الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: علم کے بیان میں
The Book of Knowledge
29. بَابُ مَنْ بَرَكَ عَلَى رُكْبَتَيْهِ عِنْدَ الإِمَامِ أَوِ الْمُحَدِّثِ:
29. باب: اس شخص کے بارے میں جو امام یا محدث کے سامنے دو زانو (ہو کر ادب کے ساتھ) بیٹھے۔
(29) Chapter. Whoever knelt down before the Imam or a (religious) preacher.
حدیث نمبر: 93
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني انس بن مالك،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج، فقام عبد الله بن حذافة، فقال: من ابي؟ فقال: ابوك حذافة، ثم اكثر ان يقول سلوني، فبرك عمر على ركبتيه، فقال: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد صلى الله عليه وسلم نبيا"، فسكت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہیں انس بن مالک نے بتلایا کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔


Hum se Abul Yamaan ne bayan kiya, unhein Sho’aib ne Zohri se khabar di, unhein Anas bin Malik ne batlaaya ke (ek din) Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ghar se nikle to Abdullah bin Hudhafa khade ho kar poochne lage ke ya RasoolAllah! Mera baap kaun hai? Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya: Hudhafa, phir Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne baar baar farmaaya ke mujh se poocho, to Umar Radhiallahu Anhu ne do zaanu ho kar arz kiya ke hum Allah ke Rabb hone par, Islam ke deen hone, aur Muhammed Sallallahu Alaihi Wasallam ke Nabi hone par raazi hain (aur yeh jumla) teen martaba (dohraaya) phir (yeh sun kar) Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam khamoosh ho gaye.

Narrated Anas bin Malik: One day Allah's Apostle came out (before the people) and `Abdullah bin Hudhafa stood up and asked (him) "Who is my father?" The Prophet replied, "Your father is Hudhafa." The Prophet told them repeatedly (in anger) to ask him anything they liked. `Umar knelt down before the Prophet and said thrice, "We accept Allah as (our) Lord and Islam as (our) religion and Muhammad as (our) Prophet." After that the Prophet became silent.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 3, Number 93


   صحيح البخاري6362أنس بن مالكلا تسألوني اليوم عن شيء إلا بينته لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فإذا رجل كان إذا لاحى الرجال يدعى لغير أبيه فقال يا رسول الله من أبي قال حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا و بمحمد رسولا
   صحيح البخاري7295أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء
   صحيح البخاري7294أنس بن مالكمن أحب أن يسأل عن شيء فليسأل عنه فوالله لا تسألوني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس فأكثر الناس البكاء وأكثر رسول الله أن يقول سلوني فقال أنس فقام إليه رجل فقال أين مدخلي يا رسول الله قال النار فقام عبد الله
   صحيح البخاري7089أنس بن مالكلا تسألوني عن شيء إلا بينت لكم فجعلت أنظر يمينا وشمالا فإذا كل رجل لاف رأسه في ثوبه يبكي فأنشأ رجل كان إذا لاحى يدعى إلى غير أبيه فقال يا نبي الله من أبي فقال أبوك حذافة ثم أنشأ عمر فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا نعوذ بالله من سوء الفتن
   صحيح البخاري93أنس بن مالكأبوك حذافة ثم أكثر أن يقول سلوني فبرك عمر على ركبتيه فقال رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا فسكت
   صحيح مسلم6120أنس بن مالكأبوك فلان ونزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم
   صحيح مسلم6121أنس بن مالكخرج حين زاغت الشمس فصلى لهم صلاة الظهر ذكر الساعة وذكر أن قبلها أمورا عظاما من أحب أن يسألني عن شيء فليسألني عنه فوالله لا تسألونني عن شيء إلا أخبرتكم به ما دمت في مقامي هذا قال أنس بن مالك فأكثر الناس البكاء حين سمعوا
   جامع الترمذي3056أنس بن مالكأبوك فلان فنزلت يأيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 93  
´شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ، فَقَامَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُذَافَةَ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي؟ فَقَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، ثُمَّ أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ سَلُونِي، فَبَرَكَ عُمَرُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا"، فَسَكَتَ . . .»
. . . (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکلے تو عبداللہ بن حذافہ کھڑے ہو کر پوچھنے لگے کہ یا رسول اللہ! میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حذافہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باربار فرمایا کہ مجھ سے پوچھو، تو عمر رضی اللہ عنہ نے دو زانو ہو کر عرض کیا کہ ہم اللہ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہیں (اور یہ جملہ) تین مرتبہ (دہرایا) پھر (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 93]

تشریح:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عرض کرنے کی منشا یہ تھی کہ اللہ کو رب، اسلام کو دین اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر اب ہمیں مزید کچھ سوالات پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ لوگ عبداللہ بن حذافہ کو کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے آپ سے اپنی تشفی حاصل کر لی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دو زانو ہو کر بیٹھنے سے ترجمہ باب نکلا اور ثابت ہوا کہ شاگرد کو استاد کا ادب ہمہ وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ باادب بانصیب بے ادب بے نصیب، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مؤدبانہ بیان سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ جاتا رہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 93   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3056  
´سورۃ المائدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باپ کون ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ فلاں ہے، راوی کہتے ہیں: پھر یہ آیت نازل ہوئی: «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! ایسی چیزیں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ بیان کر دی جائیں تو تم کو برا لگے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3056]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ عبداللہ بن حذافہ سہمی ہیں،
سوال اس لیے کرنا پڑا کہ لوگ انہیں غیر باپ کی طرف منسوب کر رہے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3056   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:93  
93. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضرت عبداللہ بن حذافہ ؓ نے کھڑے ہو کر سوال کیا: میرے والد کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: تمہارے والد حذافہ ہیں۔ پھر آپ نے بار بار فرمایا: مجھ سے دریافت کرو۔ حضرت عمر ؓ دوزانو بیٹھ گئے اور کہنے لگے: ہم اللہ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور حضرت محمد ﷺ کے نبی ہونے پر خوش ہیں۔ تو رسول اللہ ﷺ خاموش ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:93]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بعض لوگ کسی اور کا بیٹا کہا کرتے تھے، اس لیے انہوں نے تسلی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حقیقت حال کی وضاحت فرمادی۔
اس طرح مجلس میں بہت سے بے تکے سوالات ہوئے جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ بڑھنا شروع ہوگیا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے دو چیزیں اختیار کیں۔
ایک کا تعلق قول سے ہے اور دوسری کافعل سے:
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ کی ربوبیت، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور اسلام کی حقانیت کا اقرار کیا اور عملاً یہ کیا کہ دوزانو بیٹھنے کی نشست اختیار فرمائی تاکہ اس عاجزانہ اورمؤدبانہ طریقے سے آپ کا غصہ فرو ہو۔
اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔

دوزانو بیٹھنا تشہد بیٹھنے کی کیفیت ہے۔
شاید کوئی غیر نماز میں اس طرح بیٹھنے کو ناجائز کہہ دے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بتایا کہ اس طرح بیٹھنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ بھی ہے کیونکہ اس میں تواضع ہے، نیز اس طرح بیٹھنا استاد کی توجہات کو بھی کھینچتا ہے، اس لیے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہی نشست موزوں اور مناسب ہے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو اپنے استاد کا احترام ہمہ وقت ملحوظ رکھنا چاہیے کیونکہ مشہور مقولہ ہے:
(با ادب بانصیب، بے ادب بے نصیب)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 93   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.