الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
The Book of the Masjids
38. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي الْجُلُوسِ فِيهِ وَالْخُرُوجِ مِنْهُ بِغَيْرِ صَلاَةٍ
38. باب: بغیر نماز پڑھے مسجد میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کی رخصت کا بیان۔
Chapter: Concession Allowing One To Sit Down In The Masjid And To Exit Without Praying
حدیث نمبر: 732
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا سليمان بن داود، قال: حدثنا ابن وهب، عن يونس، قال ابن شهاب: واخبرني عبد الرحمن بن كعب بن مالك، ان عبد الله بن كعب، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث، حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، قال: وصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما، وكان إذا قدم من سفر بدا بالمسجد فركع فيه ركعتين ثم جلس للناس، فلما فعل ذلك جاءه المخلفون فطفقوا يعتذرون إليه ويحلفون له وكانوا بضعا وثمانين رجلا، فقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم وبايعهم واستغفر لهم ووكل سرائرهم إلى الله عز وجل، حتى جئت فلما سلمت تبسم تبسم المغضب، ثم قال: تعال، فجئت حتى جلست بين يديه، فقال لي: ما خلفك؟ الم تكن ابتعت ظهرك؟ فقلت: يا رسول الله، إني والله لو جلست عند غيرك من اهل الدنيا لرايت اني ساخرج من سخطه ولقد اعطيت جدلا ولكن والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب لترضى به عني ليوشك ان الله عز وجل يسخطك علي ولئن حدثتك حديث صدق تجد علي فيه إني لارجو فيه عفو الله والله ما كنت قط اقوى ولا ايسر مني حين تخلفت عنك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما هذا فقد صدق، فقم حتى يقضي الله فيك"، فقمت فمضيت. مختصر.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، قال ابْنُ شِهَابٍ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ، قال: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ، حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ: وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ، فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ جَاءَهُ الْمُخَلَّفُونَ فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ وَيَحْلِفُونَ لَهُ وَكَانُوا بِضْعًا وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ وَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ وَوَكَلَ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى جِئْتُ فَلَمَّا سَلَّمْتُ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ: تَعَالَ، فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي: مَا خَلَّفَكَ؟ أَلَمْ تَكُنِ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ؟ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ لِتَرْضَى بِهِ عَنِّي لَيُوشَكُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُسْخِطُكَ عَلَيَّ وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ حَدِيثَ صِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ إِنِّي لَأَرْجُو فِيهِ عَفْوَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِيكَ"، فَقُمْتُ فَمَضَيْتُ. مُخْتَصَرٌ.
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: آ جاؤ! چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 198 (3088)، صحیح مسلم/المسافرین 12 (716)، سنن ابی داود/الجہاد 173 (2773)، 178 (2781)، (تحفة الأشراف: 11132)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/التفسیر 10 (3102)، مسند احمد 3/455، 457، 459 و 6/388 (کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث کی مفصل تخریج کے لیے حدیث رقم: (3451) کی تخریج دیکھئے، یہاں باب کی مناسبت سے متن اور تخریج میں اختصار سے کام لیا گیا ہے) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مؤلف نے اسی سے باب پر استدلال کیا ہے، یعنی: کعب رضی اللہ عنہ بغیر تحیۃ المسجد پڑھے بیٹھ گئے، پھر اٹھ کر چلے گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم نہیں دیا، لیکن یہ بعض حالات کے لیے ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري4418كعب بن مالكيا كعب بن مالك أبشر قال فخررت ساجدا وعرفت أن قد جاء فرج وآذن رسول الله بتوبة الله علينا حين صلى صلاة الفجر فذهب الناس يبشروننا وذهب قبل صاحبي مبشرون وركض إلي رجل فرسا وسعى ساع من أسلم فأوفى على الجبل وكان الصوت أسرع من الفرس فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشر
   صحيح البخاري2757كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   صحيح البخاري7225كعب بن مالكلما تخلف عن رسول الله في غزوة تبوك فذكر حديثه ونهى رسول الله المسلمين عن كلامنا فلبثنا على ذلك خمسين ليلة وآذن رسول الله بتوبة الله علينا
   صحيح البخاري6255كعب بن مالكنهى رسول الله عن كلامنا وآتي رسول الله فأسلم عليه فأقول في نفسي هل حرك شفتيه برد السلام أم لا حتى كملت خمسون ليلة وآذن النبي بتوبة الله علينا حين صلى الفجر
   صحيح البخاري3556كعب بن مالكإذا سر استنار وجهه حتى كأنه قطعة قمر وكنا نعرف ذلك منه
   صحيح البخاري4678كعب بن مالكما أعلم أحدا أبلاه الله في صدق الحديث أحسن مما أبلاني ما تعمدت منذ ذكرت ذلك لرسول الله إلى يومي هذا كذبا وأنزل الله على رسوله لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار إلى قوله وكونوا مع الصادقين
   صحيح البخاري4673كعب بن مالكما أنعم الله علي من نعمة بعد إذ هداني أعظم من صدقي رسول الله أن لا أكون كذبته
   صحيح البخاري4676كعب بن مالكأمسك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح البخاري6690كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   صحيح مسلم7016كعب بن مالكلم أتخلف عن رسول الله في غزوة غزاها قط إلا في غزوة تبوك غير أني قد تخلفت في غزوة بدر ولم يعاتب أحدا تخلف عنه إنما خرج رسول الله والمسلمون يريدون عير قريش حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد ولقد شهدت مع رسول الله ليلة العقبة حين تواثقنا على الإسلا
   جامع الترمذي3102كعب بن مالكأبشر يا كعب بن مالك بخير يوم أتى عليك منذ ولدتك أمك فقلت يا نبي الله أمن عند الله أم من عندك قال بل من عند الله ثم تلا هؤلاء الآيات لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والأنصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه ب
   سنن أبي داود3317كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قال فقلت إني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن أبي داود3321كعب بن مالكلا قلت فنصفه قال لا قلت فثلثه قال نعم قلت فإني سأمسك سهمي من خيبر
   سنن أبي داود4600كعب بن مالكعن كلامنا أيها الثلاثة حتى إذا طال علي تسورت جدار حائط أبي قتادة وهو ابن عمي فسلمت عليه فوالله ما رد علي السلام ثم ساق خبر تنزيل توبته
   سنن النسائى الصغرى3854كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك
   سنن النسائى الصغرى732كعب بن مالكأما هذا فقد صدق فقم حتى يقضي الله فيك فقمت فمضيت
   سنن النسائى الصغرى3857كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3855كعب بن مالكأمسك عليك بعض مالك فهو خير لك فقلت فإني أمسك سهمي الذي بخيبر
   سنن النسائى الصغرى3856كعب بن مالكأمسك عليك مالك فهو خير لك قلت فإني أمسك علي سهمي الذي بخيبر
   سنن ابن ماجه1393كعب بن مالكلما تاب الله عليه خر ساجدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 732  
´بغیر نماز پڑھے مسجد میں بیٹھنے اور اس سے نکلنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن کعب کہتے ہیں کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ اپنا وہ واقعہ بیان کر رہے تھے جب وہ غزوہ تبوک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو تشریف لائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد جاتے اور اس میں دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لیے بیٹھتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کر لیا تو جنگ سے پیچھے رہ جانے والے لوگ آپ کے پاس آئے، آپ سے معذرت کرنے لگے، اور آپ کے سامنے قسمیں کھانے لگے، وہ اسّی سے کچھ زائد لوگ تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ظاہری بیان کو قبول کر لیا، اور ان سے بیعت کر لی، اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کی، اور ان کے دلوں کے راز کو اللہ عزوجل کے سپرد کر دیا، یہاں تک کہ میں آیا تو جب میں نے سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے دیکھ کر مسکرائے جیسے کوئی غصہ میں مسکراتا ہے، پھر فرمایا: آ جاؤ! چنانچہ میں آ کر آپ کے سامنے بیٹھ گیا ۱؎، تو آپ نے مجھ سے پوچھا: تم کیوں پیچھے رہ گئے تھے؟ کیا تم نے اپنی سواری خرید نہیں لی تھی؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم اگر میں آپ کے علاوہ کسی اور کے پاس ہوتا تو میں اس کے غصہ سے اپنے آپ کو یقیناً بچا لیتا، مجھے باتیں بنانی خوب آتی ہے لیکن اللہ کی قسم، میں جانتا ہوں کہ اگر آپ کو خوش کرنے کے لیے میں آج آپ سے جھوٹ موٹ کہہ دوں تو قریب ہے کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ آپ کو مجھ سے ناراض کر دے، اور اگر میں آپ سے سچ سچ کہہ دوں تو آپ مجھ پر ناراض تو ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ مجھے معاف کر دے گا، اللہ کی قسم جب میں آپ سے پیچھے رہ گیا تھا تو اس وقت میں زیادہ طاقتور اور زیادہ مال والا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رہا یہ شخص تو اس نے سچ کہا، اٹھو چلے جاؤ یہاں تک کہ اللہ آپ کے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے، چنانچہ میں اٹھ کر چلا آیا، یہ حدیث لمبی ہے یہاں مختصراً منقول ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 732]
