الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: مساجد کے فضائل و مسائل
The Book of the Masjids
43. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الْحَصِيرِ
43. باب: چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Praying On A Reed Mat
حدیث نمبر: 738
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا سعيد بن يحيى بن سعيد الاموي، قال: حدثنا ابي، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، عن انس بن مالك، ان ام سليم سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ياتيها فيصلي في بيتها فتتخذه مصلى،" فاتاها فعمدت إلى حصير فنضحته بماء، فصلى عليه وصلوا معه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، قال: حَدَّثَنَا أَبِي، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَهَا فَيُصَلِّيَ فِي بَيْتِهَا فَتَتَّخِذَهُ مُصَلًّى،" فَأَتَاهَا فَعَمِدَتْ إِلَى حَصِيرٍ فَنَضَحَتْهُ بِمَاءٍ، فَصَلَّى عَلَيْهِ وَصَلَّوْا مَعَهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کے پاس تشریف لا کر ان کے گھر میں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اسی کو اپنی نماز گاہ بنا لیں ۱؎، چنانچہ آپ ان کے ہاں تشریف لائے، تو انہوں نے چٹائی لی اور اس پر پانی چھڑکا، پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ گھر والوں نے بھی نماز پڑھی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 220) (صحیح) (یہ حدیث آگے (802) پر آ رہی ہے)»

وضاحت:
۱؎: ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کھانے کی دعوت کی تھی اس موقع پر آپ سے گھر میں مصلیٰ بنانے کی جگہ پر نماز ادا کرنے کی فرمائش کی تو آپ نے اسے قبول فرما لیا، یہ ایک اتفاقیہ بات تھی، مصلیٰ بنانے کی کوئی تقریب نہ تھی، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (۸۰۲ کے حوالہ جات)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

   صحيح البخاري727أنس بن مالكصليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبي وأمي أم سليم خلفنا
   صحيح البخاري380أنس بن مالكدعت رسول الله لطعام صنعته له فأكل منه قمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحته بماء فقام رسول الله صففت واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا صلى لنا رسول الله ركعتين ثم انصرف
   صحيح البخاري860أنس بن مالكقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبث فنضحته بماء فقام رسول الله اليتيم معي والعجوز من ورائنا صلى بنا ركعتين
   صحيح مسلم1499أنس بن مالكقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحته بماء فقام عليه رسول الله صففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا صلى لنا رسول الله ركعتين ثم انصرف
   جامع الترمذي234أنس بن مالكقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحته بالماء فقام عليه رسول الله صففت عليه أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا صلى بنا ركعتين ثم انصرف
   سنن أبي داود657أنس بن مالكصنع له طعاما ودعاه إلى بيته فصل حتى أراك كيف تصلي فأقتدي بك نضحوا له طرف حصير كان لهم قام فصلى ركعتين
   سنن أبي داود612أنس بن مالكقام عليه رسول الله صففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا صلى لنا ركعتين ثم انصرف
   سنن النسائى الصغرى870أنس بن مالكأتانا رسول الله في بيتنا فصليت أنا ويتيم لنا خلفه وصلت أم سليم خلفنا
   سنن النسائى الصغرى802أنس بن مالكقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس فنضحته بماء فقام رسول الله صففت أنا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا صلى لنا ركعتين ثم انصرف
   سنن النسائى الصغرى738أنس بن مالكأتاها فعمدت إلى حصير فنضحته بماء فصلى عليه وصلوا معه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم152أنس بن مالكقوموا فلاصلي لكم
   مسندالحميدي1228أنس بن مالكصليت أنا ويتيم خلف النبي صلى الله عليه وسلم في بيتنا وأمي أم سليم خلفنا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 727  
´صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز`
«. . . صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا . . .»
. . . میں نے اور ایک یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 727]

فوائد و مسائل:
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 1:
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:
«صليت أنا ويتيم فى بيتنا خلف النبى صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم حلفنا .»
میں اور ایک لڑکے نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں اپنے گھر میں نماز ادا کی۔ میری والدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا ہمارے پیچھے (کھڑی نماز ادا کر رہی) تھیں۔ [صحيح البخاري: ۰727 صحيح مسلم: 658]
تجزیہ:
اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا کیونکہ یہ اجازت عورت کے ساتھ خاص ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو، وہ فرماتے ہیں:
«باب: المرأة وحدها تكون صفا.» اس بات کا بیان کہ عورت اکیلی بھی ہو تو صف شمار ہوتی ہے۔

