الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
22. بَابُ الْمَعَاصِي مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ:
22. باب: گناہ جاہلیت کے کام ہیں۔
(22) Chapter. Sins are from ignorance and a sinner is not a disbeliever unless he worships others along with Allah.
حدیث نمبر: Q30
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ولا يكفر صاحبها بارتكابها إلا بالشرك لقول النبي صلى الله عليه وسلم: إنك امرؤ فيك جاهلية، وقول الله تعالى: إن الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء سورة النساء آية 48. وإن طائفتان من المؤمنين اقتتلوا فاصلحوا بينهما سورة الحجرات - آية 9وَلاَ يُكَفَّرُ صَاحِبُهَا بِارْتِكَابِهَا إِلَّا بِالشِّرْكِ لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ امْرُؤٌ فِيكَ جَاهِلِيَّةٌ، وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ سورة النساء آية 48. وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا سورة الحجرات - آية 9
‏‏‏‏ اور گناہ کرنے والا گناہ سے کافر نہیں ہوتا۔ ہاں اگر شرک کرے تو کافر ہو جائے گا کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک شخص سے) فرمایا تھا تو ایسا آدمی ہے جس میں جاہلیت کی بو آتی ہے۔ (اس برائی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کافر نہیں کہا) اور اللہ نے سورۃ نساء میں فرمایا ہے بیشک اللہ شرک کو نہیں بخشے گا اور اس کے علاوہ جس گناہ کو چاہے وہ بخش دے۔ (سورۃ الحجرات میں فرمایا) اور اگر ایمانداروں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو (اس آیت میں اللہ نے اس گناہ کبیرہ قتل و غارت کے باوجود ان لڑنے والوں کو مومن ہی کہا ہے)۔


Aur gunaah karne waala gunaah se kaafir nahi hota. Haan agar shirk kare to kaafir ho jaayega kiunki Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ne Abu Zar se farmaaya tha tu aisa aadmi hai jis mein jaahiliyat ki bu aati hai. (Us buraayi ke bawjood Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne use kaafir nahi kaha) aur Allah ne Surah Nisa mein farmaaya hai be-shak Allah shirk ko nahi bakhshega aur us ke alawah jis gunaah ko chaahe woh bakhsh de. (Surah Al-Hujuraat mein farmaaya) aur agar imaandaaron ke do giroh aapas mein lad paden to un mein sulah kara do (Is Aayat mein Allah ne us gunaah-e-kabirah qatl-o-ghaarat ke bawjood un ladne waalon ko momin hi kaha hai).

حدیث نمبر: 30
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب ويونس، عن الحسن، عن الاحنف بن قيس، قال: ذهبت لانصر هذا الرجل فلقيني ابو بكرة، فقال: اين تريد؟ قلت: انصر هذا الرجل، قال: ارجع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا التقى المسلمان بسيفيهما، فالقاتل والمقتول في النار، فقلت: يا رسول الله، هذا القاتل، فما بال المقتول؟ قال: إنه كان حريصا على قتل صاحبه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ وَيُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ، قَالَ: ارْجِعْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ".
ہم سے بیان کیا عبدالرحمٰن بن مبارک نے، کہا ہم سے بیان کیا حماد بن زید نے، کہا ہم سے بیان کیا ایوب اور یونس نے، انہوں نے حسن سے، انہوں نے احنف بن قیس سے، کہا کہ میں اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص (علی رضی اللہ عنہ) کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ (موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کر دیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا)۔


Hum se bayan kiya Abdur Rahman bin Mubarak ne, kaha hum se bayan kiya Hammad bin Zaid ne, kaha hum se bayan kiya Ayyub aur Younus ne, unhon ne Hasan se, unhon ne Ahnaf bin Qais se, kaha ke main us shakhs (Ali Radhiallahu Anhu) ki madad karne ko chala. Raaste mein mujh ko Abu Bakarah mile. Poocha kahaan jaate ho? Main ne kaha, us shakhs (Ali Radhiallahu Anhu) ki madad karne ko jaata hun. Abu Bakarah ne kaha apne ghar ko laut jaao. Main ne Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se suna hai Aap Sallallahu Alaihi Wasallam farmaate the jab do musalmaan apni apni talwaaren le kar bhid jayein to qaatil aur maqtool dono dozakhi hain. Main ne arz kiya ya RasoolAllah! Qaatil to khair (zaroor dozakhi hona chaahiye) maqtool kiun? Farmaaya “Woh bhi apne saathi ko maar daalne ki hirs rakhta tha.” (Mauqa paata to woh use zaroor qatl kar deta dil ke azm-e-sameem par woh dozakhi huwa).

Narrated Al-Ma'rur: At Ar-Rabadha I met Abu Dhar who was wearing a cloak, and his slave, too, was wearing a similar one. I asked about the reason for it. He replied, "I abused a person by calling his mother with bad names." The Prophet said to me, 'O Abu Dhar! Did you abuse him by calling his mother with bad names You still have some characteristics of ignorance. Your slaves are your brothers and Allah has put them under your command. So whoever has a brother under his command should feed him of what he eats and dress him of what he wears. Do not ask them (slaves) to do things beyond their capacity (power) and if you do so, then help them.' "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 30


