الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
20. بَابُ : بَيْعِ الرَّجُلِ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ
20. باب: (مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے۔
Chapter: Urging Someone to Cancel A Sale He Has already Agreed Upon So As To Sell Him Your Own Goods
حدیث نمبر: 4508
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم , قال: حدثنا ابو معاوية , قال: حدثنا عبيد الله , عن نافع , عن ابن عمر , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يبيع الرجل على بيع اخيه حتى يبتاع , او يذر".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ حَتَّى يَبْتَاعَ , أَوْ يَذَرَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسے خرید لے یا چھوڑ دے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 8112) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري5142عبد الله بن عمرنهى النبي أن يبيع بعضكم على بيع بعض لا يخطب الرجل على خطبة أخيه حتى يترك الخاطب قبله أو يأذن له الخاطب
   صحيح البخاري2139عبد الله بن عمرلا يبيع بعضكم على بيع أخيه
   صحيح البخاري2165عبد الله بن عمرلا يبيع بعضكم على بيع بعض لا تلقوا السلع حتى يهبط بها إلى السوق
   صحيح البخاري2159عبد الله بن عمرنهى أن يبيع حاضر لباد
   صحيح مسلم3454عبد الله بن عمرلا يبع بعضكم على بيع بعض لا يخطب بعضكم على خطبة بعض
   صحيح مسلم3455عبد الله بن عمرلا يبع الرجل على بيع أخيه لا يخطب على خطبة أخيه إلا أن يأذن له
   صحيح مسلم3811عبد الله بن عمرلا يبع بعضكم على بيع بعض
   صحيح مسلم3819عبد الله بن عمرنهى أن تتلقى السلع حتى تبلغ الأسواق
   صحيح مسلم3812عبد الله بن عمرلا يبع الرجل على بيع أخيه لا يخطب على خطبة أخيه إلا أن يأذن له
   جامع الترمذي1292عبد الله بن عمرلا يبع بعضكم على بيع بعض لا يخطب بعضكم على خطبة بعض
   سنن أبي داود3436عبد الله بن عمرلا يبع بعضكم على بيع بعض لا تلقوا السلع حتى يهبط بها الأسواق
   سنن أبي داود2081عبد الله بن عمرلا يخطب أحدكم على خطبة أخيه لا يبيع على بيع أخيه إلا بإذنه
   سنن النسائى الصغرى4503عبد الله بن عمرنهى عن التلقي
   سنن النسائى الصغرى3240عبد الله بن عمرلا يخطب أحدكم على خطبة بعض
   سنن النسائى الصغرى4502عبد الله بن عمرنهى عن النجش التلقي يبيع حاضر لباد
   سنن النسائى الصغرى4507عبد الله بن عمرلا يبيع أحدكم على بيع أخيه
   سنن النسائى الصغرى4508عبد الله بن عمرلا يبيع الرجل على بيع أخيه حتى يبتاع أو يذر
   سنن النسائى الصغرى3245عبد الله بن عمرنهى رسول الله أن يبيع بعضكم على بيع بعض لا يخطب الرجل على خطبة الرجل حتى يترك الخاطب قبله أو يأذن له الخاطب
   سنن النسائى الصغرى4503Mعبد الله بن عمرتلقي الجلب حتى يدخل بها السوق
   سنن ابن ماجه2179عبد الله بن عمرعن تلقي الجلب
   سنن ابن ماجه2171عبد الله بن عمرلا يبيع بعضكم على بيع بعض
   سنن ابن ماجه1868عبد الله بن عمرلا يخطب الرجل على خطبة أخيه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم505عبد الله بن عمرلا يبع بعضكم على بيع بعض
   بلوغ المرام832عبد الله بن عمر لا يخطب أحدكم على خطبة أخيه ،‏‏‏‏ حتى يترك الخاطب قبله ،‏‏‏‏ أو يأذن له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 505  
´دوسرے کے سودے پر سودا کرنا جائز نہیں ہے`
«. . . 242- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يبع بعضكم على بيع بعض. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 505]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2165، ومسلم 7/1412 بعد ح1514، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اگر ایک شخص سودا خرید رہا ہو تو دوسرے شخص کو یہ سودا خریدنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے۔ اگر سودے کی بولی لگ رہی ہے تو یہ اس سے مستثنیٰ ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح353
➌ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر مسئلہ قرآن مجید میں بصراحت موجود ہو اس لئے اگر صحیح حدیث یا آثار سلف صالحین سے بھی ثابت ہو جائے تو استدلال کرنا صحیح ہے۔ صحیح حدیث سے استدلال تو واجب و فرض ہے اور آثار سے استدلال جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 242   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4508  
