الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
113. بَابُ اسْتِئْذَانِ الرَّجُلِ الإِمَامَ:
113. باب: اگر کوئی جہاد میں سے لوٹنا چاہے یا جہاد میں نہ جانا چاہے تو امام سے اجازت لے۔
(113) Chapter. Asking the permission of Imam (if one wishes not to participate in a holy battle).
حدیث نمبر: Q2967
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقوله: {إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله وإذا كانوا معه على امر جامع لم يذهبوا حتى يستاذنوه إن الذين يستاذنونك} إلى آخر الآية.لِقَوْلِهِ: {إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِذَا كَانُوا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِعٍ لَمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ} إِلَى آخِرِ الآيَةِ.
‏‏‏‏ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «إنما المؤمنون الذين آمنوا بالله ورسوله وإذا كانوا معه على أمر جامع لم يذهبوا حتى يستأذنوه إن الذين يستأذنونك‏» کی روشنی میں کہ بیشک مومن وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور جب وہ اللہ کے رسول کے ساتھ کسی جہاد کے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو ان سے اجازت لیے بغیر ان کے یہاں سے چلے نہیں جاتے۔ بیشک وہ لوگ جو آپ سے اجازت لیتے ہیں۔ آخر آیت تک۔

حدیث نمبر: 2967
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، اخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فتلاحق بي النبي صلى الله عليه وسلم وانا على ناضح لنا قد اعيا فلا يكاد يسير، فقال لي: ما لبعيرك، قال: قلت: عيي، قال: فتخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير، فقال لي:" كيف ترى بعيرك؟، قال: قلت: بخير قد اصابته بركتك، قال: افتبيعنيه، قال: فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره، قال: فقلت: نعم، قال: فبعنيه فبعته إياه على ان لي فقار ظهره حتى ابلغ المدينة، قال: فقلت يا رسول الله، إني عروس فاستاذنته فاذن لي، فتقدمت الناس إلى المدينة حتى اتيت المدينة فلقيني خالي فسالني عن البعير، فاخبرته بما صنعت فيه فلامني، قال: وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لي: حين استاذنته، هل تزوجت بكرا ام ثيبا؟ فقلت: تزوجت ثيبا، فقال: هلا تزوجت بكرا تلاعبها وتلاعبك، قلت: يا رسول الله توفي والدي او استشهد ولي اخوات صغار فكرهت ان اتزوج مثلهن فلا تؤدبهن، ولا تقوم عليهن فتزوجت ثيبا لتقوم عليهن وتؤدبهن، قال: فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة غدوت عليه بالبعير، فاعطاني ثمنه ورده علي، قال المغيرة: هذا في قضائنا حسن لا نرى به باسا".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْمُغِيرَةِ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَتَلَاحَقَ بِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا عَلَى نَاضِحٍ لَنَا قَدْ أَعْيَا فَلَا يَكَادُ يَسِيرُ، فَقَالَ لِي: مَا لِبَعِيرِكَ، قَالَ: قُلْتُ: عَيِيَ، قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، فَقَالَ لِي:" كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ، قَالَ: أَفَتَبِيعُنِيهِ، قَالَ: فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَبِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي عَرُوسٌ فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى أَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنِ الْبَعِيرِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلَامَنِي، قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي: حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ، هَلْ تَزَوَّجْتَ بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟ فَقُلْتُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، فَقَالَ: هَلَّا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوِ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ مِثْلَهُنَّ فَلَا تُؤَدِّبُهُنَّ، وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ عَلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ، قَالَ الْمُغِيرَةُ: هَذَا فِي قَضَائِنَا حَسَنٌ لَا نَرَى بِهِ بَأْسًا".