الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
4. بَابُ إِذَا اشْتَرَطَ الْبَائِعُ ظَهْرَ الدَّابَّةِ إِلَى مَكَانٍ مُسَمًّى جَازَ:
4. باب: اگر بیچنے والے نے کسی خاص مقام تک سواری کی شرط لگائی تو یہ جائز ہے۔
(4) Chapter. It is permissible for the seller to stipulate that he should ride the (sold) animal up to a certain place.
حدیث نمبر: 2718
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زكرياء، قال: سمعت عامرا، يقول: حدثني جابر رضي الله عنه،" انه كان يسير على جمل له قد اعيا، فمر النبي صلى الله عليه وسلم فضربه، فدعا له، فسار بسير ليس يسير مثله، ثم قال: بعنيه بوقية؟ قلت: لا، ثم قال: بعنيه بوقية، فبعته، فاستثنيت حملانه إلى اهلي، فلما قدمنا اتيته بالجمل ونقدني ثمنه، ثم انصرفت، فارسل على إثري، قال: ما كنت لآخذ جملك، فخذ جملك ذلك فهو مالك". قال شعبة: عن مغيرة، عن عامر، عن جابر، افقرني رسول الله صلى الله عليه وسلم ظهره إلى المدينة. وقال إسحاق: عن جرير، عن مغيرة، فبعته على ان لي فقار ظهره حتى ابلغ المدينة. وقال عطاء، وغيره: لك ظهره إلى المدينة. وقال محمد بن المنكدر: عن جابر، شرط ظهره إلى المدينة. وقال زيد بن اسلم: عن جابر، ولك ظهره حتى ترجع. وقال ابو الزبير: عن جابر، افقرناك ظهره إلى المدينة. وقال الاعمش: عن سالم، عن جابر، تبلغ عليه إلى اهلك. وقال عبيد الله، وابن إسحاق: عن وهب، عن جابر، اشتراه النبي صلى الله عليه وسلم بوقية. وتابعه زيد بن اسلم، عن جابر. وقال ابن جريج: عن عطاء وغيره عن جابر، اخذته باربعة دنانير، وهذا يكون وقية على حساب الدينار بعشرة دراهم، ولم يبين الثمن مغيرة. عن الشعبي، عن جابر، وابن المنكدر، وابو الزبير، عن جابر وقال الاعمش: عن سالم، عن جابر، وقية ذهب. وقال ابو إسحاق: عن سالم، عن جابر بمائتي درهم. وقال داود بن قيس: عن عبيد الله بن مقسم، عن جابر، اشتراه بطريق تبوك، احسبه قال باربع اواق.وقال ابو نضرة: عن جابر اشتراه بعشرين دينارا. وقول الشعبي: بوقية اكثر الاشتراط اكثر واصح عندي. قاله ابو عبد الله".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَامِرًا، يَقُولُ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَمَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَضَرَبَهُ، فَدَعَا لَهُ، فَسَارَ بِسَيْرٍ لَيْسَ يَسِيرُ مِثْلَهُ، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ؟ قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ بِوَقِيَّةٍ، فَبِعْتُهُ، فَاسْتَثْنَيْتُ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا قَدِمْنَا أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ وَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ، فَأَرْسَلَ عَلَى إِثْرِي، قَالَ: مَا كُنْتُ لِآخُذَ جَمَلَكَ، فَخُذْ جَمَلَكَ ذَلِكَ فَهُوَ مَالُكَ". قَالَ شُعْبَةُ: عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَفْقَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ إِسْحَاقُ: عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ مُغِيرَةَ، فَبِعْتُهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ. وَقَالَ عَطَاءٌ، وَغَيْرُهُ: لَكَ ظَهْرُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ: عَنْ جَابِرٍ، شَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ: عَنْ جَابِرٍ، وَلَكَ ظَهْرُهُ حَتَّى تَرْجِعَ. وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ، أَفْقَرْنَاكَ ظَهْرَهُ إِلَى الْمَدِينَةِ. وَقَالَ الْأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، تَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِكَ. وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ، وَابْنُ إِسْحَاقَ: عَنْ وَهْبٍ، عَنْ جَابِرٍ، اشْتَرَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِوَقِيَّةٍ. وَتَابَعَهُ زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ جَابِرٍ. وَقَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: عَنْ عَطَاءٍ وَغَيْرِهِ عَنْ جَابِرٍ، أَخَذْتُهُ بِأَرْبَعَةِ دَنَانِيرَ، وَهَذَا يَكُونُ وَقِيَّةً عَلَى حِسَابِ الدِّينَارِ بِعَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَلَمْ يُبَيِّنْ الثَّمَنَ مُغِيرَةُ. عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرٍ، وَابْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَأَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ وَقَالَ الْأَعْمَشُ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ، وَقِيَّةُ ذَهَبٍ. وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرٍ بِمِائَتَيْ دِرْهَمٍ. وَقَالَ دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ: عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ، اشْتَرَاهُ بِطَرِيقِ تَبُوكَ، أَحْسِبُهُ قَالَ بِأَرْبَعِ أَوَاقٍ.وَقَالَ أَبُو نَضْرَةَ: عَنْ جَابِرٍ اشْتَرَاهُ بِعِشْرِينَ دِينَارًا. وَقَوْلُ الشَّعْبِيِّ: بِوَقِيَّةٍ أَكْثَرُ الِاشْتِرَاطُ أَكْثَرُ وَأَصَحُّ عِنْدِي. قَالَهُ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عامر سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ (ایک غزوہ کے موقع پر) اپنے اونٹ پر سوار آ رہے تھے، اونٹ تھک گیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کو ایک ضرب لگائی اور اس کے حق میں دعا فرمائی، چنانچہ اونٹ اتنی تیزی سے چلنے لگا کہ کبھی اس طرح نہیں چلا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے ایک اوقیہ میں مجھے بیچ دو۔ میں نے انکار کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ بیچ دیا، لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ پھر جب ہم (مدینہ) پہنچ گئے، تو میں نے اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت بھی ادا کر دی، لیکن جب میں واپس ہونے لگا تو میرے پیچھے ایک صاحب کو مجھے بلانے کے لیے بھیجا (میں حاضر ہوا تو) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارا اونٹ کوئی لے تھوڑا ہی رہا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ، یہ تمہارا ہی مال ہے۔ (اور قیمت واپس نہیں لی) شعبہ نے مغیرہ کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عامر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تک اونٹ پر مجھے سوار ہونے کی اجازت دی تھی، اسحاق نے جریر سے بیان کیا اور ان سے مغیرہ نے کہ (جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا) پس میں نے اونٹ اس شرط پر بیچ دیا کہ مدینہ پہنچنے تک اس پر میں سوار رہوں گا۔ عطاء وغیرہ نے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) اس پر مدینہ تک کی سواری تمہاری ہے۔ محمد بن منکدر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے مدینہ تک سواری کی شرط لگائی تھی۔ زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے بیان کیا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) مدینہ تک اس پر تم ہی رہو گے۔ ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ مدینہ تک کی سواری کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی تھی۔ اعمش نے سالم سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) اپنے گھر تک تم اسی پر سوار ہو کے جاؤ۔ عبیداللہ اور ابن اسحاق نے وہب سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ اونٹ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اوقیہ میں خریدا تھا۔ اس روایت کی متابعت زید بن اسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کی ہے۔ ابن جریج نے عطاء وغیرہ سے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے (کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا) میں تمہارا یہ اونٹ چار دینار میں لیتا ہوں، اس حساب سے کہ ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے، چار دینار کا ایک اوقیہ ہو گا۔ مغیرہ نے شعبی کے واسطہ سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے (ان کی روایت میں اور) اسی طرح ابن المنکدر اور ابوالزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں قیمت کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اعمش نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں ایک اوقیہ سونے کی وضاحت کی ہے۔ ابواسحاق نے سالم سے اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اپنی روایت میں دو سو درہم بیان کیے ہیں اور داود بن قیس نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن مقسم نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ تبوک کے راستے میں (غزوہ سے واپس ہوتے ہوئے) خریدا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا کہ چار اوقیہ میں (خریدا تھا) ابونضرہ نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت میں بیان کیا کہ بیس دینار میں خریدا تھا۔ شعبی کے بیان کے مطابق ایک اوقیہ ہی زیادہ روایتوں میں ہے۔ اسی طرح شرط لگانا بھی زیادہ روایتوں سے ثابت ہے اور میرے نزدیک صحیح بھی یہی ہے، یہ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے فرمایا۔

Narrated Jabir: While I was riding a (slow) and tired camel, the Prophet passed by and beat it and prayed for Allah's Blessings for it. The camel became so fast as it had never been before. The Prophet then said, "Sell it to me for one Uqiyya (of gold)." I said, "No." He again said, "Sell it to me for one Uqiyya (of gold)." I sold it and stipulated that I should ride it to my house. When we reached (Medina) I took that camel to the Prophet and he gave me its price. I returned home but he sent for me (and when I went to him) he said, "I will not take your camel. Take your camel as a gift for you." (Various narrations are mentioned here with slight variations in expressions relating the condition that Jabir had the right to ride the sold camel up to Medina).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 879


   صحيح البخاري2967جابر بن عبد اللهما لبعيرك قال قلت عيي قال فتخلف رسول الله فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير فقال لي كيف ترى بعيرك قال قلت بخير قد أصابته بركتك قال أفتبيعنيه قال فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره قال فقلت نعم قال فبعنيه فبعته إياه على أن لي فقار ظهره حتى أبلغ ا
   صحيح البخاري5367جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك وتضاحكها وتضاحكك
   صحيح البخاري2385جابر بن عبد اللهأتبيعنيه قلت نعم فبعته إياه فلما قدم المدينة غدوت إليه بالبعير فأعطاني ثمنه
   صحيح البخاري2309جابر بن عبد اللهما لك قلت إني على جمل ثفال قال أمعك قضيب قلت نعم قال أعطنيه فأعطيته فضربه فزجره فكان من ذلك المكان من أول القوم قال بعنيه فقلت بل هو لك يا رسول الله قال بل بعنيه قد أخذته بأربعة دنانير ولك ظهره إلى المدينة فلما دنونا من المدينة أخذت أرتحل قال أين تريد قلت
   صحيح البخاري4052جابر بن عبد اللهفهلا جارية تلاعبك قلت يا رسول الله إن أبي قتل يوم أحد وترك تسع بنات كن لي تسع أخوات فكرهت أن أجمع إليهن جارية خرقاء مثلهن ولكن امرأة تمشطهن وتقوم عليهن قال أصبت
   صحيح البخاري2718جابر بن عبد اللهيسير على جمل له قد أعيا فمر النبي فضربه فدعا له فسار بسير ليس يسير مثله ثم قال بعنيه بوقية قلت لا ثم قال بعنيه بوقية فبعته فاستثنيت حملانه إلى أهلي فلما قدمنا أتيته بالجمل ونقدني ثمنه ثم انصرفت فأرسل على إثري قال ما كنت لآخذ جملك فخذ
