الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
104. بَابُ الْقِرَاءَةِ فِي الْفَجْرِ:
104. باب: نماز فجر میں قرآن شریف پڑھنا۔
(104) Chapter. The recitation of the Quran in the Fajr prayer.
حدیث نمبر: Q771
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقالت ام سلمة: قرا النبي صلى الله عليه وسلم بالطوروَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: قَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالطُّورِ
‏‏‏‏ اور ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الطور پڑھی۔

حدیث نمبر: 771
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا سيار بن سلامة، قال: دخلت انا وابي على ابي برزة الاسلمي، فسالناه عن وقت الصلوات، فقال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر حين تزول الشمس والعصر، ويرجع الرجل إلى اقصى المدينة والشمس حية ونسيت ما قال في المغرب، ولا يبالي بتاخير العشاء إلى ثلث الليل، ولا يحب النوم قبلها ولا الحديث بعدها، ويصلي الصبح فينصرف الرجل فيعرف جليسه، وكان يقرا في الركعتين او إحداهما ما بين الستين إلى المائة".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ، قَال: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبِي عَلَى أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَوَاتِ، فَقَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ حِينَ تَزُولُ الشَّمْسُ وَالْعَصْرَ، وَيَرْجِعُ الرَّجُلُ إِلَى أَقْصَى الْمَدِينَةِ وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ وَنَسِيتُ مَا قَالَ فِي الْمَغْرِبِ، وَلَا يُبَالِي بِتَأْخِيرِ الْعِشَاءِ إِلَى ثُلُثِ اللَّيْلِ، وَلَا يُحِبُّ النَّوْمَ قَبْلَهَا وَلَا الْحَدِيثَ بَعْدَهَا، وَيُصَلِّي الصُّبْحَ فَيَنْصَرِفُ الرَّجُلُ فَيَعْرِفُ جَلِيسَهُ، وَكَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ أَوْ إِحْدَاهُمَا مَا بَيْنَ السِّتِّينَ إِلَى الْمِائَةِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیار ابن سلامہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں اپنے باپ کے ساتھ ابوبرزہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ ہم نے آپ سے نماز کے وقتوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز سورج ڈھلنے پر پڑھتے تھے۔ عصر جب پڑھتے تو مدینہ کے انتہائی کنارہ تک ایک شخص چلا جاتا۔ لیکن سورج اب بھی باقی رہتا۔ مغرب کے متعلق جو کچھ آپ نے کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا اور عشاء کے لیے تہائی رات تک دیر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے اور آپ اس سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ جب نماز صبح سے فارغ ہوتے تو ہر شخص اپنے قریب بیٹھے ہوئے کو پہچان سکتا تھا۔ آپ دونوں رکعات میں یا ایک میں ساٹھ سے لے کر سو تک آیتیں پڑھتے۔

Narrated Saiyar bin Salama: My father and I went to Abu Barza-al-Aslami to ask him about the stated times for the prayers. He replied, "The Prophet used to offer the Zuhr prayer when the sun just declined from its highest position at noon; the `Asr at a time when if a man went to the farthest place in Medina (after praying) he would find the sun still hot (bright). (The sub narrator said: I have forgotten what Abu Barza said about the Maghrib prayer). The Prophet never found any harm in delaying the `Isha' prayer to the first third of the night and he never liked to sleep before it and to talk after it. He used to offer the morning prayer at a time when after finishing it one could recognize the person sitting beside him and used to recite between 60 to 100 verses in one or both the rak`at."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 738


   صحيح البخاري771نضلة بن عبيديصلي الظهر حين تزول الشمس العصر ويرجع الرجل إلى أقصى المدينة والشمس حية لا يبالي بتأخير العشاء إلى ثلث الليل لا يحب النوم قبلها ولا الحديث بعدها يصلي الصبح فينصرف الرجل فيعرف جليسه يقرأ في الركعتين أو إحداهما ما
