الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حج کے مسائل کا بیان
The Book of Hajj
81. بَابُ تَقْضِي الْحَائِضُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلاَّ الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَإِذَا سَعَى عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ:
81. باب: حیض والی عورت بیت اللہ کے طواف کے سوا تمام ارکان بجا لائے۔
(81) Chapter. A menstruating woman can perform all the ceremonies of Hajj except Tawaf of the Kabah. (What is said) regarding the performance of Tawaf [Sa’y (going)] between As-Safa and Al-Marwa without ablution?
حدیث نمبر: 1652
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مؤمل بن هشام، حدثنا إسماعيل، عن ايوب، عن حفصة، قالت: كنا نمنع عواتقنا ان يخرجن، فقدمت امراة فنزلت قصر بني خلف، فحدثت ان اختها كانت تحت رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قد غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثنتي عشرة غزوة، وكانت اختي معه في ست غزوات، قالت: كنا نداوي الكلمى ونقوم على المرضى، فسالت اختي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" هل على إحدانا باس إن لم يكن لها جلباب ان لا تخرج؟ قال: لتلبسها صاحبتها من جلبابها ولتشهد الخير ودعوة المؤمنين، فلما قدمت ام عطية رضي الله عنها سالنها او قالت سالناها، فقالت: وكانت لا تذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم ابدا إلا قالت بابي، فقلنا: اسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كذا وكذا؟، قالت: نعم، بابي، فقال: لتخرج العواتق ذوات الخدور او العواتق وذوات الخدور والحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين ويعتزل الحيض المصلى، فقلت: الحائض، فقالت: اوليس تشهد عرفة وتشهد كذا وتشهد كذا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، قَالَتْ: كُنَّا نَمْنَعُ عَوَاتِقَنَا أَنْ يَخْرُجْنَ، فَقَدِمَتِ امْرَأَةٌ فَنَزَلَتْ قَصْرَ بَنِي خَلَفٍ، فَحَدَّثَتْ أَنَّ أُخْتَهَا كَانَتْ تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً، وَكَانَتْ أُخْتِي مَعَهُ فِي سِتِّ غَزَوَاتٍ، قَالَتْ: كُنَّا نُدَاوِي الْكَلْمَى وَنَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى، فَسَأَلَتْ أُخْتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" هَلْ عَلَى إِحْدَانَا بَأْسٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا جِلْبَابٌ أَنْ لَا تَخْرُجَ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا وَلْتَشْهَدِ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُؤْمِنِينَ، فَلَمَّا قَدِمَتْ أُمُّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا سَأَلْنَهَا أَوْ قَالَتْ سَأَلْنَاهَا، فَقَالَتْ: وَكَانَتْ لَا تَذْكُرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَدًا إِلَّا قَالَتْ بِأَبِي، فَقُلْنَا: أَسَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَذَا وَكَذَا؟، قَالَتْ: نَعَمْ، بِأَبِي، فَقَالَ: لِتَخْرُجْ الْعَوَاتِقُ ذَوَاتُ الْخُدُورِ أَوِ الْعَوَاتِقُ وَذَوَاتُ الْخُدُورِ وَالْحُيَّضُ فَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ الْمُصَلَّى، فَقُلْتُ: أَلْحَائِضُ، فَقَالَتْ: أَوَلَيْسَ تَشْهَدُ عَرَفَةَ وَتَشْهَدُ كَذَا وَتَشْهَدُ كَذَا".