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو جریر نے خبر دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ (جنگ تبوک) میں شریک تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے آ کر میرے پاس تشریف لائے۔ میں اپنے پانی لادنے والے ایک اونٹ پر سوار تھا۔ چونکہ وہ تھک چکا تھا، اس لیے آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ جابر! تمہارے اونٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ تھک گیا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے گئے اور اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا کی۔ پھر تو وہ برابر دوسرے اونٹوں کے آگے آگے چلتا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اپنے اونٹ کے متعلق کیا خیال ہے؟ میں نے کہا کہ اب اچھا ہے۔ آپ کی برکت سے ایسا ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا اسے بیچو گے؟ انہوں نے بیان کیا کہ میں شرمندہ ہو گیا، کیونکہ ہمارے پاس پانی لانے کو اس کے سوا اور کوئی اونٹ نہیں رہا تھا۔ مگر میں نے عرض کیا، جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بیچ دے۔ چنانچہ میں نے وہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا اور یہ طے پایا کہ مدینہ تک میں اسی پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میری شادی ابھی نئی ہوئی ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (آگے بڑھ کر اپنے گھر جانے کی) اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت عنایت فرما دی۔ اس لیے میں سب سے پہلے مدینہ پہنچ آیا۔ جب ماموں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے متعلق پوچھا۔ جو معاملہ میں کر چکا تھا اس کی انہیں اطلاع دی۔ تو انہوں نے مجھے برا بھلا کہا۔ (ایک اونٹ تھا تیرے پاس وہ بھی بیچ ڈالا اب پانی کس پر لائے گا) جب میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ کنواری سے شادی کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے عرض کیا تھا بیوہ سے اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ باکرہ سے کیوں نہ کی، وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی اور تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے۔ (کیونکہ جابر رضی اللہ عنہ بھی ابھی کنوارے تھے) میں نے کہا یا رسول اللہ! میرے باپ کی وفات ہو گئی ہے یا (یہ کہا کہ) وہ (احد) میں شہید ہو چکے ہیں اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں۔ اس لیے مجھے اچھا نہیں معلوم ہوا کہ انہیں جیسی کسی لڑکی کو بیاہ کے لاؤں، جو نہ انہیں ادب سکھا سکے نہ ان کی نگرانی کر سکے۔ اس لیے میں نے بیوہ سے شادی کی تاکہ وہ ان کی نگرانی کرے اور انہیں ادب سکھائے۔ انہوں نے بیان کیا، پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو صبح کے وقت میں اسی اونٹ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس اونٹ کی قیمت عطا فرمائی اور پھر وہ اونٹ بھی واپس کر دیا۔ مغیرہ راوی رحمہ اللہ نے کہا کہ ہمارے نزدیک بیع میں یہ شرط لگانا اچھا ہے کچھ برا نہیں۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: I participated in a Ghazwa along with Allah's Apostle The Prophet met me (on the way) while I was riding a camel of ours used for irrigation and it had got so tired that it could hardly walk. The Prophet asked me, "What is wrong with the camel?" I replied, "It has got tired." So. Allah's Apostle came from behind it and rebuked it and prayed for it so it started surpassing the other camels and going ahead of them. Then he asked me, "How do you find your camel (now)?" I replied, "I find it quite well, now as it has received your blessings." He said, "Will you sell it to me?" I felt shy (to refuse his offer) though it was the only camel for irrigation we had. So, I said, "Yes." He said, "Sell it to me then." I sold it to