الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
40. بَابُ الرُّخْصَةِ فِي الْمَطَرِ وَالْعِلَّةِ أَنْ يُصَلِّيَ فِي رَحْلِهِ:
40. باب: بارش اور کسی عذر کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھ لینے کی اجازت کا بیان۔
(40) Chapter. It is permissible to pray at one’s dwelling during rain or if there is a genuine excuse.
حدیث نمبر: 666
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن نافع، ان ابن عمر اذن بالصلاة في ليلة ذات برد وريح، ثم قال: الا صلوا في الرحال، ثم قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان يامر المؤذن إذا كانت ليلة ذات برد ومطر يقول الا صلوا في الرحال".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمّ قَالَ: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ يَقُولُ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا «ألا صلوا في الرحال‏» کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔

Narrated Nafi`: Once on a very cold and stormy night, Ibn `Umar pronounced the Adhan for the prayer and then said, "Pray in your homes." He (Ibn `Umar) added. "On very cold and rainy nights Allah's Apostle used to order the Mu'adh-dhin to say, 'Pray in your homes.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 635


   صحيح البخاري632عبد الله بن عمرصلوا في الرحال في الليلة الباردة أو المطيرة في السفر
   صحيح البخاري666عبد الله بن عمرصلوا في الرحال
   صحيح مسلم1601عبد الله بن عمرصلوا في رحالكم
   صحيح مسلم1600عبد الله بن عمرصلوا في الرحال
   سنن أبي داود1063عبد الله بن عمرصلوا في الرحال
   سنن أبي داود1062عبد الله بن عمرصلوا في رحالكم
   سنن أبي داود1061عبد الله بن عمرصلوا في رحالكم
   سنن أبي داود1060عبد الله بن عمرالصلاة في الرحال
   سنن النسائى الصغرى655عبد الله بن عمرصلوا في الرحال
   سنن ابن ماجه937عبد الله بن عمرصلوا في رحالكم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم75عبد الله بن عمرالا صلوا فى الرحال
   مسندالحميدي717عبد الله بن عمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 75  
´دوران بارش اذان کیسے کہی جائے`
«. . . وبه: ان ابن عمر اذن بالصلاة فى ليلة ذات برد وريح، فقال: الا صلوا فى الرحال، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يامر المؤذن إذا كانت ليلة باردة ذات مطر، يقول: الا صلوا فى الرحال . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (نافع تابعی سے) روایت ہے کہ ایک ٹھنڈی اور (تیز) ہوا والی رات سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان دی تو فرمایا: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں (گھروں) میں نماز پڑھو، پھر فرمایا: جب بارش والی ٹھنڈی رات ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ کہے: «ألا صلوا فى الرحال» سن لو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 75]

تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 666، ومسلم 697، من حديث مالك به]
تفقه:
① جب بارش ہو رہی ہو یا سخت سرد ہوا چل رہی ہو تو نماز باجماعت کے لئے مسجد میں جانا ضروری نہیں ہے۔
② بارش والے دن اذان کے بعد یہ اعلان کرنا جائز ہے کہ «صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ» لوگو! اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔
③ سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہ سفر میں اقامت کے علاوہ کچھ (اذان) نہیں کہتے تھے سواۓ صبح کے، وہ صبح کی اذان اور اقامت دونوں کہتے تھے اور فرماتے: اذان تو اس امام کے لئے ہوتی ہے جس کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ [الموطا 73/1 ح188، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ اذان کے بغیر اور صرف اقامت کے ساتھ بھی نماز باجماعت ہو جاتی ہے۔ اگر شرعی عذر نہ ہو تو سفر میں بھی اذان بہتر ہے۔ شہر اور گاؤں میں اذان اسلام کا شعار ہے۔
④ عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا: اگر تم سفر میں ہو تو تمہاری مرضی ہے کہ اذان اور اقامت کہو یا صرف اقامت کہہ دو اور اذان نہ دو۔ [الموطأ 1/73 ح156، وسنده صحيح]
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سواری پر اذان دینا جائز ہے۔ [الموطأ 74/1]