   صحيح البخاري5080جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5245جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5079جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5247جابر بن عبد اللهبكرا تلاعبها وتلاعبك قال فلما قدمنا ذهبنا لندخل
   صحيح البخاري6387جابر بن عبد اللهتزوجت يا جابر قلت نعم قال بكرا أم ثيبا قلت ثيبا قال هلا جارية تلاعبها وتلاعبك أو تضاحكها وتضاحكك قلت هلك أبي فترك سبع أو تسع بنات فكرهت أن أجيئهن بمثلهن فتزوجت امرأة تقوم عليهن قال فبارك الله عليك
   صحيح البخاري2470جابر بن عبد اللههذا جملك فخرج فجعل يطيف بالجمل قال الثمن والجمل لك
   صحيح البخاري2604جابر بن عبد اللهبعت من النبي بعيرا في سفر فلما أتينا المدينة قال ائت المسجد فصل ركعتين فوزن
   صحيح البخاري3089جابر بن عبد اللهاشترى مني النبي بعيرا بوقيتين ودرهم أو درهمين فلما قدم صرارا أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين ووزن لي ثمن البعير
   صحيح البخاري2097جابر بن عبد اللهكنت مع النبي في غزاة فأبطأ بي جملي وأعيا فأتى علي النبي فقال جابر فقلت نعم قال ما شأنك قلت أبطأ علي جملي وأعيا فتخلفت فنزل يحجنه بمحجنه ثم قال اركب فركبت فلقد رأيته أكفه عن رسول الله قال تزوجت قلت نعم قال بكرا أم ثيبا قلت بل ثيبا قال أفلا جارية تلاعبها وت
   صحيح مسلم3640جابر بن عبد اللهأبكرا تزوجتها أم ثيبا قال قلت بل ثيبا هلا جارية تلاعبها وتلاعبك لما قدمنا المدينة ذهبنا لندخل فقال أمهلوا حتى ندخل ليلا أي عشاء كي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة قال وقال إذا قدمت فالكيس الكيس
   صحيح مسلم3642جابر بن عبد اللهأتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قال قلت هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قال قلت هو لك يا نبي الله قال وقال لي أتزوجت بعد أبيك قلت نعم قال ثيبا أم بكرا قال قلت ثيبا قال فهلا تزوجت بكرا تضاحكك وتضاحكها وتلاعبك وتلاعبها
   صحيح مسلم4098جابر بن عبد اللهبعنيه بوقية قلت لا ثم قال بعنيه فبعته بوقية واستثنيت عليه حملانه إلى أهلي فلما بلغت أتيته بالجمل فنقدني ثمنه ثم رجعت فأرسل في أثري فقال أتراني ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك فهو لك
   صحيح مسلم4100جابر بن عبد اللهتزوجت بكرا تلاعبك وتلاعبها
   صحيح مسلم3638جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح مسلم3641جابر بن عبد اللهأتزوجت فقلت نعم فقال أبكرا أم ثيبا فقلت بل ثيب هلا جارية تلاعبها وتلاعبك لي أخوات فأحببت أن أتزوج امرأة تجمعهن وتمشطهن وتقوم عليهن قال أما إنك قادم فإذا قدمت فالكيس الكيس ثم قال أتبيع جملك قلت نعم فاشتراه مني بأوقية
   صحيح مسلم3637جابر بن عبد اللهأبكرا أم ثيبا قلت ثيبا أين أنت من العذارى
   صحيح مسلم1658جابر بن عبد اللهخرجت مع رسول الله في غزاة فأبطأ بي جملي وأعيا ثم قدم رسول الله قبلي وقدمت بالغداة فجئت المسجد فوجدته على باب المسجد قال الآن حين قدمت قلت نعم قال فدع جملك وادخل فصل ركعتين قال فدخلت فصليت ثم رجعت
   صحيح مسلم4103جابر بن عبد اللهلما أتى علي النبي وقد أعيا بعيري قال فنخسه فوثب فكنت بعد ذلك أحبس خطامه لأسمع حديثه فما أقدر عليه فلحقني النبي فقال بعنيه فبعته منه بخمس أواق قال قلت على أن لي ظهره إلى المدينة قال ولك ظهره إلى المدينة قال فلما قدمت المدينة أتيته به فزادني وقية ثم وهبه لي
   صحيح مسلم4107جابر بن عبد اللهأخذت جملك بأربعة دنانير ولك ظهره إلى المدينة
   صحيح مسلم1657جابر بن عبد اللهاشترى مني رسول الله بعيرا فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين
   صحيح مسلم4105جابر بن عبد اللهاشترى مني رسول الله بعيرا بوقيتين ودرهم أو درهمين قال فلما قدم صرارا أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين ووزن لي ثمن البعير فأرجح لي
   جامع الترمذي1100جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   جامع الترمذي1253جابر بن عبد اللهباع من النبي بعيرا واشترط ظهره إلى أهله