him on the condition that I should keep on riding it till I reached Medina. Then I said, "O Allah's Apostle! I am a bridegroom," and requested him to allow me to go home. He allowed me, and I set out for Medina before the people till I reached Medina, where I met my uncle, who asked me about the camel and I informed him all about it and he blamed me for that. When I took the permission of Allah's Apostle he asked me whether I had married a virgin or a matron and I replied that I had married a matron. He said, "Why hadn't you married a virgin who would have played with you, and you would have played with her?" I replied, "O Allah's Apostle! My father died (or was martyred) and I have some young sisters, so I felt it not proper that I should marry a young girl like them who would neither teach them manners nor serve them. So, I have married a matron so that she may serve them and teach them manners." When Allah's Apostle arrived in Medina, I took the camel to him the next morning and he gave me its price and gave me the camel itself as well.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 211


   صحيح البخاري2967جابر بن عبد اللهما لبعيرك قال قلت عيي قال فتخلف رسول الله فزجره ودعا له فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير فقال لي كيف ترى بعيرك قال قلت بخير قد أصابته بركتك قال أفتبيعنيه قال فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره قال فقلت نعم قال فبعنيه فبعته إياه على أن لي فقار ظهره حتى أبلغ ا
   صحيح البخاري5367جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك وتضاحكها وتضاحكك
   صحيح البخاري2385جابر بن عبد اللهأتبيعنيه قلت نعم فبعته إياه فلما قدم المدينة غدوت إليه بالبعير فأعطاني ثمنه
   صحيح البخاري2309جابر بن عبد اللهما لك قلت إني على جمل ثفال قال أمعك قضيب قلت نعم قال أعطنيه فأعطيته فضربه فزجره فكان من ذلك المكان من أول القوم قال بعنيه فقلت بل هو لك يا رسول الله قال بل بعنيه قد أخذته بأربعة دنانير ولك ظهره إلى المدينة فلما دنونا من المدينة أخذت أرتحل قال أين تريد قلت
   صحيح البخاري4052جابر بن عبد اللهفهلا جارية تلاعبك قلت يا رسول الله إن أبي قتل يوم أحد وترك تسع بنات كن لي تسع أخوات فكرهت أن أجمع إليهن جارية خرقاء مثلهن ولكن امرأة تمشطهن وتقوم عليهن قال أصبت
   صحيح البخاري2718جابر بن عبد اللهيسير على جمل له قد أعيا فمر النبي فضربه فدعا له فسار بسير ليس يسير مثله ثم قال بعنيه بوقية قلت لا ثم قال بعنيه بوقية فبعته فاستثنيت حملانه إلى أهلي فلما قدمنا أتيته بالجمل ونقدني ثمنه ثم انصرفت فأرسل على إثري قال ما كنت لآخذ جملك فخذ
   صحيح البخاري5080جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5245جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5079جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح البخاري5247جابر بن عبد اللهبكرا تلاعبها وتلاعبك قال فلما قدمنا ذهبنا لندخل
   صحيح البخاري6387جابر بن عبد اللهتزوجت يا جابر قلت نعم قال بكرا أم ثيبا قلت ثيبا قال هلا جارية تلاعبها وتلاعبك أو تضاحكها وتضاحكك قلت هلك أبي فترك سبع أو تسع بنات فكرهت أن أجيئهن بمثلهن فتزوجت امرأة تقوم عليهن قال فبارك الله عليك
   صحيح البخاري2470جابر بن عبد اللههذا جملك فخرج فجعل يطيف بالجمل قال الثمن والجمل لك
   صحيح البخاري2604جابر بن عبد اللهبعت من النبي بعيرا في سفر فلما أتينا المدينة قال ائت المسجد فصل ركعتين فوزن
   صحيح البخاري3089جابر بن عبد اللهاشترى مني النبي بعيرا بوقيتين ودرهم أو درهمين فلما قدم صرارا أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين ووزن لي ثمن البعير
   صحيح البخاري2097جابر بن عبد اللهكنت مع النبي في غزاة فأبطأ بي جملي وأعيا فأتى علي النبي فقال جابر فقلت نعم قال ما شأنك قلت أبطأ علي جملي وأعيا فتخلفت فنزل يحجنه بمحجنه ثم قال اركب فركبت فلقد رأيته أكفه عن رسول الله قال تزوجت قلت نعم قال بكرا أم ثيبا قلت بل ثيبا قال أفلا جارية تلاعبها وت
