الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
26. بَابُ إِذَا وَقَفَ أَرْضًا وَلَمْ يُبَيِّنِ الْحُدُودَ فَهْوَ جَائِزٌ، وَكَذَلِكَ الصَّدَقَةُ:
26. باب: اگر کسی نے ایک زمین وقف کی (جو مشہور و معلوم ہے) اس کی حدیں بیان نہیں کیں تو یہ جائز ہو گا، اسی طرح ایسی زمین کا صدقہ دینا۔
(26) Chapter. If somebody gives a piece of land as an endowment and does not mark its boundaries, the endowment is valid. The same is applied to objects of charity.
حدیث نمبر: 2769
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن ابي طلحة، انه سمع انس بن مالك رضي الله عنه، يقول:"كان ابو طلحة اكثر انصاري بالمدينة مالا من نخل، وكان احب ماله إليه بيرحاء مستقبلة المسجد، وكان النبي صلى الله عليه وسلم" يدخلها ويشرب من ماء فيها طيب، قال انس: فلما نزلت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92 قام ابو طلحة، فقال: يا رسول الله، إن الله يقول لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون سورة آل عمران آية 92 وإن احب اموالي إلي بيرحاء وإنها صدقة لله ارجو برها، وذخرها عند الله، فضعها حيث اراك الله، فقال: بخ، ذلك مال رابح او رايح، شك ابن مسلمة وقد سمعت ما قلت، وإني ارى ان تجعلها في الاقربين، قال ابو طلحة: افعل ذلك يا رسول الله، فقسمها ابو طلحة في اقاربه، وفي بني عمه". وقال إسماعيل، وعبد الله بن يوسف، ويحيى بن يحيى، عن مالك رايح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:"كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا مِنْ نَخْلٍ، وَكَانَ أَحَبُّ مَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءَ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٍ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا نَزَلَتْ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 قَامَ أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ سورة آل عمران آية 92 وَإِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءَ وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ لِلَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا، وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا حَيْثُ أَرَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ: بَخْ، ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ أَوْ رَايِحٌ، شَكَّ ابْنُ مَسْلَمَةَ وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهَا فِي الْأَقْرَبِينَ، قَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَمَهَا أَبُو طَلْحَةَ فِي أَقَارِبِهِ، وَفِي بَنِي عَمِّهِ". وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، وَيَحْيَى بْنُ يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ رَايِحٌ.
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے امام مالک نے ‘ ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے ‘ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا آپ بیان کرتے تھے کہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کھجور کے باغات کے اعتبار سے مدینہ کے انصار میں سب سے بڑے مالدار تھے اور انہیں اپنے تمام مالوں میں مسجد نبوی کے سامنے بیرحاء کا باغ سب سے زیادہ پسند تھا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس باغ میں تشریف لے جاتے اور اس کا میٹھا پانی پیتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب یہ آیت نازل ہوئی «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» نیکی تم ہرگز نہیں حاصل کرو گے جب تک اپنے اس مال سے نہ خرچ کرو جو تمہیں پسند ہوں۔ تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون‏» تم نیکی ہرگز نہیں حاصل کر سکو گے جب تک اپنے ان مالوں میں سے نہ خرچ کرو جو تمہیں زیادہ پسند ہوں۔ اور میرے اموال میں مجھے سب سے زیادہ پسند بیرحاء ہے اور یہ اللہ کے راستہ میں صدقہ ہے ‘ میں اللہ کی بارگاہ سے اس کی نیکی اور ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ کو جہاں اللہ تعالیٰ بتائے اسے خرچ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاباش یہ تو بڑا فائدہ بخش مال ہے یا آپ نے بجائے «رابح» رابع کے «رايح» کہا یہ شک عبداللہ بن مسلمہ راوی کو ہوا تھا۔۔۔ اور جو کچھ تم نے کہا میں نے سب سن لیا ہے اور میرا خیال ہے کہ تم اسے اپنے ناطے والوں کو دے دو۔ ابوطلحہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایسا ہی کروں گا۔ چنانچہ انہوں نے اپنے عزیزوں اور اپنے چچا کے لڑکوں میں تقسیم کر دیا۔ اسماعیل ‘ عبداللہ بن یوسف اور یحییٰ بن یحییٰ نے مالک کے واسطہ سے۔ «رابح» کے بجائے «رايح» بیان کیا ہے۔