   صحيح البخاري547نضلة بن عبيديصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس يصلي العصر ثم يرجع أحدنا إلى رحله في أقصى المدينة والشمس حية كان يستحب أن يؤخر العشاء التي تدعونها العتمة كان يكره النوم قبلها والحديث بعدها وكان ينفتل من صلاة الغداة حين
   صحيح البخاري599نضلة بن عبيديصلي الهجير وهي التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس يصلي العصر ثم يرجع أحدنا إلى أهله في أقصى المدينة والشمس حية كان يستحب أن يؤخر العشاء كان يكره النوم قبلها والحديث بعدها كان ينفتل من صلاة الغداة حين يعرف أحدنا جليسه
   سنن أبي داود398نضلة بن عبيديصلي الظهر إذا زالت الشمس يصلي العصر وإن أحدنا ليذهب إلى أقصى المدينة ويرجع والشمس حية لا يبالي تأخير العشاء إلى ثلث الليل أو شطر الليل يكره النوم قبلها والحديث بعدها يصلي الصبح وما يعرف أحدنا جليسه الذي كان يعرفه
   سنن النسائى الصغرى531نضلة بن عبيديصلي الهجير التي تدعونها الأولى حين تدحض الشمس التي تدعونها العتمة يكره النوم قبلها والحديث بعدها وكان ينفتل من صلاته
   سنن ابن ماجه674نضلة بن عبيديصلي صلاة الهجير التي تدعونها الظهر إذا دحضت الشمس
   بلوغ المرام130نضلة بن عبيديصلي العصر ثم يرجع احدنا إلى رحله في اقصى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني734نضلة بن عبيد نهى عن النوم قبل العشاء ، والحديث بعدها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 130  
´نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہئے`
«. . . إذا راهم اجتمعوا عجل وإذا راهم ابطاوا اخر والصبح: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يصليها بغلس . . .»
. . . صبح کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے ہی میں پڑھتے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 130]

[130-أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ، حديث: 547، ومسلم، المساجد، باب وقت العشاء و تاخيرها، حديث 647، وحديث جابر أخرجه البخاري، مواقيت الصلاة، حديث: 560، ومسلم، المساجد، حيث 646، وحديث أبى موسي أخرجه مسلم، المساجد، حديث 614]

لغوي تشريح:
«رَحْلِهِ» را پر فتحه اور حا ساكن هے، یعنی جائے سکونت۔
«فِي أَقْصَى الْمَدِينَةِ» گرامر کے اعتبار سے یہ «رَحْل» سے حال واقع ہو رہا ہے۔ مدینہ کی انتہائی دور ترین جگہ۔
«وَالشَّمْسُ حَيَّةٌ» اس میں واؤ حالیہ اور «يَرْجِعُ» کی ضمیر سے یہ جملہ حال واقع ہو رہا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ نماز سے فراغت کے بعد واپس جانے والا آدمی سورج غروب ہونے سے پہلے ہی اپنی جائے رہائش پر پہنچ جاتا (عصر کی نماز جلدی ادا کی جاتی تھی۔) اور سورج کے زندہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی سورج کی سفیدی، تپش والی روشنی اور حرارت باقی ہوتی تھی۔
«مِنَ الْعِشَاءَ» اس میں من تبعیضیہ ہے، مطلب یہ ہے کہ عشاء میں تھوڑی بہت تاخیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی۔
«يَنْفَتِلُ» «يَنْصَرِفُ» کے معنی میں ہے، یعنی فارغ ہوتے، پھرتے۔
«الْغَدَاةِ» فجر، صبح
«بِالسِّتِّينَ» ساٹھ آیات
«إِلَى الْمِائَةِ» سو تک، یعنی جب نماز میں اختصار کرنا چاہتے یا اگر آیات لمبی ہوتیں تو ساٹھ تک تلاوت فرماتے اور جب نماز لمبی کرنا چاہتے یا اگر آیات چھوٹی چھوٹی ہوتیں تو سو تک پڑھتے۔ نماز فجر ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ ایک ساتھی دوسرے ساتھی کو اچھی طرح پہچان نہ سکتا تھا۔ اتنی طویل قرأت اس بات کی دلیل ہے کہ نماز فجر اول وقت میں پڑھتے تھے۔
«الغَلَسٍ» صبح کی سیاہی اور تاریکی جو اس کے اول وقت میں ہوتی ہے اس «غلس» کہتے ہیں۔
«إنْشَقَّ» پھٹنا، تاریکیٔ شب سے سپیدۂ صبح کا ظاہر ہونا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں لفظ «غَلَس» سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں آپ ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرمایا کرتے تھے اور وہ بھی ترتیل سے، ٹھہر ٹھہر کر۔ اس سے بھی اندازہ کر لیجئیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا آغاز کس وقت میں کرتے ہوں گے۔
