الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فتنوں کے بیان میں
The Book of Al-Fitan
8. بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا، يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ»:
8. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا ”میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا“۔
(8) Chapter. The statement of Prophet (p.b.u.h.): “Do not renegade as disbelievers after me by striking (cutting) the neck of one another.”
حدیث نمبر: 7080
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن علي بن مدرك، سمعت ابا زرعة بن عمرو بن جرير، عن جده جرير، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع:" استنصت الناس، ثم قال: لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُدْرِكٍ، سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ جَدِّهِ جَرِيرٍ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ:" اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، ثُمَّ قَالَ: لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے علی بن مدرک نے بیان کیا، کہا میں نے ابوزرعہ بن عمرو بن جریر سے سنا، ان سے ان کے دادا جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا کہ لوگوں کو خاموش کر دو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم ایک دوسرے کی گردن مارنے لگ جاؤ۔

Narrated Jarir: The Prophet said to me during Hajjat-al-Wada`, "Let the people keep quiet and listen." Then he said (addressing the people), "Beware! Do not renegade as disbelievers after me by striking (cutting) the necks of one another."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 201


   صحيح البخاري4405جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري6869جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري7080جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   صحيح البخاري121جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   سنن النسائى الصغرى4137جرير بن عبد اللهترجعون بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   سنن النسائى الصغرى4136جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض
   سنن ابن ماجه3942جرير بن عبد اللهلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 121  
´عالموں کی بات خاموشی سے سننا ضروری ہے`
«. . . عَنْ جَرِيرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ: اسْتَنْصِتِ النَّاسَ، فَقَالَ: لَا تَرْجِعُوا بَعْدِي كُفَّارًا يَضْرِبُ بَعْضُكُمْ رِقَابَ بَعْضٍ . . .»
. . . جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ لوگوں کو بالکل خاموش کر دو (تاکہ وہ خوب سن لیں) پھر فرمایا، لوگو! میرے بعد پھر کافر مت بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ الإِنْصَاتِ لِلْعُلَمَاءِ: 121]

تشریح:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحتیں فرمانے سے پہلے جریر کو حکم دیا کہ لوگوں کو توجہ سے بات سننے کے لیے خاموش کریں، باب کا یہی منشا ہے کہ شاگرد کا فرض ہے استاد کی تقریر خاموشی اور توجہ کے ساتھ سنے۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ 10ھ میں حجۃ الوداع سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے، کافر بن جانے سے مراد کافروں کے سے فعل کرنا مراد ہے۔ کیونکہ ناحق خون ریزی مسلمان کا شیوہ نہیں۔ مگر صد افسوس کہ تھوڑے ہی دنوں بعد امت میں فتنے فساد شروع ہو گئے جو آج تک جاری ہیں، امت میں سے سب سے بڑا فتنہ ائمہ کی تقلید محض کے نام پر افتراق و انتشار پیدا کرنا ہے۔ مقلدین زبان سے چاروں اماموں کو برحق کہتے ہیں۔ مگر پھر بھی آپس میں اس طرح لڑتے جھگڑتے ہیں گویا ان سب کا دین جدا جدا ہے۔ تقلید جامد سے بچنے والوں کو غیر مقلد لامذہب کے ناموں سے یاد کرتے ہیں اور ان کی تحقیر و توہین کرنا کارثواب جانتے ہیں۔ «والي الله المشتكيٰ»
اقبال مرحوم نے سچ فرمایا:
«اگر تقلید بودے شیوہ خوب . . . پیغمبر ہم رہ اجداد نہ رفتے»
یعنی تقلید کا شیوہ اگر اچھا ہوتا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے باپ دادا کی راہ پر چلتے مگر آپ نے اس روش کی مذمت فرمائی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 121   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7080  
7080. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: لوگوں کو خاموش کراؤ۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7080]
حدیث حاشیہ:
قرون خیر میں ان احادیث نبوی کو بھلا دیا گیا اور جو بھی خانہ جنگیاں ہوئی ہیں وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے بے حد افسوس ناک ہیں۔
آج چودھویں صدی کا خاتمہ ہے مگر ان باہمی خانہ جنگیوں کی یاد تازہ ہے بعد میں تقلیدی مذاہب نے بھی باہمی خانہ جنگی کو بہت طول دیا۔
یہاں تک کہ خانہ کعبہ کو چار حصوں میں تقسیم کر لیا گیا اور ابھی تک یہ جھگڑے باقی ہیں۔
اللہ امت کو نیک سمجھ عطا کرے‘ آمین یا رب العالمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7080   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3942  
´(فرمان نبوی) تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ان کی طرح ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو۔`
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا: لوگوں کو خاموش کرو پھر فرمایا: تم لوگ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے بعض بعض کی گردن مارنے لگے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3942]
اردو حاشہ:
  فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ شخصیت کی بات سننے کے لیے خاموشی اختیار کرنا اور بات کرنے والوں کو خاموش کرانا احترام کا تقاضہ بھی ہے اور اس کی نصیحت سے مستفید ہونے کے لیے شرط بھی۔

