الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
The Book of Sales (Bargains)
19. بَابُ إِذَا بَيَّنَ الْبَيِّعَانِ وَلَمْ يَكْتُمَا وَنَصَحَا:
19. باب: جب خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں صاف صاف بیان کر دیں اور ایک دوسرے کی بہتری چاہیں۔
(19) Chapter. If both the seller and buyer explain the good and bad points of the transaction and hide nothing and give sincere advice (then they are blessed in their bargain).
حدیث نمبر: Q2079
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ويذكر عن العداء بن خالد، قال: كتب لي النبي صلى الله عليه وسلم هذا ما اشترى محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم من العداء بن خالد بيع المسلم من المسلم، لا داء، ولا خبثة، ولا غائلة، وقال قتادة: الغائلة الزنا، والسرقة، والإباق، وقيل لإبراهيم: إن بعض النخاسين يسمي آري خراسان وسجستان، فيقول: جاء امس من خراسان، جاء اليوم من سجستان فكرهه كراهية شديدة، وقال عقبة بن عامر: لا يحل لامرئ يبيع سلعة يعلم ان بها داء إلا اخبره.وَيُذْكَرُ عَنْ الْعَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ: كَتَبَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا مَا اشْتَرَى مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْعَدَّاءِ بْنِ خَالِدٍ بَيْعَ الْمُسْلِمِ مِنَ الْمُسْلِمِ، لَا دَاءَ، وَلَا خِبْثَةَ، وَلَا غَائِلَةَ، وَقَالَ قَتَادَةُ: الْغَائِلَةُ الزِّنَا، وَالسَّرِقَةُ، وَالْإِبَاقُ، وَقِيلَ لِإِبْرَاهِيمَ: إِنَّ بَعْضَ النَّخَّاسِينَ يُسَمِّي آرِيَّ خُرَاسَانَ وَسِجِسْتَانَ، فَيَقُولُ: جَاءَ أَمْسِ مِنْ خُرَاسَانَ، جَاءَ الْيَوْمَ مِنْ سِجِسْتَانَ فَكَرِهَهُ كَرَاهِيَةً شَدِيدَةً، وَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ عَامِرٍ: لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يَبِيعُ سِلْعَةً يَعْلَمُ أَنَّ بِهَا دَاءً إِلَّا أَخْبَرَهُ.
‏‏‏‏ اور عداء بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ وہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا عداء بن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے کسی نے کہا کہ بعض دلال (اپنے اصطبل کے) نام آری خراسان اور سجستان (خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل) رکھتے ہیں اور (دھوکہ دینے کے لیے) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے۔

حدیث نمبر: 2079
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن صالح ابي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، رفعه إلى حكيم بن حزام رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" البيعان بالخيار ما لم يتفرقا، او قال حتى يتفرقا، فإن صدقا وبينا، بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا، محقت بركة بيعهما".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، رَفَعَهُ إِلَى حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا، أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا، فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا، بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا، مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے صالح ابوخلیل نے، ان سے عبیداللہ بن حارث نے، انہوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار (بیع ختم کر دینے کا) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( «ما لم يتفرقا» کے بجائے) «حتى يتفرقا» فرمایا۔ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔

Narrated Hakim bin Hizam: Allah's Apostle said, "The seller and the buyer have the right to keep or return goods as long as they have not parted or till they part; and if both the parties spoke the truth and described the defects and qualities (of the goods), then they would be blessed in their transaction, and if they told lies or hid something, then the blessings of their transaction would be lost."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 34, Number 293