Narrated Anas bin Malik: Abu Talha had the greatest wealth of date-palms amongst the Ansar in Medina, and he prized above all his wealth (his garden) Bairuha', which was situated opposite the Mosque (of the Prophet ). The Prophet used to enter It and drink from its fresh water. When the following Divine Verse came:-- "By no means shall you attain piety until you spend of what you love," (3.92) Abu Talha got up saying. "O Allah's Apostle! Allah says, 'You will not attain piety until you spend of what you love,' and I prize above al I my wealth, Bairuha' which I want to give in charity for Allah's Sake, hoping for its reward from Allah. So you can use it as Allah directs you." On that the Prophet said, "Bravo! It is a profitable (or perishable) property. (Ibn Maslama is not sure as to which word is right, i.e. profitable or perishable.) I have heard what you have said, and I recommend that you distribute this amongst your relatives." On that Abu Talha said, "O Allah's Apostle! I will do (as you have suggested)." So, Abu Talha distributed that garden amongst his relatives and cousins.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 30


   صحيح البخاري5611أنس بن مالكنزلت لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون
   صحيح البخاري2752أنس بن مالكأرى أن تجعلها في الأقربين قال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح البخاري2318أنس بن مالكذلك مال رائح قد سمعت ما قلت فيها وأرى أن تجعلها في الأقربين قال أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح البخاري4554أنس بن مالكذلك مال رايح ذلك مال رايح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين
   صحيح البخاري2769أنس بن مالكلن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون
   صحيح البخاري1461أنس بن مالكذلك مال رابح ذلك مال رابح وقد سمعت ما قلت وإني أرى أن تجعلها في الأقربين فقال أبو طلحة أفعل يا رسول الله فقسمها أبو طلحة في أقاربه وبني عمه
   صحيح مسلم2315أنس بن مالكذلك مال رابح ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها وإني أرى أن تجعلها في الأقربين
   صحيح مسلم2316أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   جامع الترمذي2997أنس بن مالكاجعله في قرابتك
   سنن أبي داود1689أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   سنن النسائى الصغرى3632أنس بن مالكاجعلها في قرابتك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم287أنس بن مالكذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 287  
´نیکی، صلہ رحمی، حسنِ سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح `
«. . . رسول الله صلى الله عليه وسلم بخ، ذلك مال رابح، ذلك مال رابح قد سمعت ما قلت فيها، وإني ارى ان تجعلها فى الاقربين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ! یہ نفع بخش مال ہے، یہ نفع بخش مال ہے، میں نے تمہاری بات سنی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے رشتہ داروں میں خرچ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 287]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1461، 2752، و مسلم 2315/998، من حديث مالك به]

تفقه:
➊اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی زبردست فضیلت ہے جنہوں نے اپنا محبوب ترین مال اللہ کے راستے میں خرچ کر دیا۔
➋ صحابہ کرام ہر وقت قرآن و حدیث پر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔
➌ نیکی، صلہ رحمی، حسن سلوک اور صدقات میں سب سے پہلے رشتہ داروں کو ترجیح دینی چاہئے اور یہی افضل ہے۔
➍ مال سے محبت فطری امر ہے بشرطیکہ شریعت کے خلاف نہ ہو۔ اسی طرح باغات وغیرہ بنانا اور علمائے کرام کا ان سے استفادہ کرنا سب جائز ہے۔
