الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
12. بَابُ مَنْ جَعَلَ لأَهْلِ الْعِلْمِ أَيَّامًا مَعْلُومَةً:
12. باب: اس بارے میں کہ کوئی شخص اہل علم کے لیے کچھ دن مقرر کر دے (تو یہ جائز ہے) یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لیے اوقات مقرر کر سکتا ہے۔
(12) Chapter. Whoever fixed a special day for giving (a religious talk) to the students.
حدیث نمبر: 70
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، قال: حدثنا جرير، عن منصور، عن ابي وائل، قال:" كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس، فقال له رجل: يا ابا عبد الرحمن، لوددت انك ذكرتنا كل يوم، قال: اما إنه يمنعني من ذلك اني اكره ان املكم، وإني اتخولكم بالموعظة كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها مخافة السآمة علينا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ:" كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ (ابن مسعود) رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔ انہوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہو جاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔


Hum se Uthman bin Abi Shaibah ne bayan kiya, un se Jareer ne Mansoor ke waaste se naql kiya, woh Abu Waail se riwayat karte hain ke Abdullah (Ibn-e-Mas’ood) Radhiallahu Anhu har Jume’raat ke din logon ko waaz sunaaya karte the. Ek aadmi ne un se kaha aye Abu Abdur Rahman! Main chaahta hun ke tum hamein har roz waaz sunaaya karo. Unhon ne farmaaya, to sun lo ke mujhe is amr se koi cheez maane’ hai to yeh ke main yeh baat pasand nahi karta ke kahin tum tang na ho jaao aur main waaz mein tumhaari fursat ka waqt talaash kiya karta hun jaisa ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam is khayaal se ke hum kabeedah khaatir na ho jaayen, waaz ke liye hamaare auqaat-e-fursat ka khayaal rakhte the.

Narrated Abu Wail: `Abdullah used to give a religious talk to the people on every Thursday. Once a man said, "O Aba `Abdur-Rahman! (By Allah) I wish if you could preach us daily." He replied, "The only thing which prevents me from doing so, is that I hate to bore you, and no doubt I take care of you in preaching by selecting a suitable time just as the Prophet used to do with us, for fear of making us bored."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 70


   صحيح البخاري70عبد الله بن مسعوديتخولنا بها مخافة السآمة علينا
   صحيح البخاري68عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام كراهة السآمة علينا
   صحيح البخاري6411عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام كراهية السامة علينا
   صحيح مسلم7129عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام مخافة السآمة علينا
   جامع الترمذي2855عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الأيام مخافة السآمة علينا
   مشكوة المصابيح207عبد الله بن مسعوديتخولنا بها مخافة السآمة علينا
   صحيح مسلم 7127عبد الله بن مسعوديتخولنا بالموعظة في الايام مخافة السآمة علينا
   مسندالحميدي107عبد الله بن مسعودكان يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهة السآمة علينا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 70  
´اساتذہ کو چاہیے کہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں`
«. . . كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 70]