   صحيح مسلم3640جابر بن عبد اللهأبكرا تزوجتها أم ثيبا قال قلت بل ثيبا هلا جارية تلاعبها وتلاعبك لما قدمنا المدينة ذهبنا لندخل فقال أمهلوا حتى ندخل ليلا أي عشاء كي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة قال وقال إذا قدمت فالكيس الكيس
   صحيح مسلم3642جابر بن عبد اللهأتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قال قلت هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قال قلت هو لك يا نبي الله قال وقال لي أتزوجت بعد أبيك قلت نعم قال ثيبا أم بكرا قال قلت ثيبا قال فهلا تزوجت بكرا تضاحكك وتضاحكها وتلاعبك وتلاعبها
   صحيح مسلم4098جابر بن عبد اللهبعنيه بوقية قلت لا ثم قال بعنيه فبعته بوقية واستثنيت عليه حملانه إلى أهلي فلما بلغت أتيته بالجمل فنقدني ثمنه ثم رجعت فأرسل في أثري فقال أتراني ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك فهو لك
   صحيح مسلم4100جابر بن عبد اللهتزوجت بكرا تلاعبك وتلاعبها
   صحيح مسلم3638جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   صحيح مسلم3641جابر بن عبد اللهأتزوجت فقلت نعم فقال أبكرا أم ثيبا فقلت بل ثيب هلا جارية تلاعبها وتلاعبك لي أخوات فأحببت أن أتزوج امرأة تجمعهن وتمشطهن وتقوم عليهن قال أما إنك قادم فإذا قدمت فالكيس الكيس ثم قال أتبيع جملك قلت نعم فاشتراه مني بأوقية
   صحيح مسلم3637جابر بن عبد اللهأبكرا أم ثيبا قلت ثيبا أين أنت من العذارى
   صحيح مسلم1658جابر بن عبد اللهخرجت مع رسول الله في غزاة فأبطأ بي جملي وأعيا ثم قدم رسول الله قبلي وقدمت بالغداة فجئت المسجد فوجدته على باب المسجد قال الآن حين قدمت قلت نعم قال فدع جملك وادخل فصل ركعتين قال فدخلت فصليت ثم رجعت
   صحيح مسلم4103جابر بن عبد اللهلما أتى علي النبي وقد أعيا بعيري قال فنخسه فوثب فكنت بعد ذلك أحبس خطامه لأسمع حديثه فما أقدر عليه فلحقني النبي فقال بعنيه فبعته منه بخمس أواق قال قلت على أن لي ظهره إلى المدينة قال ولك ظهره إلى المدينة قال فلما قدمت المدينة أتيته به فزادني وقية ثم وهبه لي
   صحيح مسلم4107جابر بن عبد اللهأخذت جملك بأربعة دنانير ولك ظهره إلى المدينة
   صحيح مسلم1657جابر بن عبد اللهاشترى مني رسول الله بعيرا فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين
   صحيح مسلم4105جابر بن عبد اللهاشترى مني رسول الله بعيرا بوقيتين ودرهم أو درهمين قال فلما قدم صرارا أمر ببقرة فذبحت فأكلوا منها فلما قدم المدينة أمرني أن آتي المسجد فأصلي ركعتين ووزن لي ثمن البعير فأرجح لي
   جامع الترمذي1100جابر بن عبد اللهجارية تلاعبها وتلاعبك
   جامع الترمذي1253جابر بن عبد اللهباع من النبي بعيرا واشترط ظهره إلى أهله
   سنن أبي داود3505جابر بن عبد اللهتراني إنما ماكستك لأذهب بجملك خذ جملك وثمنه فهما لك
   سنن أبي داود2048جابر بن عبد اللهبكر تلاعبها وتلاعبك
   سنن النسائى الصغرى3228جابر بن عبد اللهفهلا بكرا تلاعبك قال قلت يا رسول الله كن لي أخوات فخشيت أن تدخل بيني وبينهن قال فذاك إذا إن المرأة تنكح على دينها ومالها وجمالها فعليك بذات الدين تربت يداك
   سنن النسائى الصغرى4645جابر بن عبد اللهأتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك يا نبي الله قال أتبيعنيه بكذا وكذا والله يغفر لك قلت نعم هو لك
   سنن النسائى الصغرى4643جابر بن عبد اللهبعنيه قد أخذته بوقية اركبه فإذا قدمت المدينة فأتنا به فلما قدمت المدينة جئته به فقال لبلال يا بلال زن له أوقية وزده قيراطا قلت هذا شيء زادني رسول الله فلم يفارقني فجعلته في كيس فلم يزل عندي حتى جاء أهل الشام يوم الحرة فأخذوا منا ما أخذوا
   سنن النسائى الصغرى3221جابر بن عبد اللههلا بكرا تلاعبها وتلاعبك
   سنن النسائى الصغرى4644جابر بن عبد اللهأعطه ثمنه فلما أدبرت دعاني فخفت أن يرده فقال هو لك
   سنن النسائى الصغرى4642جابر بن عبد اللهبعنيه ولك ظهره حتى تقدم فبعته وكانت لي إليه حاجة شديدة ولكني استحييت منه فلما قضينا غزاتنا ودنونا استأذنته بالتعجيل فقلت يا رسول الله إني حديث عهد بعرس قال أبكرا تزوجت أم ثيبا قلت بل ثيبا يا رسول الله إن عبد الله بن عمرو أصيب وترك جواري أبكارا فكرهت أن
