الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وحی کے بیان میں
The Book of Revelation
--. ( بَابٌ: )
--. باب: (رمضان المبارک میں جبرائیل علیہ السلام کا وحی لانا)
( Chapter. )
حدیث نمبر: 6
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا يونس، عن الزهري. ح وحدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا يونس ومعمر، عن الزهري نحوه، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اجود الناس، وكان اجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل، وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن، فلرسول الله صلى الله عليه وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ. ح وحَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ وَمَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ نَحْوَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ".
ہم کو عبدان نے حدیث بیان کی، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، ان کو یونس نے، انہوں نے زہری سے یہ حدیث سنی۔ (دوسری سند یہ ہے کہ) ہم سے بشر بن محمد نے یہ حدیث بیان کی۔ ان سے عبداللہ بن مبارک نے، ان سے یونس اور معمر دونوں نے، ان دونوں نے زہری سے روایت کی پہلی سند کے مطابق زہری سے عبیداللہ بن عبداللہ نے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔


Hum ko Abdan ne Hadees bayan ki, unhein Abdullah bin Mubarak ne khabar di, un ko Younus ne, unhon ne Zohri se yeh Hadees suni. (Doosri sanad yeh hai ke) hum se Bishr bin Muhammed ne yeh Hadees bayan ki. Un se Abdullah bin Mubarak ne, un se Younus aur Ma’mar dono ne, un dono ne Zohri se riwayat ki pehli sanad ke mutabiq Zohri se Ubaidullah bin Abdullah ne, unhon ne Ibne-e-Abbas Radhiallahu Anhuma se yeh riwayat naql ki ke Rasoolulllah Sallallahu Alaihi Wasallam sab logon se ziyada jawwaad (sakhi) the aur Ramadhan mein (doosre auqaat ke muqaabla mein jab) Jibrael Alaihissalam Aap Sallallahu Alaihi Wasallam se mlite bahut hi ziyada jood-o-karam farmaate. Jibrael Alaihissalam Ramadhan ki har raat mein aap Sallallahu Alaihi Wasallam se mulaqaat karte aur Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke saath Quran ka daura karte. Gharz Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam logon ko bhalaayi pahunchane mein baarish laane waali hawa se bhi ziyada jood-o-karam farmaaya karte the.

Narrated Ibn 'Abbas: Allah's Apostle was the most generous of all the people, and he used to reach the peak in generosity in the month of Ramadan when Gabriel met him. Gabriel used to meet him every night of Ramadan to teach him the Qur'an. Allah's Apostle was the most generous person, even more generous than the strong uncontrollable wind (in readiness and haste to do charitable deeds).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 1, Number 5


   صحيح البخاري6عبد الله بن عباسأجود الناس وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن فلرسول الله أجود بالخير من الريح المرسلة
   صحيح البخاري3554عبد الله بن عباسأجود الناس وأجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن فلرسول الله أجود بالخير من الريح المرسلة
   صحيح البخاري3220عبد الله بن عباسأجود الناس وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من رمضان فيدارسه القرآن فان رسول الله حين يلقاه جبريل أجود بالخير من الريح المرسلة
   صحيح البخاري4997عبد الله بن عباسأجود الناس بالخير وأجود ما يكون في شهر رمضان لأن جبريل كان يلقاه في كل ليلة في شهر رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه رسول الله القرآن فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة
   صحيح البخاري1902عبد الله بن عباسأجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه كل ليلة في رمضان حتى ينسلخ يعرض عليه النبي القرآن فإذا لقيه جبريل كان أجود بالخير من الريح المرسلة
   صحيح مسلم6009عبد الله بن عباسأجود الناس بالخير وكان أجود ما يكون في شهر رمضان إن جبريل كان يلقاه في كل سنة في رمضان حتى ينسلخ فيعرض عليه رسول الله القرآن فإذا لقيه جبريل كان رسول الله أجود بالخير من الريح المرسلة
   سنن النسائى الصغرى2097عبد الله بن عباسأجود الناس وكان أجود ما يكون في رمضان حين يلقاه جبريل وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من شهر رمضان فيدارسه القرآن قال كان رسول الله حين يلقاه جبريل أجود بالخير من الريح المرسلة
   الادب المفرد292عبد الله بن عباساجود الناس بالخير، وكان اجود ما يكون في رمضان، حين يلقاه جبريل صلى الله عليه وسلم، وكان جبريل يلقاه في كل ليلة من رمضان، يعرض عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم القرآن، فإذا لقيه جبريل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة
   شمائل ترمذي352عبد الله بن عباساجود الناس بالخير وكان اجود ما يكون في شهر رمضان، حتى ينسلخ فياتيه جبريل فيعرض عليه القرآن، فإذا لقيه جبريل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم اجود بالخير من الريح المرسلة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6  
´قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا`
«. . . قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ، وَكَانَ أَجْوَدُ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْآنَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدُ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ جواد (سخی) تھے اور رمضان میں (دوسرے اوقات کے مقابلہ میں جب) جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے بہت ہی زیادہ جود و کرم فرماتے۔ جبرائیل علیہ السلام رمضان کی ہر رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قرآن کا دورہ کرتے، غرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 6]

