الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
12. بَابُ قَوْلِهِ: {لاَ تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ} :
12. باب: آیت کی تفسیر ”اے لوگو! ایسی باتیں نبی سے مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں وہ باتیں ناگوار گزریں“۔
(12) Chapter. Allah’s Statement: "...Ask not about things which, if made plain to you, may cause you trouble...” (V.5:101)
حدیث نمبر: 4621
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا منذر بن الوليد بن عبد الرحمن الجارودي، حدثنا ابي، حدثنا شعبة، عن موسى بن انس، عن انس رضي الله عنه، قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم خطبة ما سمعت مثلها قط، قال:" لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا"، قال: فغطى اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم وجوههم لهم خنين، فقال رجل: من ابي؟ قال: فلان، فنزلت هذه الآية، لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم سورة المائدة آية 101. رواه النضر، وروح بن عبادة، عن شعبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُنْذِرُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجَارُودِيُّ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خُطْبَةً مَا سَمِعْتُ مِثْلَهَا قَطُّ، قَالَ:" لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا"، قَالَ: فَغَطَّى أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُجُوهَهُمْ لَهُمْ خَنِينٌ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: فُلَانٌ، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ، لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101. رَوَاهُ النَّضْرُ، وَرَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ شُعْبَةَ.
ہم سے منذر بن ولید بن عبدالرحمٰن جارودی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن انس نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ دیا کہ میں نے ویسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تمہیں بھی معلوم ہوتا تو تم ہنستے کم اور روتے زیادہ۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے اپنے چہرے چھپا لیے، باوجود ضبط کے ان کے رونے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک صحابی نے اس موقع پر پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم‏» کہ ایسی باتیں مت پوچھو کہ اگر تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ اس کی روایت نضر اور روح بن عبادہ نے شعبہ سے کی ہے۔

Narrated Anas: The Prophet delivered a sermon the like of which I had never heard before. He said, "If you but knew what I know then you would have laughed little and wept much." On hearing that, the companions of the Prophet covered their faces and the sound of their weeping was heard. A man said, "Who is my father?" The Prophet said, "So-and-so." So this Verse was revealed: "Ask not about things which, if made plain to you, may cause you trouble." (5.101)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 145