اگر مرد بھی اکیلا صف شمار ہو سکتا ہے تو اس تبویب کا کیا مطلب ہوا؟ نیز مرد و عورت دونوں پر نماز باجماعت کے لیے امام کے پیچھے صف بنانا ضروری ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «سؤوا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من إقامة الصلاة» صفوں کو درست کرو کیونکہ صفوں کی درستی نماز کے قیام کا حصہ ہے۔ [صحيح البخاري:723، صحيح مسلم: 433]

اب اکیلی عورت کا صف ہونا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح فرمان کی وجہ سے جائز ہو گیا جبکہ اکیلے مرد کی صف نہ ہونے پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین واضح ہیں۔ لہٰذا اکیلے مرد کی صف کے جواز پر کوئی دلیل نہیں۔ یوں اس حدیث سے مرد کے لیے اجازت ثابت نہیں ہوتی۔

◈ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:
«أن تقوم خلف الصف وحدها، جاز صلاة المصلي خلف الصف وحده، وهذا الاحتجاج عندي غلط، لأن سنة المرأة أن تقوم خلف الصف وحدها إذا لم تكن معها امرأة أخرى، وغير جائز لها أن تقوم بحذاء الإمام ولا فى الصف مع الرجال، والمأموم من الرجال إن كان واحدا، فسنته أن يقوم عن يمين إمامه، وإن كانوا جماعة قاموا فى صف خلف الإمام حتى يكمل الصفك الأول، ولم يجز للرجل أن يقوم خلف الإمام والمأموم واحد، ولا خلاف بين أهل العلم أن هذا الفعل لو فعله فاعل، فقام خلف إمام، ومأموم قد قام عن يمينه، خلاف سنة النبى صلى الله عليه وسلم.»
سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا والی روایت کو اپنی دلیل بنانے والوں کو کہنا ہے کہ جب عورت کے لیے صف کے پیچھے اکیلے کھڑے ہونا جائز ہے تو مرد کے لیے بھی ایسا جائز ہے۔ لیکن یہ بات میرے نزدیک غلط ہے کیونکہ عورت کے لیے طریقہ کار یہ ہے کہ جب وہ اکیلی ہو تو صف کے پیچھے کھڑی ہو، اس کا امام کے برابر کھڑا ہونا ممنوع ہے، اسی طرح وہ مردوں کی صف میں بھی کھڑی نہیں ہو سکتی، جبکہ مرد مقتدی جب اکیلا ہو تو وہ امام کے دائیں جانب کھڑا ہو گا اور اگر مقتدی ایک سے زیادہ ہوں تو امام کے پیچھے صف میں کھڑے ہوں گے، حتی کہ پہلی صف مکمل ہو جائے۔ اکیلا مقتدی ہو تو اس کے لیے امام کے پیچھے کھڑا ہونا جائز نہیں۔ اس بات پر تو سب کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے دائیں جانب مقتدی کھڑا ہو تو بعد میں آنے والے کا پچھلی صف میں اکیلے کھڑا ہونا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہے۔ [صحیح ابن خزیمة:3 / 30]

◈ امام ابن حزم رحمہ اللہ (384-456 ھ) اس بارے میں فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة لهم فيه، لأن هذا حكم النساء خلف الرجال، وإلا فعليهن من إقامة الصفوف إذا كثرن ما على الرجال لعموم الأمر بذلك، ولا يجوز أن يترك حديث مصلى المرأة المذكورة لحديث وابصة، ولا حديث وابصة لحديث مصلي المرأة.»
اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس میں تو مردوں کے پیچھے (اکیلی) عورتوں کا خاص حکم بیان ہوا ہے، ورنہ جب وہ زیادہ ہوں تو عام حکم کی بنا پر ان کے لیے بھی صفوں کا قیام فرض ہو گا۔ یہ کسی طرح بھی جائز نہیں کہ عورت کی نماز کے بارے میں مذکورہ حدیث کی وجہ سے سیدنا وابصہ کی حدیث کو چھوڑ دیا جائے یا حدیث وابصہ کی بنا پر عورت کی نماز والی حدیث کو چھوڑ دیا جائے۔ [المحلي لابن حزم: 57/4]
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 40، حدیث\صفحہ نمبر: 40   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 152  
´عورتوں اور مردوں کا اکٹھے ایک صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے`
«. . . فنضحته بماء، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت انا واليتيم وراءه والعجوز من ورائنا، فصلى لنا ركعتين ثم انصرف . . .»
. . . میں نے اس پر پانی چھڑکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے، ایک یتیم اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بنا لی اور بڑھیا ہمارے پیچھے (علیحدہ صف میں) تھیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 152]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 860، ومسلم 658، من حديث مالك به]