تشریح:
اس حدیث کی مناسبت باب سے یہ ہے کہ رمضان شریف میں حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید کا دور کیا کرتے تو معلوم ہوا کہ قرآن یعنی وحی کا نزول رمضان شریف میں شروع ہوا۔ جیسا کہ آیت شریفہ «شهر رمضان الذى انزل فيه القرآن» [البقرة: 185] میں مذکور ہے۔ یہ نزول قرآن لوح محفوظ سے بیت العزت میں سماء دنیا کی طرف تھا۔ پھر وہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول بھی رمضان شریف ہی میں شروع ہوا۔ اسی لیے رمضان شریف قرآن کریم کے لیے سالانہ یادگار مہینہ قرار پایا اور اسی لیے اس مبارک ماہ میں آپ اور حضرت جبرئیل علیہ السلام قرآن مجید کا باقاعدہ دور فرمایا کرتے تھے۔ساتھ ہی آپ کے جود کا ذکر خیر بھی کیا گیا۔

سخاوت خاص مال کی تقسیم کا نام ہے اور «جود» کے معنی «اعطاءما ينبغي لمن ينبغي» کے ہیں جو بہت زیادہ عمومیت لئے ہوئے ہے۔ پس «جود» مال ہی پر موقوف نہیں۔ بلکہ جو شے بھی جس کے لئے مناسب ہو دے دی جائے، اس لئے آپ «اجود الناس» تھے۔ حاجت مندوں کے لئے مالی سخاوت، تشنگان علوم کے لئے علمی سخاوت، گمراہوں کے لئے فیوض روحانی کی سخاوت، الغرض آپ ہر لحاظ سے تمام بنی نوع انسان میں بہترین سخی تھے۔ آپ کی جملہ سخاوتوں کی تفصیلات کتب احادیث و سیر میں منقول ہیں۔

آپ کی «جود» و سخاوت کی تشبیہ بارش لانے والی ہواؤں سے دی گئی جو بہت ہی مناسب ہے۔ باران رحمت سے زمین سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ آپ کی جود و سخاوت سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہو گئی۔ ہر طرف ہدایات کے دریا بہنے لگے۔ خدا شناسی اور اخلاق فاضلہ کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ آپ کی سخاوت اور روحانی کمالات سے ساری دنیائے انسانیت نے فیض حاصل کئے اور یہ مبارک سلسلہ تا قیام دنیا قائم رہے گا۔ کیوں کہ آپ پر نازل ہونے والا قرآن مجید وحی متلو اور حدیث شریف وحی غیرمتلو تاقیام دنیا قائم رہنے والی چیزیں ہیں۔ پس دنیا میں آنے والے انسان ان سے فیوض حاصل کرتے ہی رہیں گے۔ اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہے اور یہ بھی کہ قرآن وحدیث کے معلمین و متعلمین کو بہ نسبت دوسرے لوگوں کے زیادہ سخی،جواد وسیع القلب ہونا چاہئیے کہ ان کی شان کا یہی تقاضہ ہے۔خصوصاً رمضان شریف کا مہینہ جود و سخاوت ہی کا مہینہ ہے کہ اس میں ایک نیکی کا ثواب کتنے ہی درجات حاصل کر لیتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس ماہ مبارک میں خصوصیت کے ساتھ اپنی ظاہری و باطنی سخاوتوں کے دریا بہا دیتے تھے۔

سند حدیث: پہلا موقع ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں سند حدیث میں تحویل فرمائی ہے۔ یعنی امام زہری تک سند پہنچا دینے کے بعد پھر آپ دوسری سندکی طرف لوٹ آئے ہیں اور عبدان پہلے استاد کے ساتھ اپنے دوسرے استاد بشر بن محمد کی روایت سے بھی اس حدیث کو نقل فرمایا ہے اور زہری پر دونوں سندوں کو یکجا کر دیا۔ محدثین کی اصطلاح میں لفظ ح (مثلاً جو اس سند میں آیا ہے «عن الزهري. ح وحدثنا بشر بن محمد») سے یہی تحویل مراد ہوتی ہے۔ اس سے تحویل سند اور سند میں اختصار مقصود ہوتا ہے۔ آگے اس قسم کے بہت سے مواقع آتے رہیں گے۔ بقول علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی سند میں روایت حدیث کی مختلف اقسام تحدیث، اخبار، عنعنہ، تحویل سب جمع ہو گئی ہیں۔جن کی تفصیلات مقدمہ میں بیان کی جائیں گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6  
6. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے، خصوصاً رمضان میں جب حضرت جبریل سے آپ کی ملاقات ہوتی تو بہت سخاوت کرتے۔ اور حضرت جبریل رمضان المبارک میں ہر رات آپ سے ملاقات کرتے اور آپ ان کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ صدقہ کرنے میں کھلی (تیز) ہوا سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے تعلق اس طرح ہے کہ پہلی حدیث میں نزول وحی کی جگہ کا تعین تھا کہ وحی کا آغاز غارحرا میں ہوا اور اس حدیث میں ابتدائے وحی کا وقت بتایا گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان المبارک ہے۔
اس سے وحی کی عظمت بھی ظاہر ہوتی ہے کہ کسی معمولی چیز کے لیے زمان ومکان کا تعین نہیں کیا جاتا بلکہ اس قسم کا اہتمام کسی اہم اور بلند پایہ چیز ہی کے لیے کیا جاتا ہے۔