   صحيح البخاري2079حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو قال حتى يتفرقا إن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما إن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما
   صحيح البخاري2114حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا
   صحيح البخاري2110حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا إن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما إن كذبا وكتما محقت بركة بيعهما
   صحيح البخاري2108حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يفترقا
   صحيح البخاري2082حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا أو قال حتى يتفرقا إن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما إن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما
   صحيح مسلم3858حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا إن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما إن كذبا وكتما محق بركة بيعهما
   جامع الترمذي1246حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يتفرقا
   سنن أبي داود3459حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يفترقا إن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما إن كتما وكذبا محقت البركة من بيعهما
   سنن النسائى الصغرى4469حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يفترقا إن بينا وصدقا بورك لهما في بيعهما إن كذبا وكتما محق بركة بيعهما
   سنن النسائى الصغرى4462حكيم بن حزامالبيعان بالخيار ما لم يفترقا إن صدقا وبينا بورك في بيعهما إن كذبا وكتما محق بركة بيعهما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1246  
´بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے۔`
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1246]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جدانہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھراُدھرچلے جانا ہے،
خود راوی حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی یہی تفسیرمروی ہے،
بعض نے بات چیت ختم کردینا مراد لیا ہے جوظاہرکے خلاف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1246   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3459  
´بیچنے اور خریدنے والے کے اختیار کا بیان۔`
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، پھر اگر دونوں سچ کہیں اور خوبی و خرابی دونوں بیان کر دیں تو دونوں کے اس خرید و فروخت میں برکت ہو گی اور اگر ان دونوں نے عیوب کو چھپایا، اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان دونوں کی بیع سے برکت ختم کر دی جائے گی۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے سعید بن ابی عروبہ اور حماد نے روایت کیا ہے، لیکن ہمام کی روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بائع و مشتری کو اختیار ہے جب تک کہ دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3459]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
خلاصہ ان روایات کا یہ ہے۔
کہ خریدار اور مالک ایک دوسرے سے جب تک جدا نہ ہوجایئں۔
مالک اور خریدار کو دونوں کو سودا فسخ کرنے کا اختیار رہتا ہے۔
جدائی سے مراد صرف گفتگو کا اختتام نہیں ہے۔
بلکہ جسمانی طور پر جدائی ہے۔
تاہم اختیار کی مہلت طے ہوجائے۔
تو اور بات ہے۔
پھر اس مہلت تک اختیار باقی رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3459   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2079  
2079. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2079]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب ظاہر ہے کہ سوداگروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کا حسن و قبح سب ظاہر کردیں تاکہ خریدنے والے کو بعد میں شکایت کا موقع نہ مل سکے اور اس بارے میں کوئی جھوٹی قسم ہرگز نہ کھائیں۔
اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدار کو جب تک وہ دکان سے جدا نہ ہو مال واپس کرنے کا اختیار ہے ہاں دکان سے چلے جانے کے بعد یہ اختیار ختم ہے مگر یہ کہ ہر دونے باہمی طور پر ایک مدت کے لیے اس اختیار کو طے کر لیا ہو تو یہ امر دیگر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2079   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2079  
2079. حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "خریدنے اور بیچنے والے دونوں کو اختیار ہے جب تک جدا نہ ہوں۔۔۔ یا یہ فرمایا یہاں تک کہ علیحدہ ہوں۔۔۔ اگر وہ سچ بولیں اور عیب وہنر ظاہر کردیں تو انھیں ان کی اس تجارت میں برکت دی جائے گی اور اگر جھوٹ بولیں یاعیب چھپائیں تو بیع کی برکت ختم کردی جائے گی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2079]
حدیث حاشیہ:
(1)
فروخت کرنے والا اور خریدار اگر دونوں سچ بولیں،فروخت کردہ چیز اور قیمت میں کسی قسم کا ابہام یا پوشیدگی نہ رکھیں تو ان کی بیع نفع مند اور ثمر آور ہوگی بصورت دیگر اس کی برکت ختم کردی جائے گی،یعنی حصول برکت کے لیے شرط یہ ہے کہ سچائی اور ہر معاملے کی وضاحت ہو اور برکت ختم اس وقت ہوگی جب جھوٹ اور ابہام پایا جائے گا۔
اگر فروخت کرنے والے یا خریدار میں سے کسی ایک نے صداقت اور اظہار کا معاملہ کیا لیکن دوسرے نے جھوٹ اور کتمان سے کام لیا تو کیا برکت حاصل ہوگی یانہیں؟حدیث کے ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتاہے کہ صداقت اور وضاحت کرنے والے کو اللہ سے اجرو ثواب ملے گا اور جھوٹ بولنے والا قیامت کے دن عتاب وسزا کا حقدار ہوگا۔
(2)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گناہوں کی نحوست دنیا وآخرت کی برکات کو ختم کردیتی ہے۔
(فتح الباری: 4/394) (3)
بیع پختہ ہونے کہ بعد اسے ختم کرنے کے لیے تین اختیارات ہیں:
خیار مجلس،خیار شرط اور خیار عیب،ان تینوں کی وضاحت ہم آئندہ کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2079   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.