تفقہ:
➊ امام کے پیچھے پہلے مردوں کی اور بعد میں عورتوں کی صفیں ہونی چاہئیں۔
➋ اگر اگلی صف میں مرد نہ ہوں تو بچوں کا کھڑا ہونا جائز ہے بلکہ اس حدیث سے اس کا مسنون ہونا ثابت ہے۔
➌ عورتوں اور مردوں کا اکٹھے ایک صف میں کھڑا ہونا جائز نہیں ہے۔
➍ اگر شرعی عذر نہ ہو تو ولیمے کے علاوہ دوسری دعوتیں قبول کرنا بھی مسنون ہے۔
➎ جب دو مقتدی اور ایک امام ہو تو امام صف سے آگے علیحدہ کھڑا ہو گا۔
➏ بوڑھی سے مراد دادی ملیکہ یا ام سلیم رضی اللہ عنہا ہیں۔ واللہ اعلم
➐ اس حدیث اور دیگر احادیث سے ثابت ہے کہ اگر صف کے پیچھے اکیلی عورت نماز پڑھے گی تو اس کی نماز ہو جائے گی لیکن اگر اکیلا مرد صف کے پیچھے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز نہیں ہو گی اور اس پر نماز کا اعادہ فرض ہے۔
➑ اس میں کوئی اختلاف نہیں یعنی اجماع ہے کہ اگر دو مرد اور ایک عورت ہوں تو مرد امام کے دائیں طرف ہوگا اور عورت پیچھے اکیلی ہوگی۔ یہ حدیث چونکہ نفلی نماز (چاشت) کے بارے میں ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ کبھی کبھار نوافل کی جماعت جائز ہے۔
➒ عام طور پر گھروں میں بچھے ہوئے قالین یا چٹائی وغیرہ پر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ بشرطیکہ وہ پاک ہوں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 115   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 380  
´بوریئے پر نماز پڑھنا`
«. . . وَصَلَّى جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبُو سَعِيدٍ فِي السَّفِينَةِ قَائِمًا، وَقَالَ الْحَسَنُ: قَائِمًا مَا لَمْ تَشُقَّ عَلَى أَصْحَابِكَ تَدُورُ مَعَهَا وَإِلَّا فَقَاعِدًا . . .»
. . . اور جابر اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور امام حسن رحمہ اللہ نے کہا کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ جب تک کہ اس سے تیرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو اور کشتی کے رخ کے ساتھ تو بھی گھومتا جا ورنہ بیٹھ کر پڑھ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: Q380]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وجه ادخال الصلاة فى السفينة فى ترجمة الصلاة على الحصير أنهما اشتر كافى ان الصلاة عليهما صلاة على غير الارض لئلا يتخيل ان مباشرة المصلي للارض شرط» [المتواري على ابواب البخاري، ص85]
ترجمہ: یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا کہ بوریئے پر نماز پڑھنے اور حدیث پیش کی کشتی پر نماز پڑھنے کی۔ دراصل یہ دونوں مشترک ہیں نماز کے ایک مسئلے پر کہ زمین کے علاوہ کسی اور چیز پر سجدہ کیا جائے تو درست ہے تاکہ یہ خیال نہ رہے کہ نمازی کے لیے زمین کا ہونا شرط ہے۔