➎ عموم پر عمل جائز ہے اِلا یہ کہ تخصیص کی دلیل ہو۔
➏ جو شخص کوئی چیز صدقہ کر دے تو پھر اسے رجوع کا حق حاصل نہیں ہے۔
➐ اللہ تعالیٰ کے راستے میں بہترین چیز خرچ کرنی چاہئے، وہ خواہ مال ہو یا جان، اس لئے دینی تعلیم کے حصول کے لئے اپنی اولاد میں سے محبوب ترین اور ذہین ترین افراد کا انتخاب کرنا چاہئے۔
➑ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا عمل آیت مبارکہ: «لَنْ تَنَالُوا البِرَّ» کی بہترین تفسیر ہے۔ «سبحان الله»
➒ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا مال انھی کے اقرباء میں تقسیم کرنے کا حکم دیا، اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال استغناء ثابت ہوتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 116   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2997  
´سورۃ آل عمران سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت: «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» ۱؎ یا «من ذا الذي يقرض الله قرضا حسنا» ۲؎ نازل ہوئی۔ اس وقت ابوطلحہ رضی الله عنہ کے پاس ایک باغ تھا، انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرا باغ اللہ کی رضا کے لیے صدقہ ہے، اگر میں اسے چھپا سکتا (تو چھپاتا) اعلان نہ کرتا ۳؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے رشتہ داروں کے لیے وقف کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2997]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب تک تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے۔
(آل عمران: 92)

2؎:
ایسا بھی کوئی ہے جو اللہ تعالیٰ کو اچھا قرض دے (البقرۃ: 245)

3؎:
کیونکہ چھپا کر صدقہ وخیرات کرنا اللہ کو زیادہ پسند ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2997   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1689  
´رشتے داروں سے صلہ رحمی (اچھے برتاؤ) کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب «لن تنالوا البر حتى تنفقوا مما تحبون» کی آیت نازل ہوئی تو ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرا خیال ہے کہ ہمارا رب ہم سے ہمارے مال مانگ رہا ہے، میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اریحاء نامی اپنی زمین اسے دے دی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کر دو، تو انہوں نے اسے حسان بن ثابت اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کے درمیان تقسیم کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے محمد بن عبداللہ انصاری سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوطلحہ کا نام: زید بن سہل بن اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن النجار ہے، اور حسان: ثابت بن منذر بن حرام کے بیٹے ہیں، اس طرح ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور حسان رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب حرام پر مل جاتا ہے وہی دونوں کے تیسرے باپ (پردادا) ہیں، اور ابی رضی اللہ عنہ کا سلسلہ نسب اس طرح ہے: ابی بن کعب بن قیس بن عتیک بن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار، اس طرح عمرو: حسان، ابوطلحہ اور ابی تینوں کو سمیٹ لیتے ہیں یعنی تینوں کے جد اعلیٰ ہیں، انصاری (محمد بن عبداللہ) کہتے ہیں: ابی رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے نسب میں چھ آباء کا فاصلہ ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1689]
1689. اردو حاشیہ: کہاں یہ جاہلیت کے چچا تائے کی اولاد آپس میں حریف گرانے جاتے ہوں۔اور کہاں یہ محبت والفت کہ پر دادا بلکہ چھٹے باپ کی اولاد اس قدرحسن سلوک۔۔۔کہ قیمتی زمین ان کے نام لگادی۔اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال میں سچ فرمایا۔ <قرآن> هُوَ الَّذِي أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ﴿٦٢﴾ وَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ۚ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (الانفال۔6
➋ 63)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1689   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2769  
