل ہے۔ واللّٰه أعلم
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1165   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1498  
´جن جانوروں کی قربانی مکروہ ہے۔`
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ (قربانی والے جانور کی) آنکھ اور کان اچھی طرح دیکھ لیں، اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کا کان آگے سے کٹا ہو، یا جس کا کان پیچھے سے کٹا ہو، یا جس کا کان چیرا ہوا ہو (یعنی لمبائی میں کٹا ہوا ہو)، یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔ اس سند سے بھی علی رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے، اس میں یہ اضافہ ہے کہ «مقابلة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (آگے سے) کٹا ہو، «مدابرة» وہ جانور ہے جس کے کان کا کنارہ (پیچھے سے) کٹا ہو، «شرقاء» جس کا کان (لمبائی میں) چیر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1498]
اردو حاشہ:
وضاحت:
نوٹ:
(سند میں ابواسحاق سبیعی مختلط اورمدلس ہیں،
نیز شریح سے ان کا سماع نہیں،
اس لیے سند میں انقطاع بھی ہے،
مگر ناک کان دیکھ لینے کا مطلق حکم ثابت ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1498   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2804  
´قربانی میں کون سا جانور مکروہ ہے۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور کی آنکھ اور کان خوب دیکھ لیں (کہ اس میں ایسا نقص نہ ہو جس کی وجہ سے قربانی درست نہ ہو) اور کانے جانور کی قربانی نہ کریں، اور نہ «مقابلة» کی، نہ «مدابرة» کی، نہ «خرقاء» کی اور نہ «شرقاء» کی۔ زہیر کہتے ہیں: میں نے ابواسحاق سے پوچھا: کیا «عضباء» کا بھی ذکر کیا؟ تو انہوں نے کہا: نہیں ( «عضباء» اس بکری کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوں اور سینگ ٹوٹے ہوں)۔ میں نے پوچھا «مقابلة» کے کیا معنی ہیں؟ کہا: جس کا کان اگلی طرف سے کٹا ہو، پھر میں نے کہا: «مدابرة» کے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2804]
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے واضح ہے کہ قربانی کے جانور کے کان اور آنکھ وغیرہ کوبغور دیکھ لینا چاہیے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2804   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.