   سنن أبي داود3505جابر بن عبد اللهتراني إنما ماكستك لأذهب بجملك خذ جملك وثمنه فهما لك
   سنن أبي داود2048جابر بن عبد اللهبكر تلاعبها وتلاعبك
   سنن النسائى الصغرى3228جابر بن عبد اللهفهلا بكرا تلاعبك قال قلت يا رسول الله كن لي أخوات فخشيت أن تدخل بيني وبينهن قال فذاك إذا إن المرأة تنكح على دينها ومالها وجمالها فعليك بذات الدين تربت يداك
   سنن النسائى الصغرى4645جابر بن عبد اللهأتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك
   سنن النسائى الصغرى4643جابر بن عبد اللهبعنيه قد أخذته بوقية اركبه فإذا قدمت المدينة فأتنا به فلما قدمت المدينة جئته به فقال لبلال يا بلال زن له أوقية وزده قيراطا قلت هذا شيء زادني رسول الله فلم يفارقني فجعلته في كيس فلم يزل عندي حتى جاء أهل الشام يوم الحرة فأخذوا منا ما أخذوا
   سنن النسائى الصغرى3221جابر بن عبد اللههلا بكرا تلاعبها وتلاعبك
   سنن النسائى الصغرى4644جابر بن عبد اللهأعطه ثمنه فلما أدبرت دعاني فخفت أن يرده فقال هو لك
   سنن النسائى الصغرى4642جابر بن عبد اللهبعنيه ولك ظهره حتى تقدم فبعته وكانت لي إليه حاجة شديدة ولكني استحييت منه فلما قضينا غزاتنا ودنونا استأذنته بالتعجيل فقلت يا رسول الله إني حديث عهد بعرس قال أبكرا تزوجت أم ثيبا قلت بل ثيبا يا رسول الله إن عبد الله بن عمرو أصيب وترك جواري أبكارا فكرهت أن
   سنن النسائى الصغرى4641جابر بن عبد اللهبعنيه بوقية قلت لا قال بعنيه فبعته بوقية واستثنيت حملانه إلى المدينة فلما بلغنا المدينة أتيته بالجمل وابتغيت ثمنه ثم رجعت فأرسل إلي فقال أتراني إنما ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك
   سنن النسائى الصغرى3222جابر بن عبد اللههلا بكرا تلاعبك
   سنن ابن ماجه2205جابر بن عبد اللهأتبيع ناضحك هذا بدينار والله يغفر لك قلت يا رسول الله هو ناضحكم إذا أتيت المدينة قال فتبيعه بدينارين والله يغفر لك قال فما زال يزيدني دينارا دينارا ويقول مكان كل دينار والله يغفر لك حتى بلغ عشرين دينارا فلما أتيت المدينة أخذت برأس الناضح فأتيت به النبي فق
   سنن ابن ماجه1860جابر بن عبد اللهأتزوجت يا جابر قلت نعم قال أبكرا أو ثيبا قلت ثيبا هلا بكرا تلاعبها لي أخوات فخشيت أن تدخل بيني وبينهن قال فذاك إذا
   بلوغ المرام870جابر بن عبد الله أمهلوا حتى تدخلوا ليلا ،‏‏‏‏ ( يعني عشاء ) لكي تمتشط الشعثة ،‏‏‏‏ وتستحد المغيبة
   المعجم الصغير للطبراني525جابر بن عبد الله اشترى مني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا ، وأفقرني ظهره إلى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني1180جابر بن عبد الله إذا قدم من سفر صلى ركعتين
   مسندالحميدي1261جابر بن عبد اللهأنكحت يا جابر؟
   مسندالحميدي1322جابر بن عبد اللهفحرسه النبي صلى الله عليه وسلم بعود معه، أو محجن فلقد رأيته، وما يكاد يتقدمه شيء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2718  
2718. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہے تھے جو تھک چکا تھا۔ نبی ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے اس اونٹ کو مارا اور اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ اتنا تیز چلنے لگا کہ اس جیسا کبھی نہیں چلا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: تم اسے ایک اوقیے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ میں نے عرض کیا: نہیں آپ نے دوبارہ فرمایا: ایک اوقیے کے عوض یہ اونٹ مجھے فروخت کر دو۔ چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ اسے فروخت کر دیا لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس کی قیمت مجھے نقد ادا کردی لیکن جب میں واپس ہو نے لگا تو آپ نے میرے پیچھے آدمی بھیجا۔ (میرے پہنچنے پر)آپ نے فرمایا: میں تو تمھارا اونٹ لینا نہیں چاہتا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ یہ تمھارا ہی مال ہے۔ شعبہ کی روایت کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2718]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کی وسعت علم یہاں سے معلوم ہوتی ہے کہ ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طریق ان کو محفوظ تھے۔
