الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
2. بَابُ الاِقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
2. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرنا۔
(2) Chapter. Following the Sunna (legal ways) of the Prophet (p.b.u.h.).
حدیث نمبر: 7287
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن فاطمة بنت المنذر، عن اسماء بنت ابي بكر رضي الله عنهما، انها قالت: اتيت عائشة حين خسفت الشمس والناس قيام وهي قائمة تصلي، فقلت ما للناس، فاشارت بيدها نحو السماء، فقالت: سبحان الله، فقلت آية، قالت براسها: ان نعم فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حمد الله واثنى عليه، ثم قال:" ما من شيء لم اره إلا وقد رايته في مقامي هذا حتى الجنة والنار، واوحي إلي انكم تفتنون في القبور قريبا من فتنة الدجال، فاما المؤمن او المسلم لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيقول محمد: جاءنا بالبينات فاجبناه وآمنا، فيقال: نم صالحا علمنا انك موقن، واما المنافق او المرتاب لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيقول: لا ادري سمعت الناس يقولون شيئا فقلته".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ وَالنَّاسُ قِيَامٌ وَهِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، فَقُلْتُ مَا لِلنَّاسِ، فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، فَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ آيَةٌ، قَالَتْ بِرَأْسِهَا: أَنْ نَعَمْ فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" مَا مِنْ شَيْءٍ لَمْ أَرَهُ إِلَّا وَقَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا حَتَّى الْجَنَّةَ وَالنَّارَ، وَأُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ، فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُسْلِمُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ مُحَمَّدٌ: جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ فَأَجَبْنَاهُ وَآمَنَّا، فَيُقَالُ: نَمْ صَالِحًا عَلِمْنَا أَنَّكَ مُوقِنٌ، وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں گئی۔ جب سورج گرہن ہوا تھا اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں) تو انہوں نے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: سبحان اللہ! میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں لیکن میں نے آج اس جگہ سے اسے دیکھ لیا، یہاں تک کہ جنت و دوزخ بھی اور مجھے وحی کی گئی ہے کہ تم لوگ قبروں میں بھی آزمائے جاؤ گے، دجال کے فتنے کے قریب قریب پس مومن یا مسلم مجھے یقین نہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا تو وہ (قبر میں فرشتوں کے سوال پر کہے گا) محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس روشن نشانات لے کر آئے اور ہم نے ان کی دعوت قبول کی اور ایمان لائے۔ اس سے کہا جائے گا کہ آرام سے سو رہو، ہمیں معلوم تھا کہ تم مومن ہو اور منافق یا شک میں مبتلا مجھے یقین نہیں کہ ان میں سے کون سا لفظ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، تو وہ کہے گا (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال پر کہ) مجھے معلوم نہیں، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا وہی میں نے بھی بک دیا۔

Narrated Asma' bint Abu Bakr: I came to `Aisha during the solar eclipse. The people were standing (offering prayer) and she too, was standing and offering prayer. I asked, "What is wrong with the people?" She pointed towards the sky with her hand and said, Subhan Allah!'' I asked her, "Is there a sign?" She nodded with her head meaning, yes. When Allah's Apostle finished (the prayer), he glorified and praised Allah and said, "There is not anything that I have not seen before but I have seen now at this place of mine, even Paradise and Hell. It has been revealed to me that you people will be put to trial nearly like the trial of Ad-Dajjal, in your graves. As for the true believer or a Muslim (the sub-narrator is not sure as to which of the two (words Asma' had said) he will say, 'Muhammad came with clear signs from Allah, and we responded to him (accepted his teachings) and believed (what he said)' It will be said (to him) 'Sleep in peace; we have known that you were a true believer who believed with certainty.' As for a hypocrite or a doubtful person, (the sub-narrator is not sure as to which word Asma' said) he will say, 'I do not know, but I heard the people saying something and so I said the same.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 390


   صحيح البخاري7287أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   صحيح البخاري86أسماء بنت أبي بكرتفتنون في قبوركم
   صحيح البخاري1373أسماء بنت أبي بكرذكر فتنة القبر التي يفتتن فيها المرء
   صحيح البخاري184أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   صحيح مسلم2103أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   سنن النسائى الصغرى2064أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور قريبا من فتنة الدجال
   موطأ مالك رواية يحيى الليثي447أسماء بنت أبي بكرتفتنون في القبور
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم183أسماء بنت أبي بكرتفتنون فى القبور
   مشكوة المصابيح137أسماء بنت أبي بكرقد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور قريبا من فتنة الدجال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 137  
´قبر کا فتنہ`
«. . . ‏‏‏‏عَن أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَقول قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فَذكر فتْنَة الْقَبْر الَّتِي يفتتن فِيهَا الْمَرْءُ فَلَمَّا ذَكَرَ ذَلِكَ ضَجَّ الْمُسْلِمُونَ ضَجَّةً. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ هَكَذَا وَزَادَ النَّسَائِيُّ: حَالَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ أَنْ أَفْهَمَ كَلَامَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا سَكَنَتْ - [50] - ضَجَّتُهُمْ قُلْتُ لِرَجُلٍ قَرِيبٍ مِنِّي: أَيْ بَارَكَ اللَّهُ فِيكَ مَاذَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي آخِرِ قَوْلِهِ؟ قَالَ: «قَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ قَرِيبًا من فتْنَة الدَّجَّال» . . .»
. . . 0 . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 137]