➎ سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے تھے: جو شخص بیاباں علاقے میں نماز پڑھے تو اس کی دائیں طرف ایک فرشتہ اور بائیں طرف ایک فرشتہ نماز پڑھتا ہے۔ اگر وہ اذان اور اقامت کہے یا (صرف) اقامت کہے تو پہاڑوں جتنے (بہت زیادہ) فرشتے اس کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں۔ [الموطا 74/1 ح 157، وسنده صحيح]
➏ ابراہیم نخعی نے کہا: بغیر وضو اذان دینا جائز ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 211/1 ح 2188، 2189 وهو صحيح]
⑦ ایک آدمی مسجد میں آیا اور نماز ہو چکی تھی تو وہ اقامت کہنے لگا-اسے عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے کہا: اقامت نہ کہو کیونکہ ہم نے اقامت کہہ دی ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/1ح2305وسندحسن]
⑧ مشہور تابعی اور مفسرِ قرآن امام مجاہد نے فرمایا: اگر تم اپنے گھر میں اقامت سن لو اور چاہو تو تمہارے لئے یہ کافی ہے۔ [ابن ابي شيبه 1/220 ح2296 وسنده حسن]
معلوم ہوا کہ انفرادی نماز اذان اور اقامت کے بغیر بھی جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 198   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 655  
´بارش کی رات میں جماعت میں نہ آنے کے لیے اذان کے طریقہ کا بیان۔`
نافع روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہم نے ایک سرد اور ہوا والی رات میں نماز کے لیے اذان دی، تو انہوں نے کہا: «ألا صلوا في الرحال» لوگو سنو! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سرد بارش والی رات ہوتی تو مؤذن کو حکم دیتے تو وہ کہتا: «ألا صلوا في الرحال» لوگو سنو! (اپنے) گھروں میں نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 655]
655 ۔ اردو حاشیہ: گھروں میں نماز پڑھ لو۔ کے اعلان سے معلوم ہوا کہ بارش وغیرہ میں دو نمازوں کو اکٹھا کرنے کی بجائے یہ اعلان کر دینا زیادہ صحیح ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمع کرنے کی بجائے گھروں میں نماز پڑھنے کی رخصت عنایت فرما دی ہے، پھر جمع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اگرچہ بعض روایات کے مفہوم «مِنْ غيرِ خوفٍ ولا مطَرٍ» اور بعض صحابہ سے ایسے موقع پر جمع کرنے کا ثبوت ملتا ہے جس سے اس کے جواز میں شک نہیں رہتا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بارش کے موقع پر جمع کرنے کی بجائے رخصت کے اعلان ہی کا ثبوت ملتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 655   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1060  
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
نافع سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما وادی ضجنان میں ایک سرد رات میں اترے اور منادی کو حکم دیا اور اس نے آواز لگائی: لوگو! اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، ایوب کہتے ہیں: اور ہم سے نافع نے عبداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سردی یا بارش کی رات ہوتی تو منادی کو حکم دیتے تو وہ «الصلاة في الرحال» لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو کا اعلان کرتا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1060]
1060. اردو حاشیہ:
ایسا اعلان کر دینا مسنون ہے اور نمازیوں کے لئے مسجد میں نہ آنے کی رخصت ہے، لیکن اگر کوئی آنا چاہے تو اس کے لئے فضیلت ہے۔ جیسے آئندہ احادیث سے واضح ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1060   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1061  
´سرد رات یا بارش والی رات میں جماعت میں حاضر نہ ہونے کا بیان۔`
نافع کہتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے وادی ضجنان میں نماز کے لیے اذان دی، پھر اعلان کیا کہ لوگو! تم لوگ اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو، اس میں ہے کہ پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث نقل کی کہ آپ سفر میں سردی یا بارش کی رات میں منادی کو حکم فرماتے تو وہ نماز کے لیے اذان دیتا پھر وہ اعلان کرتا کہ لوگو! اپنے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن سلمہ نے ایوب اور عبیداللہ سے روایت کیا ہے اس میں «في الليلة الباردة وفي الليلة المطيرة في السفر» کے بجائے «في السفر في الليلة القرة أو المطيرة» کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1061]
1061۔ اردو حاشیہ:
اکثر روایات میں گھروں میں نماز پڑھنے کے اعلان کا تعلق سفر سے بتلایا گیا ہے، لیکن بعض روایات میں مطلقاً بھی آیا ہے۔ اس اعتبار سے اس اعلان کا تعلق سفر سے نہیں ہے بلکہ مطلق ہے۔ یعنی ہر جگہ حسب ضرورت اذان میں مذکورہ الفاظ کے ذریعے سے گھروں میں نماز پڑھنے کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1061   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:666  
666. حضرت نافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد اور تیز آندھی کی رات کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اذان دی، پھر کہا: لوگو! اپنے اپنے گھر میں نماز پڑھ لو۔ اس کے بعد فرمایا: جب کبھی شب بادو باراں کا سامنا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ (ألا صلوا فى الرحال) کہہ دے، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لینے کا اعلان کر دے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:666]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلے حدیث: 616 میں گزرا ہے کہ (اَلَا صلوا في الرحال)
کے الفاظ اذان کے دوران میں کہے گئے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان مکمل کہنے کہ بعد یہ الفاظ اداکیے۔
ان دونوں روایات سے پتا چلتا ہے کہ (اَلَا صلوا في الرحال)
کے الفاظ کہنے میں توسع ہے، یعنی دوران اذان میں بھی کہے جاسکتے ہیں اور اذان مکمل ہونے کہ بعد بھی یہ الفاظ کہنے کی گنجائش ہے۔
(شرح الکرمانی: 2/53)
علامہ عینی ابن حبان کے حوالے سے لکھا ہے کہ مختلف احادیث کے پیش نظر دس عذر ایسے ہیں جو نماز باجماعت میں شرکت کرنے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ شدید بیماری٭ کھانے کا سامنے آجانا، جب بھوک لگی ہو٭ سہوونسیان٭ غیر معمولی فربہی، یعنی موٹاپا٭تقاضائے بول و براز٭ راستہ میں مال وجان کا خطرہ٭سخت سردی٭ تکلیف دہ بارش٭ زیادہ تاریکی جس میں آنا جانا دشوار ہو٭لہسن، پیاز، اور مولی وغیرہ کا استعمال جس سے ناگوار بو آتی ہو۔
(عمدۃ القاری: 4/274)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. الأذان في السفر (العبادات)
2. ترك الجماعة للبرد والمطر (العبادات)
موضوعات 1. سفر میں اذان کہنا (عبادات)
2. سردی اور بارش کی وجہ سے جماعت چھوڑنا (عبادات)
Topics 1. Saying Adhaan during journey (Prayers/Ibadaat)
2. Leaving congregation because of cold and rain (Prayers/Ibadaat)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/666 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
حضرت نافع ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرد اور تیز آندھی کی رات کو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے اذان دی، پھر کہا:
لوگو! اپنے اپنے گھر میں نماز پڑھ لو۔
اس کے بعد فرمایا:
جب کبھی شب بادو باراں کا سامنا ہوتا تو رسول اللہ ﷺ مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ (ألا صلوا فى الرحال)
کہہ دے، یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لینے کا اعلان کر دے۔
حدیث حاشیہ:
(1)
اس سے پہلے حدیث: 616 میں گزرا ہے کہ (اَلَا صلوا في الرحال)
کے الفاظ اذان کے دوران میں کہے گئے جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اذان مکمل کہنے کہ بعد یہ الفاظ اداکیے۔
ان دونوں روایات سے پتا چلتا ہے کہ (اَلَا صلوا في الرحال)
کے الفاظ کہنے میں توسع ہے، یعنی دوران اذان میں بھی کہے جاسکتے ہیں اور اذان مکمل ہونے کہ بعد بھی یہ الفاظ کہنے کی گنجائش ہے۔
(شرح الکرمانی: 2/53)
علامہ عینی ابن حبان کے حوالے سے لکھا ہے کہ مختلف احادیث کے پیش نظر دس عذر ایسے ہیں جو نماز باجماعت میں شرکت کرنے سے رکاوٹ بن سکتے ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
٭ شدید بیماری٭ کھانے کا سامنے آجانا، جب بھوک لگی ہو٭ سہوونسیان٭ غیر معمولی فربہی، یعنی موٹاپا٭تقاضائے بول و براز٭ راستہ میں مال وجان کا خطرہ٭سخت سردی٭ تکلیف دہ بارش٭ زیادہ تاریکی جس میں آنا جانا دشوار ہو٭لہسن، پیاز، اور مولی وغیرہ کا استعمال جس سے ناگوار بو آتی ہو۔
(عمدۃ القاری: 4/274)
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر یوں پکار کر کہہ دیا کہ لوگو! اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
پھر فرمایا کہ نبی کریم ﷺ سردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگو اپنی قیام گاہوں پر ہی نماز پڑھ لو۔
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
Narrated Nafi':
