الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حیض کے احکام و مسائل
15. باب وُجُوبِ قَضَاءِ الصَّوْمِ عَلَى الْحَائِضِ دُونَ الصَّلاَةِ:
15. باب: حائضہ پر روزے کی قضاء واجب ہے، نماز کی نہیں۔
حدیث نمبر: 763
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد بن حميد ، اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن عاصم ، عن معاذة ، قالت: " سالت عائشة ، فقلت: ما بال الحائض، تقضي الصوم، ولا تقضي الصلاة؟ فقالت: احرورية انت؟ قلت: لست بحرورية، ولكني اسال، قالت: كان يصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم، ولا نؤمر بقضاء الصلاة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُعَاذَةَ ، قَالَتْ: " سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ: مَا بَالُ الْحَائِضِ، تَقْضِي الصَّوْمَ، وَلَا تَقْضِي الصَّلَاةَ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟ قُلْتُ: لَسْتُ بِحَرُورِيَّةٍ، وَلَكِنِّي أَسْأَلُ، قَالَتْ: كَانَ يُصِيبُنَا ذَلِكَ فَنُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّوْمِ، وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ ".
عاصم نے معاذہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ ؓ سے سوال کیا، میں نے کہا: حائضہ عورت کا یہ حال کیوں ہے کہ وہ روزوں کی قضا دیتی ہے نماز کی نہیں؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم حروریہ ہو؟ میں نے عرض کی: میں حروریہ نہیں، (صرف) پوچھنا چاہتی ہوں۔ انہوں نے فرمایا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزوں کی قضا دینے کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔
معاذہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا، کہ کیا وجہ ہے حائضہ روزہ کی قضائی دیتی ہے اور نماز کی قضائی نہیں دیتی؟ تو انہوں نے پوچھا: کیا تو حروریہ سے ہے؟ میں نے کہا، میرا حروریہ سے تعلق نہیں ہے، میں تو صرف پوچھنا چاہتی ہوں۔ تو انہوں نے جواب دیا: ہمیں بھی حیض آتا تھا تو ہمیں روزہ کی قضائی کا حکم دیا جاتا تھا، نماز کی قضائی کا نہیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 335

   صحيح البخاري321عائشة بنت عبد اللهنحيض مع النبي فلا يأمرنا به
   صحيح مسلم763عائشة بنت عبد اللهيصيبنا ذلك فنؤمر بقضاء الصوم لا نؤمر بقضاء الصلاة
   صحيح مسلم762عائشة بنت عبد اللهنساء رسول الله يحضن أفأمرهن أن يجزين
   صحيح مسلم761عائشة بنت عبد اللهتحيض على عهد رسول الله ثم لا تؤمر بقضاء
   جامع الترمذي787عائشة بنت عبد اللهيأمرنا بقضاء الصيام لا يأمرنا بقضاء الصلاة
   سنن أبي داود262عائشة بنت عبد اللهنحيض عند رسول الله فلا نقضي ولا نؤمر بالقضاء
   سنن النسائى الصغرى2320عائشة بنت عبد اللهيأمرنا بقضاء الصوم لا يأمرنا بقضاء الصلاة
   سنن النسائى الصغرى382عائشة بنت عبد اللهنحيض عند رسول الله فلا نقضي ولا نؤمر بقضاء
   سنن ابن ماجه631عائشة بنت عبد اللهنحيض عند النبي ثم نطهر ولم يأمرنا بقضاء الصلاة
   سنن ابن ماجه1670عائشة بنت عبد اللهيأمرنا بقضاء الصوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 321  
´حائضہ عورت دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں دے`
«. . . حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ، أَنَّ امْرَأَةً قَالَتْ لِعَائِشَةَ: " أَتَجْزِي إِحْدَانَا صَلَاتَهَا إِذَا طَهُرَتْ؟ فَقَالَتْ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ، كُنَّا نَحِيضُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَا يَأْمُرُنَا بِهِ أَوْ قَالَتْ فَلَا نَفْعَلُهُ " . . . .»
. . . مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ (حیض سے) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ لاَ تَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلاَةَ: 321]

تخريج الحديث:
[192۔ البخاري فى: 6 كتاب الحيض: 20 باب لا تقضي الحائض الصلاة 321، مسلم 335، ابن ماجه 631]
لغوی توضیح:
«اَحَرُوْرِيَّة» کیا حروریہ ہو۔ یہ حروراء کی طرف نسبت ہے، یہ وہ بستی ہے جہاں خوارج ابتدائی طور پر اکٹھے ہوئے تھے، تو اس جملے سے مراد یہ ہوئی کہ کیا تم خارجی ہو؟ کیونکہ خوارج کا ایک گروہ حائضہ عورت پر دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازیں بھی فرض قرار دیتا تھا جو کہ اجماع کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس مسئلے پر سلف کا اجماع ہے کہ حائضہ عورت دوران حیض چھوڑی ہوئی نمازوں کی قضا نہیں دے گی بلکہ صرف روزوں کی قضا دے گی، جیسا کہ امام نووی، امام شوکانی اور امام ابن منذر رحمہم اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ [المجموع 351/2، السيل الجرار 148/1، الإجماع لابن المنذر ص: 37]
اور یہ صحیح حدیث سے بھی ثابت ہے۔ [صحيح: صحيح أبوداود 236، أبوداود 263، بخاري 321، مسلم 335، ترمذي 130]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 192   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 262  
´حائضہ عورت نماز قضاء نہ کرے۔`
معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ تو اس پر آپ نے کہا: کیا تو حروریہ ہے ۱؎؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہمیں حیض آتا تھا تو ہم نماز کی قضاء نہیں کرتے تھے اور نہ ہی ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 262]
262۔ اردو حاشیہ:
خوارج کو حروراء مقام کی طرف نسبت کرتے ہوئے حروری بھی کہتے ہیں کیونکہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کے بعد سب سے پہلا اجتماع مقام حروراء میں کیا تھا جو کوفہ کے قریب تھا۔ وہ حائضہ کے لیے ایام حیض کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنے کے قائل بھی تھے۔ ان کا نظریہ یہ تھا کہ جو کچھ قرآن سے ثابت ہو وہی قابل عمل ہے اور جو امور زائدہ احادیث میں آئے ہیں ان کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہے اور مرتکب کبیرہ کافر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 262   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 382  
´حائضہ سے نماز ساقط ہونے کا بیان۔`
معاذہ عدویہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا حائضہ اپنی نماز قضاء کرے گی؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ ۱؎ (خارجیہ) ہے؟ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حائضہ ہوتی تھیں، تو نہ ہم قضاء کرتے اور نہ ہمیں قضاء کا حکم دیا جاتا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 382]
382۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت کو خارجی اس لیے کہا کہ خوارج کے نزدیک حیض کے دنوں کی نماز کی قضا ادا کرنا ضروری ہے۔
➋ عورت کو حیض کے دنوں کی نماز کی قضا ادا کرنا اس لیے معاف ہے کہ ہر ماہ تیس پینتیس نمازوں کی قضا کافی مشکل ہے جب کہ ساتھ ساتھ وقتی نمازوں کی ادائیگی بھی لازمی ہے۔ بخلاف اس کے گیارہ مہینوں میں چھ سات روزوں کی ادائیگی آسان ہے جب کہ ساتھ وقتی روزے بھی نہیں، اس لیے حائضہ کو روزوں کی قضا ادا کرنے کا حکم دیا گیا۔ گویا اس مسئلے میں تنگی دور کرنے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 382   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث631  
´حائضہ عورت نماز کی قضاء نہ پڑھے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ان سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ (خارجیہ) ہے؟ ۱؎ ہمیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہو جاتے تھے، آپ ہمیں نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 631]
