الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
39. بَابُ حَدِّ الْمَرِيضِ أَنْ يَشْهَدَ الْجَمَاعَةَ:
39. باب: بیمار کو کس حد تک جماعت میں آنا چاہیے۔
(39) Chapter. The limit set for a patient to attend the congregational Salat (prayer)?
حدیث نمبر: 665
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إبراهيم بن موسى، قال: اخبرنا هشام بن يوسف، عن معمر، عن الزهري، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، قال: قالت عائشة" لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم واشتد وجعه استاذن ازواجه ان يمرض في بيتي، فاذن له فخرج بين رجلين تخط رجلاه الارض، وكان بين العباس ورجل آخر"، قال عبيد الله: فذكرت ذلك لابن عباس ما قالت عائشة، فقال لي: وهل تدري من الرجل الذي لم تسم عائشة؟ قلت: لا، قال: هو علي بن ابي طالب".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ" لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاشْتَدَّ وَجَعُهُ اسْتَأْذَنَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يُمَرَّضَ فِي بَيْتِي، فَأَذِنَّ لَهُ فَخَرَجَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ تَخُطُّ رِجْلَاهُ الْأَرْضَ، وَكَانَ بَيْنَ الْعَبَّاسِ وَرَجُلٍ آخَرَ"، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِابْنِ عَبَّاسٍ مَا قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقَالَ لِي: وَهَلْ تَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ الَّذِي لَمْ تُسَمِّ عَائِشَةُ؟ قُلْتُ: لَا، قَالَ: هُوَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی معمر سے، انہوں نے زہری سے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے اور تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں سے اس کی اجازت لی کہ بیماری کے دن میرے گھر میں گزاریں۔ انہوں نے اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت دے دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم زمین پر لکیر کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک اور شخص کے بیچ میں تھے (یعنی دونوں حضرات کا سہارا لیے ہوئے تھے) عبیداللہ راوی نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کی، تو آپ نے فرمایا اس شخص کو بھی جانتے ہو، جن کا نام عائشہ رضی اللہ عنہا نے نہیں لیا۔ میں نے کہا کہ نہیں! آپ نے فرمایا کہ وہ دوسرے آدمی علی رضی اللہ عنہ تھے۔

Narrated `Aisha: "When the Prophet became seriously ill and his disease became aggravated he asked for permission from his wives to be nursed in my house and he was allowed. He came out with the help of two men and his legs were dragging on the ground. He was between Al-`Abbas and another man." 'Ubaidullah said, "I told Ibn `Abbas what `Aisha had narrated and he said, 'Do you know who was the (second) man whose name `Aisha did not mention'" I said, 'No.' Ibn `Abbas said, 'He was `Ali Ibn Abi Talib.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 634


   صحيح البخاري5714هريقوا علي من سبع قرب لم تحلل أوكيتهن لعلي أعهد إلى الناس قالت فأجلسناه في مخضب لحفصة زوج النبي ثم طفقنا نصب عليه من تلك القرب حتى جعل يشير إلينا أن قد فعلتن قالت وخرج إلى الناس فصلى لهم وخطبهم
   صحيح البخاري665لما ثقل النبي واشتد وجعه استأذن أزواجه أن يمرض في بيتي فأذن له فخرج بين رجلين تخط رجلاه الأرض وكان بين العباس ورجل آخر
   صحيح البخاري4442هريقوا علي من سبع قرب لم تحلل أوكيتهن لعلي أعهد إلى الناس
   صحيح البخاري687أصلى الناس قلنا لا هم ينتظرونك قال ضعوا لي ماء في المخضب قالت ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه ثم أفاق فقال أصلى الناس قلنا لا هم ينتظرونك يا رسول الله قال ضعوا لي ماء في المخضب قالت فقعد فاغتسل ثم ذهب لينوء فأغمي عليه ثم أفاق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 665  
665. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:665]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔
جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ (فتح الباری)
یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔
گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔
ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔
حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔
اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔
خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔
وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔
جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔
یہی حال تمہارا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
مثلاً (1)
ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔
(2)
اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
(3)
چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔
(4)
کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔
(5)
بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔
(6)
نماز میں بکثرت رونا۔
(7)
بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔
(8)
نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔
(فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 665   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:665  
665. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔ تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔ راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں: میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا: نہیں، کہنے لگے: علی بن ابی طالب ؓ تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:665]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر نکلے۔
امام نوی رحمہ اللہ نے تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ آپ گھر سے مسجد تک ان دو صحابیات کے درمیان آئے ہوں گے اور اس کے بعد مصلی تک حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوں گے۔
اسی طرح کچھ روایات میں حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔
امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔
(فتح الباری: 2/201)
واضح رہے کہ حضرت علی،حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمر میں بڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے،اس لیے انھیں متعدد بار آپ کا دست مبارک پکڑنے کا موقع ملا۔
غالبا یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ان کا نام تو صراحت سے لیا اور دیگر سہارا دینے والوں کا نام مبہم رکھا کیونکہ دوسرا آدمی ہر مرتبہ بدلتا رہتا تھا۔
(عمدۃ القاری: 1/268) (2)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹتی،خواہ بکثرت ہی کیو ں نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رقت قلبی اور کثرت گریہ سے واقف تھے اس کے باوجود آپ نے انھیں منصب امامت سے سرفراض فرمایا اور رونے سے منع بھی نہیں فرمایا۔
(فتح الباری: 2/203) (3)
اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ بلا فصل ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ نماز کے لیے امامت جوکہ امامت صغریٰ ہے، امامت کبریٰ، یعنی خلافت کے اہم وظائف میں سے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے منصب خلافت کی تفویض کا واضح اشارہ دیا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بادشاہ بوقت وفات اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو تخت پر بٹھا دے۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر امامت صغریٰ میں امامت کبریٰ کی طرف واضح اشارہ تھا تو خلافت کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کیون ہوا؟اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر پریشان تھے کہ اس وقت بڑے بڑے معاملات ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔
(حاشیۃ السندی: 1/122)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. مرض النبي (العلم)
2. مرض الرسول ومدته (السيرة)
3. انتقال الرسول إلى بيت عائشة (السيرة)
4. القسم بين أزواج النبي (السيرة)
5. اتباع السنة الحسنة (الأحوال الشخصية)
6. الاستئذان في مخالفة القسم (الأحوال الشخصية)
7. هبة المرأة يومها (الأحوال الشخصية)
موضوعات 1. نبی اکرمﷺ کا مرض (علم)
2. رسول اکرمﷺ کا مرض اور اسکی مدت (سیرت)
3. رسول اکرمﷺ کی حضرت عائشہ کے گھر منتقلی (سیرت)
4. ازواج مطہرات کے درمیان باریوں کی تقسیم (سیرت)
5. سنت حسنہ کی پیروی کرنا (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
6. باری کی مخالفت کے لیے بیویوں سے اجازت لینا (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
7. عورت کا اپنا دن دوسری کے لیے ہبہ کردینا (نجی اور شخصی احوال ومعاملات)
Topics 1. Prophet's ailment (The Knowledge)
2. The Prophet's Disease And Its Duration (Prophet's Biography)
3. The Prophet's Arrival At Aisha's (Prophet's Biography)
4. Rasool(
W)
taking turns (Prophet's Biography)
5. Following the way of Prophet PBUH (Private and Social Conditions and Matters)
6. Taking permission of wives for changing turns (Private and Social Conditions and Matters)
7. Wife giving her day to another wife (Private and Social Conditions and Matters)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/665 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا:
جب نبی ﷺ بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری شدت اختیار کر گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اجازت چاہی کہ میرے گھر آپ کی تیمارداری کی جائے۔
تمام بیویوں نے اجازت دے دی، چنانچہ آپ دو آدمیوں کا سہارا لے کر نکلے جبکہ آپ کے پاؤں گھسٹ رہے تھے۔
آپ اس وقت حضرت عباس ؓ اور ایک دوسرے آدمی کے درمیان تھے۔
راوی حدیث حضرت عبیداللہ بن عبداللہ کہتے ہیں:
میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی اس بات کا تذزکرہ کیا تو آپ نے فرمایا:
کیا تمہیں معلوم ہے کہ دوسرا آدمی کون تھا جس کا حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے نام نہیں لیا؟ میں نے کہا:
نہیں، کہنے لگے:
علی بن ابی طالب ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بریرہ اور حضرت نوبہ رضی اللہ عنہ کا سہارا لے کر نکلے۔
امام نوی رحمہ اللہ نے تطبیق اس طرح بیان کی ہے کہ آپ گھر سے مسجد تک ان دو صحابیات کے درمیان آئے ہوں گے اور اس کے بعد مصلی تک حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوں گے۔
اسی طرح کچھ روایات میں حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کے نام بھی ذکر ہوئے ہیں۔
امام نوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اسے تعدد واقعات پر محمول کیا جائے گا۔
(فتح الباری: 2/201)
واضح رہے کہ حضرت علی،حضرت فضل بن عباس اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو باری باری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سہارا دینے کا اعزاز حاصل ہوتا رہا جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ عمر میں بڑے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہونے کا اعزاز بھی رکھتے تھے،اس لیے انھیں متعدد بار آپ کا دست مبارک پکڑنے کا موقع ملا۔
غالبا یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما نے ان کا نام تو صراحت سے لیا اور دیگر سہارا دینے والوں کا نام مبہم رکھا کیونکہ دوسرا آدمی ہر مرتبہ بدلتا رہتا تھا۔
(عمدۃ القاری: 1/268) (2)
اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹتی،خواہ بکثرت ہی کیو ں نہ ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رقت قلبی اور کثرت گریہ سے واقف تھے اس کے باوجود آپ نے انھیں منصب امامت سے سرفراض فرمایا اور رونے سے منع بھی نہیں فرمایا۔
(فتح الباری: 2/203) (3)
اس حدیث میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے خلیفۂ بلا فصل ہونے کی واضح دلیل ہے کیونکہ نماز کے لیے امامت جوکہ امامت صغریٰ ہے، امامت کبریٰ، یعنی خلافت کے اہم وظائف میں سے ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض الموت میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو یہ منصب عطا کرکے منصب خلافت کی تفویض کا واضح اشارہ دیا ہے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ کوئی بادشاہ بوقت وفات اپنی اولاد میں سے کسی ایک کو تخت پر بٹھا دے۔
باقی رہا یہ اعتراض کہ اگر امامت صغریٰ میں امامت کبریٰ کی طرف واضح اشارہ تھا تو خلافت کے متعلق صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں اختلاف کیون ہوا؟اس اعتراض کی کوئی حیثیت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے غم میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اس قدر پریشان تھے کہ اس وقت بڑے بڑے معاملات ان کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور ایسا ہونا ایک فطری امر تھا۔
(حاشیۃ السندی: 1/122)
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی معمر سے، انھوں نے زہری سے، کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ بیمار ہو گئے اور تکلیف زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے اپنی بیویوں سے اس کی اجازت لی کہ بیماری کے دن میرے گھر میں گزاریں۔
انھوں نے اس کی آپ کو اجازت دے دی۔
پھر آپ باہر تشریف لے گئے۔
آپ کے قدم زمین پر لکیر کر رہے تھے۔
آپ اس وقت عباس ؓ اور ایک اور شخص کے بیچ میں تھے (یعنی دونوں حضرات کا سہارا لیے ہوئے تھے)
عبیداللہ راوی نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی عبداللہ بن عباس ؓ سے بیان کی، تو آپ نے فرمایا اس شخص کو بھی جانتے ہو، جن کا نام حضرت عائشہ ؓ نے نہیں لیا۔
میں نے کہا کہ نہیں! آپ نے فرمایا کہ وہ دوسرے آدمی حضرت علی ؓ تھے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔
جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ (فتح الباری)
یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔
گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔
ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔
حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔
اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔
خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔
وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔
جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔
یہی حال تمہارا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
مثلاً (1)
ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔
(2)
اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
(3)
چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔
(4)
کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔
(5)
بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔
(6)
نماز میں بکثرت رونا۔
(7)
بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔
(8)
نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔
(فتح الباری)
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA)
:
"When the Prophet (ﷺ) became seriously ill and his disease became aggravated he asked for permission from his wives to be nursed in my house and he was allowed. He came out with the help of two men and his legs were dragging on the ground. He was between Al-
Abbas and another man." 'Ubaid Ullah said, "I told Ibn 'Abbas (RA)
what 'Aisha (RA)
had narrated and he said, 'Do you know who was the (second)
man whose name 'Aisha (RA)
did not mention'" I said, 'No.' Ibn 'Abbas (RA)
said, 'He was ' Ali Ibn Abi Talib (RA)
.' " حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب منعقد کرنے اور یہ حدیث لانے سے ظاہر ہے کہ جب تک مریض کسی نہ کسی طرح سے مسجد میں پہنچ سکے حتی کہ کسی دوسرے آدمی کے سہارے سے جاسکے تو جانا ہی چاہئے۔
جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے سہارے مسجد میں تشریف لے گئے۔
علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و مناسبۃ ذلک من الحدیث خروجہ صلی اللہ علیہ وسلم متوکنا علی غیرہ من شدۃ الضعف فکانہ یشیر الی انہ من بلغ الی تلک الحال لا یستحب لہ تکلف الخروج للجماعۃ الا اذا وجد من یتوکاءعلیہ (فتح الباری)
یعنی حدیث سے اس کی مناسبت بایں طور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لانا شدت ضعف کے باوجود دوسرے کے سہارے ممکن ہوا۔
گویا یہ ا س طرف اشارہ ہے کہ جس مریض کا حال یہاں تک پہنچ جائے اس کے لیے جماعت میں حاضری کا تکلف مناسب نہیں۔
ہاں اگر وہ کوئی ایسا آدمی پالے جو اسے سہارا دے کر پہنچا سکے تو مناسب ہے۔
حدیث سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آخری وقت میں دیکھ لیا تھا کہ امت کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے زیادہ موزوں کوئی دوسرا شخص اس وقت نہیں ہے۔
اس لیے آپ نے بار بار تاکید فرما کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو مصلے پر بڑھایا۔
خلافت صدیقی کی حقانیت پر اس سے زیادہ واضح اور دلیل نہیں ہو سکتی بلکہ جب ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اس سلسلے میں کچھ معذرت پیش کی اور اشارہ کیا کہ محترم والد ماجد بے حد رقیق القلب ہیں۔
وہ مصلے پر جا کر رونا شروع کردیں گے لہٰذا آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو امامت کا حکم فرمائیے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کا ایسا خیال بھی نقل کیا گیا ہے کہ اگر والد ماجد مصلے پر تشریف لائے اور بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو عوام حضرت والد ماجد کے متعلق قسم قسم کی بدگمانیاں پیدا کریں گے۔
اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر کہ تم یوسف علیہ السلام کی ساتھ والیوں جیسی ہو سب کو خاموش کردیا۔
جیسا کہ زلیخا کی سہیلیوں کا حال تھا کہ ظاہر میں کچھ کہتی تھیں اور دل میں کچھ اور ہی تھا۔
یہی حال تمہارا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس واقعہ سے بہت سے مسائل ثابت ہوتے ہیں۔
مثلاً (1)
ایسے شخص کی اس کے سامنے تعریف کرنا جس کی طرف سے امن ہو کہ وہ خود پسندی میں مبتلا نہ ہوگا۔
(2)
اپنی بیویوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرنا۔
(3)
چھوٹے آدمی کو حق حاصل ہے کہ کسی اہم امر میں اپنے بڑوں کی طرف مراجعت کرے۔
(4)
کسی عمومی مسئلہ پر باہمی مشورہ کرنا۔
(5)
بڑوں کا ادب بہرحال بجا لانا جیسا کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کو دیکھ کر پیچھے ہٹنے لگے۔
(6)
نماز میں بکثرت رونا۔
(7)
بعض اوقات محض اشارے کا بولنے کے قائم مقام ہو جانا۔
(8)
نماز باجماعت کی تاکید شدید وغیرہ وغیرہ۔
(فتح الباری)
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم675٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
665٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
625٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
665٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
634٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
657٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
665٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
665١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
665 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × امام بخاری رحمہ اللہ کا اس عنوان سے مقصود بیماری کی اس حد کو بیان کرنا ہے جس کے پیش نظر مریض کو نماز باجماعت میں شریک ہونا چاہیے۔
اگر بیماری اس حد سے تجاوز کر جائے تو اس کا جماعت میں شریک ہونا ضروری نہیں۔
لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ مرض اور مریض کے حالات مختلف ہوتے ہیں، لہٰذا اس سلسلے میں کوئی ضابطہ بنانا مشکل ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کئی روز تک صاحب فراش رہے اور آپ اس دوران میں بہت سی نمازوں میں شریک نہیں ہوئے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 665   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.