علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1285
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس بندے کو حاکم بنا کر رعیت اس کے سپرد کر دی جائے اگر اسے ایسی حالت میں موت آئے کہ رعیت و عوام میں خیانت کا ارتکاب کرتا رہا ہو تو ایسے حاکم پر اللہ تعالیٰ اپنی جنت حرام کر دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1285»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأحكام، باب من استرعي رعية فلم ينصح، حديث:7150، ومسلم، الإيمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعيته النار، حديث:142.»
تشریح:
1. سربراہ مملکت اور امیر کو چاہیے کہ اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے‘ ہر ایک کو انصاف مہیا کرے‘ کسی سے ناانصافی نہ کرے اور نہ دوسرے سے ناانصافی ہونے دے‘ ان کے کاموں میں آسانی اور نرمی پیدا کرے‘ انھیں مشکلات اور مشقتوں میں نہ ڈالے‘ عوام کے معمولی قصور پر مؤاخذہ نہ کرے‘ درگزر اور معافی کا رویہ اپنائے‘ انھیں حتی الوسع ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرے‘ ان کے مال پر ہاتھ صاف نہ کرے‘ان کی عزت و ناموس پر ڈاکہ نہ ڈالے‘ ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کا جینا دشوار نہ کرے اور انھیں چوروں‘ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں سے تحفظ مہیا کرے۔
او ر اگر وہ اس کے برعکس عوام کا خون چوستا ہے تو ایسے حاکموں کے لیے اس حدیث میں شدید وعید ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی جنت میں داخل نہیں فرمائے گا۔
2.جنت کا حرام ہونا صاف بتا رہا ہے کہ رعیت کو دھوکا دینا گناہ کبیرہ ہے‘ اس لیے اگر حاکمین اور امراء جنت میں داخلہ چاہتے ہیں تو انھیں ایسے فعل سے باز رہنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1285