الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
2. بَابُ وُجُوبِ الصَّلاَةِ فِي الثِّيَابِ:
2. باب: اس بیان میں کہ کپڑے پہن کر نماز پڑھنا واجب ہے۔
(2) Chapter. It is obligatory to wear clothes while offering As-Salat (the prayers).
حدیث نمبر: Q351
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ويذكر عن سلمة بن الاكوع، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: يزره ولو بشوكة في إسناده نظر، ومن صلى في الثوب الذي يجامع فيه ما لم ير اذى، وامر النبي صلى الله عليه وسلم ان لا يطوف بالبيت عريان.وَيُذْكَرُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَزُرُّهُ وَلَوْ بِشَوْكَةٍ فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ، وَمَنْ صَلَّى فِي الثَّوْبِ الَّذِي يُجَامِعُ فِيهِ مَا لَمْ يَرَ أَذًى، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَطُوفَ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ.
‏‏‏‏ (سورۃ الاعراف میں) اللہ عزوجل کا حکم ہے «خذوا زينتكم عند كل مسجد‏» کہ تم کپڑے پہنا کرو ہر نماز کے وقت اور جو ایک ہی کپڑا بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھے (اس نے بھی فرض ادا کر لیا) اور سلمہ بن اکوع سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (اگر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھے تو) اپنے کپڑے کو ٹانک لے اگرچہ کانٹے ہی سے ٹانکنا پڑے، اس کی سند میں گفتگو ہے اور وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے (تو نماز درست ہے) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔

حدیث نمبر: 351
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، قال: حدثنا يزيد بن إبراهيم، عن محمد، عن ام عطية، قالت:" امرنا ان نخرج الحيض يوم العيدين وذوات الخدور، فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم ويعتزل الحيض عن مصلاهن، قالت امراة: يا رسول الله، إحدانا ليس لها جلباب؟ قال: لتلبسها صاحبتها من جلبابها"، وقال عبد الله بن رجاء: حدثنا عمران، حدثنا محمد بن سيرين، حدثتنا ام عطية، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ:" أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ، فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلَّاهُنَّ، قَالَتِ امْرَأَةٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ؟ قَالَ: لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا"، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ: حَدَّثَنَا عِمْرَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ، حَدَّثَتْنَا أُمُّ عَطِيَّةَ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ محمد سے، وہ ام عطیہ سے، انہوں نے فرمایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تاکہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس (پردہ کرنے کے لیے) چادر نہیں ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ہم سے عمران قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے، کہا ہم سے ام عطیہ نے، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہی حدیث بیان کی۔

Narrated Um `Atiya: We were ordered to bring out our menstruating women and veiled women in the religious gatherings and invocation of Muslims on the two `Id festivals. These menstruating women were to keep away from their Musalla. A woman asked, "O Allah's Apostle ' What about one who does not have a veil?" He said, "Let her share the veil of her companion."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 347