◈ امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس لیے پیش کیا کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت کے ضعف کی طرف اشارہ مقصود ہے جس میں یہ الفاظ ہیں:
«عن شريح بن هاني» انہوں نے امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوریئے پر نماز پڑھتے تھے؟ اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكٰفِرِيْنَ حَصِيْرًا» تو امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوریئے پر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ امام قسطلانی کے مطابق مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت ضعیف ہے یزید بن المقدام کی وجہ سے۔ [ارشاد الساري، ج1، ص405]
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ نماز بوریے پر پڑھنا اور ساتھ میں اثر نقل فرمایا کہ کشتی پر نماز پڑھنا، امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ کشتی زمین نہیں ہے تو اس پر بھی نماز درست ہو گی اور مزید دلیل کے طور پر انس رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اثر اور ترجمۃ الباب میں مناسبت دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
«الاستدلال بأثر جابر بأنها اشتركا فى ان الصلاة عليهما غيرالصلاة على الأرض» [فتح الباري: 489/1]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 158   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 727  
´عورت اکیلی ایک صف کا حکم رکھتی ہے`
«. . . عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" صَلَّيْتُ أَنَا وَيَتِيمٌ فِي بَيْتِنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُمِّي أُمُّ سُلَيْمٍ خَلْفَنَا . . .»
. . . انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے انہوں نے بتلایا کہ میں نے اور ایک یتیم لڑکے (ضمیرہ بن ابی ضمیرہ) نے جو ہمارے گھر میں موجود تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی اور میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے تھیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 727]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ اشارہ بیان فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ام سلیم رضی اللہ عنہا نے تنہا نماز پڑھی اگر عورت کی نماز تنہا باطل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قطعاً ان کو اجازت مرحمت نہ فرماتے لہٰذا ان کو اجازت دی تو واضح ہوا کہ عورت اکیلی پوری صف کا حکم رکھتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں یہ واضح الفاظ موجود ہیں کہ جس کو امام ابن عبد اللہ رحمہ اللہ نے مرفوعا ذکر فرمایا امی عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ! «المراة وحدها صف» [فتح الباري ج2 ص280] اکیلی عورت صف کا حکم رکھتی ہے

◈ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة الترجمة فى قوله وأمي -ام سليم- خلفنا لانها وقفت خلفهم وحدها، فصارت فى حكم الصف» [عمدة القاري ج5 ص387]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یوں ہے کہ انس رضی اللہ عنہ کا کہنا میری والدہ ام سلیم ہمارے پیچھے (اکیلی صف میں کھڑی تھیں) لہٰذا ان کا اکیلا صف میں کھڑا ہونا مکمل صف کا حکم رکھتا ہے۔

◈ صاحب اوجز المسالک رقمطراز ہیں:
ابن رشید فرماتے ہیں: امام بخاری رحمہ اللہ کا قصد (ترجمۃ الباب سے یہ) ہے کہ (عورت کا اکیلے صف کا حکم رکھنا) یہ عمومی قاعدے سے مستثنیٰ ہے، جس میں یہ ہے اس کی نماز نہیں جو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتا ہے۔ یعنی یہ حکم صرف مردوں کے لیے۔ [الابواب والتراجم, ج2 ص879]

◈ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لا خلاف فى أن سنة النساء القيام خلف الرجال ولا يجوز لهن القيام معهم فى الصف» [الاستذكار، ج6، ص155]
اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ عورتوں کا قیام (یعنی صف بنانا) مردوں کے پیچھے ہے اور یہ جائز نہیں کہ خواتین ان کے ساتھ قیام میں کھڑی رہیں (لہٰذا اس سبب کی بناء پر خواتین کا اکیلے صف میں کھڑا ہونا مکمل صف کا حکم رکھتا ہے)۔‏‏‏‏
لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے کہ عورت کا تنہا صف میں کھڑے رہنا درست ہے جبکہ مرد کو صف کے پیچھے اکیلا کھڑا رہنا باطل ہے جبکہ صف میں جگہ ہو۔

فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے یہ مسئلہ عیاں ہوا کہ اکیلی عورت صف کا حکم رکھتی ہے جبکہ اکیلا مرد پوری صف کا حکم نہیں رکھتا براں بریں اس مسئلہ پر متعدد احادیث و آثار کتب احادیث میں موجود ہیں: سیدنا وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں واضح ہے کہ: «ان رسول الله صلى الله عليه وسلم راى رجلا خلف الصف وحده فامره ان يعيد الصلاة .» [ابوداؤد كتاب الصلاة رقم الحديث 682]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے اکیلا ہی نماز پڑھ رہا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز دوہرانے کا حکم دیا۔

◈ امام ترمذی رحمہ اللہ اور امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن امام ابن حبان رحمہ اللہ علامہ أحمد شاکر اور شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ علیہم نے اسے صحیح قرار دیا ہے، [تحقيق المشكاة 345/1، ارواءالغليل 222/2]
مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ اکیلے مرد کی نماز صف کے پیچھے درست نہیں۔

