الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
The Book of Representation
15. بَابُ إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِوَكِيلِهِ ضَعْهُ حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ. وَقَالَ الْوَكِيلُ قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ:
15. باب: اگر کسی نے اپنے وکیل سے کہا کہ جہاں مناسب جانو اسے خرچ کرو، اور وکیل نے کہا کہ جو کچھ تم نے کہا ہے میں نے سن لیا۔
(15) Chapter. If a person tells his deputy, "Spend it as Allah directs you, "and the deputy says, "I have heard what you have said."
حدیث نمبر: 2318
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني يحيى بن يحيى، قال: قرات على مالك، عن إسحاق بن عبد الله، انه سمع انس بن مالك رضي الله عنه، يقول:" كان ابو طلحة اكثر الانصار بالمدينة مالا، وكان احب امواله إليه بيرحاء، وكانت مستقبلة المسجد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخلها، ويشرب من ماء فيها طيب، فلما نزلت: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، قام ابو طلحة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إن الله تعالى يقول في كتابه: لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92، وإن احب اموالي إلي بيرحاء، وإنها صدقة لله، ارجو برها وذخرها عند الله، فضعها يا رسول الله حيث شئت، فقال: بخ ذلك مال رائح، ذلك مال رائح، قد سمعت ما قلت فيها، وارى ان تجعلها في الاقربين، قال: افعل يا رسول الله، فقسمها ابو طلحة في اقاربه وبني عمه"، تابعه إسماعيل، عن مالك، وقال روح، عن مالك: رابح.(مرفوع) حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ الْأَنْصَارِ بِالْمَدِينَةِ مَالًا، وَكَانَ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، فَلَمَّا نَزَلَتْ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، قَامَ أَبُو طَلْحَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92، وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ، أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ، فَقَالَ: بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ، ذَلِكَ مَالٌ رَائِحٌ، قَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهَا، وَأَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، قَالَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ وَبَنِي عَمِّهِ"، تَابَعَهُ إِسْمَاعِيلُ، عَنْ مَالِكٍ، وَقَالَ رَوْحٌ، عَنْ مَالِكٍ: رَابِحٌ.
مجھ سے یحییٰ بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے امام مالک کے سامنے قرآت کی بواسطہ اسحاق بن عبداللہ کے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار کے سب سے مالدار لوگوں میں سے تھے۔ بیرحاء (ایک باغ) ان کا سب سے زیادہ محبوب مال تھا۔ جو مسجد نبوی کے بالکل سامنے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہاں تشریف لے جاتے اور اس کا نہایت میٹھا عمدہ پانی پیتے تھے۔ پھر جب قرآن کی آیت «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» اتری تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کر سکتے جب تک نہ خرچ کرو اللہ کی راہ میں وہ چیز جو تمہیں زیادہ پسند ہو تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» اور مجھے اپنے مال میں سب سے زیادہ پسند میرا یہی باغ بیرحاء ہے۔ یہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ اس کی نیکی اور ذخیرہ ثواب کی امید میں صرف اللہ تعالیٰ سے رکھتا ہوں۔ پس آپ جہاں مناسب سمجھیں اسے خرچ فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، واہ واہ! یہ بڑا ہی نفع والا مال ہے۔ بہت ہی مفید ہے۔ اس کے بارے میں تم نے جو کچھ کہا وہ میں نے سن لیا۔ اب میں تو یہی مناسب سمجھتا ہوں کہ اسے تو اپنے رشتہ داروں ہی میں تقسیم کر دے۔ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ یہ کنواں انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور چچا کی اولاد میں تقسیم کر دیا۔ اس روایت کی متابعت اسماعیل نے مالک سے کی ہے۔ اور روح نے مالک سے (لفظ «رائح‏.‏» کے بجائے) «رابح‏.‏» نقل کیا ہے۔

Narrated Anas bin Malik: Abu Talha was the richest man in Medina amongst the Ansar and Beeruha' (garden) was the most beloved of his property, and it was situated opposite the mosque (of the Prophet.). Allah's Apostle used to enter it and drink from its sweet water. When the following Divine Verse were revealed: 'you will not attain righteousness till you spend in charity of the things you love' (3.93), Abu Talha got up in front of Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! Allah says in His Book, 'You will not attain righteousness unless you spend (in charity) that which you love,' and verily, the most beloved to me of my property is Beeruha (garden), so I give it in charity and hope for its reward from Allah. O Allah's Apostle! Spend it wherever you like." Allah's Apostle appreciated that and said, "That is perishable wealth, that is perishable wealth. I have heard what you have said; I suggest you to distribute it among your relatives." Abu Talha said, "I will do so, O Allah's Apostle." So, Abu Talha distributed it among his relatives and cousins. The sub-narrator (Malik) said: The Prophet said: "That is a profitable wealth," instead of "perishable wealth".
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 511


   صحيح البخاري5611أنس بن مالكنزلت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون
   صحيح البخاري2752أنس بن مالكأرى أن تجعلها في الأقربين قال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح البخاري2318أنس بن مالكذلك مال رائح قد سمعت ما قلت فيها وأرى أن تجعلها في الأقربين قال أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح البخاري4554أنس بن مالكذلك مال رايح ذلك مال رايح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين
   صحيح البخاري2769أنس بن مالكلن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون
   صحيح البخاري1461أنس بن مالكذلك مال رابح ذلك مال رابح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين فقال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح مسلم2315أنس بن مالكذلك مال رابح ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها وإني أرى أن تجعلها في الأقربين
   صحيح مسلم2316أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   جامع الترمذي2997أنس بن مالكاجعله في قرابتك
   سنن أبي داود1689أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   سنن النسائى الصغرى3632أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم287أنس بن مالكذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 287  
´نیکی، صلہ رحمی، حسنِ سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح `
«. . . رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 287]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1461، 2752، و مسلم 2315/998، من حديث مالك به]

