الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وصیتوں کے مسائل کا بیان
The Book of Wasaya (Wills and Testaments)
29. بَابُ الْوَقْفِ لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيرِ وَالضَّيْفِ:
29. باب: مالدار محتاج اور مہمان سب پر وقف کر سکتا ہے۔
(29) Chapter. The usufruct of an endowment may be spent for the wealthy, the poor and the guests.
حدیث نمبر: 2773
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو عاصم، حدثنا ابن عون، عن نافع، عن ابن عمر، ان عمر رضي الله عنه، وجد مالا بخيبر، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره، قال:" إن شئت تصدقت بها، فتصدق بها في الفقراء والمساكين، وذي القربى، والضيف".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَجَدَ مَالًا بِخَيْبَرَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ، قَالَ:" إِنْ شِئْتَ تَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ بِهَا فِي الْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ، وَذِي الْقُرْبَى، وَالضَّيْفِ".
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن عون نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے بیان کیا ‘ ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک جائیداد ملی تو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے متعلق خبر دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاہو تو اسے صدقہ کر دو۔ چنانچہ آپ نے فقراء ‘ مساکین ‘ رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے اسے صدقہ کر دیا۔

Narrated Ibn `Umar: `Umar got some property in Khaibar and he came to the Prophet and informed him about it. The Prophet said to him, "If you wish you can give it in charity." So `Umar gave it in charity (i.e. as an endowment) the yield of which was to be used for the good of the poor, the needy, the kinsmen and the guests.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 51, Number 34


   صحيح البخاري2772عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2737عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   صحيح البخاري2773عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها
   صحيح مسلم4224عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   جامع الترمذي1375عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن أبي داود2878عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   سنن ابن ماجه2396عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن ابن ماجه2397عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرها
   سنن النسائى الصغرى3627عبد الله بن عمرإن شئت تصدقت بها فتصدق بها لا تباع لا توهب
   سنن النسائى الصغرى3629عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3630عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها وتصدقت بها فتصدق بها
   سنن النسائى الصغرى3631عبد الله بن عمرإن شئت حبست أصلها تصدقت بها
   سنن النسائى الصغرى3633عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3634عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل الثمرة
   سنن النسائى الصغرى3635عبد الله بن عمراحبس أصلها سبل ثمرتها
   بلوغ المرام786عبد الله بن عمر إن شئت حبست أصلها وتصدقت بها
   مسندالحميدي667عبد الله بن عمريا عمر، احبس الأصل، وسبل الثمرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2397  
´جس نے وقف کیا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! خیبر کے جو سو حصے مجھے ملے ہیں ان سے بہتر مال مجھے کبھی نہیں ملا، میں چاہتا ہوں کہ ان کو صدقہ کر دوں؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اصل زمین کو رہنے دو، اور اس کے پھلوں کو اللہ کی راہ میں خیرات کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2397]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وقف شرعاً درست ہے۔

(2)
وقف کسی کی ملکیت نہیں ہوتا البتہ وقف کرنے والا اس کا انتظام خود کرنے کا حق رکھتا ہے۔

(3)
وقف سےحاصل ہونے والی آمدنی میں سے وقف قائم رکھنے کےضروری اخراجات نکال کرباقی مال نیکی کےان کاموں میں خرچ ہوگا جن کےلیے وقف کیاگیا ہے۔

(4)
وقف کا منتظم اپنی خدمات کےعوض مناسب تنخواہ لے سکتا ہے لیکن یہ تنخواہ بہت زیادہ نہ ہو۔

