الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شرائط کے مسائل کا بیان
The Book of Conditions
19. بَابُ الشُّرُوطِ فِي الْوَقْفِ:
19. باب: وقف میں شرطیں لگانے کا بیان۔
(19) Chapter. Conditions in Waqf (i.e., religious endowment).
حدیث نمبر: 2737
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا محمد بن عبد الله الانصاري، حدثنا ابن عون، قال: انباني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما،" ان عمر بن الخطاب اصاب ارضا بخيبر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم يستامره فيها، فقال: يا رسول الله، إني اصبت ارضا بخيبر لم اصب مالا قط انفس عندي منه، فما تامر به؟ قال: إن شئت حبست اصلها وتصدقت بها، قال: فتصدق بها عمر، انه لا يباع ولا يوهب ولا يورث، وتصدق بها في الفقراء، وفي القربى، وفي الرقاب، وفي سبيل الله وابن السبيل، والضيف لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف، ويطعم غير متمول". قال: فحدثت به ابن سيرين، فقال: غير متاثل مالا.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، قَالَ: أَنْبَأَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا،" أَنْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَصَابَ أَرْضًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْمِرُهُ فِيهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَصَبْتُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ، فَمَا تَأْمُرُ بِهِ؟ قَالَ: إِنْ شِئْتَ حَبَسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، قَالَ: فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ، أَنَّهُ لَا يُبَاعُ وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُورَثُ، وَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ، وَفِي الْقُرْبَى، وَفِي الرِّقَابِ، وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ، وَالضَّيْفِ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ، وَيُطْعِمَ غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ". قَالَ: فَحَدَّثْتُ بِهِ ابْنَ سِيرِينَ، فَقَالَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محمد بن عبداللہ انصاری نے بیان کیا ‘ ان سے ابن عون نے ‘ کہا کہ مجھے نافع نے خبر دی ‘ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملی تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے اس سے بہتر مال مجھے اب تک کبھی نہیں ملا تھا ‘ آپ اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر جی چاہے تو اصل زمین اپنے ملکیت میں باقی رکھ اور پیداوار صدقہ کر دے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو اس شرط کے ساتھ صدقہ کر دیا کہ نہ اسے بیچا جائے گا نہ اس کا ہبہ کیا جائے گا اور نہ اس میں وراثت چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں کے لیے ‘ رشتہ داروں کے لیے اور غلام آزاد کرانے کے لیے ‘ اللہ کے دین کی تبلیغ اور اشاعت کے لیے اور مہمانوں کیلئے صدقہ (وقف) کر دیا اور یہ کہ اس کا متولی اگر دستور کے مطابق اس میں سے اپنی ضرورت کے مطابق وصول کر لے یا کسی محتاج کو دے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ ابن عون نے بیان کیا کہ جب میں نے اس حدیث کا ذکر ابن سیرین سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ (متولی) اس میں سے مال جمع کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔

Narrated Ibn `Umar: Umar bin Khattab got some land in Khaibar and he went to the Prophet to consult him about it saying, "O Allah's Apostle I got some land in Khaibar better than which I have never had, what do you suggest that I do with it?" The Prophet said, "If you like you can give the land as endowment and give its fruits in charity." So `Umar gave it in charity as an endowment on the condition that would not be sold nor given to anybody as a present and not to be inherited, but its yield would be given in charity to the poor people, to the Kith and kin, for freeing slaves, for Allah's Cause, to the travelers and guests; and that there would be no harm if the guardian of the endowment ate from it according to his need with good intention, and fed others without storing it for the future."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 50, Number 895


   صحيح البخاري2772عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2737عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2773عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها
   صحيح مسلم4224عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   جامع الترمذي1375عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن أبي داود2878عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   سنن ابن ماجه2396عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن ابن ماجه2397عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرها
   سنن النسائى الصغرى3627عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها لا تباع لا توهب
   سنن النسائى الصغرى3629عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3630عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها فتصدق بها
   سنن النسائى الصغرى3631عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3633عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3634عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل الثمرة
   سنن النسائى الصغرى3635عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   بلوغ المرام786عبد الله بن عمر إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   مسندالحميدي667عبد الله بن عمريا عمر، احبس الأصل، وسبل الثمرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2397  
´جس نے وقف کیا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وقف شرعاً درست ہے۔

(2)
وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا البتہ وقف کرنے والا اس کا انتظام خود کرنے کا حق رکھتا ہے۔