   صحيح البخاري974نسيبة بنت كعبنخرج العواتق ذوات الخدور
   صحيح البخاري324نسيبة بنت كعبيخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين يعتزل الحيض المصلى
   صحيح البخاري980نسيبة بنت كعبلتلبسها صاحبتها من جلبابها فليشهدن الخير ودعوة المؤمنين وليخرج العواتق ذوات الخدور والحيض وليعتزل الحيض المصلى ليشهدن الخير ودعوة المؤمنين قالت فقلت لها الحيض قالت نعم أليس الحائض تشهد عرفات وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح البخاري351نسيبة بنت كعبنخرج الحيض يوم العيدين ذوات الخدور يشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزل الحيض عن مصلاهن إحدانا ليس لها جلباب قال لتلبسها صاحبتها من جلبابها
   صحيح البخاري981نسيبة بنت كعبنخرج فنخرج الحيض العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم يعتزلن مصلاهم
   صحيح البخاري971نسيبة بنت كعبنخرج يوم العيد حتى نخرج البكر من خدرها نخرج الحيض فيكن خلف الناس فيكبرن بتكبيرهم ويدعون بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته
   صحيح البخاري1652نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور أو العواتق وذوات الخدور والحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين يعتزل الحيض المصلى فقلت ألحائض فقالت أوليس تشهد عرفة وتشهد كذا وتشهد كذا
   صحيح مسلم2054نسيبة بنت كعبنخرج في العيدين العواتق ذوات الخدور أمر الحيض أن يعتزلن مصلى المسلمين
   صحيح مسلم2055نسيبة بنت كعبنؤمر بالخروج في العيدين والمخبأة والبكر
   صحيح مسلم2056نسيبة بنت كعبنخرجهن في الفطر والأضحى العواتق الحيض ذوات الخدور الحيض فيعتزلن الصلاة يشهدن الخير ودعوة المسلمين إحدانا لا يكون لها جلباب قال لتلبسها أختها من جلبابها
   جامع الترمذي539نسيبة بنت كعبلتعرها أختها من جلابيبها
   سنن أبي داود1136نسيبة بنت كعبنخرج ذوات الخدور يوم العيد الحيض قال ليشهدن الخير ودعوة المسلمين لم يكن لإحداهن ثوب كيف تصنع قال تلبسها صاحبتها طائفة من ثوبها
   سنن النسائى الصغرى390نسيبة بنت كعبلتخرج العواتق ذوات الخدور الحيض فيشهدن الخير ودعوة المسلمين تعتزل الحيض المصلى
   سنن النسائى الصغرى1560نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور فيشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض مصلى الناس
   سنن النسائى الصغرى1559نسيبة بنت كعبليخرج العواتق ذوات الخدور الحيض ويشهدن العيد ودعوة المسلمين ليعتزل الحيض المصلى
   سنن ابن ماجه1307نسيبة بنت كعبنخرجهن في يوم الفطر والنحر
   سنن ابن ماجه1308نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق ذوات الخدور ليشهدن العيد ودعوة المسلمين ليجتنبن الحيض مصلى الناس
   بلوغ المرام389نسيبة بنت كعبنخرج العواتق والحيض في العيدين
   مسندالحميدي365نسيبة بنت كعبلتلبسها أختها من جلبابها، وتشهد العيد، ودعوة المسلمين
   مسندالحميدي366نسيبة بنت كعبأخرجوا العواتق، وذوات الخدور فليشهدن العيد، ودعوة المسلمين، وليعتزل الحيض مصلى المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 390  
´عیدین اور مسلمانوں کی دعا میں حائضہ عورتوں کی حاضری کا بیان۔`
حفصہ (حفصہ بنت سیرین) کہتی ہیں کہ ام عطیہ جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو کہتیں: میرے والد آپ پر قربان ہوں، تو میں نے پوچھا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ایسا فرماتے سنا ہے، انہوں نے کہا: ہاں، میرے والد آپ پر قربان ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بالغ لڑکیاں، پردے والیاں، اور حائضہ عورتیں نکلیں، اور خطبہ اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں، البتہ حائضہ عورتیں نماز پڑھنے کی جگہ سے الگ رہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 390]
390۔ اردو حاشیہ:
«بیبا» یا «بأبا» دراصل «بأبي» ہے جس کا ترجمہ متن میں لکھ دیا گیا ہے۔ یہ ان محترمہ کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہار عقیدت و محبت ہے۔ عقیدے کے لحاظ سے بھی یہ بات ہمارے ایمان کا جزو ہے کہ ہماری ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو جائے، چاہے جان ہو یا مال، والدین ہوں یا اولاد۔
ایسے ایسے فرماتے سنا ہے؟ یعنی عورتوں کے عید میں حاضرہونے کے بارے میں۔
➌ عید اہل اسلام کی خوشی، شان و شوکت، شکرانے اور عبادت کا عظیم دن ہے، اس لیے ہر مرد اور عورت کا جانا ضروری ہے۔ عورتیں پردے کے ساتھ جائیں تاکہ شان و شوکت کے ساتھ نیکی کے جذبات کا اظہار بھی ہو۔ حیض والی عورتوں کے لیے عبادت (نمازکی ادائیگی)تو منع ہے مگر ان کے جانے سے باقی مقاصد پورے ہوں گے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 390   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1136  
´عید میں عورتوں کے جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم پردہ نشین عورتوں کو عید کے دن (عید گاہ) لے جائیں، آپ سے پوچھا گیا: حائضہ عورتوں کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں چاہیئے کہ وہ بھی حاضر رہیں، ایک خاتون نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی کے پاس کپڑا نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی سہیلی اپنے کپڑے کا کچھ حصہ اسے اڑھا لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1136]
1136۔ اردو حاشیہ:
➊ عید کے دنوں میں عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مستحب ہے، مگر پردے میں خوشبو اور آواز دار زیور کے بغیر۔
➋ دعوۃ المسلمین میں اجتماعی دعا کا ثبوت ہے، مگر مروجہ طریقے سے نہیں۔
➌ دعا کے لئے طہارت ضروری نہیں اس کے بغیر بھی دعا کرنا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1136   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1307  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم عورتوں کو عیدین میں لے جائیں، ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ بتائیے اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو (کیا کرے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی ساتھ والی اسے اپنی چادر اڑھا دے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1307]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
 