ہم سے مومل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے اور ان سے حفصہ بنت سیرین نے بیان کیا کہ ہم اپنی کنواری لڑکیوں کو باہر نکلنے سے روکتے تھے۔ پھر ایک خاتون آئیں اور بنی خلف کے محل میں (جو بصرے میں تھا) ٹھہریں۔ انہوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن (ام عطیہ رضی اللہ عنہا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کے گھر میں تھیں۔ ان کے شوہر نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے اور میری بہن چھ جہادوں میں ان کے ساتھ رہی تھیں۔ وہ بیان کرتی تھیں کہ ہم (میدان جنگ میں) زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھیں اور مریضوں کی تیمارداری کرتی تھی۔ میری بہن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہمارے پاس چادر نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم عیدگاہ جانے کے لیے باہر نہ نکلیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس کی سہیلی کو اپنی چادر اسے اڑھا دینی چاہئے اور پھر مسلمانوں کی دعا اور نیک کاموں میں شرکت کرنا چاہئے۔ پھر جب امام عطیہ رضی اللہ عنہا خود بصرہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی پوچھا یا یہ کہا کہ ہم نے ان سے پوچھا انہوں نے بیان کیا ام عطیہ رضی اللہ عنہا جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ ہاں تو میں نے ان سے پوچھا، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں میرے باپ آپ پر فدا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنواری لڑکیاں اور پردہ والیاں بھی باہر نکلیں یا یہ فرمایا کہ پردہ والی دوشیزائیں اور حائضہ عورتیں سب باہر نکلیں اور مسلمانوں کی دعا اور خیر کے کاموں میں شرکت کریں۔ لیکن حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ میں نے کہا اور حائضہ بھی نکلیں؟ انہوں نے فرمایا کہ کیا حائضہ عورت عرفات اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی ہیں؟ (پھر عیدگاہ ہی جانے میں کیا حرج ہے)۔

Narrated Hafsa: (On `Id) We used to forbid our virgins to go out (for `Id prayer). A lady came and stayed at the Palace of Bani Khalaf. She mentioned that her sister was married to one of the companions of Allah's Apostle who participated in twelve Ghazawats along with Allah's Apostle and her sister was with him in six of them. She said, "We used to dress the wounded and look after the patients." She (her sister) asked Allah's Apostle , "Is there any harm for a woman to stay at home if she doesn't have a veil?" He said, "She should cover herself with the veil of her companion and she should take part in the good deeds and in the religious gatherings of the believers." When Um 'Atiyya came, I asked her. "Did you hear anything about that?" Um 'Atiyya said, "Bi Abi" and she never mentioned the name of Allah's Apostle without saying "Bi Abi" (i.e. 'Let my father be sacrificed for you'). We asked her, "Have you heard Allah's Apostle saying so and so (about women)?" She replied in the affirmative and said, "Let my father be sacrificed for him. He told us that unmarried mature virgins who stay often screened or unmarried young virgins and mature girls who stay often screened should come out and take part in the good deeds and in the religious gatherings of the believers. But the menstruating women should keep away from the Musalla (praying place)." I asked her, "The menstruating women?" She replied, "Don't they present themselves at `Arafat and at such and such places?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 714


   صحيح البخاري974نسيبة بنت كعبنخرج العواتق ذوات الخدور
   صحيح البخاري324نسيبة بنت كعبيخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين يعتزل الحيض المصلى
   صحيح البخاري980نسيبة بنت كعبلتلبسها صاحبتها من جلبابها فليشهدن الخير ودعوة المؤمنين وليخرج العواتق ذوات الخدور والحيض وليعتزل الحيض المصلى ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين قالت فقلت لها الحيض قالت نعم أليس الحائض تشهد عرفات وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح البخاري351نسيبة بنت كعبنخرج الحيض يوم العيدين ذوات الخدور يشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزل الحيض عن مصلاهن إحدانا ليس لها جلباب قال لتلبسها صاحبتها من جلبابها
   صحيح البخاري981نسيبة بنت كعبنخرج فنخرج الحيض العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزلن مصلاهم
   صحيح البخاري971نسيبة بنت كعبنخرج يوم العيد حتى نخرج البكر من خدرها نخرج الحيض فيكن خلف الناس فيكبرن بتكبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته
   صحيح البخاري1652نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور أو العواتق وذوات الخدور والحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين يعتزل الحيض المصلى فقلت ألحائض فقالت أوليس تشهد عرفة وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح مسلم2054نسيبة بنت كعبنخرج في العيدين العواتق ذوات الخدور أمر الحيض أن يعتزلن مصلى المسلمين
   صحيح مسلم2055نسيبة بنت كعبنؤمر بالخروج في العيدين والمخبأة والبكر
