الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حیض کے احکام و مسائل
The Book of Menstruation
حدیث نمبر: 822
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مسلم: وروى الليث بن سعد ، عن جعفر بن ربيعة ، عن عبد الرحمن بن هرمز ، عن عمير مولى ابن عباس، انه سمعه، يقول: اقبلت انا وعبد الرحمن بن يسار مولى ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، حتى دخلنا على ابي الجهم بن الحارث بن الصمة الانصاري، فقال ابو الجهم : اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم من نحو بئر جمل، فلقيه رجل، فسلم عليه، فلم يرد رسول الله صلى الله عليه وسلم عليه، حتى اقبل على الجدار، فمسح وجهه ويديه، ثم رد عليه السلام ".قَالَ مُسْلِم: وَرَوَى اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ سَمِعَهُ، يَقُولُ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبِي الْجَهْمِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الصِّمَّةِ الأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ أَبُو الْجَهْمِ : أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوَ بِئْرِ جَمَلٍ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ، فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِ، حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ، فَمَسَحَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَام ".
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عمیر بیان کرتے ہیں کہ میں اور عبد الرحمن بن یسار، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت میمونہؓ کے آزاد کردہ غلام تھے، ابو جہم بن حارث بن صمہ انصاری کے پاس پہنچے تو ابو جہم رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل (نامی جگہ) سے تشریف لائے تو آپ کو ایک آدمی ملا، اس نے آپ کو سلام کہا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ ایک دیوار کی طرف بڑھے اور آپ نے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے آزاد کردہ غلام بیان کرتے ہیں کہ میں اور عبدالرحمٰن بن یسار جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے مولیٰ ہیں، ابوالجہم بن حارث بن صمہ انصاری کے پاس پہنچے تو ابوجہم رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل نامی جگہ تشریف لائے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کو ایک آدمی ملا، اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہ دیا، حتیٰ کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کی طرف بڑھے، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 369

   صحيح البخاري337حارث بن الصمةأقبل النبي من نحو بئر جمل فلقيه رجل فسلم عليه فلم يرد عليه النبي حتى أقبل على الجدار فمسح بوجهه ويديه ثم رد
   صحيح مسلم822حارث بن الصمةمسح وجهه ويديه ثم رد
   سنن أبي داود329حارث بن الصمةلم يرد رسول الله حتى أتى على جدار فمسح بوجهه ويديه ثم رد
   سنن النسائى الصغرى312حارث بن الصمةلم يرد رسول الله عليه حتى أقبل على الجدار فمسح بوجهه ويديه ثم رد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 337  
´ذکر اذکار، سلام کہنے یا جواب دینے کے لیے وضو شرط نہیں`
«. . . نَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَحْوِ بِئْرِ جَمَلٍ، فَلَقِيَهُ رَجُلٌ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ عَلَى الْجِدَارِ فَمَسَحَ بِوَجْهِهِ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ رَدَّ عَلَيْهِ السَّلَامَ .»
۔۔۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بئرجمل کی طرف سے تشریف لا رہے تھے، راستے میں ایک شخص نے آپ کو سلام کیا (یعنی خود اسی ابوجہیم نے) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ پھر آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر ان کے سلام کا جواب دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّيَمُّمِ: 337]

فقہ الحدیث
➊ ذکر اذکار، سلام کہنے یا جواب دینے کے لیے وضو شرط نہیں بلکہ مستحب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے استحباباً ایسے کیا، چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ «كان النبى صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل احيانه» نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ [صحیح مسلم: 373]
اس حدیث پر امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے: «باب فى الرجل يذكر الله تعالىٰ على غير طهر» طہارت کے بغیر اللہ تعالىٰ کا ذکر کرنے کا بیان۔ [ابوداؤد، قبل حدیث: 18]
◈ علامہ نووی رحمہ اللہ کی تبویب درج ذیل ہے: «باب ذكر الله تعالىٰ فى حال الجنابة وغيرها» یعنی حالت جنابت وغیرہ میں اللہ تعالىٰ کا ذکر کرنا۔
اور جس روایت میں آتا ہے کہ «اني كرهت ان اذكر الله تعالىٰ ذكره الا على طهراو قال: على طهارة» میں نے اسے ناپسند جانا کہ طہارت کے بغیر اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں۔ [سنن ابی داؤد: 17]
↰ تو وہ حسن بصری کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➋ درج بالا حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے: «باب التيمم فى الحضر اذا لم يجد الماء وخاف فوت الصلاة» حضر (شہر) میں تیمم کرنا جبکہ پانی میسر نہ ہو اور نماز قضا ہونے کا (بھی) اندیشہ ہو۔
یعنی اگر ایک مستحب امر (سلام کے جواب) کے لیے تیمم کیا جا سکتا ہے تو نماز جو ایک عظیم فریضہ ہے وقت پر اس کی ادائیگی کے لئے بطریق اولٰی تیمّم کیا جا سکتا ہے۔
➌ تیمم کے لیے پاک مٹی شرط ہے، لہٰذا مٹی کی دیوار جس پر مٹی نمایاں ہو اس سے تیمم کیا جا سکتا ہے، آج کل سیمنٹ کی دیواریں اس مفہوم میں شامل نہیں ہیں۔ «والله اعلم»
➍ تیمم کے لیے ایک ہی ضرب راجح ہے، جیسا کہ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے بھی واضح ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے ثبوت میں کئی قولی احادیث بھی موجود ہیں۔ «ولله الحمد»

فائدہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی گزرا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیشاب کر رہے تھے، اس نے سلام کہا تو آپ نے اسے سلام کا جواب نہ دیا۔ [صحیح مسلم: 370]
جو اس بات کی دلیل ہے کہ پیشاب کرنے والے شخص کو سلام کہا جا سکتا ہے کیونکہ آپ نے سلام کہنے والے کی اس بنا پر کوئی تردید نہیں فرمائی۔
جس روایت میں آتا ہے کہ ایک آدمی آپ کے پاس سے گزرا تو اس نے آپ کو سلام کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: جب تم مجھے اس حالت میں دیکھو تو سلام نہ کہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو میں تمہارے سلام کا جواب نہیں دوں گا۔ [سنن ابن ماجہ 352]
↰ یہ روایت عبداللہ بن محمد بن عقیل کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ تاہم جسے ایسی حالت میں سلام کہا گیا ہو وہ قضائے حاجت سے فارغ ہو کر جواب دے سکتا ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 134، حدیث\صفحہ نمبر: 4   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 329  
´حضر (اقامت) میں تیمم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عمیر کہتے ہیں کہ میں اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ بن یسار دونوں ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو ابوجہیم نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئرجمل (مدینے کے قریب ایک جگہ کا نام) کی طرف سے تشریف لائے تو ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ ایک دیوار کے پاس آئے اور آپ نے (دونوں ہاتھوں کو دیوار پر مار کر) اپنے منہ اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 329]
329۔ اردو حاشیہ:
اللہ کا ذکر اگرچہ ہر حال میں ہو سکتا ہے مگر باوضو ہو کر ہو تو بہت ہی افضل ہے۔ آپ نے اس موقع پر تمیم پر اکتفا فرمایا جو کہ استحباب کی دلیل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 329   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 312  
´حضر میں (دوران امامت) مقیم کے لیے تیمم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اور ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ عبداللہ بن یسار دونوں آئے یہاں تک کہ ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو وہ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل کی طرف سے آئے، تو آپ سے ایک آدمی ملا، اور اس نے آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا، یہاں تک کہ آپ دیوار کے پاس آئے، اور آپ نے اپنے چہرہ اور دونوں ہاتھ پر مسح کیا، پھر اس کے سلام کا جواب دیا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 312]
312۔ اردو حاشیہ:
➊ بئر جمل مدینے میں ایک جگہ کا نام ہے۔
➋ سلام کا جواب دینے کے لیے طہارت شرط نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا کہ اللہ کا ذکر بلا طہارت کیا جائے۔ وضو کی گنجائش نہ تھی، لہٰذا آپ نے تیمم فرمایا کہ یہ بھی مجبوری کے وقت ایک قسم کی طہارت ہے۔ اس سے احناف نے عید اور جنازے کے لیے تیمم کے جواز پر استدلال کیا ہے، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ ذکر کے لیے تو وضو شرط نہیں مگر جنازے اور عید کے لیے تو وضو شرط ہے۔ خیر امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود تو یہ ہے کہ تیمم صرف سفر ہی میں نہیں، گھر میں بھی جائز ہے، اگر پانی نہ مل سکے یا بیماری کی وجہ سے پانی استعمال نہ کیا جا سکے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 312   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 822  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
امام مسلم نے یہاں اپنے اور لیث بن سعد کے درمیان والے راوی کا نام نہیں لیا اس لیے اس روایت کو معلق قرار دیا گیا ہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ روایت یحییٰ بن بکیر رحمۃ اللہ علیہ عن اللیث بیان کی ہے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول مسلم میں بارہ یا چودہ معلق روایات ہیں۔
(2)
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مولیٰ کا نام عبدالرحمٰن بن یسار بیان کیا ہے جبکہ دوسرے آئمہ (بخاری رحمۃ اللہ علیہ،
ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ،
نسائی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہم)

نے اس کا نام عبداللہ بن یسار بتایا ہے (3)
امام مسلم نے یہ روایت ابو الجہم انصاری سے روایت کی ہے جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا نام ابو الجہم لیا ہے اور یہی درست ہے۔
(4)
بلا اجازت کچی دیوار پر مسح کرنا درست ہے ہاتھ مارنے سے دیوار کو نقصان نہیں پہنچتا اور کچی دیوار سے تیمم کرنا صحیح ہے۔
(5)
ضرورت کے تحت اگر پانی موجود نہ ہو اور فوری ضرورت ہو تو تیمم کرنا حضر میں بھی جائز ہے نیز اس حدیث سے معلوم ہوا آپﷺ سلام کا جواب بھی طہارت کی حالت میں دینا بہتر خیال فرماتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 822   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.