➋ اس سے صاف معلوم ہوا کہ نماز فجر اول وقت (اندھیرے) میں پڑھنی چاہئے مگر صبح صادق کا اچھی طرح نمایاں ہونا ضروری ہے، اس لیے کہ اس سے پہلے تو نماز کا وقت ہی نہیں ہوتا۔

راویٔ حدیث:
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ ابوبرزہ ان کی کنیت ہے۔ نضلہ بن عبید نام ہے۔ قدیم الاسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہیں فتح مکہ اور دوسرے غزوات میں شریک رہے۔ بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی، پھر بعد میں خراسان چلے گئے۔ اور ایک قول کے مطابق مرو یا بصرہ میں 90 ھجری میں وفات پائی۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ ان کا سن وفات 64 ہجری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 130   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 398  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟`
ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے اور عصر اس وقت پڑھتے کہ ہم میں سے کوئی آدمی مدینہ کے آخری کنارے پر جا کر وہاں سے لوٹ آتا، اور سورج زندہ رہتا (یعنی صاف اور تیز رہتا) اور مغرب کو میں بھول گیا، اور عشاء کو تہائی رات تک مؤخر کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے، پھر انہوں نے کہا: آدھی رات تک مؤخر کرنے میں (کوئی حرج محسوس نہیں کرتے) فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور عشاء کے بعد بات چیت کو برا جانتے تھے، اور فجر پڑھتے اور حال یہ ہوتا کہ ہم میں سے ایک اپنے اس ساتھی کو جسے وہ اچھی طرح جانتا ہوتا، اندھیرے کی وجہ سے پہچان نہیں پاتا، اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساٹھ آیتوں سے لے کر سو آیتوں تک پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 398]
398۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کا معمول رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اول وقت میں نماز پڑھتے تھے مگر نماز عشاء میں افضل یہ ہے کہ تاخیر کی جائے۔
➋ عشاء سے پہلے سونا اور بعد ازاں لایعنی باتوں اور کاموں میں لگے رہنا مکروہ، الّا یہ کہ کوئی اہم مقصد پیش نظر ہو، جیسے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مشغول گفتگو رہے تھے، مگر شرط یہ ہے کہ فجر کی نماز بروقت ادا ہو۔ دینی و تبلیغی اجتماعات جو رات گئے تک جاری رہتے ہیں ان میں اس مسئلے کو پیش نظر رکھنا چاہیے کہ فجر کی نماز ضائع نہ ہو۔
➌ فجر کی نماز کے بارے میں صحیح احادیث میں وضاحت آئی ہے کہ فراغت کے بعد ہمارا ایک آدمی اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا نہ کہ نماز شروع کرتے وقت۔
➍ فجر کی نماز میں قرأت مناسب حد تک لمبی ہونی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 398   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 531  
´عشاء کو تاخیر سے پڑھنے کے استحباب کا بیان۔`
سیار بن سلامہ کہتے ہیں کہ میں اور میرے والد دونوں ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو میرے والد نے ان سے پوچھا: ہمیں بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے (یعنی کب) پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر جسے تم لوگ پہلی نماز کہتے ہو اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈھل جاتا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے پھر ہم میں سے ایک آدمی (نماز پڑھ کر) مدینہ کے آخری کونے پر واقع اپنے گھر کو لوٹ آتا، اور سورج تیز اور بلند ہوتا، اور انہوں نے مغرب کے بارے میں جو کہا میں (اسے) بھول گیا، اور کہا: اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء جسے تم لوگ عتمہ کہتے ہوتا خیر سے پڑھنے کو پسند کرتے تھے، اور اس سے قبل سونے اور اس کے بعد گفتگو کرنے کو ناپسند فرماتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر سے اس وقت فارغ ہوتے جب آدمی اپنے ساتھ بیٹھنے والے کو پہچاننے لگتا، آپ اس میں ساٹھ سے سو آیات تک پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 531]
531 ۔ اردو حاشیہ: فوائد کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 526