   صحيح البخاري7083نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فكلاهما من أهل النار قيل فهذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   صحيح البخاري30نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار فقلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   صحيح البخاري6875نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   صحيح مسلم7253نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار
   صحيح مسلم7252نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال فقلت أو قيل يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه قد أراد قتل صاحبه
   صحيح مسلم7255نفيع بن الحارثالمسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا
   سنن أبي داود4268نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4128نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار
   سنن النسائى الصغرى4127نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار قالوا يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4126نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار
   سنن النسائى الصغرى4125نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما كل واحد منهما يريد قتل صاحبه فهما في النار قيل له يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4121نفيع بن الحارثالمسلم على أخيه المسلم بالسلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتله خرا جميعا فيها
   سنن ابن ماجه3965نفيع بن الحارثالمسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 30  
´حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 30]

تشریح:
اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تو وہ لوٹ گئے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دو مسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت «فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى» [الحجرات: 9] سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انہوں نے ابوبکرہ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3965  
´جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3965]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہنم کے کنارے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے ان دونوں کے جہنمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ان کے لیے جہنم سے بچنے کا موقع باقی ہوتا ہے کہ لڑائی سے باز آجائیں۔

(2)
مومن کا قتل جہنم میں پہنچانے والا عمل ہے البتہ توبہ یا قصاص سے یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3965   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4268  
´فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے۔`
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے (راستہ میں) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4268]
فوائد ومسائل:
1) جب معاملہ کوئی واضح اور صریح نہ ہو اور دونوں جانب حق کا ایک پہلو موجود ہو تو ایسی صورت می الگ تھلگ رہنا مفید تر ہو تا ہے۔

2) اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
جب دو شخص برسرِ پیکار ہوں معاملے اور نیتوں میں واضح فرق نہ ہو تو مقتول بھی قاتل کی طرح کہا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایک کا داؤ چل گیا اور دوسرا گھائل ہو گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4268   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:30  
30. احنف بن قیس کا بیان ہے کہ میں اس شخص (حضرت علی ؓ) کی مدد کے لیے چلا۔ راستے میں مجھے حضرت ابوبکرہ ؓ ملے۔ انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: میرا ارادہ اس شخص کی مدد کرنے کا ہے۔ انہوں نے فرمایا: واپس ہو جاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر آپس میں لڑ پڑیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (اس کا جہنمی ہونا سمجھ میں آتا ہے) لیکن مقتول کا کیا جرم ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: اس کی خواہش بھی دوسرے ساتھی کو قتل کرنے کی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:30]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے بھی خوارج کی تردید ہوتی ہے کہ عمل قتال کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسلمان کہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں بایں حالت اسلام سے خارج نہیں ہوئے۔
حدیث کےآخری حصے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دلی ارادہ جب مصمم ہو جائے تو اس پر بھی مؤاخذہ ہو گا جبکہ دوسری روایات میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے دلی خیالات کو معاف کردیا ہے جب تک اس کے مطابق عمل نہ کریں۔
ان دونوں باتوں میں تضاد نہیں کیونکہ ایسے خیالات پر مؤاخذہ نہیں ہوگا جو پختہ نہ ہوں، یعنی آئیں اور گزر جائیں، البتہ مصمم ارادے اور پختہ عزم پر ضرور مؤاخذہ ہوگا اگرچہ اس کے مطابق عمل نہ کیا جا سکے۔
(شرح الکرماني: 444/1)

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا اس بنا پر خود بھی جنگ جمل میں شریک نہ ہوئے اور حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی شرکت سے روک دیا حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان جب لڑنے کے لیے نکل آئیں اور جنگ حق کی بنا پر نہ ہو بلکہ ہوس ملک گیری یا عصبیت وغیرہ اس کی محرک ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں اور اگرمنشا صحیح اور لڑنے والے حق کی حمایت میں جارہے ہوں اور ہر مسلمان اپنی پوری احتیاط اور تحقیق کے ساتھ خود کو حق پر سمجھتے ہوئے اس میں شریک ہو رہا ہو تو دونوں جنتی ہیں کیونکہ حق پر لڑنے کی قرآن نے خود اجازت دی ہے۔
(الحجرات: 49/9)
یہی وجہ ہے کہ حضرت احنف بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تو حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کہنے پر واپس ہو گئے لیکن جب غور وفکر کیا تو اپنی رائے سے رجوع کر کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساتھ دیا البتہ حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نصیحت اخلاص واحتیاط کے ساتھ لڑائی کی شدت کم کرنے کی کوشش پر مبنی تھی۔
(فتح الباري: 1؍ 117)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضرور مدنظر رکھنا چاہیے۔

جنگ جمل کی تفصیلات آئندہ بیان ہوں گی البتہ عنوان کی مناسبت سے اس مقام پر اتنا بیان کرنا ضروری ہے کہ جو لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حق پر سمجھتے ہوئے اس جنگ میں شریک ہوئے وہ خواہ قاتل ہوں یا مقتول وہ حدیث میں مذکوروعید سے خارج ہیں اور جن لوگوں کا مقصد محض فساد برپاکرنا تھا۔
وہ قاتل ہوں یا مقتول ازروئے حدیث جہنمی ہیں۔
اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف جو لوگ حق کی حمایت کے لیے کھڑے ہوئے وہ (بِإِذْنِ اللَّهِ)
جنت میں جائیں گے لیکن جن لوگوں کا مقصد حصول اقتدار عہدہ طلبی عصبیت یا اور کوئی دنیاوی غرض تھی ان کے متعلق حدیث نبوی ہے کہ قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں عصبیت کا مفہوم یہ ہے کہ حالات کی تحقیق کیے بغیر صرف یہ سمجھ کر کسی کی مدد کی جائے کہ یہ اپنا آدمی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 30   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.