حاصل ان سب روایات کے ذکر کرنے سے یہ ہے کہ اکثر روایتوں میں سواری کی شرط کا ذکر ہے، جو ترجمہ باب سے معلوم ہوا کہ بیع میں ایسی شرط لگانا درست ہے۔
امام بخاری ؒ کے بعد ہمارے شیخ حافظ ابن حجر ؒ کا مرتبہ ہے۔
شاید کوئی کتاب حدیث کی ایسی ہو جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو اور صحیح بخاری تو الحمد کی طرح ان کو یاد تھی۔
یا اللہ! ہم کو عالم برزخ میں امام بخاری اور ابن تیمیہ اور حافظ ابن حجر کی زیارت نصیب کر اور حقیر محمد داؤد راز کو بھی ان بزرگوں کے خادموں میں شمار فرمانا۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2718   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2718  
2718. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سوار ہو کر سفر کر رہے تھے جو تھک چکا تھا۔ نبی ﷺ کا گزر ان کے پاس سے ہوا تو آپ نے اس اونٹ کو مارا اور اس کے لیے دعا فرمائی تو وہ اتنا تیز چلنے لگا کہ اس جیسا کبھی نہیں چلا تھا۔ پھر آپ نے فرمایا: تم اسے ایک اوقیے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ میں نے عرض کیا: نہیں آپ نے دوبارہ فرمایا: ایک اوقیے کے عوض یہ اونٹ مجھے فروخت کر دو۔ چنانچہ میں نے آپ کے ہاتھ اسے فروخت کر دیا لیکن اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنیٰ کرا لیا۔ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں اونٹ لے کر حاضر خدمت ہوا۔ آپ نے اس کی قیمت مجھے نقد ادا کردی لیکن جب میں واپس ہو نے لگا تو آپ نے میرے پیچھے آدمی بھیجا۔ (میرے پہنچنے پر)آپ نے فرمایا: میں تو تمھارا اونٹ لینا نہیں چاہتا تھا، اپنا اونٹ لے جاؤ یہ تمھارا ہی مال ہے۔ شعبہ کی روایت کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2718]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب بیچنے والا کوئی چیز فروخت کرے اور کچھ دیر کے لیے اس پر سواری کی شرط کرے تو اس کے جائز ہونے میں اختلاف ہے۔
امام بخاری ؒ اسے جائز سمجھتے ہیں۔
امام احمد بن حنبل ؒ کا بھی یہی موقف ہے جبکہ کچھ حضرات اس قسم کی بیع کو ناجائز کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے بیع میں کچھ مستثنیٰ کر لینے سے منع فرمایا ہے، نیز آپ نے بیع اور شرط سے بھی منع فرمایا ہے اور اس میں دونوں چیزیں پائی جاتی ہیں، لیکن حق بات یہ ہے کہ ایسی بیع جائز ہے جیسا کہ حدیث جابر ؓ میں صراحت ہے کہ انہوں نے اپنا اونٹ فروخت کرتے وقت مدینے تک اس پر سوار ہو کر جانے کا استثنا کر لیا۔
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں:
میں نے ایک اوقیے کے بدلے اسے فروخت کر دیا اور میں نے اپنے گھر تک اس پر سواری کی شرط لگائی۔
(صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 2406)
مستثنیٰ کر لینے کی ممانعت کے متعلق حدیث درج ذیل ہے:
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خریدوفروخت کے وقت کچھ مستثنیٰ کرنے سے منع کیا ہے الا یہ کہ اس کی مقدار مقرر کر لی جائے۔
(صحیح مسلم، البیوع، حدیث: 3913(1536)
جابر ؓ کے واقعے میں بھی ایک معلوم چیز کا استثنا تھا، لہذا یہ منع نہیں ہے، البتہ مجہول شے کا استثنا منع ہے۔
اس سے بیع فاسد ہو جاتی ہے کیونکہ جہالت کی وجہ سے یہ بیع دھوکے پر مشتمل ہوتی ہے۔
جس حدیث میں بیع اور شرط کی ممانعت ہے، اس کی سند میں مقال ہے، نیز وہ قابل تاویل ہے۔
(فتح الباري: 386/5) (2)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کو ایک ایک حدیث کے کتنے کتنے طرق یاد تھے۔
(3)
ہمارے رجحان کے مطابق خریدوفروخت میں اگر معلوم چیز کی شرط لگائی جائے یا اس کا استثنا کر لیا جائے تو جائز ہے، اس سے بیع کے جواز پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2718   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.