   سنن النسائى الصغرى4641جابر بن عبد اللهبعنيه بوقية قلت لا قال بعنيه فبعته بوقية واستثنيت حملانه إلى المدينة فلما بلغنا المدينة أتيته بالجمل وابتغيت ثمنه ثم رجعت فأرسل إلي فقال أتراني إنما ماكستك لآخذ جملك خذ جملك ودراهمك
   سنن النسائى الصغرى3222جابر بن عبد اللههلا بكرا تلاعبك
   سنن ابن ماجه2205جابر بن عبد اللهأتبيع ناضحك هذا بدينار والله يغفر لك قلت يا رسول الله هو ناضحكم إذا أتيت المدينة قال فتبيعه بدينارين والله يغفر لك قال فما زال يزيدني دينارا دينارا ويقول مكان كل دينار والله يغفر لك حتى بلغ عشرين دينارا فلما أتيت المدينة أخذت برأس الناضح فأتيت به النبي فق
   سنن ابن ماجه1860جابر بن عبد اللهأتزوجت يا جابر قلت نعم قال أبكرا أو ثيبا قلت ثيبا هلا بكرا تلاعبها لي أخوات فخشيت أن تدخل بيني وبينهن قال فذاك إذا
   بلوغ المرام870جابر بن عبد الله أمهلوا حتى تدخلوا ليلا ،‏‏‏‏ ( يعني عشاء ) لكي تمتشط الشعثة ،‏‏‏‏ وتستحد المغيبة
   المعجم الصغير للطبراني525جابر بن عبد الله اشترى مني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعيرا ، وأفقرني ظهره إلى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني1180جابر بن عبد الله إذا قدم من سفر صلى ركعتين
   مسندالحميدي1261جابر بن عبد اللهأنكحت يا جابر؟
   مسندالحميدي1322جابر بن عبد اللهفحرسه النبي صلى الله عليه وسلم بعود معه، أو محجن فلقد رأيته، وما يكاد يتقدمه شيء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1860  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک عورت سے شادی کی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا، تو آپ نے فرمایا: جابر! کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا: غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شادی کنواری سے کیوں نہیں کی کہ تم اس کے ساتھ کھیلتے کودتے؟ میں نے کہا: میری کچھ بہنیں ہیں، تو میں ڈرا کہ کہیں کنواری لڑکی آ کر ان میں اور مجھ میں دوری کا سبب نہ بن جائے، آپ صلی اللہ علیہ و۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1860]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
نکاح کے وقت تمام دوستوں اور رشتے داروں کا اجتماع ضروری نہیں۔

(2)
اپنے ساتھیوں اور ماتحتوں کے حالات معلوم کرنا اور ان کی ضرورتیں ممکن حد تک پوری کرنا اچھی عادت ہے۔

(3)
بیوہ یا مطلقہ سے نکاح کرنا عیب نہیں۔
حدیث میں «ثیب» کالفظ ہے جو بیوہ اور طلاق یافتہ عورت دونوں کے لیے بولا جاتا ہے۔

(4)
جوان آدمی کے لیے جوان عورت سے شادی کرنا بہتر ہےکیونکہ اس میں زیادہ ذہنی ہم آہنگی ہونے کی امید ہوتی ہے۔

(5)
حضرت جابر نے اپنی بہنوں کی تربیت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی عمر کی خاتون سے نکاح کیا، اس لیے دوسروں کے فائدے کو سامنے رکھ کر اپنی پسند سے کم تر چیز پر اکتفا کرنا بہت اچھی خوبی ہے۔

(6)
کنبے کے سربراہ کو گھر کے افراد کا مفاد مقدم رکھنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1860   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 870  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک غزوہ میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ جب ہم مدینہ واپس پہنچ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ذرا ٹھہر جاؤ۔ رات کے وقت گھروں میں داخل ہونا، رات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عشاء کا وقت تھا، تاکہ پراگندہ بالوں والی اپنے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر لے اور جس کا خاوند گھر سے باہر غائب تھا وہ اپنے جسم کے زائد بالوں کی صفائی کر لے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کی ایک روایت میں ہے تم میں سے کوئی جب لمبی مدت کے بعد واپس آئے تو اچانک رات کے وقت گھر میں داخل نہ ہو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 870»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب تزوج الثيبات، حديث:5079، ومسلم، الرضاع، باب استحباب نكاح البكر، حديث:715، بعد حديث:1466 /57.»