◈ فضیلۃ الشیخ غازی عزیز حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ (وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی حدیث کا) حکم اس صورت میں نافذ ہو گا کہ جب آخری صف میں نماز کے شامل ہونے کی گنجائش باقی ہو اور وہ اس کی استطاعت بھی رکھتا ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم اس لیے فرمایا تھا کہ اس نے تساہل سے کام لیا تھا حالانکہ وہ صف میں داخل ہو کر شگاف کو پُر کرنے اور دوسرے نمازیوں کے ساتھ صف بندی کا ذمہ دار تھا۔ لہٰذا وہ شخص جس کو صف میں جگہ نہ ملی تو وہ اپنی وجہ سے پوری صف کو خراب نہ کرے گا بلکہ وہ معذور شمار ہو گا اور وہ اکیلا صف کے پیچھے ہی کھڑا ہو گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان عالی شان ہے: «لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا» [البقرة: 286]
اللہ تعالیٰ کسی جان کو اس کی استطاعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا
لہٰذا ان شاء اللہ اس کی نماز معذوری کی وجہ سے درست ہو گی۔

◈ ابن رشد القرطبی رحمہ اللہ نے اس مسئلہ پر علماء کا اختلاف ذکر فرمایا ہے۔ آپ کہتے ہیں: «واختلفوا اذا صلى انسان خلف الصف وحده فالجمهور على ان صلوته تجزي وقال احمد و ابوثور و جماعة صلاته فاسدة .» [هداية المجتهد: 108/1]
اگر کوئی صف کے پیچھے نماز پڑھے تو اس بارے میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، جمہور علماء کا قول ہے کہ اس کی نماز جائز ہے، لیکن امام احمد، ابوثور اور ایک جماعت کا قول ہے کہ اس کی نماز فاسد ہے۔
یہاں اس بات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ علامہ ابن رشد جب جمہور کا لفظ استعمال کریں تو اس سے مراد امام مالک شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہم مراد ہوتی ہے۔ [ديكهئے بداية المجتهد 1/51]