Once on a very cold and stormy night, Ibn 'Umar (RA)
pronounced the Adhan for the prayer and then said, "Pray in your homes." He (Ibn 'Umar (RA)
added. "On very cold and rainy nights Allah's Apostle (ﷺ) used to order the Mu'adhdhin to say, 'Pray in your homes.' " حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم676٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
666٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
626٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
666٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
635٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
658٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
666٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
666١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
666 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × اذان کے لغوی معنی اعلان کرنے اور اطلاع دینے کے ہیں۔
شریعت کی اصطلاح میں مخصوص اوقات میں مخصوص الفاظ کے ساتھ نماز کے وقت کا اعلان کرنا اذان کہلاتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے علامہ قرطبی رحمہ اللہ کے حوالے سے لکھا ہے:
اذان مختصر ہونے کے باوجود عقیدے سے متعلق بڑے اہم مسائل پر مشتمل ہے کیونکہ اس کا آغاز الله اكبر سے ہوتا ہے۔
اس جملے میں ذات باری تعالیٰ کی کبریائی،اس کے وجود اور اس کی کمال عظمت کی زبردست دلیل ہے،پھر شرک کا انکار اور توحید کا اثبات، پھر رسالت کی گواہی دی جاتی ہے۔
اس کے بعد ایک مخصوص اطاعت،یعنی نماز کی دعوت دی جاتی ہے جس کے متعلق جملہ ہدایات رسول ہی سے مل سکتی ہیں،پھر فلاح کی دعوت جو در حقیقت بقاودوام،یعنی یوم آخرت سے عبارت ہے،پھرکلماتِ اذان میں میں تکرارا ہے جو ایک بندۂ مسلم کے لیے تجدید ایمان کا باعث ہے تاکہ نماز کا آغاز ایمان کامل سے ہو۔
اذان میں اوقات نماز کی اطلاع کے علاوہ کئی ایک فوائد ہیں جن میں نماز باجماعت کی دعوت اور شعائر اسلام کا اظہار سر فہرست ہیں۔
اذان میں کسی کام کو بطور علامت ٹھہرانے کے بجائے صرف چند کلمات کہنے کو اختیار کیا گیا ہے کیونکہ کام کرنے میں بعض اوقات رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے لیکن قول کے ذریعے سے ہر وقت اور ہر جگہ اعلان کیا جاسکتا ہے۔
اس میں علمائے امت کا اختلاف ہے کہ ازان دینے اور امامت کرانے میں کون سا عمل بہتر ہے؟راجح بات یہ ہے کہ اگر انسان کو خود پر اعتماد ہو کہ وہ امامت کے فرائض ادا کرنے میں کوتاہی کا مرتکب نہیں ہوگا تو ایسے انسان کے لیے امامت افضل ہے،بصورت دیگر اذان دینے میں برتری ہے۔
ان دونوں کو جمع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بایں الفاظ اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر میں خلافت کے ساتھ ساتھ اذان دینے کی اپنے اندر ہمت پاؤں تو اذان دینے کی ڈیوٹی ضرور ادا کروں۔
(فتح الباری: 2/102)
چونکہ اذان کے ذریعے سے شعائر اسلام کا اظہار مقصود ہے،اس لیے چاہیے کہ اذان بلند آواز اور دلکش انداز میں کہی جائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب المواقیت کے بعد کتاب الاذان کو اس لیے بیان کیا ہے کہ اذان سے بھی اوقات نماز کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔
چونکہ اذان،جماعت کے لیے کہی جاتی ہے،اس لیے اذان کے زیر عنوان نماز کے مسائل اور جماعت کے احکام بھی بیان کردیے ہیں۔
اگرچہ نماز مکہ مکرمہ میں فرض ہوچکی تھی لیکن کفار قریش کے ظلم وستم کے باعث اذان کے ذریعے سے اس کی تشہیر ممکن نہ تھی۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تو سب سے پہلے نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد تعمیر کی، پھر ضرورت محسوس ہوئی کہ لوگوں کو جماعت کے وقت سے آگاہ کرنے کے لیے کوئی خاطر خواہ طریقہ اختیار کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مشورہ فرمایا۔
کسی نے کہا کہ بلند جگہ پر آگ روشن کردی جائے،بعض حضرات نے بوق،یعنی نرسنگھا پھونکنے کا مشورہ دیا جبکہ کچھ حضرات ناقوس بجانے کے حق میں تھے۔
چونکہ ان کاموں کے بجالانے میں مجوس اور یہودونصاریٰ سے مشابہت ہوتی تھی،اس لیے آپ نے انھیں ناپسند فرمایا۔
کسی نے یہ مشورہ دیا کہ اس کے لیے بطور علامت کوئی خاص جھنڈا بلند کردیا جائے،لیکن یہ تدبیر اس لیے کار گر نہ تھی کہ اپنی ضروریات میں مصروف انسان جھنڈے کو دیکھنے کی فرصت کیسے پاسکے گا،الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان میں سے کسی بات پر بھی اطمینان نہ ہوا۔
