الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
20. بَابُ ذِكْرِ الْعِشَاءِ وَالْعَتَمَةِ وَمَنْ رَآهُ وَاسِعًا:
20. باب: عشاء اور عتمہ کا بیان اور جو یہ دونوں نام لینے میں کوئی ہرج نہیں خیال کرتے۔
(20) Chapter. The mention of lsha and Atama and whoever took the two names as one and the same.
حدیث نمبر: Q564
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
قال ابو هريرة: عن النبي صلى الله عليه وسلم، اثقل الصلاة على المنافقين العشاء والفجر، وقال: لو يعلمون ما في العتمة والفجر، قال ابو عبد الله: والاختيار ان يقول العشاء، لقوله تعالى: ومن بعد صلاة العشاء سورة النور آية 58 ويذكر عن ابي موسى، قال: كنا نتناوب النبي صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء فاعتم بها، وقال ابن عباس، وعائشة: اعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعشاء، وقال بعضهم: عن عائشة، اعتم النبي صلى الله عليه وسلم بالعتمة، وقال جابر: كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي العشاء، وقال ابو برزة: كان النبي صلى الله عليه وسلم يؤخر العشاء، وقال انس: اخر النبي صلى الله عليه وسلم العشاء الآخرة، وقال ابن عمر، وابو ايوب، وابن عباس رضي الله عنهم: صلى النبي صلى الله عليه وسلم المغرب والعشاء.قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَثْقَلُ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ الْعِشَاءُ وَالْفَجْرُ، وَقَالَ: لَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالْفَجْرِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَالِاخْتِيَارُ أَنْ يَقُولَ الْعِشَاءُ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ سورة النور آية 58 وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كُنَّا نَتَنَاوَبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَعْتَمَ بِهَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةُ: أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ عَائِشَةَ، أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَمَةِ، وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَخِّرُ الْعِشَاءَ، وَقَالَ أَنَسٌ: أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو أَيُّوبَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ.
‏‏‏‏ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ (عشاء) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے «ومن بعد صلاة العشاء‏» (میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «عتمه» کو دیر سے پڑھا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی۔


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q564  
´عشاء اور عتمہ کا بیان`
«. . . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَثْقَلُ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ الْعِشَاءُ وَالْفَجْرُ، وَقَالَ: لَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي الْعَتَمَةِ وَالْفَجْرِ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَالِاخْتِيَارُ أَنْ يَقُولَ الْعِشَاءُ، لِقَوْلِهِ تَعَالَى: وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ سورة النور آية 58 وَيُذْكَرُ عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: كُنَّا نَتَنَاوَبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ فَأَعْتَمَ بِهَا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةُ: أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعِشَاءِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَنْ عَائِشَةَ، أَعْتَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَتَمَةِ، وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعِشَاءَ، وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤَخِّرُ الْعِشَاءَ، وَقَالَ أَنَسٌ: أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ، وَأَبُو أَيُّوبَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ: صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ (عشاء) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے «ومن بعد صلاة العشاء‏» (میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے عائشہ رضی اللہ عنہا نے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے «عتمه» کو دیر سے پڑھا۔ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عشاء میں دیر کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس رضی اللہ عنہم نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء پڑھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ ذِكْرِ الْعِشَاءِ وَالْعَتَمَةِ وَمَنْ رَآهُ وَاسِعًا:: Q564]

تشریح:
امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیا ہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاء سے ہی موسوم کیا جائے۔ اس پر بھی اگر کسی نے لفظ «عتمه» اس کے لیے استعمال کر لیا تو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کرام کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کر رکھی تھی۔ جو بھی حاضر دربار رسالت ہوتا، دیگر صحابہ رضی اللہ عنہ ان سے حالات معلوم کر لیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انہوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کر لی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ «اعتم» استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نماز کو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 564   
حدیث نمبر: 564
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا يونس، عن الزهري، قال سالم: اخبرني عبد الله، قال: صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة صلاة العشاء وهي التي يدعو الناس العتمة، ثم انصرف فاقبل علينا، فقال:" ارايتم ليلتكم هذه، فإن راس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الارض احد".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ سَالِمٌ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ:" أَرَأَيْتُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ".
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے یہ کہا کہ مجھے (میرے باپ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہی جسے لوگ «عتمه» کہتے ہیں۔ پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس رات کو یاد رکھنا۔ آج جو لوگ زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔

Narrated `Abdullah: "One night Allah's Apostle led us in the `Isha' prayer and that is the one called Al-`Atma [??] by the people. After the completion of the prayer, he faced us and said, "Do you know the importance of this night? Nobody present on the surface of the earth tonight will be living after one hundred years from this night." (See Hadith No. 575).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 539