تشریح:
احادیث بالا اور اس باب سے مقصود اساتذہ کو یہ بتلانا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں، تعلیم میں اس قدر انہماک اور شدت صحیح نہیں کہ طلباءکے دماغ تھک جائیں اور وہ اپنے اندر بے دلی اور کم رغبتی محسوس کرنے لگ جائیں۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے درس و مواعظ کے لیے ہفتہ میں صرف جمعرات کا دن مقرر کر رکھا تھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل عبادت اتنی نہ کی جائے کہ دل میں بے رغبتی اور ملال پیدا ہو۔ بہرحال اصول تعلیم یہ ہے کہ «يسروا والاتعسروا وبشروا ولاتنفروا»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 207  
´روزانہ وعظ و نصیحت سے گریز`
«. . . ‏‏‏‏وَعَن شَقِيق: كَانَ عبد الله يُذَكِّرُ النَّاسَ فِي كُلِّ خَمِيسٍ فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَوَدِدْتُ أَنَّكَ ذكرتنا كُلِّ يَوْمٍ قَالَ أَمَا إِنَّهُ يَمْنَعُنِي مِنْ ذَلِكَ أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ وَإِنِّي أَتَخَوَّلُكُمْ بِالْمَوْعِظَةِ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَوَّلُنَا بِهَا مَخَافَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا . . .»
. . . سیدنا شقیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہفتے میں ہر جمرات کو وعظ اور نصیحت کیا کرتے تھے۔ ایک دن ایک صاحب نے ان سے کہا کہ اے ابوعبد الرحمن! ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں ہر روز نصیحت فرماتے رہیں۔ اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ (ایسا میں کر سکتا ہوں) لیکن اس طرح کرنے سے یہ چیز مانع ہے کے میں تمہں پریشانی میں ڈال دوں گا۔ اور یہ مجھے پسند نہیں ہے کہ تم کو ملال میں ڈال دوں۔ (کیونکہ تم روزانہ وعظ سنتے سنتے اکتا کر وعظ سننا چھوڑ دو گے) میں تمہں اس معاملے میں اس طرح رعایت اور خبرگیری رکھتا ہوں۔ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری خبرگیری کرتے تھے اور ہمارے اکتا جانے کا اندیشہ سے خاص رعایت و لحاظ فرماتے تھے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 207]

تخريج الحدیث:
[صحيح بخاري 70]،
[صحيح مسلم 7127]