   صحيح البخاري749أنس بن مالكلقد رأيت الآن منذ صليت لكم الصلاة الجنة والنار ممثلتين في قبلة هذا الجدار فلم أر كاليوم في الخير والشر ثلاثا
   صحيح البخاري6468أنس بن مالكأريت الآن منذ صليت لكم الصلاة الجنة والنار ممثلتين في قبل هذا الجدار فلم أر كاليوم في الخير والشر
   صحيح البخاري4621أنس بن مالكلو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا
   صحيح البخاري6486أنس بن مالكلو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا
   صحيح مسلم6123أنس بن مالكلم أر كاليوم قط في الخير والشر إني صورت لي الجنة والنار فرأيتهما دون هذا الحائط
   صحيح مسلم6119أنس بن مالكعرضت علي الجنة والنار فلم أر كاليوم في الخير والشر لو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا
   سنن ابن ماجه4191أنس بن مالكلو تعلمون ما أعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6468  
´نیک عمل پر ہمیشگی کرنا اور درمیانی چال چلنا (نہ کمی ہو نہ زیادتی)`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى لَنَا يَوْمًا الصَّلَاةَ، ثُمَّ رَقِيَ الْمِنْبَرَ، فَأَشَارَ بِيَدِهِ قِبَلَ قِبْلَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ:" قَدْ أُرِيتُ الْآنَ مُنْذُ صَلَّيْتُ لَكُمُ الصَّلَاةَ الْجَنَّةَ وَالنَّارَ مُمَثَّلَتَيْنِ فِي قُبُلِ هَذَا الْجِدَارِ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ، فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن نماز پڑھائی، پھر منبر پر چڑھے اور اپنے ہاتھ سے مسجد کے قبلہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس وقت جب میں نے تمہیں نماز پڑھائی تو مجھے اس دیوار کی طرف جنت اور دوزخ کی تصویر دکھائی گئی میں نے (ساری عمر میں) آج کی طرح نہ کوئی بہشت کی سی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ کی سی ڈراؤنی، میں نے آج کی طرح نہ کوئی بہشت جیسی خوبصورت چیز دیکھی نہ دوزخ جیسی ڈراونی چیز۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الرِّقَاقِ: 6468]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6468 کا باب: «بَابُ الْقَصْدِ وَالْمُدَاوَمَةِ عَلَى الْعَمَلِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نیک اعمال پر مداومت اختیار کرنے پر قائم فرمایا، تحت الباب آٹھ احادیث کا ذکر فرمایا، آخری حدیث جو کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت اور جہنم دکھائی گئی ہے، لہذا بظاہر حدیث کے متن میں کوئی ایسے الفاظ نہیں ہیں جس سے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت قائم ہوتی ہو۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و فى الحديث إشارة إلى الحث على مداومة العمل، لأن من مثل الجنة و النار بين عينيه كان ذالك باعثًا له على المواظبة على الطاعة و الانكفاف عن المعصية، ولهذا التقريب تظهر مناسبة الحديث للترجمة.» (1)
یعنی حدیث میں مداومت عمل کی حث و تحریض ہے، کیوں کہ جن کی آنکھوں کے سامنے جنت اور دوزخ ممثل کر دی جائے، یہ دوام اطاعت اور نافرمانی سے رک جانے پر اس کے لیے باعث متحرک ہو گا، اس تقریب سے حدیث کی ترجمۃ الباب سے مناسبت ظاہر ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے جو تطبیق دی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ عبادت میں دوامت جنت کی راہ ہے اور معاصیت پر چلنا جہنم کا راستہ ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنہوں نے اپنی آنکھوں سے جنت اور جہنم دیکھا ان کی نافرمانی جہنم میں داخلے کا موجب ہو گی، لہذا جنت کے اعمال کرے اور اس میں ہمیشگی (دوامت) اختیار کرے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
حقیقت میں ہر وہ عمل جو دوام سے کیا گیا ہو اور وہ قلیل ہی کیوں نہ ہو تو وہ جنت کا سبب بنتا ہے، اور اگر شدید کثرت کے ساتھ کوئی عمل کیا جائے تو ڈر ہے کہ کہیں اس میں انقطاع نہ آ جائے، جس کے سبب انسان نیکی کو چھوڑ کر گمراہی اختیار کر بیٹھے، چنانچہ علامہ مہلب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«إنما حضّ الشارع أمته على القصد والمداومة على العمل و ان قل، خشية انقطاع عن العمل الكثير، فكأنه رجوع عن فعل الطاعات، وقد ذم الله ذلك، و مدح من اوفي بالنذر.» (1)
شارع صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو دوامت اور کثرت عمل کرنے کی ترغیب دی ہے، چاہے وہ عمل تھوڑا ہی کیوں نہ ہو، اس سب پر کہ کہیں شدید عمل انقطاع کا باعث نہ بن جائے، گویا کہ وہ لوٹ جائے اطاعت کے فعل سے، یقینا اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو مذموم قرار دیا ہے اور اس کی مدح کی جو اسے پورا کرے۔
لہذا ان اقتباسات کا خلاصہ یہ ہے کہ نیک اعمال میں ہمیشگی جنت کی راہ ہموار کرتی ہے اور اس میں انقطاع اللہ تعالی کی نافرمانی ہے، اب جو شخص بھی جنت کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے نیک اعمال میں ہمیشگی اختیار کرنی چاہے، پس یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 218   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4621  
4621. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے خطبہ دیا۔ میں نے اس جیسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ نے فرمایا: جو حقائق میں جانتا ہوں اگر وہ تمہیں معلوم ہو جائیں تو تم ہنسو کم اور روو زیادہ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔ اس موقع پر ایک آدمی نے پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: تیرا والد فلاں شخص ہے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: تم ایسی باتیں مت پوچھو، اگر تم پر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ اس حدیث کو نضر اور روح بن عبادہ نے حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4621]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت ﷺ کا یہ وعظ موت اور آخرت سے متعلق تھا۔
صحابہ کرام ؓ پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ بے تحاشا رونے لگے کیونکہ ان کو کامل یقین حاصل تھا۔
بے جا سوال کر نے والوں کو اس آیت میں روکا گیا کہ اگر جواب میں اس کی حقیقت کھلی جس کو وہ ناگوار ی محسوس کریں تو پھر اچھا نہیں ہوگا لہذا بے جا سوالات کرنے ہی مناسب نہیں ہیں۔
فقہائے کرام نے ایسے بے جا مفروضات گھڑ گھڑ کر اپنی فقاہت کے ایسے نمونے پیش کئے ہیں، جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔
تفصیلات کے لیے کتاب حقیقۃ الفقہ کا مطالعہ کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4621   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4621  
4621. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ نے خطبہ دیا۔ میں نے اس جیسا خطبہ کبھی نہیں سنا تھا۔ آپ نے فرمایا: جو حقائق میں جانتا ہوں اگر وہ تمہیں معلوم ہو جائیں تو تم ہنسو کم اور روو زیادہ۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کے اصحاب نے اپنے چہرے ڈھانپ لیے اور ان کے رونے کی آواز آنے لگی۔ اس موقع پر ایک آدمی نے پوچھا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: تیرا والد فلاں شخص ہے۔ اس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی: تم ایسی باتیں مت پوچھو، اگر تم پر وہ ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں ناگوار گزریں۔ اس حدیث کو نضر اور روح بن عبادہ نے حضرت شعبہ سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4621]
حدیث حاشیہ:

ایک حدیث میں اس خطبے کا پس منظر بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے کوئی ناگوار بات پہنچی تو آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:
"ابھی ابھی مجھ پر جنت اور دوزخ پیش کی گئی تھیں۔
آج سے بڑھ کر میں نے کبھی خیر اور شر کونہیں دیکھا جن حقائق کو میں جانتا ہوں اگر وہ تمھیں معلوم ہو جائیں تو تم بہت کم ہنسو اور زیادہ رؤوکرو۔
" (صحیح مسلم، الفضائل، حدیث: 6119۔
(2359)

بہرحال مذکورہ آیت کریمہ کثرت سے سوالات کرنے کے متعلق نازل ہوئی۔
وہ سوالات استہزاء، امتحان، شرارت اور عناد پر مبنی ہوتے تھے بصورت دیگر امور دین کے متعلق سوالات کرنے کی پابندی نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ایسے سوالات کرنا ضروری ہوتے ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"اگر تمھیں علم نہیں ہے تو اہل ذکر سے پوچھا لیا کرو۔
" (النحل: 16۔
43)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4621   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.