تخریج:
[صحيح بخاري 1373]،
[سنن النسائي 2064 وسنده صحيح]

فقہ الحدیث:
➊ قبر کا فتنہ مثلاً قبر کا میّت کو بھینچنا اور جھٹکا دینا برحق ہے۔
➋ کفار و منافقین کے لئے عذاب قبر برحق ہے۔ اسی طرح بعض گناہ گار مسلمانوں کو بھی قبر میں عذاب دیا جائے گا، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم اور رحمت سے کسی کو معاف فرما کر عذاب قبر سے بچا لے۔
➌ صحابہ کرام چونکہ سب کے سب عادل «كلهم عدول» ہیں، لہٰذا اگر کوئی صحیح و حسن حدیث کے راوی صحابی کا نام معلوم نہ ہو تو یہ مضر نہیں ہے چاہے صحابی سے تابعی کی روایت «عن» سے ہو (بشرطیکہ وہ مدلس نہ ہو اور سماع بھی ثابت ہو) یا تابعی نے سماع کی تصریح کر رکھی ہو۔
➍ راوی سے روایت لینا تقلید نہیں ہے۔
➎ جمعہ و عیدین کے علاوہ عام خطبات بھی کھڑے ہو کر دینا بہتر ہے، جیسا کہ احادیث کے عموم سے ظاہر ہے اور عام خطبہ بیٹھ کر دینا بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن ابي داود: 4753 وهو حديث صحيح]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 137   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7287  
7287. سیدنا اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ جب سورج گرہن ہوا تو میں سید ہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئی اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور سیدہ عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے (اب تک) نہیں دیکھا تھا مگر اس جگہ کھڑے ہوئے اسے دیکھا ہے یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ بھی دیکھی ہے۔ میری طرف وحی گئی کہ تمہارا قبروں میں امتحان ہوگا اور دجال کے فتنے کے قریب قریب ہوگا۔ بہرحال مومن۔۔۔۔۔یا مسلمان، میں نہیں جانتی اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا۔۔۔ (وہ قبر میں فرشتوں کے سوال پر)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7287]
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس فقرے سے نکلا کہ ہم نے ان کا کہنا مان لیا‘ ان پر ایمان لائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7287   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7287  
7287. سیدنا اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے کہا: ایک دفعہ جب سورج گرہن ہوا تو میں سید ہ عائشہ‬ ؓ ک‬ے پاس آئی اور لوگ نماز پڑھ رہے تھے اور سیدہ عائشہ ؓ بھی کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ میں نے کہا: لوگوں کا کیا حال ہے (کہ بے وقت نماز پڑھ رہے ہیں؟ تو انہوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ فرمایا اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کی اور فرمایا: کوئی چیز ایسی نہیں جسے میں نے (اب تک) نہیں دیکھا تھا مگر اس جگہ کھڑے ہوئے اسے دیکھا ہے یہاں تک کہ میں نے جنت اور دوزخ بھی دیکھی ہے۔ میری طرف وحی گئی کہ تمہارا قبروں میں امتحان ہوگا اور دجال کے فتنے کے قریب قریب ہوگا۔ بہرحال مومن۔۔۔۔۔یا مسلمان، میں نہیں جانتی اسماء ؓ نے ان میں سے کون سا لفظ کہا تھا۔۔۔ (وہ قبر میں فرشتوں کے سوال پر)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7287]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کی عنوان سے مطابقت اس طرح ہے کہ مومن انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہے گا:
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس کھلی اور واضح نشانیاں لے کر آئے ہم نے انھیں قبول کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے، لہذا مومن وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل پیرا ہو اور اس طریقے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے، نیز اس حدیث سے زندگی گزارنے کے لیے ایک راستے اور منہج کی رہنمائی ہوتی ہے اور وہ ہے قرآن وحدیث کے دلائل کے سامنے سرتسلیم خم کرنا، انھیں مان لینا اور ان کے مطابق عمل کرنا۔
یہ اہل ایمان کی علامت ہے اور اُخروی کامیابی کے لیے ایسا رویہ انتہائی ضروری ہے۔

اس کے برعکس قرآن وحدیث کے دلائل دیکھ کر لوگوں کی باتوں کو ترجیح دینا، اقوال رجال کو ماننا اور بزرگوں کی باتوں کو قابل عمل ٹھہرانا ایک مومن کا طریقہ کار نہیں ہو سکتا بلکہ ایسا رویہ وہ اختیار کرتا ہے جو شکوک وشبہات میں مبتلا ہو یا کفر ونفاق میں ڈوبا ہوا ہو۔
بہرحال ہمیں اس حدیث میں بیان کردہ طریقے اور منہج کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور منافق یا شک میں مبتلا شخص کے طریق کار کو خیرباد کہہ دینا چاہیے اسی میں ہماری نجات اور اُخروی کامیابی ہے۔
اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی توفیق دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7287   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.