وإذ قال الله، يقول: قال الله وإذ ها هنا صلة المائدة اصلها مفعولة كعيشة راضية وتطليقة بائنة والمعنى ميد بها صاحبها من خير يقال مادني يميدني. وقال ابن عباس: متوفيك: مميتك.وَإِذْ قَالَ اللَّهُ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ وَإِذْ هَا هُنَا صِلَةٌ الْمَائِدَةُ أَصْلُهَا مَفْعُولَةٌ كَعِيشَةٍ رَاضِيَةٍ وَتَطْلِيقَةٍ بَائِنَةٍ وَالْمَعْنَى مِيدَ بِهَا صَاحِبُهَا مِنْ خَيْرٍ يُقَالُ مَادَنِي يَمِيدُنِي. وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: مُتَوَفِّيكَ: مُمِيتُكَ.
«وإذ قال الله»(میں «قال») معنی میں «يقول» کے ہے اور «إذ» یہاں زائد ہے۔ «المائدة» اصل میں «مفعولة»( «ميمودة») کے معنی میں ہے گو صیغہ فاعل کا ہے، جیسے «عيشة»، «راضية» اور «تطليقة»، «بائنة» میں ہے۔ تو «مائدة» کا معنی «مميده» یعنی خیر اور بھلائی جو کسی کو دی گئی ہے۔ اسی سے «مادني يميدني» ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: «متوفيك» کے معنی میں تجھ کو وفات دینے والا ہوں۔ عیسیٰ علیہ السلام کو آخر زمانہ میں اپنے وقت مقررہ پر موت آئے گی وہ مراد ہو سکتی ہے۔
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، قال: البحيرة التي يمنع درها للطواغيت فلا يحلبها احد من الناس، والسائبة: كانوا يسيبونها لآلهتهم لا يحمل عليها شيء، قال: وقال ابو هريرة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" رايت عمرو بن عامر الخزاعي يجر قصبه في النار"، كان اول من سيب السوائب، والوصيلة: الناقة البكر، تبكر في اول نتاج الإبل، ثم تثني بعد بانثى، وكانوا يسيبونها لطواغيتهم إن وصلت إحداهما بالاخرى ليس بينهما ذكر، والحام: فحل الإبل، يضرب الضراب المعدود، فإذا قضى ضرابه ودعوه للطواغيت واعفوه من الحمل، فلم يحمل عليه شيء، وسموه الحامي. وقال لي ابو اليمان: اخبرنا شعيب، عن الزهري،سمعت سعيدا، قال: يخبره بهذا، قال: وقال ابو هريرة: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم نحوه، ورواه ابن الهاد، عن ابن شهاب، عن سعيد،عن ابي هريرة رضي الله عنه، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، قَالَ: الْبَحِيرَةُ الَّتِي يُمْنَعُ دَرُّهَا لِلطَّوَاغِيتِ فَلَا يَحْلُبُهَا أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ، وَالسَّائِبَةُ: كَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِآلِهَتِهِمْ لَا يُحْمَلُ عَلَيْهَا شَيْءٌ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" رَأَيْتُ عَمْرَو بْنَ عَامِرٍ الْخُزَاعِيَّ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ"، كَانَ أَوَّلَ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ، وَالْوَصِيلَةُ: النَّاقَةُ الْبِكْرُ، تُبَكِّرُ فِي أَوَّلِ نِتَاجِ الْإِبِلِ، ثُمَّ تُثَنِّي بَعْدُ بِأُنْثَى، وَكَانُوا يُسَيِّبُونَهَا لِطَوَاغِيتِهِمْ إِنْ وَصَلَتْ إِحْدَاهُمَا بِالْأُخْرَى لَيْسَ بَيْنَهُمَا ذَكَرٌ، وَالْحَامِ: فَحْلُ الْإِبِلِ، يَضْرِبُ الضِّرَابَ الْمَعْدُودَ، فَإِذَا قَضَى ضِرَابَهُ وَدَعُوهُ لِلطَّوَاغِيتِ وَأَعْفَوْهُ مِنَ الْحَمْلِ، فَلَمْ يُحْمَلْ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَسَمَّوْهُ الْحَامِيَ. وقَالَ لِي أَبُو الْيَمَانِ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،سَمِعْتُ سَعِيدًا، قَالَ: يُخْبِرُهُ بِهَذَا، قَالَ: وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَرَوَاهُ ابْنُ الْهَادِ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ،عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ «بحيرة» اس اونٹنی کو کہتے تھے جس کا دودھ بتوں کے لیے روک دیا جاتا اور کوئی شخص اس کے دودھ کو دوہنے کا مجاز نہ سمجھا جاتا اور «سائبة» اس اونٹنی کو کہتے تھے جسے وہ اپنے دیوتاؤں کے نام پر آزاد چھوڑ دیتے اور اس سے باربرداری و سواری وغیرہ کا کام نہ لیتے۔ سعید راوی نے بیان کیا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتوں کو جہنم میں گھسیٹ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے سانڈ چھوڑنے کی رسم نکالی تھی۔ اور «وصيلة» اس جوان اونٹنی کو کہتے تھے جو پہلی مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور پھر دوسری مرتبہ بھی مادہ ہی جنتی، اسے بھی وہ بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے لیکن اسی صورت میں جبکہ وہ برابر دو مرتبہ مادہ بچہ جنتی اور اس درمیان میں کوئی نر بچہ نہ ہوتا۔ اور «حام» وہ نر اونٹ جو مادہ پر شمار سے کئی دفعہ چڑھتا (اس کے نطفے سے دس بچے پیدا ہو جاتے) جب وہ اتنی صحبتیں کر چکتا تو اس کو بھی بتوں کے نام پر چھوڑ دیتے اور بوجھ لادنے سے معاف کر دیتے (نہ سواری کرتے) اس کا نام «حام» رکھتے اور ابوالیمان (حکم بن نافع) نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے سنا، کہا میں نے سعید بن مسیب سے یہی حدیث سنی جو اوپر گزری۔ سعید نے کہا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا (وہی عمرو بن عامر خزاعی کا قصہ جو اوپر گزرا) اور یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بھی اس حدیث کو ابن شہاب سے روایت کیا۔ انہوں نے سعید بن مسیب سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔
Narrated Sa`id bin Al-Musaiyab: Bahira is a she-camel whose milk is kept for the idols and nobody is allowed to milk it; Sa'iba was the she-camel which they used to set free for their gods and nothing was allowed to be carried on it. Abu Huraira said: Allah's Messenger said, "I saw `Amr bin 'Amir Al-Khuza`i (in a dream) dragging his intestines in the Fire, and he was the first person to establish the tradition of setting free the animals (for the sake of their deities)," Wasila is the she-camel which gives birth to a she-camel as its first delivery, and then gives birth to another she-camel as its second delivery. People (in the Pre-lslamic periods of ignorance) used to let that she camel loose for their idols if it gave birth to two she-camels successively without giving birth to a male camel in between. 'Ham' was the male camel which was used for copulation. When it had finished the number of copulations assigned for it, they would let it loose for their idols and excuse it from burdens so that nothing would be carried on it, and they called it the 'Hami.' Abu Huraira said, "I heard the Prophet saying so."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 147