الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
طہارت کے احکام و مسائل
22. باب الْمَسْحِ عَلَى الْخُفَّيْنِ:
22. باب: موزوں پر مسح کرنا۔
حدیث نمبر: 631
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا زكرياء ، عن عامر ، قال: اخبرني عروة ابن المغيرة ، عن ابيه ، قال: " كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم ذات ليلة في مسير، فقال لي: امعك ماء؟ قلت: نعم، فنزل عن راحلته، فمشى حتى توارى في سواد الليل، ثم جاء، فافرغت عليه من الإداوة، فغسل وجهه، وعليه جبة من صوف، فلم يستطع ان يخرج ذراعيه منها، حتى اخرجهما من اسفل الجبة، فغسل ذراعيه، ومسح براسه، ثم اهويت لانزع خفيه، فقال: دعهما، فإني ادخلتهما طاهرتين، ومسح عليهما ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ عَامِرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ابْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي مَسِيرٍ، فَقَالَ لِي: أَمَعَكَ مَاء؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَنَزَلَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، فَمَشَى حَتَّى تَوَارَى فِي سَوَادِ اللَّيْلِ، ثُمَّ جَاءَ، فَأَفْرَغْتُ عَلَيْهِ مِنَ الإِدَاوَةِ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ، وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ مِنْ صُوفٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يُخْرِجَ ذِرَاعَيْهِ مِنْهَا، حَتَّى أَخْرَجَهُمَا مِنْ أَسْفَلِ الْجُبَّةِ، فَغَسَلَ ذِرَاعَيْهِ، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ، ثُمَّ أَهْوَيْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّيْهِ، فَقَالَ: دَعْهُمَا، فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ، وَمَسَحَ عَلَيْهِمَا ".
زکریا نےعامر (شعبی) سے روایت کی، کہا: مجھے عروہ بن مغیرہ نے اپنے والد حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ سےحدیث بیان کی، کہا: ایک رات میں سفر کےدوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس پانی ہے؟ میں نےکہا: جی ہاں۔ تو آپ اپنی سواری سے اترے، پھر پیدل چل دیےیہاں تک کہ رات کی سیاہی میں اوجھل ہو گئے، پھر (واپس) آئے تو میں نے برتن سے آپ (کے ہاتھوں) پر پانی ڈالا، آپ نے اپنا چہرہ دھویا (اس وقت) آپ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ اس میں سے اپنے ہاتھ نہ نکال سکے حتی کہ دونوں ہاتھوں کو جبے کے نیچے سے نکالا اور کہنیوں تک اپنے ہاتھ دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر میں نے آپ کے موزے اتارنے چاہے تو آپ نے فرمایا: ان کو چھوڑو، میں نے باوضو ہو کر دونوں پاؤں ان میں ڈالے تھے اور ان پر مسح فرمایا۔
حضرت عروہ بن مغیرہ  اپنے والدؓ سے بیان کرتے ہیں: کہ ایک رات، ایک سفر میں، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو آپ نے پوچھا: کیا تیرے پاس پانی ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اترے، پھر چل دیئے، یہاں تک کہ رات کی سیاہی میں مجھ سے چھپ گئے، پھر واپس آئے، تو میں نے برتن سے آپ پر پانی ڈالا۔ آپ نے اپنا چہرہ دھویا، اور آپ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ اس سے (تنگ ہونے کی وجہ سے) اپنے ہاتھ نہ نکال سکے، حتیٰ کہ دونوں ہاتھوں کو جبے کے نیچے سے نکالا، اور اپنے (کہنیوں سمیت) ہاتھ دھوئے اور اپنے سر کا مسح کیا، پھر میں جھکا تاکہ آپ کے موزے اتاروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کو چھوڑیئے! میں نے دونوں پاؤں دھونے کے بعد پہنے تھے۔ اور ان پر مسح فرمایا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 274

   صحيح البخاري5799مغيرة بن شعبةغسل ذراعيه ثم مسح برأسه ثم أهويت لأنزع خفيه فقال دعهما فإني أدخلتهما
   صحيح البخاري206مغيرة بن شعبةدعهما فإني أدخلتهما طاهرتين فمسح عليهما
   صحيح مسلم631مغيرة بن شعبةدعهما فإني أدخلتهما طاهرتين
   بلوغ المرام53مغيرة بن شعبةدعهما فإني ادخلتهما طاهرتين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 53  
´موزوں پر مسح اسی صورت میں درست اور جائز ہے جبکہ وضو کر کے پہنے گئے ہوں`
«. . . عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال: كنت مع النبى صلى الله عليه وآله وسلم فتوضا فاهويت لانزع خفيه فقال: ‏‏‏‏دعهما فإني ادخلتهما طاهرتين فمسح عليهما . . .»
. . . سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنا شروع کیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کیلئے لپکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چھوڑ دو میں نے جب یہ موزے پہنے تھے تو میں وضو سے تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح فرمایا . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 53]

لغوی تشریح:
«فَأَهْوَيْتُ» میں نے اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، یا پھر یہ معنی ہیں کہ حالت قیام سے نیچے جھکا۔
«لِأَنْزِعَ» «أُخْرِجَ» کے معنی میں ہے کہ میں اتاروں۔
«خُفَّيْهِ» آپ کے موزے۔
«دَعْهُمَا» «اُتْرُكْ» کے معنی میں ہے، یعنی موزوں کو چھوڑ دو۔
«طَاهِرَتَيْنِ» حال واقع ہو رہا ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ دونوں پاؤں پاک حالت میں داخل کیے تھے، اس لیے موزوں کو نہ اتارو۔ اور ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ میں نے موزوں میں پاؤں جب داخل کیے تھے اس وقت وہ پاک تھے۔ [سنن أبى داود، الطهارة، باب المسح على الخفين، حديث: 151]

فوائد ومسائل:
➊ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ موزوں پر مسح اسی صورت میں درست اور جائز ہے جبکہ وضو کر کے پہنے گئے ہوں۔
➋ ابوداود اور موطأ امام مالک میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے موقع پر نماز فجر کے وقت پیش آیا۔ [سنن أبى داود، الطهارة، باب المسح على الخفين، حديث: 149، الموطأ للإمام مالك، الطهارة، باب ماجاء فى المسح على الخفين، حديث: 41]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 53   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 631  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے،
بڑا آدمی چھوٹے سے خدمت لے سکتاہے،
اور وہ وضو کاپانی بھی اعضائے وضو پر ڈال سکتا ہے۔
(2)
موزے اس وقت پہننے چائیں،
جب وضو مکمل ہوچکا ہو،
اگر کسی نے دایاں پاؤں دھونے کے بعد موزہ پہن لیا،
پھر بایاں پاؤں دھویا اور موزہ پہن لیا،
تو یہ فعل درست نہیں ہے۔
امام مالک،
شافعی  اوراحمد  کا یہی موقف ہے،
امام ابوحنیفہ  کے نزدیک یہ فعل صحیح ہے۔
اور اس صورت میں موزوں پر مسح کرنا درست ہوگا۔
(شرح النووي: 1/134)
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 631   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.