2769. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو ر ؓ مدینہ طیبہ میں تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات تھے۔ مسجد نبوی کے سامنے ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا جس میں نبی ﷺ تشریف لاتے اور اس کا بہترین پانی نوش جاں کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب یہ آیت اتری: تم لوگ اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو۔ تو حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حضور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم ہرگزنیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے۔ یہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اللہ کے حضور اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں اور جہاں مناسب خیال فرمائیں اسے خرچ کریں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2769]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب کی مطابقت صاف ظاہر ہے کہ ابو طلحہ نے بیرحاءکو صدقہ کردیا۔
اس کے حدود بیان نہیں کئے کیونکہ بیرحاءباغ مشہورو معروف تھا‘ ہر کوئی اس کو جانتا تھا اگر کوئی ایسی زمین وقف کرے کہ وہ معروف و مشہور نہ ہو تب تو اس کی حدود بیان کرنی ضروری ہیں لفظ بیرحاءدو کلموں سے مرکب ہے پہلا کلمہ بیئر ہے جس کے معنی کنویں کے ہیں دوسرا کلمہ حاءہے اس کے بارے میں اختلاف ہے کہ کسی مرد یا عورت کا نام ہے یا کسی جگہ کا نام جس کی طرف یہ کنواں منسوب کیا گیا ہے یا یہ کلمہ اونٹوں کے ڈانٹنے کے لئے بولا جاتا تھا اور اس جگہ اونٹ بکثرت چرائے جاتے تھے‘ لوگ ان کو ڈانٹنے کیلئے لفظ حاءکا استعمال کرتے۔
اسی سے یہ لفظ بیرحاءمل کر ایک کلمہ بن گیا۔
پھر حضرت ابو طلحہ ؓ کا سارا باغ ہی اس نام سے موسوم ہوگیا کیونکہ یہ کنواں اس کے اندر تھا لفظ بخ بخواہ واہ کی جگہ بولا جاتا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2769   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2769  
2769. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو ر ؓ مدینہ طیبہ میں تمام انصار سے زیادہ مال دار تھے۔ ان کے پاس کھجوروں کے باغات تھے۔ مسجد نبوی کے سامنے ان کا سب سے پسندیدہ مال بیرحاء کا باغ تھا جس میں نبی ﷺ تشریف لاتے اور اس کا بہترین پانی نوش جاں کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب یہ آیت اتری: تم لوگ اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کر سکتے جب تک اپنی محبوب ترین چیز خرچ نہ کرو۔ تو حضرت ابو طلحہ ؓ رسول اللہ ﷺ کے حضور کھڑے ہوئے اور عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: تم ہرگزنیکی نہیں حاصل کر سکتے جب تک اپنی پیاری چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو۔ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب مال بیرحاء نامی باغ ہے۔ یہ اللہ کے لیے صدقہ ہے۔ میں اللہ کے حضور اس کے ثواب اور ذخیرے کی امید رکھتا ہوں۔ آپ اسے رکھ لیں اور جہاں مناسب خیال فرمائیں اسے خرچ کریں۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2769]
حدیث حاشیہ:
(1)
وقف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی وقف کی ہوئی چیز کی حدود کو متعین کرے، مثلاً:
بہت سے باغات ہیں تو جب تک وقف کے لیے کسی باغ کا تعین نہیں کرے گا وقف صحیح نہیں ہو گا۔
اسی طرح جب کوئی زمین وقف کرے اور اس کی حدود اربعہ کا ذکر نہ کرے تو وقف جائز ہے بشرطیکہ لوگوں میں اس کی حدود اربعہ معروف ہوں، بصورت دیگر اس کی حدود اربعہ متعین کرنا ضروری ہے۔
اس کے بغیر وقف صحیح نہیں ہو گا کیونکہ حدود متعین نہ ہونے کی صورت میں دوسری حدود سے التباس کا اندیشہ ہے۔
اس سے دوسروں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
بہرحاء کا باغ ممتاز اور اس کی حدود متعین تھیں، اس کے التباس کا اندیشہ نہیں تھا، اس لیے حدود ذکر نہیں کی گئیں۔
(2)
حکم کے اعتبار سے صدقہ اور وقف ملتے جلتے ہیں اور ان کا ایک ہی حکم ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ نے اسماعیل بن ابی اویس کی روایت کو "کتاب التفسیر" میں، عبداللہ بن یوسف کی روایت کو "کتاب الزکاۃ" میں اور یحییٰ بن یحییٰ کی روایت کو "کتاب الوکالۃ" میں متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 486/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2769   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.