(1)
  جس طرح فرض نمازوں میں اور جمعے میں عورتوں کا مسجد میں آنا جائز ہے۔
اسی طرح عیدین میں بھی ان کی حاضری ضروری ہے۔

(2)
اس میں ایک حکمت تو یہ ہے کہ خطبے میں دین کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں۔
اوردین سیکھنا عورتوں پر بھی فرض ہے۔
دوسرے عید مسلمانوں کی اجتماعی شان وشوکت کے اظہا کا دن ہے۔
عورتوں اور بچوں کی شرکت سے یہ مقصد زیادہ بہتر طریقے پر پورا ہوتا ہے۔
تیسرے یہ کہ عید اجتماعی خوشی کا موقع ہے۔
جس میں مرد اورعورتیں سبھی اہل ایمان شامل ہیں۔
لہٰذا عورتوں کو اس خوشی میں شرکت سے محروم رکھنے کا کوئی جواز نہیں
(2)
اگر کسی خاتون کو کوئی ایسا عذر لاحق ہو۔
جس کی وجہ سے وہ عید کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکتی ہوتو اس کا یہ عذر اگردور ہوسکتا ہوتو ضرور کیا جائے۔
اسے نماز عید پڑھنے اور خطبہ سننے سے محروم نہ رکھا جائے۔

(4)
اگر کسی کے پاس چادر نہ ہوتو دوسری خاتون اسے اپنی چادر میں شریک کرے۔
دو عورتوں کا ایک چادر اوڑھ کرچلنا ایک مشکل کام ہے۔
لیکن اس کا حکم دیا گیا ہے اس سے عورتوں کے عید میں شریک ہونے کی انتہائی اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

(5)
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دوسری خاتون کے پاس دو چادریں ہوں۔
تو وہ ایک چادر اس عورت کودے دے۔
جس کے پاس چادر نہیں صحیح ابن خزیمہ کی روایت کے الفاظ سے یہ مفہوم ظاہر ہوتا ہے۔ (صحیح ابن خزیمة: 362/2، حدیث: 1467)