تشریح:
1. اس حدیث میں اس شخص کو‘ جو بہت دیر کے بعد گھر واپس لوٹا ہو‘ حکم ہے کہ وہ اچانک گھر آنے کی بجائے اپنی رہائش سے قریب کسی جگہ پر کچھ دیر ٹھہرے اور انتظار کرے اور اپنی آمد کی اطلاع اہل خانہ کو کرے تاکہ اس کی بیوی اپنی زیب و آرائش کر لے‘ اس لیے کہ جن عورتوں کے شوہر سفر پر یا باہر کسی علاقے میں ہوتے ہیں‘ وہ عموماً پراگندہ اور غیر مناسب حالت میں ہوتی ہیں۔
ممکن ہے کہ شوہر جب ایسی پراگندہ حالت میں اسے دیکھے تو اس سے نفرت پیدا ہوجائے۔
2. دور جدید میں ڈاک اور ٹیلیفون کے ذریعے سے پیشگی اطلاع دی جا سکتی ہے۔
یہ اطلاع مقصد پورا کر دیتی ہے‘ لہٰذا اب گھر کے قریب پہنچ کر ٹھہرنے کی ضرورت نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 870   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1253  
´جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1253]
اردو حاشہ: 1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگرجائزشرط ہو تو بیع اورشرط دونوں درست ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1253   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2048  
´کنواری لڑکیوں سے شادی کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: کیا تم نے شادی کر لی؟ میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے یا غیر کنواری سے؟ میں نے کہا غیر کنواری سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنواری سے کیوں نہیں کی تم اس سے کھیلتے اور وہ تم سے کھیلتی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2048]
فوائد ومسائل:
کنواری لڑکی سے شادی زیادہ مرغوب ہے اور کنوارے میاں بیوی میں ہنسی کھیل فطرتاً اور بالعموم بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بخلاف بیوہ کے یہ عمل نفسیاتی صحت کےلئے بہت عمدہ ہوتا ہے۔
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ میاں بیوی میں لہو لعب جائز اور حق ہے۔
تاہم کچھ اور وجوہات سے بیوہ سے شادی کرنا بھی باعث فضیلت ہے۔
جیسا کہ نبی کریمﷺ کا عمل اس پر شاہد ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2048   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2967  
2967. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2967]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب یہاں سے نکلا کہ حضرت جابر ؓاجازت لے کر آپ ﷺ سے جدا ہوئے۔
یہ حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امامؒ نے اس سے بہت سے مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2967   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2967  
2967. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ میدان جنگ میں تھا، مجھے نبی ﷺ ملے جبکہ میں اپنے پانی لانے والے اونٹ پر سوار تھا جو اس وقت تھکاوٹ کی وجہ سے چلنے کے قابل نہیں رہا تھا آپ ﷺ نے پوچھا: تیرے اونٹ کو کیا ہو گیاہے؟ میں نے عرض کیا: یہ تھک گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے پیچھے آئے، اسے ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، چنانچہ وہ سب اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا: اب اپنے اونٹ کوکیسے دیکھ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا: بہت اچھا ہو گیا ہے اور اسے آپ کی برکت حاصل ہوئی۔ آپ نے فرمایا: کیا تم اسے میرے ہاتھ فروخت کروگے۔ مجھے شرم آگئی کیونکہ ہمارے ہاں اس کے علاوہ کوئی دوسرا اونٹ پانی لانے والا نہیں تھا۔ اس کے باوجود میں نے عرض کیا: (میں بیچتا ہوں)۔ آپ نے فرمایا: اسے میرے ہاتھ فروخت کردو۔ تو میں نے اسے آپ کے ہاتھ فروخت کردیا اور یہ شرط۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2967]
حدیث حاشیہ:

مذکورہ آیت سے استدلال کیا گیا ہے کہ کسی کو لشکر سے جانے کی اجازت نہیں جب تک وہ امیر سے اجازت طلب نہ کرے، خاص طور پر، اگر امیر نے کسی کی ڈیوٹی لگائی ہوپھر اسے کوئی ضرورت لاحق ہوتو اجازت طلب کرنا ضروری ہے۔
اس حدیث کے مطابق حضرت جابر ؓ نے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر رسول اللہ ﷺسے اجازت طلب کی۔
رسول اللہ ﷺسے اجازت ملنے پر وہ جلدی گھر آگئے۔

واضح رہے کہ حضرت جابر ؓ کا گھر مدینہ طیبہ سے تین میل کے فاصلے پر عوالی مدینہ میں تھا۔
وہاں ان کے اہل وعیال رہتے تھے جن کاتعلق بنو سلمہ سے تھا۔
حضرت جابر ؓ آپ سے پہلے وہاں پہنچے، بعد ازاں دوسری صبح مسجد نبوی میں آئے اور اونٹ رسول اللہ ﷺ کے حوالے کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2967   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.