الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
3. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لاَ يَعْنِيهِ:
3. باب: بےفائدہ بہت سوالات کرنا منع ہے۔
(3) Chapter. What is disliked of asking too many questions and of troubling oneself with what does not concern one.
حدیث نمبر: 7291
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يوسف بن موسى، حدثنا ابو اسامة، عن بريد بن ابي بردة، عن ابي بردة، عن ابي موسى الاشعري، قال: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اشياء كرهها فلما اكثروا عليه المسالة غضب، وقال: سلوني، فقام رجل، فقال: يا رسول الله، من ابي؟، قال: ابوك حذافة، ثم قام آخر، فقال: يا رسول الله، من ابي؟، فقال: ابوك سالم مولى شيبة، فلما راى عمر ما بوجه رسول الله صلى الله عليه وسلم من الغضب، قال: إنا نتوب إلى الله عز وجل".(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا فَلَمَّا أَكْثَرُوا عَلَيْهِ الْمَسْأَلَةَ غَضِبَ، وَقَالَ: سَلُونِي، فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟، قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ قَامَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبِي؟، فَقَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ہم سے یوسف بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ حماد بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن ابی بردہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے متعلق پوچھا گیا جنہیں آپ نے ناپسند کیا جب لوگوں نے بہت زیادہ پوچھنا شروع کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے اور فرمایا: پوچھو! اس پر ایک صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا: یا رسول اللہ! میرے والد کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر دوسرا صحابی کھڑا ہوا اور پوچھا میرے والد کون ہیں؟ فرمایا کہ تمہارے والد شیبہ کے مولیٰ سالم ہیں۔ پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ پر غصہ کے آثار محسوس کئے تو عرض کیا ہم اللہ عزوجل کی بارگاہ میں آپ کو غصہ دلانے سے توبہ کرتے ہیں۔

Narrated Abu Musa Al-Ash`ari: Allah's Apostle was asked about things which he disliked, and when the people asked too many questions, he became angry and said, "Ask me (any question)." A man got up and said, "O Allah's Apostle! Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhaifa." Then another man got up and said, "O Allah's Apostle! Who is my father?" The Prophet said, "Your father is Salim, Maula Shaiba." When `Umar saw the signs of anger on the face of Allah's Apostle, he said, "We repent to Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 394


   صحيح البخاري7291عبد الله بن قيسأبوك حذافة ثم قام آخر فقال يا رسول الله من أبي فقال أبوك سالم مولى شيبة فلما رأى عمر ما بوجه رسول الله من الغضب قال إنا نتوب إلى الله
   صحيح البخاري92عبد الله بن قيسسلوني عما شئتم قال رجل من أبي قال أبوك حذافة فقام آخر فقال من أبي يا رسول الله فقال أبوك سالم مولى شيبة فلما رأى عمر ما في وجهه قال يا رسول الله إنا نتوب إلى الله
   صحيح مسلم6125عبد الله بن قيسمن أبي قال أبوك حذافة فقام آخر فقال من أبي

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 92  
´بےجا سوالات پر استاد کا ناراض ہونا`
«. . . قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تشریح:
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبر ہونے کی بنا پر وحی و الہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہو جاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جو چاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 92   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7291  
7291. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے چند اشیاء کے متعلق سوال کیا گیا جنہیں آپ نے پسند نہ فرمایا۔ جب لوگوں نے بہت زیادہ سوالات کرنا شروع کر دیے تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا: مجھ سے جو پوچھنا ہے پوچھو۔ تب ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ نےفرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور اس نے سوال کیا: میرے والد کون ہیِں؟ تو آپ نےفرمایا: تمہارے والد شیبہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ جن سیدنا عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر غصے کے آثار محسوس کیے تو کہا: ہم اللہ عزوجل کے حضور (آپ کو غصہ دلانے سے) توبہ کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7291]
حدیث حاشیہ:
کسی نے پوچھا میری اونٹنی اس وقت کہا ہے؟ کسی نے پوچھا قیامت کب آئے گی؟ کسی نے پوچھا کیا ہر سال حج فرض ہے وغیرہ وغیرہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7291   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7291  
7291. سیدنا ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ سے چند اشیاء کے متعلق سوال کیا گیا جنہیں آپ نے پسند نہ فرمایا۔ جب لوگوں نے بہت زیادہ سوالات کرنا شروع کر دیے تو آپ ناراض ہوئے اور فرمایا: مجھ سے جو پوچھنا ہے پوچھو۔ تب ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے؟ آپ نےفرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ پھر ایک دوسرا شخص کھڑا ہوا اور اس نے سوال کیا: میرے والد کون ہیِں؟ تو آپ نےفرمایا: تمہارے والد شیبہ کے آزاد کردہ غلام سالم ہیں۔ جن سیدنا عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے چہرہ انور پر غصے کے آثار محسوس کیے تو کہا: ہم اللہ عزوجل کے حضور (آپ کو غصہ دلانے سے) توبہ کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7291]
حدیث حاشیہ:

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کے وقت مسجد میں تشریف لائے، نماز سے فراغت کے بعد منبرپرچڑھے اور قیامت کا ذکر فرمایا، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوالات کرنے کی اجازت دی تو لوگوں نے بے فائدہ قسم کے سوال پوچھنے شروع کر دیے، مثلاً:
میری گم شدہ اونٹنی کہاں ہے؟ قیامت کب آئے گی؟ کیا حج ہرسال فرض ہے؟ کیا صفا پہاڑی سونا بن سکتی ہے؟ میرا باپ کون ہے؟ میرا انجام کیا ہوگا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے بلامقصد سوالوں پر غصہ آیا۔
چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج شناس تھے۔
اس لیے انھوں نے معذرت کی اور عرض کی:
اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! آپ ہم سے درگزر فرمائیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوگئے۔
(صحیح البخاري، الاعتصام بالکتاب والسنة، حدیث 7294 و فتح الباري: 331/13)

ایک روایت میں ہے کہ جب عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے باپ کے متعلق سوال کیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بتایا:
تیرا باپ حذافہ ہے۔
وہ اپنے گھر آیا اور اپنی ماں سے اس کا ذکر کیا تو اس کی ماں اسے کہنے لگی:
تجھے معلوم ہے کہ ہم نے دور جاہلیت گزارا ہے۔
شاید تو میری رسوائی کا باعث بن جاتا، اس نے جواب دیا:
میں اپنے باپ کے متعلق جاننا چاہتا تھا خواہ وہ کوئی ہوتا۔
(مسند أحمد: 503/2)

اس قسم کے سوالات پر پابندی لگانا ضروری تھی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر انھیں ظاہر کردیا جائے تو تمھیں ناگوار گزرے۔
(المآئده: 101)
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معذرت کی اور کہا:
ہم اس قسم کے فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں۔
(فتح الباري: 331/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7291   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.