´(مسلمان) بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے یہاں تک کہ وہ اسے خرید لے یا چھوڑ دے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4508]
اردو حاشہ:
تفصیل کے لیے دیکھئے، حدیث: 4496، فائدہ: 4۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4508   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1868  
´مسلمان بھائی کے شادی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1868]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1) (خِطبۃ)
خا کی زیر سے کا مطلب ہے کہ نکاح کے لیے بات چیت شروع کرنا یعنی کسی عورت کے سرپرستوں سے یہ درخواست کرنا کہ وہ اس کا رشتہ دے دیں۔
جب کسی عورت کے لیے اس کے گھر والوں سے بات چیت ہو رہی ہو اور رشتہ طے پا جانے کی امید ہو تو دوسرے آدمی کو اس عورت کے لیے بات چیت شروع نہیں کرنی چاہیے۔

(2)
اگر محسوس ہو کہ ابھی عورت نے اس مرد کو قبول کرنے کا فیصلہ نہیں کیا اور اس کی طرف واضح میلان نہیں تو دوسرے آدمی بھی پیغام بھیج سکتا ہے تاکہ عورت فیصلہ کر سکے کہ اس کے لیے ان دونوں میں سے کون سا مرد زیادہ مناسب ہے اور اس کے سرپرست بھی معاملے پر بہتر انداز سے غور کر سکیں۔

(3)
اس ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ مسلمانوں کے باہمی معاملات میں بگاڑ پیدا نہ ہو اور آپس میں ناراضی پیدا نہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1868   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 832  
´(نکاح کے متعلق احادیث)`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے پیغام نکاح پر پیغام نکاح نہ دے تاوقتیکہ کہ پیغام نکاح دینے والا اس سے پہلے اسے از خود چھوڑ دے یا پیغام نکاح دینے والا اجازت دیدے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 832»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لا يخطب علي خطبة أخيه حتي ينكح أويدع، حديث:5142، ومسلم، النكاح، باب تحريم الخطبة علي خطبة أخيه حتي يأذن أويترك، حديث:1412.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے پیغام نکاح پر پیغام نکاح دینا جائز نہیں‘ مگر حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہما کے واقعے سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں دو تین پیغام دیے جا سکتے ہیں کیونکہ اس خاتون کو دو پیغام نکاح پہنچے تو یہ مشورے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور صورتحال بیان کر کے مشورہ طلب کیا مگر یہ اس روایت کے خلاف نہیں۔
ممکن ہے دوسری بار پیغام نکاح دینے والے کو پہلے پیغام کا علم نہ ہو۔
2.بعض نے کہا ہے کہ منگنی طے ہو جانے کے بعد پیغام نکاح کی ممانعت ہے پہلے نہیں۔
3.جمہور علماء کے نزدیک یہ ممانعت تحریمی ہے اور یہی بات راجح ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 832   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1292  
´اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1292]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے،
بیع ہوجانے کے بعد مدت خیارکے اندر کوئی آکریہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کردے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں کہ اس طرح کہنا جائزنہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1292   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2081  
´آدمی کا اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام بھیجنا مکروہ ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی نہ تو اپنے بھائی کے نکاح کے پیغام پر پیغام دے اور نہ اس کے سودے پر سودا کرے البتہ اس کی اجازت سے درست ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2081]
فوائد ومسائل:
کسی شخص نے کسی گھر میں نکاح کا پیغام بھیجا ہو تو دوسرے کسی شخص کو یہ جانتے ہوئے کہا کہ انہیں پیغام دیا گیا ہے اور انہوں نے ہاں یا نہ میں کوئی جواب نہیں دیا ہے، اپنا پیغام نہیں بھیجنا چاہیے۔
الا یہ کہ واضح ہو کہ ان کی خاموشی انکار کے معنی میں ہے۔
اگر نسبت طے ہو چکی ہو تو اپنا پیغام بھیج کر پہلی نسبت تڑوانے کی کوشش کرنا حرام ہے۔
کیونکہ اس طرح دو مسلمان بھائیوں یا خاندانوں میں کشمکش اور عداوت کا قومی اندیشہ ہے اگر ہاں پہلا فریق اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2081   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.