(2)
مسلمانوں کو آپس کے اختلافات افہام و تفہیم سے طے کرنے چاہیئں اسلحہ کے زور پر نہیں۔

(3)
مسلمانوں کا باہمی اتفاق اللہ کا عظیم احسان ہے جیساکہ ارشاد ہے:
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا ۗ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ﴾  (آل عمران 3/ 103)
 تم پر اللہ کی جو نعمت ہوئی اسے یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر اللہ نے تمھارے دلوں میں محبت ڈال دی اور تم اس کے احسان سے بھائی (بھائی)
بن گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر اس نے تمھیں اس میں گرنے سے بچالیا۔

(4)
مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں محبت پیدا کرنے والی چیزوں کو اختیار کریں مثلاً:
ایک دوسرے کو سلام کرنا، نماز باجماعت میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا اور صفیں سیدھی رکھنا وغیرہ۔
اور ایسے کاموں سے پرہیز کریں جو اختلاف اور دشمنی پیدا کرنے والے ہیں مثلاً:
کسی کی بے عزتی کرنا، ظلم زیادتی گالی اور غیبت وغیرہ۔

(5)
قتل وغارت بہت بڑا جرم ہے جو مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3942   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7080  
7080. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا: لوگوں کو خاموش کراؤ۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7080]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مقصد یہ تھا کہ آپس میں لڑنا جھگڑنا اور جنگ وقتال کرنا مسلمانوں کا شیوہ نہیں، یہ کافروں کا طریقہ ہے۔
مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس سے کلی طور پر پرہیز کریں، لیکن مسلمانوں نے بہت جلد اس پیغام کو بھلا دیا۔
قرون اولیٰ میں جو بھی خانہ جنگی ہوئی ہے اور مسلمانوں کا ناحق خون بہا ہے، وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کے لیے انتہائی افسوس ناک اور تکلیف دہ ہے، حالانکہ فتنے کے دور میں گوشہ نشینی میں عافیت تھی جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان جیسے دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے یہ موقف اختیار کیا جیسا کہ درج ذیل حدیث میں ہے:
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
آئندہ دور میں فتنے رونما ہوں گے ان میں بیٹھ رہنے والا چلنے والے سے بہتر ہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہترہوگا اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہوگا۔
ایسے حالات میں اگر کسی کے پاس اونٹ ہیں تو ان کی دیکھ بھال میں لگ جائے اور اگر کسی کے پاس بکریاں ہیں تو ان کے باڑے میں پناہ گزیں ہو جائے۔
اگرکسی کے پاس زمین ہے تو وہاں چلا جائے۔
ایک آدمی نے کہا:
اگر کسی کے پاس اونٹ، بکریاں اور زمین نہ ہوتو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وہ اپنی تلوار پتھر پر مار کرخراب کر لے، پھر ایسے فتنوں سے خود کو محفوظ کرے۔
ایک شخص نے کہا:
اگر مجھے مجبور کر کے کسی صف یا کسی جماعت کے ساتھ کھڑا کر دیا جائے اور مجھے کوئی تلوار یا تیر سے قتل کر دے تو؟ آپ نے فرمایا:
اس نے تیرا اور اپنا گناہ سمیٹ لیا اور وہ جہنم رسید ہوا۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7250(288)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7080   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.