   صحيح البخاري601عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه فإن رأس مائة لا يبقى ممن هو اليوم على ظهر الأرض أحد
   صحيح البخاري564عبد الله بن عمرأرأيتم ليلتكم هذه فإن رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد
   صحيح مسلم6479عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه فإن على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد
   جامع الترمذي2251عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد
   سنن أبي داود4348عبد الله بن عمرأرأيتكم ليلتكم هذه فإن على رأس مائة سنة منها لا يبقى ممن هو على ظهر الأرض أحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 564  
´عشاء اور عتمہ کا بیان`
«. . . أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: صَلَّى لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً صَلَاةَ الْعِشَاءِ وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ، ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَقْبَلَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: " أَرَأَيْتُمْ لَيْلَتَكُمْ هَذِهِ، فَإِنَّ رَأْسَ مِائَةِ سَنَةٍ مِنْهَا لَا يَبْقَى مِمَّنْ هُوَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَحَدٌ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ` ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہی جسے لوگ «عتمه» کہتے ہیں۔ پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس رات کو یاد رکھنا۔ آج جو لوگ زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ ذِكْرِ الْعِشَاءِ وَالْعَتَمَةِ وَمَنْ رَآهُ وَاسِعًا:: 564]

تشریح:
یعنی سو برس میں جتنے لوگ آج زندہ ہیں سب مر جائیں گے۔ اور نئی نسل ظہور میں آتی رہے گی۔ سب سے آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ ہیں۔ جن کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے حضرت خضر علیہ السلام کی وفات پر بھی دلیل پکڑی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 564   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4348  
´قیامت آنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری عمر میں ایک رات ہمیں عشاء پڑھائی، پھر جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: تمہیں پتا ہے، آج کی رات کے سو سال بعد اس وقت جتنے آدمی اس روئے زمین پر ہیں ان میں سے کوئی بھی (زندہ) باقی نہیں رہے گا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سو سال کے بعد کے متعلق احادیث بیان کرنے میں غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ سو برس بعد قیامت آ جائے گی، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ آج روئے زمین پر جتنے لوگ زندہ ہیں سو سال کے بعد ان میں سے کوئ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الملاحم /حدیث: 4348]
فوائد ومسائل:

فی الواقع اصحابِ نبی میں سے کو ئی شخص ایک صدی سے آگے نہیں بڑھا سبھی وفات پا گئے تھے۔
۔
۔
۔
تو اس کے بعد صحابیت کا دعوٰی کرنے والے کا دعوٰی غلط محض ہوا، جیسے کہ رتن ہندی کے بارے میں ذکر آتا ہے کہ اس نے پانچ سو سال بعد صحابی ہونے کا دعوٰٰ ی کیا تھا۔


اس حدیث کی روشنی میں جنابِ خضر کے متعلق بھی استدلال لیا جاتا ہے کہ وہ بھی وفات پا گئے ہیں، مگر ان کے بالمقابل دوسرے کہتے ہیں کہ وہ اس مو قعے پر زمین پر موجود ہی نہ تھے اس لیئے کہ حیاتِ خضر پر کو ئی مستند دلیل نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4348   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:564  
564. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی اور یہ وہی نماز ہے جسے لوگ "عتمة" کہتے تھے، پھر نماز سے فراغت کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: کیا تمہیں اس رات کے متعلق خبر دوں، آج جو لوگ روئے زمین پر ہیں، آج سے ایک صدی پوری ہونے تک ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:564]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عشاء کہ لیے لفظ"عتمة" بولا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، جبکہ مغرب پر لفظ "عشاء" درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسا ثابت نہیں۔
عشاء کوعتمہ کہنے کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔
حضرت ابن عمر ؓ تو عتمہ کہنے والوں پرناراض ہوتے تھے، جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے جواز منقول ہے۔
بعض حضرات نے اس اطلاق کو خلاف اولیٰ قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔
(فتح الباري: 60/2) (2)
رسول اللہ ﷺ سے نماز عشاء کوعتمہ کہنے کی نہی وارد ہے جبکہ بعض اوقات اس لفظ کو نماز عشاء کےلیے استعمال بھی کیا گیا ہے۔
اس کے درمیان تطبیق کی دوصورتیں ہیں:
٭نہی تحریم کےلیے نہیں بلکہ تنزیہ کےلیے ہے اور لفظ عتمہ کو عشاء کےلیے استعمال کرنا جائز ہے۔
٭لفظ عتمہ ان لوگوں کےسامنے بولا گیا جو عشاء کے نام کو نہیں جانتے تھے اور ان کے ہاں یہ زیادہ مشہور نہ تھا، یعنی عشاء کےلیے عتمہ کا استعمال بطور نام نہیں بلکہ تعارف کے لیے استعمال کیا گیا۔
(شرح النووي: 208/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 564   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.