(6)
پردہ اس قدر اہم ہے کہ چادر نہ ہونے کو بے پردہ باہر جانے کےلئے عذر تسلیم نہیں کیا گیا۔
حتیٰ کہ اگر دوسری عورتو ں سے عاریتاً بھی چادر نہ ملے تو وہ عورتیں ایک چادر اوڑھ کر چلیں بغیر چادر کے نہ جایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1307   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 389  
´نماز عیدین کا بیان`
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم جوان لڑکیوں اور حائضہ عورتوں کو بھی عیدین میں ساتھ لے کر نکلیں تاکہ وہ بھی مسلمانوں کے امور خیر اور دعاؤں میں شریک ہوں۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ کے کنارے پر رہیں۔ (نماز میں شامل نہ ہوں صرف دعا میں شرکت کریں) (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 389»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العيدين، باب خروج النساء والحيض إلي المصلي، حديث:974، ومسلم، صلاة العيدين، باب ذكر إباحة خروج النساء في العيدين إلي المصلي، حديث:890.»
تشریح:
1. خواتین کا نماز عید کے لیے جانا اس حدیث کی رو سے ثابت ہے۔
2.ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی ازواج مطہرات اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جاتے تھے۔
(مسند أحمد: ۱ / ۲۳۱‘ و سنن ابن ماجہ‘ إقامۃ الصلوات والسنۃ فیھا‘ حدیث:۱۳۰۹) حضرت ابوبکر‘ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہم خواتین کا نماز عید میں حاضر ہونا واجب سمجھتے تھے۔
3.احناف نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور اسے ابتدائے اسلام کا واقعہ بتایا ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور کثرت تعداد اہل کفر و شرک کے لیے باعث اذیت ہو اور مسلمانوں کی دھاک بیٹھے‘ مگر یہ تاویل جس پر علامہ طحاوی نے بڑا زور قلم صرف کیا ہے‘ قابل لحاظ معلوم نہیں ہوتی کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گواہی دیتے ہیں کہ ازواج مطہرات وغیرہ عید پڑھنے جاتی تھیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کم عمر تھے‘ ظاہر ہے کہ ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہے جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی‘ اس لیے عورتوں کو عید گاہ میں بہر نوع حاضر ہونا چاہیے۔
اور جو لوگ باطل تاویلات کرتے ہیں انھیں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 389   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 539  
´عیدین میں عورتوں کے عیدگاہ جانے کا بیان۔`
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں کنواری لڑکیوں، دوشیزاؤں، پردہ نشیں اور حائضہ عورتوں کو بھی لے جاتے تھے۔ البتہ حائضہ عورتیں عید گاہ سے دور رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا: اس کی بہن کو چاہیئے کہ اسے اپنی چادروں میں سے کوئی چادر عاریۃً دیدے ۱؎۔ [سنن ترمذي/أبواب العيدين/حدیث: 539]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ عورتوں کو نماز عید کے لیے عید گاہ لے جانا مسنون ہے،
جو لوگ اس کی کراہت کے قائل ہیں وہ کہتے ہیں:
یہ ابتدائے اسلام کا واقعہ ہے تاکہ اہل اسلام کی تعداد زیادہ معلوم ہو اور لوگوں پر ان کی دھاک بیٹھ جائے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس طرح کی روایت آتی ہے اور وہ کمسن صحابہ میں سے ہیں،
ظاہر ہے ان کی یہ گواہی فتح مکہ کے بعد کی ہو گی جس وقت اظہار قوت کی ضرورت ہی نہیں تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 539   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 351  
351. حضرت ام عطیہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے موقع پر حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ جو عورتیں ایام والی ہوں وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو چادر میسر نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا؛ اس کے ساتھ جانے والی اس کو اپنی چادر میں لے لے۔ عبداللہ بن رجاء نے کہا: ہمیں عمران نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہم سے محمد بن سیرین نے یہ حدیث بیان کی اور محمد بن سیرین نے کہا: ہم سے ام عطیہ‬ ؓ ن‬ے یہ حدیث ذکر کی، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:351]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب حدیث کے الفاظ:
لتلبسها صاحبتها من جلبابها (جس عورت کے پاس کپڑا نہ ہو اس کی ساتھ والی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر ہی کا کوئی حصہ اسے بھی اڈھا دے)
سے نکلتا ہے۔
مقصد یہ کہ مساجد میں جاتے وقت، عیدگاہ میں حاضری کے وقت، نماز پڑھتے وقت اتنا کپڑا ضرور ہونا چاہیے جس سے مرد وعورت اپنی اپنی حیثیت میں ستر پوشی کرسکیں۔
اس حدیث سے بھی عورتوں کا عیدگاہ جانا ثابت ہوا۔
امام بخاری ؓ نے سند میں عبداللہ بن رجاء کو لاکر اس شخص کا رد کیا جس نے کہا کہ محمد بن سیرین ؒ نے یہ حدیث ام عطیہ ؓ سے نہیں سنی، بلکہ اپنی بہن حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے۔
اسے طبرانی نے معجم کبیر میں وصل کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 351   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:351  
351. حضرت ام عطیہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم عیدین کے موقع پر حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو باہر لائیں تاکہ وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعاؤں میں شریک ہوں، البتہ جو عورتیں ایام والی ہوں وہ نماز کی جگہ سے الگ رہیں۔ ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کسی کو چادر میسر نہیں ہوتی؟ آپ نے فرمایا؛ اس کے ساتھ جانے والی اس کو اپنی چادر میں لے لے۔ عبداللہ بن رجاء نے کہا: ہمیں عمران نے یہ حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہم سے محمد بن سیرین نے یہ حدیث بیان کی اور محمد بن سیرین نے کہا: ہم سے ام عطیہ‬ ؓ ن‬ے یہ حدیث ذکر کی، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ سے یہ حدیث سنی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:351]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کو عید گاہ میں جانے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے تاکید فرمائی ہے حتی کہ جو عورتیں اپنی طبعی مجبوری کی وجہ سے نماز پڑھنے سے معذور ہیں وہ بھی عید گاہ میں حاضر ہوں، لیکن پردے کااہتمام ضروری ہے۔
اگرکسی کے پاس چادر نہیں تو وہ اپنی کسی بہن سے مستعار لے لے یابڑی چادر میں کسی دوسری عورت کے ساتھ چلی جائے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ عید گاہ میں جاناضروری بھی ہے لیکن بے پردہ جانے کی بھی اجازت نہیں۔
جب راستے میں جاتے ہوئے اس قدر اہتمام ہے تو نماز کپڑے کے بغیر کس طرح درست ہوگی، یعنی جب نماز میں حاضری کے لیے کپڑا ضروری ہے تونماز میں بدرجہ اولیٰ اس کی ضرورت ہوگی۔
وھوالمقصود۔
امام بخاری ؒ کااستدلال اس طور پر ہوسکتاہے کہ جب حائضہ کے لیے کپڑے اور چادر کا اس قدر التزام ہے، حالانکہ اس نے نماز نہیں پڑھنی ہے توطاہرہ جس نے نماز پڑھنی ہے اس کے لیے کپڑے کا اہتمام بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔
استدلال اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ شریعت کی نظر میں سوال کرنا اچھی عادت نہیں، لیکن نماز پڑھنے کے لیے کپڑوں کے سوال کو جائز قراردیا ہے۔
اس سے بھی معلوم ہوا کہ نماز کے لیے کپڑے کا ہونا ضروری ہے۔
واللہ أعلم۔