(5)
مال نہ کمانے کا مطلب یہ ہے کہ اسے اپنے لیے ذریعہ آمدنی نہ بنا لے اورجائز حد سے زیادہ مالی فوائد حاصل نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2397   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 786  
´وقف کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر کے علاقہ میں زمین ملی تھی۔ (میرے والد) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشورہ طلب کرنے کیلئے حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے خیبر میں کچھ زمین حاصل ہوئی ہے ایسی نفیس و قیمتی کہ اس سے پہلے کبھی بھی ایسی زمین مجھے نہیں ملی۔ میں اسے صدقہ کرنا چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو اصل کو اپنے پاس روک لو اور اس کی پیداوار صدقہ کر دو۔ راوی کا بیان ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس زمین کو فقیروں، قرابت داروں، غلاموں کو آزاد کرنے میں اور راہ خدا میں، راہ چلتے مسافروں اور مہمانوں کی مہمان نوازی کیلئے وقف کر دیا اور وصیت بھی کر دی کہ اس کا منتظم و نگہبان معروف طریقہ کے مطابق خود بھی کھا سکتا ہے اور احباب و رفقاء کو بھی کھلا سکتا ہے۔ مگر مال کو ذخیرہ بنا کر نہ رکھے۔ (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں اور بخاری کی روایت میں ہے کہ اس کے اصل کو صدقہ کر دیا (یعنی وقف کر دیا) جو نہ فروخت کیا جائے گا اور نہ ھبہ کیا جائے گا لیکن اس کی پیداوار، راہ خدا میں خرچ کی جائے گی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 786»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشروط، باب الشروط في الوقف، حديث:2737، ومسلم، الوصية، باب الوقف، حديث:1632.»
تشریح:
اس حدیث میں وقف شدہ چیز کو فروخت کرنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا گیا ہے‘ یعنی جو چیز وقف کر دی جائے اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔
حدیث سے تو یہی معلوم ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف شدہ چیز کے فروخت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔
ان کے شاگرد رشید امام ابویوسف رحمہ اللہ کا قول ہے کہ اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو یہ حدیث پہنچ جاتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 786   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1375  
´وقف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی الله عنہ کو خیبر میں (مال غنیمت سے) کچھ زمین ملی، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! خیبر میں مجھے مال ملا ہے اس سے زیادہ عمدہ مال مجھے کبھی نہیں ملا۔ (اس کے بارے میں) آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر چاہو تو اس کی اصل روک لو اور اسے (پیداوار کو) صدقہ کر دو، تو عمر رضی الله عنہ نے اسے اس طرح سے صدقہ کیا کہ اصل زمین نہ بیچی جائے، نہ ہبہ کی جائے، اور نہ کسی کو وراثت میں دی جائے ۱؎، اور اسے فقیروں میں، رشتہ داروں میں، غلام آزاد کرنے میں، اللہ کے راستے (جہاد) میں، مسافروں میں اور مہمانوں میں خ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1375]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیزوقف کردی گئی ہو وہ نہ بیچی جاسکتی ہے اورنہ اسے ہبہ اوروراثت میں دیا جا سکتا ہے،
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ وقف کے فروخت کو جائزسمجھتے ہیں،
ان کے شاگرد امام یوسف فرماتے ہیں کہ امام صاحب کو اگریہ حدیث مل گئی ہوتی تو وہ اپنی رائے سے رجوع فرما لیتے۔
(دیکھیے:
فتح الباری کتاب الوصایا،
باب 29 (2773)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1375   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2773  
2773. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے خیبر میں مال حاصل کیا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے صدقہ کردو۔ چنانچہ حضرت عمرفاروق ؓ نے وہ مال فقراءمساکین، قریبی رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2773]
حدیث حاشیہ:
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
فیه جواز الوقف علی الأغنیاء لأن ذوي القربی والضیف لم یقید بالحاجة وھوالأصح عند الشافعیة (فتح)
یعنی اس سے اغنیاءپر وقف کرنے کا جواز نکلا‘ اس لئے کہ قرابتداروں اور مہمانوں کے لئے حاجت مند ہونے کی قید نہیں لگائی اور شافعیہ کے نزدیک یہی صحیح مسلک ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2773   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2773  
2773. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے خیبر میں مال حاصل کیا تو وہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس کے متعلق آپ کو اطلاع دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے صدقہ کردو۔ چنانچہ حضرت عمرفاروق ؓ نے وہ مال فقراءمساکین، قریبی رشتہ داروں اور مہمانوں کے لیے صدقہ کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2773]
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
اس حدیث سے اغنیاء کے لیے وقف کرنے کا جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں قرابت داروں اور مہمانوں کے لیے حاجت مند ہونے کی شرط نہیں لگائی گئی۔
(فتح الباري: 493/5) (2)
لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اگر اغنیاء کو فقراء کے تابع کر کے ان پر وقف کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔
اگر کسی نے وقف کو مطلق رکھا اور فقراء کے ساتھ مقید نہیں کیا تو اغنیاء کو بھی اس سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے۔
اگر فقراء کی تخصیص کر دی جائے تو پھر اغنیاء کو وقف شدہ مال کے استعمال کرنے کا حق نہیں۔
صرف اغنیاء کے لیے وقف کرنا محل نظر ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2773   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.