فقہ الحدیث:
➊ وعظ و نصیحت کی طوالت اور اختصار میں موقع محل اور عام سامعین کا خیال رکھنا مسنون ہے۔
➋ دعوتی تقاریر اور تبلیغ کے لئے کوئی دن مخصوص کر لینا جائز ہے۔
➌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔
➍ جو لوگ ساری ساری رات یا رات کے بہت زیادہ حصے میں دھواں دھار تقریریں کرتے رہتے ہیں اور پھر صبح کی نماز سے غافل ہو کر سو جاتے ہیں، ان کا یہ عمل غلط اور قابل مذمت ہے۔
➎ سائل کے سوال کا جواب دلیل سے دینا چاہئے۔
➏ اگر کوئی پوچھے کہ حدیث مذکور میں سائل سے مراد کون ہیں؟ تو عرض ہے کہ ان سے مراد مشہور زاہد و عابد یزید بن معاویہ النخعی ہیں جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اشارہ کیا ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 1؍164 ح70]
یاد رہے کہ یہ مشہور یزید بن معاویہ الاموی کے علاوہ دوسرے شخص تھے، ان کی روایتیں کتاب الزہد للامام أحمد وغیرہ (اور ان کا ذکر صحیح بخاری میں جیسا کہ تقریب التہذیب: 7776 میں ہے) میں موجود ہیں اور قاضی ابوبکر بن العربی المالکی کو اپنی کتاب العواصم من القواصم [ص232۔ 233] میں عجیب غلطی لگی تھی۔ وہ یزید بن معاویہ النخعی کو یزید بن معاویہ الاموی سمجھ بیٹھے، حالانکہ ایسا سمجھنا بالکل غلط ہے۔ ديكهئے: [كتاب الزهد للامام أحمد ص367 ح2150]
◄ قاضی ابوبکر نے کتاب الزہد کی طرف جو روایت منسوب کی ہے وہ اصل کتاب میں نہیں ملی اور نہ دنیا کی کسی کتاب میں امام احمد کی سند سے ملی ہے۔
یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا درج ذیل قول علامہ ابن الجوزی نے نقل کیا ہے:
«فأنبأنا أبوبكر محمد بن عبدالباقي البزاز عن أبى إسحاق البرمكي عن أبى بكر عبدالعزيز بن جعفر قال: ثنا مهنا بن يحييٰ قال: سألت أحمد عن يزيد بن معاوية فقال: هو الذى فعل بالمدينة ما فعل. قلت: وما فعل؟ قال: نهبها، قلت: فنذكر عنه الحديث؟ قال: لا يذكر عنه الحديث ولا ينبغي لأحد أن يكتب عنه حديثًا. قلت: ومن كان معه حين فعل ما فعل؟ قال: أهل الشام» [الرد على المتعصب العنيد المانع من ذم يزيد لابن الجوزي ص4۔ وسنده حسن]
اس روایت کی سند حسن ہے۔
محمد بن عبدالباقی بن محمد بن عبداللہ الانصاری قاضی مرستان جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔ نیز دیکھئے: [سير اعلام النبلاء 2۔ ؍23۔ 28]
◄ انھیں ابن الجوزی نے (ثقہ) «ثبت حجة» قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [المنتظم 18؍14، وفيات 535ه] اور [سير اعلام النبلاء 2۔ ؍26] ابواسحاق البرمکی صدوق تھے۔ [تاريخ بغداد 6؍139]
◄ محمد بن عبدالباقی کی ان سے روایت بطریقہ سماع نہیں بلکہ بطریقہ اجازت ہے جو کہ جمہور محدثین کے اصول سے مقبول ہے۔ عبدالعزیز بن جعفر روایت میں ثقہ تھے۔ ديكهئے: [سير اعلام النبلاء 16؍144]
◄ مھنا بن یحییٰ جمہور کے نزدیک موثق ہونے کی وجہ سے حسن الحدیث تھے۔
تنبیہ: امام احمد کا یہ قول [السنة للخلال فقره: 845 وسنده صحيح] میں بھی صحیح سند سے موجود ہے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 207   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2855  
´فصاحت و بیان کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو وعظ و نصیحت کا سلسلے میں اوقات کا خیال کیا کرتے تھے، اس ڈر سے کہ کہیں ہم پر اکتاہٹ طاری نہ ہو جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2855]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ وعظ ونصیحت کے لیے وقفے وقفے کے ساتھ کچھ وقت مقررکرنا چاہئے،
کیونکہ ایسا نہ کرنے سے لوگوں پر اکتاہٹ طاری ہونے کا خطرہ ہے جس سے وعظ ونصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2855   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:70  
70. حضرت ابو وائل سے روایت ہے، انہوں نے کہا: عبداللہ بن مسعود ؓ ہر جمعرات لوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے۔ ایک شخص نے ان سے عرض کیا: اے عبدالرحمٰن! میں چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ و نصیحت فرمایا کریں۔ آپ نے فرمایا: مجھے اس کام سے یہ چیز مانع ہے کہ میں تمہیں اکتاہٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا اور میں پندونصیحت میں تمہارے جذبات کا خیال رکھتا ہوں جس طرح نبی ﷺ وعظ کرتے وقت ہمارے جذبات کا خیال رکھتے تھے تاکہ ہم اُکتا نہ جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:70]
حدیث حاشیہ:

تعلیمی نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے اوقات تعلیم کی تقسیم اور تعیین ضروری ہے، اسی طرح وعظ و نصیحت کے لیے اگر کوئی دن مقرر کر لیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ اسے بدعت ہی کہا جا سکتا ہے، بلکہ ایسا کرنا ضروری ہے تاکہ معلمین اور متعلمین کا تعلیمی وقت ضائع نہ ہو۔
اگر اوقات کی تعیین نہ ہوتو ممکن ہے کہ استاد تو موجود ہو لیکن طلباء لاپتہ ہوں یا طلباء تو حاضر ہوں لیکن معلم حضرات غائب ہوں لہٰذا تعلیمی انتظام کے لیے ایام کی تعیین میں کوئی حرج نہیں، اس کی بنیاد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں قائم ہو چکی تھی اور اعیان صحابہ بھی اس پر عمل پیرا رہے ہیں۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مدعا ثابت کرنے کے لیے ایک موقوف حدیث کا سہارا لیا ہے لیکن چونکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے استنباط کیا ہے اس لیے دن کی تعیین کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 70   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.