امام بخاری ؒ نے روایت کے آخرمیں ایک تعلیق بیان کی ہے۔
اس کا فائدہ یہ ہے کہ اس میں محدث ابن سیرین ؒ نے صراحت کی ہے کہ انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو سناہے۔
امام بخای ؓ نے اس تعلیق سے ان حضرات کی تردید کی ہے جن کے خیال کے مطابق محدث ابن سیرین ؒ نے حضرت ام عطیہ سے سماع نہیں کیا، بلکہ اس کی بہن حضرت حفصہ ؓ سے حدیث سنی ہے۔
امام بخاری کی پیش کردہ پہلی سند میں محمد بن سیرین ؒ نے اس روایت کو"عن" کے صیغے سے بیان کیاتھا۔
شبہ تھا کہ شاید براہ راست انھوں نے حضرت ام عطیہ ؓ سے اس حدیث کو نہیں سنا۔
اس تعلیق سے اس شبے کو دورفرمادیا۔
(فتح الباري: 605/1)

حفصہ بنت سیرین ؒ کہتی ہیں کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتی تھیں۔
مجھے کسی نے حضرت ام عطیہ ؓ کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ عورتوں کو عیدین کے موقع پر عید گاہ جانے کی تاکید کرتے تھے۔
جب ہماری ملاقات ام عطیہؓ سے ہوئی تو میں نے براہ راست ان سے سوال کیا تو انھوں نے یہ حدیث بیان کی۔
میں نے سوال کیا:
آیا حائضہ عورت بھی عید گاہ جائے؟ انھوں نے فرمایا:
وہ حج کے موقع پر عرفات اوردیگر مقامات مقدسہ میں جاتی ہیں تو عید گاہ جانے میں کیوں ممانعت ہو؟ (صحیح البخاری، الحیض، حدیث: 324)

امام بخاریؒ آئندہ 15 ابواب میں سترعورۃ کا مسئلہ بیان فرمائیں گے جن میں مختلف احوال وظروف کے اعتبار سے نماز میں کپڑوں کے استعمال کے متعلق وضاحت کی جائے گی۔
کپڑے کم ہوں یا تنگ ہوں تو کیا کیاجائے؟ مرد اورعورت کے لیے الگ الگ احکام کیاہیں؟ اس باب میں جن احادیث کی طرف امام بخاری ؒ نے اشارہ کیا ہے، وہ ان کی شرائط صحت کے مطابق نہ تھیں، اس لیے انھیں موصولاً نہیں لائے، صرف حدیث ام عطیہ ؓ کو بطور استیناس اس مقام پر بیان فرمایا ہے۔
اس حدیث میں ایام والی عورتوں کو کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کی جماعت میں شریک ہوں۔
اس سے مراد جماعت نماز میں شرکت کرنا نہیں، بلکہ صرف عید گاہ میں حاضر ہوناہے۔
اگرچہ شہود کا استعمال شرکت جماعت اور اقتدار کے لیے بھی حدیث میں استعمال ہواہے، تاہم اس مقام پر یہ معنی نہیں ہیں، کیونکہ ایام والی عورتیں نماز پڑھنے سے معذور ہیں۔

ایک عورت کا دوسری سے چادرمستعار لینا یا ایک بڑی چادر میں دوعورتوں کا اکٹھے جانابعض حضرات کے نزدیک یہ اہتمام صرف راستے میں جاتے وقت راہ گیروں سے پردے کی وجہ سے ہے، اس کاسترعورۃ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
لیکن تعجب کی بات ہے کہ انسان سے شرم اس درجہ ضروری کہ عید گاہ میں بے پردہ سے جانا ممنوع ٹھہرا، لیکن دوران نماز میں اللہ کے حضور کھڑے ہوکر سترعورۃ کا اہتمام نہ کرنا، یہ کوئی عقل مندی نہیں ہے، بلکہ لوگوں کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ سے حیا زیادہ کرنی چاہیے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 351   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.