الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
13. بَابُ التَّسْلِيمِ وَالاِسْتِئْذَانِ ثَلاَثًا:
13. باب: سلام اور اجازت تین مرتبہ ہونی چاہئے۔
(13) Chapter. To greet somebody and ask permission thrice (only).
حدیث نمبر: 6244
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق، اخبرنا عبد الصمد، حدثنا عبد الله بن المثنى، حدثنا ثمامة بن عبد الله، عن انس رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان" إذا سلم سلم ثلاثا، وإذا تكلم بكلمة اعادها ثلاثا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ثُمَامَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" إِذَا سَلَّمَ سَلَّمَ ثَلَاثًا، وَإِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا".
ہم سے اسحٰق نے بیان کیا کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن مثنی نے خبر دی ان سے ثمامہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو سلام کرتے (اور جواب نہ ملتا) تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرماتے تو (زیادہ سے زیادہ) تین مرتبہ اسے دہراتے۔

Narrated Anas: Whenever Allah's Apostle greeted somebody, he used to greet him three times, and if he spoke a sentence, he used to repeat it thrice.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 261


   صحيح البخاري94أنس بن مالكإذا سلم سلم ثلاثا إذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا
   صحيح البخاري6244أنس بن مالكإذا سلم سلم ثلاثا إذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا
   صحيح البخاري95أنس بن مالكإذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا حتى تفهم عنه إذا أتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثا
   جامع الترمذي2723أنس بن مالكإذا سلم سلم ثلاثا إذا تكلم بكلمة أعادها ثلاثا
   مشكوة المصابيح208أنس بن مالكإذا تكلم بكلمة اعادها ثلاثا حتى تفهم عنه وإذا اتى على قوم فسلم عليهم سلم عليهم ثلاثا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 208  
´روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَنَسٍ قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ أَعَادَهَا ثَلَاثًا حَتَّى تُفْهَمَ عَنْهُ وَإِذَا أَتَى عَلَى قَوْمٍ فَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ سَلَّمَ عَلَيْهِمْ ثَلَاثًا ". رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ . . .»
. . . سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب گفتگو فرماتے تھے تو تین دفعہ فرماتے اور جب کسی قوم اور جماعت کے پاس تشریف لاتے تو تین دفعہ سلام کرتے۔ ا س حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 208]

تخريج الحدیث:
[صحيح بخاري 95]

فقہ الحدیث:
➊ تقریر، تبلیغ اور نصیحت وغیرہ کے دوران میں اہم بات دو تین دفعہ دہرانی چاہئیے تاکہ مخاطب اسے سمجھ کر یاد کر لے۔
➋ تین دفعہ سلام کہنے سے مراد کسی گھر یا جگہ میں داخل ہونے کے لئے سلام کہنا ہے۔ جیسا کہ امام بخاری کی کتاب الاستئذان میں تبویب سے ظاہر ہے اور علمائے کرام نے بھی یہی مفہوم بیان کیا ہے۔
➌ منصب کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو، دوسرے کے گھر میں داخل ہونے سے پہلے اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 208   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2723  
´بات چیت کی ابتداء «علیک السلام» سے کہہ کر مکروہ ہے۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سلام کرتے تو تین بار سلام کرتے اور جب کوئی بات کہتے تو اسے تین بار دھراتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2723]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
تاکہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2723   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6244  
6244. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی کو سلام کرتے تو تین مرتبہ سلام کرتے تھے اور جب کوئی بات کرتے تو اسے تین مرتبہ دہراتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6244]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلام و کلام میں تکرار فرماتے تھے لیکن اس سے مراد اکثر اوقات ہیں، یعنی افہام و تفہیم کے لیے اکثر ایسا کرتے تھے تاکہ سلام عام ہو اور بات دلوں میں راسخ ہو جائے۔
(عمدة القاري: 361/15) (2)
تین دفعہ سلام کرنے کی حسب ذیل توجیہات ممکن ہیں:
٭ جب مجمع زیادہ ہوتا اور لوگ منتشر ہوتے تو تمام حاضرین کو سلام پہنچانے کے لیے تین مرتبہ سلام کرتے۔
ایک سامنے، دوسرا دائیں جانب اور تیسرا بائیں طرف کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سلام کے تمام حاضرین مشتاق ہوتے تھے۔
٭ اگر کہیں جم غفیر ہوتا تو ایک سلام داخل ہوتے ہی کرتے، دوسرا درمیان میں پہنچ کر اور تیسرا سلام آخر میں پہنچ کر فرماتے۔
٭ یہ سلام، سلام اجازت ہے جو زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ کہا جا سکتا ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی مقصد معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اس کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کیا ہے جو سلام اجازت سے متعلق ہے۔
(3)
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلا سلام اجازت کے لیے، دوسرا جب ان کے پاس جاتے اور تیسرا جب ان سے رخصت ہوتے کیونکہ عام حالات میں تین مرتبہ سلام کرنا آپ کے معمولات سے ثابت نہیں۔
پہلا سلام اجازت، دوسرا سلام ملاقات اور تیسرا سلام وداع۔
(شرح الکرماني: 86/2)
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6244   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.