تفقه:
➊اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ہے جنہوں نے اپنا محبوب ترین مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا۔
➋ صحابہ کرام ہر وقت قرآن و حدیث پر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➌ نیکی، صلہ رحمی، حسن سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے اور یہی افضل ہے۔
➍ مال سے محبت فطری امر ہے بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اسی طرح باغات وغیرہ بنانا اور علمائے کرام کا ان سے استفادہ کرنا سب جائز ہے۔
➎ عموم پر عمل جائز ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی دلیل ہو۔
➏ جو شخص کوئی چیز صدقہ کر دے تو پھر اسے رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے راستے میں بہترین چیز خرچ کرنی چاہئے، وہ خواہ مال ہو یا جان، اس لئے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی اولاد میں سے محبوب ترین اور ذہین ترین افراد کا انتخاب کرنا چاہئے۔
➑ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا عمل آیت مبارکہ: «لَنْ تَنَالُوا البِرَّ» کی بہترین تفسیر ہے۔ «سبحان الله»
➒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مال انھی کے اقرباء میں تقسیم کرنے کا حکم دیا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال استغناء ثابت ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 116   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2997  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت: «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ۱؎ یا «من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا» ۲؎ نازل ہوئی۔ اس وقت ابوطلحہ رضی الله عنہ کے پاس ایک باغ تھا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے، اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ۳؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2997]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔
(آل عمران: 92)

2؎:
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے (البقرۃ: 245)

3؎:
کیونکہ چھپا کر صدقہ وخیرات کرنا اللہ کو زیادہ پسند ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2997   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1689  
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1689]
1689. اردو حاشیہ: کہاں یہ جاہلیت کے چچا تائے کی اولاد آپس میں حریف گرانے جاتے ہوں۔اور کہاں یہ محبت والفت کہ پر دادا بلکہ چھٹے باپ کی اولاد اس قدرحسن سلوک۔۔۔کہ قیمتی زمین ان کے نام لگادی۔اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں سچ فرمایا۔ <قرآن> هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال۔6
➋ 63)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1689   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2318  
2318. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار تھے۔ اور ان کے نزدیک ان کا بہترین مال ان کا باغ بیرحاء تھا۔ اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ تم بھلائی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے حتیٰ کہ اپنی محبوب چیز خرچ کرو۔ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ تم پوری نیکی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال خرچ نہ کرو۔ اور میرا محبوب ترین مال یہ باغ بیرحاءہے تو وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کی نیکی اور ثواب کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2318]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوطلحہ ؓ نے بیر حاءکے بارے میں آنحضرت ﷺ کو وکیل ٹھہرایا اور آپ نے اسے انہی کے رشتہ داروں میں تقسیم کر دینے کا حکم فرمایا۔
اسی سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔
چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی صاحب میراث بھی ہوتے ہیں۔
اس لیے آنحضرت ﷺ نے ان ہی کو ترجیح دی۔
جو رسول کریم ﷺ کی بہت ہی بڑی دور اندیشی کا ثبوت ہے۔
یہ کنواں مدینہ شریف میں حرم نبوی کے قریب اب بھی موجود ہے اور میں نے بھی وہاں حاضری کا شرف حاصل کیا ہے۔
و الحمد للہ علی ذلك۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2318   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2318  
2318. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو طلحہ ؓ مدینہ طیبہ کے انصار میں سے سب سے زیادہ مال دار تھے۔ اور ان کے نزدیک ان کا بہترین مال ان کا باغ بیرحاء تھا۔ اور وہ مسجد نبوی کے بالکل سامنے واقع تھا۔ رسول اللہ ﷺ وہاں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا شریں پانی نوش فرماتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ تم بھلائی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے حتیٰ کہ اپنی محبوب چیز خرچ کرو۔ تو ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ ﴿لَن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّىٰ تُنفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ﴾ تم پوری نیکی ہر گز نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنا پسندیدہ مال خرچ نہ کرو۔ اور میرا محبوب ترین مال یہ باغ بیرحاءہے تو وہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے۔ میں اللہ کے ہاں اس کی نیکی اور ثواب کا امیدوار ہوں۔ اللہ کے رسول۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2318]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان كا مقصد یہ ہے کہ وکالت کا معاملہ اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک وکیل اس وکالت کو قبول نہ کرلے۔
جو تونے کہا اسے میں نے سن لیا ہے۔
اس سے مراد وکیل کا قبول کرنا اور اس کا اظہار آمادگی ہے۔
حضرت ابو طلحہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کو بیر حاء کے متعلق اپنا وکیل ٹھہرایا تو آپ نے اس وکالت کو قبول فرمایا۔
آپ نے اسے رائے دی کہ اسے اپنی قریبی رشتہ داروں میں تقسیم کردیں۔
چونکہ رشتہ داروں کا حق مقدم ہے اور وہی وراثت میں حصہ پاتے ہیں، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے حق کو ترجیح دی۔
یہ رسول اللہ ﷺ کی دور اندیشی تھی۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ عقد وکالت اس وقت مکمل ہوگا جب وکیل اسے قبول کرلے۔
(فتح الباري: 621/4)
والله أعلم. (3)
اسماعیل کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے خود ہی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4554)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو طلحہ ؓ نے وہ باغ حضرت حسان بن ثابت اور ابی بن کعب ؓ میں تقسیم کیا۔
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ مجھے اس باغ سے کچھ نہیں ملا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4555)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2318   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.