   صحيح مسلم2056نسيبة بنت كعبنخرجهن في الفطر والأضحى العواتق الحيض ذوات الخدور الحيض فيعتزلن الصلاة يشهدن الخير ودعوة المسلمين إحدانا لا يكون لها جلباب قال لتلبسها أختها من جلبابها
   جامع الترمذي539نسيبة بنت كعبلتعرها أختها من جلابيبها
   سنن أبي داود1136نسيبة بنت كعبنخرج ذوات الخدور يوم العيد الحيض قال ليشهدن الخير ودعوة المسلمين لم يكن لإحداهن ثوب كيف تصنع قال تلبسها صاحبتها طائفة من ثوبها
   سنن النسائى الصغرى390نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين تعتزل الحيض المصلى
   سنن النسائى الصغرى1560نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور فيشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض مصلى الناس
   سنن النسائى الصغرى1559نسيبة بنت كعبليخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ويشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض المصلى
   سنن ابن ماجه1307نسيبة بنت كعبنخرجهن في يوم الفطر والنحر
   سنن ابن ماجه1308نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور ليشهدن العيد ودعوة المسلمين ليجتنبن الحيض مصلى الناس
   بلوغ المرام389نسيبة بنت كعبنخرج العواتق والحيض في العيدين
   مسندالحميدي365نسيبة بنت كعبلتلبسها أختها من جلبابها، وتشهد العيد، ودعوة المسلمين
   مسندالحميدي366نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق، وذوات الخدور فليشهدن العيد، ودعوة المسلمين، وليعتزل الحيض مصلى المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 390  
´عیدین اور مسلمانوں کی دعا میں حائضہ عورتوں کی حاضری کا بیان۔`
حفصہ (حفصہ بنت سیرین) کہتی ہیں کہ ام عطیہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میرے والد آپ پر قربان ہوں، تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا فرماتے سنا ہے، انہوں نے کہا: ہاں، میرے والد آپ پر قربان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بالغ لڑکیاں، پردے والیاں، اور حائضہ عورتیں نکلیں، اور خطبہ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 390]
390۔ اردو حاشیہ:
«بیبا» یا «بأبا» دراصل «بأبي» ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جان ہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔
ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔
➌ عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 390   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1136  
´عید میں عورتوں کے جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم پردہ نشین عورتوں کو عید کے دن (عید گاہ) لے جائیں، آپ سے پوچھا گیا: حائضہ عورتوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں چاہیئے کہ وہ بھی حاضر رہیں، ایک خاتون نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کے پاس کپڑا نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنے کپڑے کا کچھ حصہ اسے اڑھا لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1136]
1136۔ اردو حاشیہ:
➊ عید کے دنوں میں عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مستحب ہے، مگر پردے میں خوشبو اور آواز دار زیور کے بغیر۔
➋ دعوۃ المسلمین میں اجتماعی دعا کا ثبوت ہے، مگر مروجہ طریقے سے نہیں۔
➌ دعا کے لئے طہارت ضروری نہیں اس کے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1136   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1307  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1307]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
  جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے۔
اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔

(2)
اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔
اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔
دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔
عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کا موقع ہے۔
جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔
لہٰذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں
(2)
اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔
جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیا جائے۔
اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔

(4)
اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔
دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔
لیکن اس کا حکم دیا گیا ہے اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

(5)
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔
تو وہ ایک چادر اس عورت کودے دے۔
جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 362/2، حدیث: 1467)

(6)
پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔
حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1307   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 389  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ کے کنارے پر رہیں۔ (نماز میں شامل نہ ہوں صرف دعا میں شرکت کریں) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 389»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلي المصلي، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلي المصلي، حديث:890.»