جو علماء صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کے جواز یا عدم جواز کے قائل ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے . امام بغوی، ابن قدامہ، حافظ ابن حجر، شمس الحق عظیم آبادی اور عبدالرحمن مبارک پوری رحمہم اللہ علیہم اجمعین کی تصریحات کے مطابق یوں ہے۔ امام أحمد، امام اسحاق بن راہویہ، حکم، ابن المنذر، بعض محدثین شافعیہ، ابن خزیمہ، نخعی، حسن بن صالح اور اہل کوفہ کی ایک جماعت مثلاً حماد بن ابی سلیمان، ابن ابی لیلی اور وکیع وغیرھم رحمہ اللہ علیہم عدم جواز کے قائل ہیں جبکہ حسن بصری، امام اوزاعی، امام مالک، سفیان ثوری، ابن مبارک، امام شافعی رحمہ اللہ علیہم اور اہل رائے یعنی حنفی حضرات کا قول اس کے جواز کا ہے۔
تفصیل کے لئے مراجعت کی جائے۔ [شرح السنة للبغوي 378/3، المغني لابن قدامه 42/2، عون المعبود 254/1، فتح الباري 247/2، تحفة الاحوذي 22/2]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 185   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 612  
´جب تین آدمی نماز پڑھ رہے ہوں تو کس طرح کھڑے ہوں؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی دادی ملیکہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا، جو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تیار کیا تھا، تو آپ نے اس میں سے کھایا پھر فرمایا: تم لوگ کھڑے ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں۔‏‏‏‏ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا، جو عرصے سے پڑے پڑے کالی ہو گئی تھی تو اس پر میں نے پانی چھڑکا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے، میں نے اور ایک یتیم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف باندھی اور بوڑھی عورت (ملیکہ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں تو آپ نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس ہوئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 612]
612۔ اردو حاشیہ:
تین مرد ہوں تو امام آگے اور باقی دو اس کے پیچھے صف بنایئں اور عورت کی علیحدہ صف ہو گی خواہ اکیلی ہی ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 612   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 738  
´چٹائی پر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ان کے پاس تشریف لا کر ان کے گھر میں نماز پڑھ دیں تاکہ وہ اسی کو اپنی نماز گاہ بنا لیں ۱؎، چنانچہ آپ ان کے ہاں تشریف لائے، تو انہوں نے چٹائی لی اور اس پر پانی چھڑکا، پھر آپ نے اس پر نماز پڑھی، اور آپ کے ساتھ گھر والوں نے بھی نماز پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 738]
738 ۔ اردو حاشیہ:
➊ تبرک کی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 702)
حصیر کھجور کی چٹائی کو کہتے ہیں۔ اس پر پانی ڈالنا صفائی یا نرم کرنے کے لیے تھا۔
➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ زمین پر نماز پڑھنا ضروری نہیں اور نہ ماتھے کو مٹی کا لگنا ہی شرط ہے جیسا کہ بعض صوفیوں کا خیال ہے بلکہ کسی بھی مطمئن اور پاک چیز پر نماز پڑھی جا سکتی ہے، وہ کپڑا ہو یا لکڑی، پتے ہوں یا چمڑا جیسا کہ آئنندہ روایات سے بھی ثابت ہوتا ہے۔
➍ سورۂ بنی اسرائیل، آیت: 8 میں جواللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَافِرِينَ حَصِيرًا»
اور ہم نے جہنم کو کافروں کے لیے قید خانہ بنایا ہے۔ اس میں حصیر سے مراد قید خانہ ہے نہ کہ وہ چٹائی جو نماز کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ گویا اس حدیث سے ان لوگوں کی تردید بھی ہوتی ہے جو چٹائی وغیرہ کو نماز کے لیے مکروہ سمجھتے ہیں۔ مزید برپں یہ کہ ممکن ہے امام صاحب اس قسم کی روایات سے جن میں چٹائی پر نماز پڑھنے کی مشروعیت ہے، اس روایت کے ضعف یا شذوذ کی طرف اشارہ کر رہے ہوں جس میں اس کے استعمال کی نفی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخیرۃ العقبیٰ، شرح سنن النسائي: 272/9]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 738   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 802  
´جب تین مرد اور ایک عورت ہو تو کیسے صف بندی کی جائے؟`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کی دادی ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر مدعو کیا جسے انہوں نے آپ کے لیے تیار کیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کچھ کھایا، پھر فرمایا: اٹھو تاکہ میں تمہیں نماز پڑھاؤں، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں اٹھ کر اپنی ایک چٹائی کی طرف بڑھا جو کافی دنوں سے پڑی رہنے کی وجہ سے کالی ہو گئی تھی، میں نے اس پر پانی چھڑکا، اور اسے آپ کے پاس لا کر بچھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، اور میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے صف باندھی، اور بڑھیا ہمارے پیچھے تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر واپس تشریف لے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 802]
802 ۔ اردو حاشیہ: چونکہ عورت مردوں کے برابر کھڑی ہو کر باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتی خواہ وہ اس کے محرم ہی ہوں اس لیے دادی محترمہ حضرت ملیکہ رضی اللہ عنہا الگ کھڑی ہوئیں۔ عورت کے لیے اکیلے کھڑے ہونے کی ممانعت منقول نہیں ہے لہٰذا کوئی حرج نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 802   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 870  
´صف کے پیچھے تنہا نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر آئے تو میں نے اور ایک یتیم نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی، اور ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ہمارے پیچھے تنہا نماز پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 870]
870 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورت ایک ہو تو وہ مردوں کے ساتھ کھڑی نہیں ہو گی بلکہ اکیلی کھڑی ہو کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھے گی، لیکن اگر مرد صف کے پیچھے اکیلا ہو تو اس کے لیے نہی موجود ہے، الایہ کہ کوئی عذر ہوکیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھتے دیکھا تو اسے نماز لوٹانے کا حکم دیا اور فرمایا: صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز نہیں ہوتی۔ یہ روایت کتب حدیث میں موجود ہے اور حسن درجے کی ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داؤد، الصلاة، حدیث: 682، ومسند أحمد: 4؍23]
اس لیے امام احمد، اسحاق اور دیگر محدثین رحم اللہ علیہم نے صف کے پیچھے اکیلے کی نماز کو ناجائز اور قابل اعادہ قرار دیا ہے، بشرطیکہ وہ اگلی صف میں جگہ ہونے کے باوجود اکیلا کھڑا ہوا ہو جب کہ دیگر حضرات اسے جائز سمجھتے ہیں مگر یہ قول بلا دلیل ہے۔ صف کے پیچھے اکیلا آدمی کیا کرے؟ اس سوال کا جواب بالکل واضح ہے کہ اگر صف میں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے اور دوسرا نمازی بھی ساتھ کھڑا ہونے والا نہیں ہے تو پھر اکیلا شخص ہی صف کے پیچھے کھڑا ہو جائے۔ اس کی نماز ان شاء اللہ درست ہو گی۔ اگلی صف سے نمازی کھینچ کر اپنے ساتھ ملانے والی روایت ضعیف ہے، اس لیے اگلی صف سے آدمی نہیں کھینچنا چاہیے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ واللہ أعلم۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [مجموع الفتاویٰ: 23؍396]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 870   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.