اردو حاشہ:
(1)
عورت حیض کی حالت میں نماز نہیں پڑھ سکتی۔ (صحيح البخاري، الحيض، باب ترك الحائض الصوم، حديث: 304)
 اس مسئلہ پر بعض خوارج کے سوا تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔
اس لیے حضرت عائشہ نے اس خاتون کے سوال پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے سوال تو خارجی کرتے ہیں۔

(2)
یہ اللہ کا عورتوں پر احسان ہے کہ اس نے ان ایام کی چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضاء کا حکم نہیں دیا ورنہ ہر مہینے آٹھ دس دن کی مسلسل قضاء نمازیں ادا کرنا بہت مشکل ہوتا۔
اس کے برعکس روزے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں لہٰذا چھوٹے ہوئے آٹھ دس روزے سال کے گیارہ مہینوں میں کسی بھی وقت رکھ لینا مشکل نہیں۔

(3)
عبادات میں یہ اصول ہے کہ کوئی عمل اس وقت تک واجب نہیں ہوتا جب تک اس کا حکم نہ دیا جائے اس سے حضرت عائشہ نے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر ان نمازوں کی قضاء واجب ہوتی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ضرور حکم فرماتے۔
اس کے برعکس معاملات میں جواز اور اباحت اصل ہے۔
جب تک کسی کام کی ممانعت کی دلیل نہ ہو وہ جائز ہی سمجھا جائے گا، اس اصول کو برات اصلية کہتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 631   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 787  
´حائضہ عورت روزہ کی قضاء کرے گی نماز کی نہیں۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہمیں حیض آتا پھر ہم پاک ہو جاتے تو آپ ہمیں روزے قضاء کرنے کا حکم دیتے اور نماز قضاء کرنے کا حکم نہیں دیتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 787]
اردو حاشہ:
1؎:
اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کی قضا اتنی مشکل نہیں ہے جتنی نماز کی قضا ہے کیونکہ یہ پورے سال میں صرف ایک بار کی بات ہوتی ہے اس کے بر خلاف نماز حیض کی وجہ سے ہر مہینے چھ یا سات دن کی نماز چھوڑنی پڑتی ہے،
اور کبھی کبھی دس دس دن کی نماز چھوڑنی پڑ جاتی ہے،
اس طرح سال کے تقریباً چار مہینے نماز کی قضاء کرنی پڑے گی جو انتہائی دشوار امر ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 787   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 763  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کسی مسئلہ کا حکم کیا ہے اس کا اصل دارومدار قرآن و سنت کی نصوص پر ہے اس کی حکمت اور مصلحت یا فلاسفی کیا ہے اس کا بتانا جاننا ضروری نہیں ہے کیونکہ اس کے بارے میں مختلف آراء ہو سکتی ہیں اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جواب میں صرف یہ کہا کہ ہمیں روزہ کی قضا کا حکم ملا ہے نماز کی قضاء کا حکم نہیں آئمہ دین عام طور پر اس فرق کی وجہ یا علت یہ بیان کرتے ہیں نمازیں ہر روز پڑھتی ہوتی ہیں اس لیے ان کی قضا و حرج اور تنگی کا باعث ہے جبکہ روزے صرف ایک ماہ میں رکھنے ہوتے ہیں باقی گیارہ مہینے روزے فرض نہیں ہیں اس لیے ان کی قضائی کسی دن بھی دی جا سکتی ہے۔
اس لیے یہ مشقت یا کلفت کا باعث نہیں ہے اگرچہ اس پر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ نماز اپنے پورے وقت کا استیعاب نہیں کرتی اس لیے ایک وقت میں کئی نمازیں پڑھی جا سکتی ہیں اور روزہ پورے دن کا رکھنا ہوتا ہے اس لیے ایک دن میں ایک سے زائد روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے نماز کے لیے طہارت ضروری ہے اور حیض و نفاس میں عورت پاکیزگی حاصل نہیں کر سکتی اس لیے اس پر نماز فرض نہیں ہے تو قضائی کیسے فرض ہو سکتی ہے اور روزہ کے لیے طہارت شرط نہیں ہے اس لیے حائضہ روزہ فرض سے تخفیف و آسانی کے لیے اس پر ادا کی بجائے قضا لازم ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 763   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.