تشریح:
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔
2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔
(مسند أحمد: ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔
3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔
اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 389   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 539  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب العيدين/حدیث: 539]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے،
جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں:
یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،
ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1652  
1652. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم اپنی نوجوان کنواری لڑکیوں کو باہر(عید گاہ میں) جانے سے منع کر تی تھیں، چنانچہ ایک عورت آئی اور بنو خلف کے محل میں ٹھہری۔ اس نے بیان کیاکہ ان کى ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی تھی۔ اس کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ میری ہمشیرہ بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ اس نے بیان کیا کہ ہم میدان جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی عیادت کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ہم چادر نہ ہونے کی وجہ سے باہر(عید گاہ) نہ جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اسے دے دے اور وہ عورت خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں ضرور شریک ہو۔ پھر جب ام عطیہ ؓ بصرہ آئیں تو ہم نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت ام عطیہ ؓ کی عادت تھی کہ وہ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1652]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ نکالا کہ حیض والی طواف نہ کرے جو ترجمہ باب کا ایک مطلب تھا کیونکہ حیض والی عورت کو جب نماز کے مقام سے الگ رہنے کا حکم ہوا تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کو جائز نہ ہوگا۔
بعضوں نے کہا باب کا دوسرا مطلب بھی اس سے نکلتا ہے۔
یعنی صفا مروہ کی سعی حائضہ کرسکتی ہے کیونکہ حائضہ عرفات کا وقوف کرسکتی ہے اور صفا مروہ عرفات کی طرح ہے (وحیدی)
ترجمہ میں کھلی ہوئی تحریف:
کسی بھی مسلمان کا کسی بھی مسئلہ کے متعلق مسلک کچھ بھی ہو مگر جہاں قرآن مجید و احادیث نبوی کا کھلا ہوا متن آجائے، دیانتداری کا تقاضا یہ ہے کہ اس کا ترجمہ بلا کم وکیف بالکل صحیح کیا جائے۔
خواہ اس سے ہمارے مزعومہ مسلک پر کیسی ہی چوٹ کیوں نہ لگتی ہو۔
اس لئے کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کا کلام بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اس میں ایک ذرہ برابر بھی ترجمہ وتشریح کے نام پر کمی بیشی کرنا وہ بد ترین جرم ہے جس کی وجہ سے یہودی تباہ وبرباد ہوگئے۔
اللہ پاک نے صاف لفظوں میں اس کی اس حرکت کا نوٹس لیاہے۔
جیسا کہ ارشادِہے ﴿يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ﴾ (المائدة: 13)
یعنی اپنے مقام سے آیات الٰہی کی تحریف کرنا علماء یہود کا بدن ترین شیوہ تھا۔
مگر صد افسوس کہ یہی شیوہ کچھ علماء اسلام کی تحریرات میں نظر آتا ہے۔
جس سے اس کلام نبوی کی تصدیق ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا کہ تم پہلے یہود ونصاریٰ کے قدم برقدم چلنے کی راہ اختیار کر کے گمراہ ہوجاؤ گے۔
اصل مسئلہ! عورتوں کا عیدگاہ میں جانا حتی کہ کنواری لڑکیوں اور حیض والی عورتوں کا نکلنا اور عید کی دعاؤں میں شریک ہونا ایسا مسئلہ ہے جو متعدد احادیث نبوی سے ثابت ہے اور یہ مسلمہ امر ہے کہ عہدرسالت میں سختی کے ساتھ اس پر عمل درآمد تھا اور جملہ خواتین اسلام عید گاہ جایا کرتی تھیں۔
بعد میں مختلف فقہی خیالات وجود پذیر ہوئے اور محترم علماء احناف نے عورتوں کا میدان عید گاہ جانا مطلقاً نا جائز قرار دیا۔
بہرحال اپنے خیالات کے وہ خود ذمہ دار ہیں مگر جن احادیث میں عہد نبوی میں عورتوں کا عید گاہ جانا مذکور ہے ان کے ترجمہ میں رد و بدل کرنا انتہائی غیر ذمہ داری ہے۔
اور صد افسوس کہ ہم موجودہ تراجم بخاری شریف میں جو علماء دیوبند کے قلم سے نکل رہے ہیں ایسی غیر ذمہ داریوں کی بکثرت مثالیں دیکھتے ہیں۔
تفہیم البخاری ہمارے سامنے ہے۔
جس کا ترجمہ وتشریحات بہت محتاط اندازے پر لکھا گیا ہے۔