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 531   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 771  
771. سیار بن سلامہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اور میرا باپ (ہم دونوں) حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے اور ان سے نمازوں کے اوقات دریافت کیے۔ انہوں نے فرمایا: جب آفتاب ڈھل جاتا تو نبی ﷺ ظہر کی نماز پڑھتے تھے اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ آدمی مدینے کے آخری کنارے تک واپس پہنچ جاتا جبکہ آفتاب ابھی تغیر پذیر نہ ہوا ہوتا۔ نماز مغرب کے متعلق جو کچھ ابوبرزہ ؓ نے فرمایا اسے میں بھول گیا ہوں، البتہ آپ نماز عشاء رات کے تیسرے حصے تک مؤخر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے لیکن اس سے پہلے نیند کرنے اور اس کے بعد باتوں میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ اور نماز صبح ایسے وقت میں پڑھتے کہ آدمی نماز سے فراغت کے بعد اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا جبکہ آپ دونوں رکعات یا ہر ایک میں ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرماتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:771]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر ؒ نے کہاکہ یہ شعبہ نے شک کیا ہے۔
طبرانی میں اس کا اندازہ سورۃ الحاقہ مذکور ہے۔
ابن عباس ؓ کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم ﷺ جمعہ کے دن صبح کی نماز میں پہلی رکعت میں الم تنزیل اوردوسری رکعت میں سورة الدہر پڑھا کرتے تھے۔
جابر بن سمرہ ؓ کی روایت میں آپ کا فجر کی نماز میں سورۃ ق پڑھنا بھی آیا ہے۔
بعض روایات میں والصافات اور سورۃ واقعۃ پڑھنا بھی مذکور ہے۔
بہرحال فجر کی نماز میں قرات قرآن طویل کرنا مقصود ہے۔
یہ وہ مبارک نماز ہے جس میں قرات قرآن سننے کے لیے خود فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 771   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:771  
771. سیار بن سلامہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں اور میرا باپ (ہم دونوں) حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کے پاس گئے اور ان سے نمازوں کے اوقات دریافت کیے۔ انہوں نے فرمایا: جب آفتاب ڈھل جاتا تو نبی ﷺ ظہر کی نماز پڑھتے تھے اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ آدمی مدینے کے آخری کنارے تک واپس پہنچ جاتا جبکہ آفتاب ابھی تغیر پذیر نہ ہوا ہوتا۔ نماز مغرب کے متعلق جو کچھ ابوبرزہ ؓ نے فرمایا اسے میں بھول گیا ہوں، البتہ آپ نماز عشاء رات کے تیسرے حصے تک مؤخر کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے تھے لیکن اس سے پہلے نیند کرنے اور اس کے بعد باتوں میں مصروف ہونے کو ناپسند کرتے تھے۔ اور نماز صبح ایسے وقت میں پڑھتے کہ آدمی نماز سے فراغت کے بعد اپنے ساتھی کو پہچان سکتا تھا جبکہ آپ دونوں رکعات یا ہر ایک میں ساٹھ سے سو آیات تک تلاوت فرماتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:771]
حدیث حاشیہ:
(1)
نماز فجر میں قراءت کا اندازہ بیان کرنے میں راوئ حدیث شعبہ منفرد ہے۔
طبرانی کی روایت میں ہے کہ سورۂ الحاقہ یا اس طرح کی کوئی دوسری سورت پڑھتے تھے۔
اگر دونوں رکعات میں اتنی آیات پڑھتے تو قراءت سے متعلق یہ روایت حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث کے مطابق ہے کہ آپ جمعہ کے دن صبح کی نماز میں سورۂ سجدہ اور سورۂ دھر پڑھتے تھے۔
اور اگر ایک رکعت میں مذکورہ مقدار تلاوت فرماتے تو یہ جابر بن سمرہ ؓ سے مروی حدیث کے مطابق ہے کہ آپ نماز صبح میں سورۂ ق، یا الصافات یا الواقعہ پڑھتے تھے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا حضرت ام سلمہ ؓ اور حضرت ابو برزہ ؓ کی روایات کو بیان کرنے سے مقصود یہ ہے کہ سفرو حضر کا معمول نبوی بیان کیا جائے اور آئندہ حدیث ابو ہریرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز صبح میں قراءت کے لیے مقدار معین کی کوئی شرط نہیں ہے۔
(فتح الباري: 326/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 771   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.