(3)
وقف سےحاصل ہونے والی آمدنی میں سے وقف قائم رکھنے کےضروری اخراجات نکال کرباقی مال نیکی کےان کاموں میں خرچ ہوگا جن کےلیے وقف کیاگیا ہے۔

(4)
وقف کا منتظم اپنی خدمات کےعوض مناسب تنخواہ لے سکتا ہے لیکن یہ تنخواہ بہت زیادہ نہ ہو۔

(5)
مال نہ کمانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے لیے ذریعہ آمدنی نہ بنا لے اورجائز حد سے زیادہ مالی فوائد حاصل نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2397   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 786  
´وقف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر کے علاقہ میں زمین ملی تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ طلب کرنے کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں کچھ زمین حاصل ہوئی ہے ایسی نفیس و قیمتی کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسی زمین مجھے نہیں ملی۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو اصل کو اپنے پاس روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو فقیروں، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے میں اور راہ خدا میں، راہ چلتے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے وقف کر دیا اور وصیت بھی کر دی کہ اس کا منتظم و نگہبان معروف طریقہ کے مطابق خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب و رفقاء کو بھی کھلا سکتا ہے۔ مگر مال کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کے اصل کو صدقہ کر دیا (یعنی وقف کر دیا) جو نہ فروخت کیا جائے گا اور نہ ھبہ کیا جائے گا لیکن اس کی پیداوار، راہ خدا میں خرچ کی جائے گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 786»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب الشروط في الوقف، حديث:2737، ومسلم، الوصية، باب الوقف، حديث:1632.»
تشریح:
اس حدیث میں وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ یعنی جو چیز وقف کر دی جائے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف شدہ چیز کے فروخت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 786   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1375  
´وقف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1375]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیا جا سکتا ہے،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں،
ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے۔
(دیکھیے:
فتح الباری کتاب الوصایا،
باب 29 (2773)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1375   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2737  
2737. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملا تو وہ اس کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے۔ میرے نزدیک اس سے نفیس ترمال میں نے کبھی نہیں پایا۔ آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: اگر چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں رکھو اور اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔ پھر حضرت عمر ؓ نے اس شرط کے ساتھ، اس زمین کو صدقہ کردیا کہ نہ اسے فروخت کیا جائے گا اور نہ اسےہبہ ہی کیا جائے گا، نیز اس میں وراثت بھی نہیں چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں، رشتہ داروں، غلام آزاد کرانے، اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت اور مہمانوں کے لیے وقف کردیا، نیز جو اس کا انتظام وانصرام کرے وہ معروف طریقے کے مطابق خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔ لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2737]
حدیث حاشیہ:
حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے‘ واقف اپنی وقف کو جس جس طور چاہے مشروط کر سکتا ہے‘ جیسا کہ یہاں حضرت عمر ؓ کی شرطوں کی تفصیلات موجود ہیں‘ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ واقف اپنی تجویز کردہ شرطوں کے تحت اپنے وقف پر اپنی ذاتی ملکیت بھی باقی رکھ سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ وقف کا متولی نیک نیتی کے ساتھ دستور کے مطابق اس میں سے اپناخرچ بھی وصول کرسکتا ہے۔
اس وقف نامہ میں مصارف کی ایک مد فی سبیل اللہ بھی مذکور ہے۔
جس سے مجاہدین کی امداد مراد ہے اور وہ جملہ کام جن سے اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت ہوتی ہو جیسے اسلامی مدارس اور تبلیغی ادارے وغیرہ وغیرہ۔