مگر مسلکی تعصب نے بعض جگہ ہمارے محترم فاضل مترجم تفہیم البخاری کو بھی جادہ اعتدال سے دورکردیا ہے۔
یہاں حدیث حفصہ کے سیاق وسباق سے صاف ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے ایسی عورت کے عیدگاہ جانے نہ جانے کے بارے میں پوچھا جارہا ہے کہ جس کے پاس اوڑھنے کے لئے چادرنہیں ہے۔
آپ ﷺ نے جواب دیا کہ اس کی سہیلی کو چاہئے کہ اپنی چادر اس کو عاریتاً اوڑھا دے تاکہ وہ اس خیر اور دعائے مسلمین کے موقع پر (عیدگاہ میں)
مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوسکے۔
اس کا ترجمہ مترجم موصوف نے یوں کیا ہے اگر ہمارے پاس چادر (برقعہ)
نہ ہو تو کیا کوئی حرج ہے اگر ہم مسلمانوں کے دینی اجتماعات میں شریک ہونے کے لئے باہر نہ نکلیں؟ ایک بادی النظر سے بخاری شریف کا مطالعہ کرنے والا اس ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ یہاں عیدگاہ جانے نہ جانے کے متعلق پوچھا جارہا ہے۔
دینی اجتماعات سے وعظ ونصیحت کی مجالس مراد ہوسکتی ہیں۔
اور ان سب میں عورتوں کا شریک ہونا بلا اختلاف جائز ہے اور عہد نبوی میں بھی عورتیں ایسے اجتماعات میں برابر شرکت کرتی تھیں۔
پھر بھلا اس سوال کا مطلب کیا ہوسکتا ہے؟ بہرحال یہ ترجمہ بالکل غلط ہے۔
اللہ توفیق دے کہ علماء کرام اپنے مزعومہ مسالک سے بلند ہو کر احتیاط سے قرآن وحدیث کا ترجمہ کیا کریں۔
وباللہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1652   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1652  
1652. حضرت حفصہ بنت سیرین سے روایت ہے کہ ہم اپنی نوجوان کنواری لڑکیوں کو باہر(عید گاہ میں) جانے سے منع کر تی تھیں، چنانچہ ایک عورت آئی اور بنو خلف کے محل میں ٹھہری۔ اس نے بیان کیاکہ ان کى ہمشیرہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی بیوی تھی۔ اس کے شوہر نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بارہ غزوات میں شرکت کی تھی۔ میری ہمشیرہ بھی چھ غزوات میں اس کے ہمراہ تھیں۔ اس نے بیان کیا کہ ہم میدان جہاد میں زخمیوں کی مرہم پٹی اور مریضوں کی عیادت کرتی تھیں۔ میری بہن نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اگر ہم چادر نہ ہونے کی وجہ سے باہر(عید گاہ) نہ جائیں تو اس میں کوئی حرج تو نہیں ہے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنی چادر اسے دے دے اور وہ عورت خیر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں ضرور شریک ہو۔ پھر جب ام عطیہ ؓ بصرہ آئیں تو ہم نے ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا۔ حضرت ام عطیہ ؓ کی عادت تھی کہ وہ جب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1652]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب حائضہ عورت کو مقام نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو کعبہ کے پاس جانا بھی اس کے لیے جائز نہ ہو گا اور نہ وہ بیت اللہ کا طواف ہی کر سکتی ہے جیسا کہ عنوان کا موضوع ہے۔
(2)
بعض حضرات نے کہا ہے کہ جب حائضہ عورت عرفات میں حاضر ہو سکتی ہے، مزدلفہ جا سکتی ہے اور منیٰ میں رہتے ہوئے کنکریاں مار سکتی ہے، یعنی بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کر سکتی ہے تو وہ صفا و مروہ کی سعی بھی کر سکتی ہے کیونکہ صفا و مروہ عرفات کی طرح ہے، لیکن یہ استدلال اس بنا پر محل نظر ہے کہ محض صفا و مروہ کی سعی سے کیا حاصل ہو گا جبکہ اس سے پہلے طواف نہ کیا ہو؟ جب حائضہ عورت طواف نہیں کر سکتی تو صفا و مروہ کی سعی کرنے کی اسے کیونکر اجازت دی جا سکتی ہے؟ پھر آج جبکہ صفا و مروہ کو مسجد حرام کا حصہ بنا دیا گیا ہے، ایسے حالات میں حائضہ عورت صفا و مروہ کی سعی نہیں کر سکتی۔
واللہ اعلم۔
(3)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ ام عطیہ ؓ نے فرمایا:
حائضہ عورت میدان عرفات اور فلاں فلاں جگہ پر حاضری نہیں دیتی، اسی طرح حضرت جابر ؓ کی روایت میں ہے کہ حائضہ عورت بیت اللہ کے طواف کے علاوہ تمام مناسک حج ادا کر سکتی ہے، ان دونوں کا مصداق ایک ہے اور اسی سے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کا پہلا جز ثابت ہوتا ہے کیونکہ جب اسے جائے نماز سے الگ رہنے کا حکم ہے تو مسجد بلکہ مسجد حرام بلکہ کعبہ سے ایک طرف رہنا بالاولیٰ ثابت ہوا۔
(فتح الباري: 638/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1652   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.