الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
10. بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي السَّفَرِ:
10. باب: اس بارے میں کہ سفر میں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنا۔
(10) Chapter. When going on a journey, pray Zuhr prayer when it becomes cooler.
حدیث نمبر: 539
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم بن ابي إياس، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا مهاجر ابو الحسن مولى لبني تيم الله، قال: سمعت زيد بن وهب، عن ابي ذر الغفاري، قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فاراد المؤذن ان يؤذن للظهر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ابرد، ثم اراد ان يؤذن، فقال له: ابرد حتى راينا فيء التلول، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن شدة الحر من فيح جهنم، فإذا اشتد الحر فابردوا بالصلاة"، وقال ابن عباس: تتفيا تتميل.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُهَاجِرٌ أَبُو الْحَسَنِ مَوْلَى لِبَنِي تَيْمِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ زَيْدَ بْنَ وَهْبٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ"، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ تَتَمَيَّلُ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے بنی تیم اللہ کے غلام مہاجر ابوالحسن نے بیان کیا، کہا کہ میں نے زید بن وہب جہنی سے سنا، وہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے (تھوڑی دیر بعد) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ (تب اذان کہی گئی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا «يتفيئو» (کا لفظ جو سورۃ النحل میں ہے) کے معنے «تتميل‏» (جھکنا، مائل ہونا) ہیں۔

Narrated Abu Dhar Al-Ghifar: We were with the Prophet on a journey and the Mu'adh-dhin (call maker for the prayer) wanted to pronounce the Adhan (call) for the Zuhr prayer. The Prophet said, 'Let it become cooler." He again (after a while) wanted to pronounce the Adhan but the Prophet said to him, "Let it become cooler till we see the shadows of hillocks." The Prophet added, "The severity of heat is from the raging of the Hell-fire, and in very hot weather pray (Zuhr) when it becomes cooler."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 514


   صحيح البخاري535جندب بن عبد اللهشدة الحر من فيح جهنم فإذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة
   صحيح البخاري3258جندب بن عبد اللهأبردوا بالصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم
   صحيح البخاري539جندب بن عبد اللهشدة الحر من فيح جهنم فإذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة
   صحيح البخاري629جندب بن عبد اللهشدة الحر من فيح جهنم
   صحيح مسلم1400جندب بن عبد اللهشدة الحر من فيح جهنم فإذا اشتد الحر فأبردوا عن الصلاة
   جامع الترمذي158جندب بن عبد اللهشدة الحر من فيح جهنم فأبردوا عن الصلاة
   سنن أبي داود401جندب بن عبد اللهشدة الحر من فيح جهنم فإذا اشتد الحر فأبردوا بالصلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 539  
´سفر میں ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنا`
«. . . عَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَرَادَ الْمُؤَذِّنُ أَنْ يُؤَذِّنَ لِلظُّهْرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْرِدْ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يُؤَذِّنَ، فَقَالَ لَهُ: أَبْرِدْ حَتَّى رَأَيْنَا فَيْءَ التُّلُولِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ شِدَّةَ الْحَرِّ مِنْ فَيْحِ جَهَنَّمَ، فَإِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ فَأَبْرِدُوا بِالصَّلَاةِ "، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: تَتَفَيَّأُ تَتَمَيَّلُ . . .»
. . . ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ مؤذن نے چاہا کہ ظہر کی اذان دے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وقت کو ٹھنڈا ہونے دو، مؤذن نے (تھوڑی دیر بعد) پھر چاہا کہ اذان دے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھنڈا ہونے دو۔ جب ہم نے ٹیلے کا سایہ ڈھلا ہوا دیکھ لیا۔ (تب اذان کہی گئی) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ کی تیزی سے ہے۔ اس لیے جب گرمی سخت ہو جایا کرے تو ظہر کی نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا «يتفيئو» (کا لفظ جو سورۃ النحل میں ہے) کے معنے «تتميل‏» (جھکنا، مائل ہونا) ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ الإِبْرَادِ بِالظُّهْرِ فِي السَّفَرِ:: 539]

تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت ہے کہ حدیث میں کوئی لفظ ایسا آ جائے جو قرآن میں بھی ہو تو ساتھ ہی قرآن کے لفظ کی بھی تفسیر کر دیتے ہیں۔ یہاں حدیث میں «يتفيا» کا لفظ ہے جو قرآن مجید میں «يتفيؤا» مذکور ہوا ہے، مادہ ہر دو کا ایک ہی ہے، اس لیے اس کی تفسیر بھی نقل کر دی ہے۔ پوری آیت سورۃ نحل میں ہے جس میں ذکر ہے کہ ہر چیز کا سایہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کے لیے بھی دائیں اور کبھی بائیں جھکتا رہتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:539  
539. حضرت ابوذر غفاری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک مرتبہ ہم لوگ نبی ﷺ کے ہمراہ سفر میں تھے کہ مؤذن نے نماز ظہر کے لیے اذان دینے کا ارادہ کیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔ اس نے کچھ دیر بعد پھر اذان دینے کا ارادہ کیا تو آپ نے فرمایا: ابھی ٹھنڈے وقت کا انتظار کرو۔ تاآنکہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھا۔ اس کے بعد نبی ﷺ نے فرمایا: گرمی کی شدت جہنم کی بھاپ سے ہوتی ہے، اس لیے جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھا کرو۔ حضرت ابن عباس ؓ نے (تتفيأ) کے معنی بایں الفاظ بیان کیے: جب ان کے سائے جھک جاتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:539]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں صراحت ہے کہ اذان دینے والے سیدنا بلال ؓ تھے، انھیں رسول اللہ ﷺ نے تین مرتبہ ٹھنڈے وقت کا انتظار کرنے کی تلقین فرمائی۔
صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب ٹیلوں کا سایہ ان کے برابر ہوگیا تو اذان دی گئی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 629)
اس مساوات کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہونے تک نماز ظہر کا انتظار کیا، بلکہ ساوٰی کے الفاظ ظَهَرَ کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ نے نماز ظہر کو عصر کے ساتھ جمع کرنے کے لیے اس کے آخری وقت کا انتظار کیا ہو۔
(فتح الباري: 29/2)
لیکن حدیث میں جمع کرنے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔
بظاہر راوی کا ارادہ حقیقی مساوات بیان کرنا نہیں بلکہ سایہ ظاہر ہونے کو بیان کرنا ہے۔
جیساکہ حدیث:
(535)
سے معلوم ہوتا ہے۔
(2)
بعض ائمۂ کرام نے سخت گرمی کے دنوں میں نماز ظہر مؤخر کرنے کے متعلق یہ موقف اختیار کیا کہ تاخیر اس صورت میں ہوسکتی ہے جب لوگوں کو سخت گرمی میں نمازادا کرنا دشوار ہو اور نمازیوں کو نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے مسجد میں آنا پڑے، منفرد کے لیے بہر صورت اول وقت نماز ادا کرنا افضل ہے۔
اسی طرح اگر نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے دور سے نہ آنا پڑتا ہو یا نماز پڑھنے والے ایک مقام پر جمع ہوں یا دور سے آنے کی صورت میں سائے وغیرہ کا اہتمام ہوتو نمازمؤخر کرنے سے اجتناب کیا جائے، بلکہ اسے اول وقت ہی ادا کرنا چاہیے۔
جیسا کہ امام ترمذی ؒ لکھتے ہیں:
امام شافعی ؒ نے فرمایا کہ نماز ظہر کو ٹھنڈے وقت میں پڑھنے کی ہدایت صرف اس صورت میں ہے جب نمازیوں کو مسجد میں دور سے آنا پڑتا ہو لیکن تنہا یا اپنی قوم کی مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے والے کے متعلق میں یہی پسند کرتا ہوں کہ گرمی کی شدت میں بھی نماز ظہر کو مؤخر نہ کیا جائے۔
(جامع الترمذي، الصلاة، حدیث: 157)
امام بخاری ؒ کا اس عنوان کے ذریعے سے غالباً اسی موقف کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ گرمی کی شدت میں نماز ظہر کو تاخیر سے ادا کرنے کا حکم سفروحضر دونوں میں عام ہے اور اس میں کسی طرح کی تخصیص نہیں ہے۔
(3)
ابراد کےلیے کوئی خاص حد بیان نہیں ہوئی کہ اس کی انتہا کیا ہے؟ مختلف احوال و ظروف کے پیش نظر اس کا حکم مختلف ہو سکتا ہے۔
البتہ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اسے ٹھنڈا کرتے کرتے اسے اس کے آخر وقت تک نہ پہنچا دیا جائے۔
واضح رہے کہ دوران سفر میں اس وقت نماز کو ٹھنڈا کیا جائے، جب مسافر حضرات پڑاؤ کیے ہوئے ہوں، بصورت دیگر جب سفر جاری ہوتو اس وقت جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں ممکن ہیں۔
(4)
امام بخاری ؒ کا یہ اسلوب ہے کہ اگر حدیث میں کوئی ایسا لفظ آجائے کہ وہ یا اس سے ملتا جلتا لفظ قرآن نے استعمال کیا ہو تو قرآن کریم کے لفظ کوذکر کر کے اس کی لغوی تشریح کردیتے ہیں، چنانچہ حدیث میں آنے والے لفظ (فيئ التلول)
کی مناسبت سے(يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ)
(النحل: 16: 48)
کی لفظی تشریح کرتے ہوئے حضرت ابن عباس ؓ کا قول پیش کیا کہ اس کے معنی مائل ہونا ہیں، یعنی سائے کو (فيئ)
اس لیے کہتے ہیں کہ یہ پہلے ایک جانب جھکا ہوتا ہے، پھر دوسری طرف مائل ہوجاتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 539   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.