سخاوت کسی کے سوال کرنے پر دل کے نرم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز دینے کا نام ہے جبکہ (جُود)
کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز جس کے لیے مناسب ہو، اس کے مانگے بغیر ہی اسے دے د ینا۔
بعض نے اس کا فرق یہ کیا ہے کہ سخاوت کا مطلب کچھ دے دینا اور کچھ اپنے لیے رکھ لینا ہے جبکہ جود کے معنی یہ ہیں کہ زیادہ دے دینا اورتھوڑا بہت اپنے لیے رکھنا۔
(الفروق اللغوية، ص: 196)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعی (أَجْوَدَ النَّاسِ)
تھے کیونکہ یہ ہر شخص کو وہی کچھ دیتے جو اس کے مناسب حال ہوتا، چنانچہ فقیروں کو مال دیتے، تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھاتے اور گم کردہ راہوں کو سیدھا راستہ دکھاتے الغرض حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے جُود کے تین درجے تھے:
(الف)
۔
عام طور پر بھی آپ تمام لوگوں سے زیادہ صاحب جودوسخا تھے۔
(ب)
۔
رمضان المبارک میں یہ جودوکرم اور بڑھ جاتا تھا۔
(ج)
۔
رمضان کی راتیں مذید اس شان جودوکرم میں اضافے کا باعث ہوتیں جبکہ آپ جبرئیل علیہ السلام سے ملاقات فرماتے۔
اس دوران میں کسی سائل کو تہی دامن اور مایوس واپس نہ کرتے حتیٰ کہ اگر قرض بھی لینا پڑتا تو بھی خیرات کا فیض عام جاری رکھنے کے لیے ایسا کرگزرتے تھے۔

(الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ)
اس ہوا کو کہتے ہیں۔
جوبڑی تیز چلتی ہے اور بارش کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جودوسخا کو اس قسم کی بارش لانے والی ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بہت ہی مناسب ہے، چنانچہ جس طرح باران رحمت سے بنجر اور بے آباد زمین سرسبزوشاداب ہو جاتی ہے اسی طرح آپ کے جودوسخا سے بنی نوع انسان کی اجڑی ہوئی دنیا آباد ہوئی اور ہر طرف رشد و ہدایت کے دریا موج زن ہوئے۔
الغرض آپ کے روحانی کمالات سے تمام کائنات فیض یاب ہوئی اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔

اس حدیث میں سخاوت کے متعلق شوق دلایا گیا ہے، خاص طور پر رمضان المبارک میں دل کھول کراپنا مال خرچ کرنا چاہیے، نیز جب نیکو کار اوراہل خیر سے ملاقات ہو تو بھی فیاضی اوردریا دلی کا مظاہرہ کرناچاہیے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنی چاہیے اور یہ تلاوت تمام اوراد و اذکار سے افضل اوراعلیٰ ہے۔
(فتح الباري: 1؍31)

(مُدَارَسَه)
یہ ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام رمضان میں نازل شدہ قرآن پڑھتےاور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے سنتے، پھر ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت فرماتے اور حضرت جبریل علیہ السلام اس کا سماع فرماتے۔
گویا باری باری قرآن مجید پڑھتے جسے ہمارے ہاں دَور کرنا کہا جاتا ہے۔
آخری سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل علیہ السلام سے دومرتبہ دور کیا تاکہ مجموعی طور پر پورے قرآن کی یاد دہانی ہوجائے، نیز یاد رہے کہ یہ آخری دور اسی ترتیب سے ہوا تھا جس ترتیب سے آج ہمارے ہاں قرآن موجود ہے کیونکہ اس آخری دور کے وقت حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ موجود تھے۔
انھوں نے بعد میں اسی ترتیب سے لکھا جس ترتیب سے انھوں نے سنا تھا۔
واضح رہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ترتیب نزولی کے مطابق قرآن جمع کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب ان کےعلاوہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.