الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قربانی کے احکام و مسائل
The Book of ad-Dahaya (Sacrifices)
13. بَابُ : الْمُسِنَّةِ وَالْجَذَعَةِ
13. باب: مسنہ اور جذعہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 4384
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاه غنما يقسمها على صحابته، فبقي عتود، فذكره لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ضح به انت".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يُقَسِّمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ، فَبَقِيَ عَتُودٌ، فَذَكَرَهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" ضَحِّ بِهِ أَنْتَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بکریاں دیں، صرف ایک سال کی بکری بچ رہی۔ اس کا ذکر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا: تم اسے ذبح کر لو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوکالة 1 (2300)، الشرکة 12 (2500)، الأضاحی 7 (5555)، صحیح مسلم/الأضاحي 1 (1965)، سنن الترمذی/الأضاحي 7 (1500)، سنن ابن ماجہ/الأضاحي 7 (3138)، (تحفة الأشراف: 9955)، مسند احمد (4/149، 152)، سنن الدارمی/الأضاحی 4 (1997)، ویأتی فیما یلی: 4385، 4386 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «عتود» ایک سال کی بکری کو کہتے ہیں۔ «جذعہ» بھی اسی معنی میں ہے، پس اگلی دونوں روایتوں میں جو «جذعہ» کا لفظ ہے اس کا مطلب ہے «جذعۃ من المعز» یعنی بکری کا ایک سالہ بچہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ یا ابوبردہ رضی اللہ عنہما کو مجبوری کے تحت ایک سال کی بکری کی اجازت خصوصی طور سے دی تھی ورنہ قربانی میں اصل دانتا ہوا جانور ہی جائز ہے جیسا کہ حدیث نمبر: ۴۲۸۳ میں گزرا۔ ۲؎: تم اسے ذبح کر لو یعنی صرف تمہارے لیے جائز ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2300عقبة بن عامرضح به أنت
   صحيح البخاري2500عقبة بن عامرضح به أنت
   صحيح البخاري5547عقبة بن عامرقسم النبي بين أصحابه ضحايا صارت لي جذعة قال ضح بها
   صحيح البخاري5555عقبة بن عامرضح أنت به
   صحيح مسلم5085عقبة بن عامرضح به
   صحيح مسلم5084عقبة بن عامرضح به أنت
   جامع الترمذي1500عقبة بن عامرضح به أنت
   سنن النسائى الصغرى4386عقبة بن عامرضح بها
   سنن النسائى الصغرى4385عقبة بن عامرضح بها
   سنن النسائى الصغرى4384عقبة بن عامرضح به أنت
   سنن ابن ماجه3138عقبة بن عامرضح به أنت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4384  
´مسنہ اور جذعہ کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو آپس میں تقسیم کرنے کے لیے بکریاں دیں، صرف ایک سال کی بکری بچ رہی۔ اس کا ذکر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ تو آپ نے فرمایا: تم اسے ذبح کر لو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الضحايا/حدیث: 4384]
اردو حاشہ:
(1) امام اور حاکم وقت کو چاہیے کہ جب رعایا کے پاس قربانی کرنے کے لیے جانور نہ ہوں تو وہ قربانی کے جانور ان میں تقسیم کرے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم فرمائیں۔
(2) حدیث مبارکہ سے مسئلہ توکیل (کسی کو اپنا و کیل بنانا) بھی ثابت ہوتا ہے جس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بکریاں تقسیم کرنے کے لیے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کو وکیل تقسیم بنایا۔
(3) ایک بکری بھی قربانی کے لیے کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس مقصد کی خاطر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک ایک بکری ہی تقسیم کرائی تھی۔
(4) جذعه حدیث میں لفظ عتود آیا ہے اور اس سے مراد بکری کا نوجوان بچہ ہے جو ماں کے بغیر چرتا پھرتا ہے اور ایک سال کا ہو جائے۔ جذعہ بھی اسی طرح کا ہوتا ہے، لہٰذا معروف لفظ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔ مزید برآں یہ بھی ہے کہ دیگر صحیح احادیث میں بھی یہی لفظ جذعہ مذکور ہے جیسا کہ امام نسانی رحمہ اللہ نے خود بھی وہ احادیث بیان کی ہیں۔ سابقہ اور آنے والی احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
(5) اس کی قربانی کردو بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ تیرے علاوہ کسی سے کفایت نہیں کرے گا۔ معلوم ہوا انھیں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے خاص اجازت ملی، اس لیے اب کسی فرد کے لیے اس کا جواز نہیں، خواہ تنگ دست ہی کیوں نہ ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4384   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3138  
´قربانی کے لیے کون سا جانور کافی ہے؟`
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں عنایت کیں، تو انہوں نے ان کو اپنے ساتھیوں میں قربانی کے لیے تقسیم کر دیا، ایک بکری کا بچہ بچ رہا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی قربانی تم کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كِتَابُ الْأَضَاحِي/حدیث: 3138]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حدیث میں عتود کا لفظ ہےجس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے:
جو بچہ خود چرنے چگنے کے قابل ہوجائےاور ماں کا محتاج نہ رہے۔

(2)
نواب حیدالزمان رحمۃ اللہ علیہ  نے عتود کے معنی ایک سال کا بکری کا بچہ کیے ہیں۔ (ترجمہ حدیث زیر مطالعہ)
ہم نے اپنے ترجمہ کو اسی کو اختیار کیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3138   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1500  
´بھیڑ کے جذع کی قربانی کا بیان۔`
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بکریاں دیں تاکہ وہ قربانی کے لیے صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کر دیں، ایک «عتود» (بکری کا ایک سال کا فربہ بچہ) یا «جدي» ۱؎ باقی بچ گیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا، تو آپ نے فرمایا: تم اس کی قربانی خود کر لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأضاحى/حدیث: 1500]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
راوی کو شک ہوگیا ہے کہ عتود کہا یا جدی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1500   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.