732 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ واقعہ بہت لمبا ہے، یہاں صرف ایک حصہ بیان ہوا ہے۔ تفصیل صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4418: و صحیح مسلم، التوبة، حدیث: 2769]
➋ حدیث میں صراحت نہیں کہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے تحیۃ المسجد پڑھی ہے۔ امام صاحب رحمہ اللہ کی تبویب سے یہی غرض ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 732   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1393  
´شکرانہ کی نماز اور سجدہ شکر کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ سجدے میں گر پڑے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1393]
اردو حاشہ:
فائده:
 حضرت کعب بن مالک،   حضرت مرارہ بن ربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم غزوہ تبوک سے محض سستی کی بنا پر کسی معقول عذر کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔
جس پر اللہ کے حکم سے تمام مسلمانوں نے ان تینوں حضرات سے پچاس دن تک بائیکاٹ کردیا۔
اتنی طویل مدت تک یہ حضرات پریشان رہے اور توبہ کرتے رہے۔
آخر پچاس دن بعد توبہ قبول ہوئی۔
تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو ان کی زندگی کا افضل ترین دن قراردیا۔ (صحیح البخاري، المغازي، باب حدیث کعب بن مالك، حدیث: 4418)
قرآن مجید میں سورہ توبہ آیت 118 میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1393   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3102  
´سورۃ التوبہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
کعب بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنے بھی غزوے کیے ان میں سے غزوہ تبوک کو چھوڑ کر کوئی بھی غزوہ ایسا نہیں ہے کہ جس میں آپ کے ساتھ میں نہ رہا ہوں۔ رہا بدر کا معاملہ سو بدر میں جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے ان میں سے کسی کی بھی آپ نے سرزنش نہیں کی تھی۔ کیونکہ آپ کا ارادہ (شام سے آ رہے) قافلے کو گھیرنے کا تھا، اور قریش اپنے قافلے کو بچانے کے لیے نکلے تھے، پھر دونوں قافلے بغیر پہلے سے طے کئے ہوئے جگہ میں جا ٹکرائے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آیت: «إذ أنتم بالعدوة الدنيا وهم بالعدوة القصوى والركب أسفل منكم ولو تواعدتم لاختلفتم في الميعا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3102]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اللہ تعالیٰ نے توجہ فرمائی اپنے نبی پر اور ان مہاجرین وانصار کی طرف جنہوں نے اس کی مدد کی کٹھن گھڑی میں جب کہ ان میں سے ایک فریق کے دلوں کے پلٹ جانے اور کج روی اختیار کرلینے کا ڈر موجود تھا،
پھر اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمالی۔
بے شک وہ ان پر نرمی والا اور مہر بان ہے (التوبة: 117)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3102   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3317  
´جو اپنا سارا مال صدقہ میں دے دینے کی نذر مانے اس کے حکم کا بیان۔`
کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سارے مال سے دستبردار ہو کر اسے اللہ اور اس کے رسول کے لیے صدقہ کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا کچھ مال اپنے لیے روک لو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے تو میں نے عرض کیا: میں اپنا خیبر کا حصہ اپنے لیے روک لیتا ہوں۔ [سنن ابي داود/كتاب الأيمان والنذور /حدیث: 3317]
فوائد ومسائل:
کسی گناہ اور تقصیر کی توبہ میں صدقہ کرنا بہت افضل عمل ہے۔
لیکن انسان خالی ہاتھ ہوکر رہ جائے یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔
البتہ صدیقین کے لئے جائز ہے۔
جو اس کے نتائج کو بخیر وخوبی برداشت کرسکتے ہیں۔
جس کی مثال ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3317   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.