هو في اللغة الحبس یقال وقفت کذا بدون الف علی اللغة الفصیح أي حبسته وفي الشریعة حبس الملك في السبیل اللہ تعالیٰ للفقراء و ابنا السبیل یصرف علیھم منافعه و یبقی أصله علی ملك الواقف وألفاظه وقفت و حسبت وسبلت و أبدت ھذا صرائح ألفاظه و أما کنایة تصدقت واختلف في حرمت فقیل صریح وقیل غیر صریح (نیل الأوطار)
یعنی وقف کا لغوی معنی روکنا ہے‘ کہا جاتا ہے کہ میں نے اس طرح اس کو وقف کردیا یعنی روک دیا‘ ٹھہرادیا اور شریعت میں اپنی کسی ملکیت کو اللہ کے راستے میں روک دینا‘ وقف کردینا کہ اس کے منافع کو فقراءاور مسافروں پر خرچ کیا جائے اور اس کی اصل واقف کی ملکیت میں باقی رہے وقف کی صحت کے لئے الفاظ میں نے وقف کیا‘ میں نے اسے روک دیاوغیرہ وغیرہ صریح الفاظ ہیں۔
بطور کنایہ یہ بھی درست ہے کہ میں نے اسے صدقہ کردیا۔
لفظ حرمت میں نے اس کے منافع کا استعمال اپنے لئے حرام قرار دے لیا‘ اس کوبعض نے وقف کے لئے لفظ صریح قرار دیا اور بعض نے غیر صریح قرار دیا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب کی حدیث کے ذیل امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں:
وفي الحدیث فوائد منھا ثبوت صحة أصل الوقف قال النووي وھذا مذھبنا یعني أئمة الشافعیة و مذھب الجماھیر و یدل علیه أیضاً إجماع المسلمین علی صحة وقف المساجد و السقایات و منھا فضیلة الإنفاق مما یحب ومنھا ذکر فضیلة ظاھرة لعمر رضي اللہ عنه ومنھا مشاورة أھل الفضل والصلاح في الأمور و طریق الخیر ومنھا فضیلة صلة الأرحام و الوقف علیھم۔
واللہ أعلم (نیل)
یعنی اس حدیث میں بہت سے فوائد ہیں جن میں سے اصل وقف کی صحت کا ثبوت بھی ہے۔
بقول علامہ نووی ائمہ شافعیہ اور جماہیر کا یہی مذہب ہے اور اس پر عام مسلمانوں کا اجماع بھی دلیل ہے جو مساجد اور کنویں وغیرہ کے وقف کی صحت پر ہوچکا ہے اور اس حدیث سے خرچ کرنے کی بھی فضیلت ثابت ہوئی جو اپنے محبوب ترین مال میں سے کیا جاتا ہے اور اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور اس سے اہل علم و فضل سے صلاح و مشورہ کرنا بھی ثابت ہوا اور صلہ رحمی کی فضیلت اور رشتہ نا طہ والوں کے لئے وقف کرنے کی فضیلت بھی ثابت ہوئی۔
لفظ ''وقف'' مختلف احادیث میں مختلف معانی پربولاگیا ہے۔
جس کی تفصیل کیلئے کتاب لغات الحدیث بذیل لفظ ''واو'' کا مطالعہ کیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2737   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2737  
2737. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کو خیبر میں ایک قطعہ زمین ملا تو وہ اس کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ! مجھے خیبر میں ایک زمین کا ٹکڑا ملا ہے۔ میرے نزدیک اس سے نفیس ترمال میں نے کبھی نہیں پایا۔ آپ مجھے اس کے متعلق کیا حکم فرماتے ہیں؟آپ ﷺ نے فرمایا: اگر چاہو تو اصل زمین اپنی ملکیت میں رکھو اور اس کی پیداوار کو صدقہ کردو۔ پھر حضرت عمر ؓ نے اس شرط کے ساتھ، اس زمین کو صدقہ کردیا کہ نہ اسے فروخت کیا جائے گا اور نہ اسےہبہ ہی کیا جائے گا، نیز اس میں وراثت بھی نہیں چلے گی۔ اسے آپ نے محتاجوں، رشتہ داروں، غلام آزاد کرانے، اللہ کے دین کی تبلیغ واشاعت اور مہمانوں کے لیے وقف کردیا، نیز جو اس کا انتظام وانصرام کرے وہ معروف طریقے کے مطابق خود کھائے اور دوسروں کو کھلائے تو اس پر کوئی الزام نہیں ہو گا۔ لیکن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2737]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث کے مطابق وقف کرنے والا اپنی وقف کی ہوئی جائیداد کو جس طرح چاہے مشروط کر سکتا ہے، نیز وہ اپنے وقف پر اپنی ذاتی ملکیت بھی باقی رکھ سکتا ہے اور نیک نیتی کے ساتھ دستور کے مطابق اس میں سے اپنے اخراجات بھی پورے کر سکتا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے آئندہ ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا ہے:
(باب هل ينتفع الواقف بوقفه؟)
کیا وقف کرنے والا اپنے وقف سے خود بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ (صحیح البخاري، الوصایا، باب: 12)
اس میں یہ شبہ نہیں کرنا چاہیے کہ وقف کرنے والے کا اپنے وقف سے فائدہ اٹھانا ایسا ہے، گویا اس نے اپنے صدقے سے خود فائدہ اٹھایا ہے، اس شبہ کی کوئی حیثیت نہیں۔
(فتح الباري: 470/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2737   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.