آخر کار اللہ تعالیٰ نے خواب کے ذریعے سے اس اہم کام کےلیے بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی رہنمائی فرمائی۔
جب انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنی خواہش پیش کی تو آپ نے ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرمایا:
"ان شاء اللہ یہ خواب برحق ہے۔
"کیونکہ یہ خواب سننے سے پہلے آپ کو بھی بذریعۂ وحی مطلع کردیا گیا تھا۔
اس دن سے اوقات نماز کے لیے اذان دینے کا یہ نطام قاہم ہوا جو آج تک دین اسلام اور امت مسلمہ کا ایک خاص شعار اور امتیازی نشان ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان جیسے مرکزی عنوان کے تحت 166 چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔
ہم انھیں تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
٭ اذان اور اس کے متعلقات:
اس میں آغاز اذان،طریقۂ اذان،فضیلت اذان،اہمیت اذان،جواب اذان،دعائے اذان اور مسائل اذان بیان کیے ہیں۔
یہ سلسلہ باب نمبر ایک سے لے کر باب نمبر انیس تک ہے۔
٭ دعوت اذان اور اس کے متعلقات:
اس میں نماز باجماعت کی اہمیت،نماز باجماعت کا وجوب،نماز باجماعت کی فضیلت،نماز باجماعت کے آداب اور امامت کی شرائط،پھر جماعت کی مناسبت سے صف اول،صف بندی اور اس کی اہمیت و فضیلت اور اس کا طریقۂ کار ذکر کیا ہے۔
یہ سلسلہ باب نمبر بیس تا باب نمبر اکیاسی ہے۔
٭ طریقۂ نماز اور اس کے متعلقات:
یہ حصہ انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں نماز ادا کرنے کا مکمل طریقہ،یعنی تکبیر تحریمہ سے لےکر سلام پھیرنے تک کے مسائل بڑی شرح اور تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں،پھر نماز کے بعد مسنون اذکار اور ادعیۂ ماثورہ کا بیان ہے۔
آخر میں متفرق احکام ہیں کہ مسجد اور نماز سے متعلق عام لوگوں،عورتوں اور بچوں کا کیا کردار ہونا چاہیے۔
یہ سلسلہ باب نمبر بیاسی سے لےکر باب نمبر ایک سو چھیاسٹھ تک چلتا ہے۔
واضح رہے کہ بنو امیہ کے حکمرانوں نے نماز کے ساتھ جو برتاؤ کیا تھا اسے دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ خون کے آنسو رویا کرتے تھے۔
دراصل اس برتاؤ کے پس منطر میں ان حضرات کے سیاسی مفادات وابستہ تھے،لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے دور میں اس امت کے احبارورہبان نے جس انداز سے نماز کو تختۂ مشق بنایا وہ انتہائی قابل افسوس اور لائق ملامت تھاکیونکہ اس کی تہہ میں ان کا مقصود اپنے مذہبی رہنماؤں کے اجتہادات کو تحفظ دینا تھا۔
نماز سے متعلقہ استخراج مسائل اور استنباط احکام کا جو نقشہ ان حضرات نے پیش کیا وہ انتہائی بھیانک اور خوفناک تھا۔
چونکہ ارشاد نبوی ہے:
تم اس طرح نمازپڑھو جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
"(صحیح البخاری، الاذان، حدیث: 631)
اس لیے ضرورت تھی کہ نماز نبوی کی صحیح تصویر کشی کی جائے۔
اس پہلو سے امام بخاری رحمہ اللہ کا امت پر بہت بڑا احسان ہے کہ انھوں نے ان ابواب میں کسی قسم کے اضافے اور ترمیم کے بغیر نماز نبوی کا بڑا حسین اور دلآویز نقشہ پیش کیا ہے،گویا وہ مذکورہ بالا ارشاد نبوی کی جیتی جاگتی اور زندہ تصویر ہے۔
اس کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز سے متعلق اسرارو موز کو بیان فرمایا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ اخلاص نیت،صدق دل،چشم بینا اور گوش ہوش سے ان ابواب کا مطالعہ کریں،نیز دوران مطالعہ ہماری معروضات بھی پیش نطر رکھیں تاکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی دقت نظر،وسعت علم،اصابتِ رائے اور قوت استدلال کا اعتراف کرنے میں کوئی امر مانع نہ ہو۔
یاد رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مرکزی عنوان کے تحت کل 349 مرفوع احادیث بیان کی ہیں جن میں 70 معلق (بےسند)
روایات اور 279 متصل احادیث ہیں۔
ان تمام روایات میں 218 مکرر اور باقی 131 خالص احادیث ہیں۔
اس کے علاوہ آپ نے 41 آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی بیان فرمائے ہیں۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے استفادہ کرنے،پھر ان پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
(آمين)
والله المستعان وهو يهدي من يشاء الي صراط مستقيم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 666   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.