الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
25. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
(25) Chapter. The signs of Prophethood in Islam.
حدیث نمبر: 3615
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا احمد بن يزيد بن إبراهيم ابو الحسن الحراني، حدثنا زهير بن معاوية، حدثنا ابو إسحاق سمعت البراء بن عازب، يقول: جاء ابو بكر رضي الله عنه إلى ابي في منزله فاشترى منه رحلا، فقال" لعازب ابعث ابنك يحمله معي، قال: فحملته معه وخرج ابي ينتقد ثمنه، فقال له ابي: يا ابا بكر حدثني كيف صنعتما حين سريت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: نعم اسرينا ليلتنا ومن الغد حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق لا يمر فيه احد فرفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تات عليه الشمس فنزلنا عنده وسويت للنبي صلى الله عليه وسلم مكانا بيدي ينام عليه وبسطت فيه فروة، وقلت: نم يا رسول الله وانا انفض لك ما حولك فنام وخرجت انفض ما حوله فإذا انا براع مقبل بغنمه إلى الصخرة يريد منها مثل الذي اردنا، فقلت له: لمن انت يا غلام، فقال: لرجل من اهل المدينة او مكة، قلت: افي غنمك لبن، قال: نعم، قلت: افتحلب، قال: نعم، فاخذ شاة، فقلت: انفض الضرع من التراب والشعر والقذى، قال: فرايت البراء يضرب إحدى يديه على الاخرى ينفض فحلب في قعب كثبة من لبن ومعي إداوة حملتها للنبي صلى الله عليه وسلم يرتوي منها يشرب ويتوضا فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فكرهت ان اوقظه فوافقته حين استيقظ فصببت من الماء على اللبن حتى برد اسفله، فقلت: اشرب يا رسول الله، قال: فشرب حتى رضيت، ثم قال: الم يان للرحيل، قلت: بلى، قال: فارتحلنا بعد ما مالت الشمس واتبعنا سراقة بن مالك، فقلت: اتينا يا رسول الله، فقال: لا تحزن إن الله معنا فدعا عليه النبي صلى الله عليه وسلم فارتطمت به فرسه إلى بطنها ارى في جلد من الارض شك زهير، فقال: إني اراكما قد دعوتما علي فادعوا لي فالله لكما ان ارد عنكما الطلب فدعا له النبي صلى الله عليه وسلم فنجا فجعل لا يلقى احدا إلا، قال: كفيتكم ما هنا فلا يلقى احدا إلا رده، قال: ووفى لنا".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ أَبُو الْحَسَنِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ، يَقُولُ: جَاءَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى أَبِي فِي مَنْزِلِهِ فَاشْتَرَى مِنْهُ رَحْلًا، فَقَالَ" لِعَازِبٍ ابْعَثْ ابْنَكَ يَحْمِلْهُ مَعِي، قَالَ: فَحَمَلْتُهُ مَعَهُ وَخَرَجَ أَبِي يَنْتَقِدُ ثَمَنَهُ، فَقَالَ لَهُ أَبِي: يَا أَبَا بَكْرٍ حَدِّثْنِي كَيْفَ صَنَعْتُمَا حِينَ سَرَيْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: نَعَمْ أَسْرَيْنَا لَيْلَتَنَا وَمِنَ الْغَدِ حَتَّى قَامَ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ وَخَلَا الطَّرِيقُ لَا يَمُرُّ فِيهِ أَحَدٌ فَرُفِعَتْ لَنَا صَخْرَةٌ طَوِيلَةٌ لَهَا ظِلٌّ لَمْ تَأْتِ عَلَيْهِ الشَّمْسُ فَنَزَلْنَا عِنْدَهُ وَسَوَّيْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَانًا بِيَدِي يَنَامُ عَلَيْهِ وَبَسَطْتُ فِيهِ فَرْوَةً، وَقُلْتُ: نَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَأَنَا أَنْفُضُ لَكَ مَا حَوْلَكَ فَنَامَ وَخَرَجْتُ أَنْفُضُ مَا حَوْلَهُ فَإِذَا أَنَا بِرَاعٍ مُقْبِلٍ بِغَنَمِهِ إِلَى الصَّخْرَةِ يُرِيدُ مِنْهَا مِثْلَ الَّذِي أَرَدْنَا، فَقُلْتُ لَهُ: لِمَنْ أَنْتَ يَا غُلَامُ، فَقَالَ: لِرَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ أَوْ مَكَّةَ، قُلْتُ: أَفِي غَنَمِكَ لَبَنٌ، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: أَفَتَحْلُبُ، قَالَ: نَعَمْ، فَأَخَذَ شَاةً، فَقُلْتُ: انْفُضْ الضَّرْعَ مِنَ التُّرَابِ وَالشَّعَرِ وَالْقَذَى، قَالَ: فَرَأَيْتُ الْبَرَاءَ يَضْرِبُ إِحْدَى يَدَيْهِ عَلَى الْأُخْرَى يَنْفُضُ فَحَلَبَ فِي قَعْبٍ كُثْبَةً مِنْ لَبَنٍ وَمَعِي إِدَاوَةٌ حَمَلْتُهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْتَوِي مِنْهَا يَشْرَبُ وَيَتَوَضَّأُ فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَرِهْتُ أَنْ أُوقِظَهُ فَوَافَقْتُهُ حِينَ اسْتَيْقَظَ فَصَبَبْتُ مِنَ الْمَاءِ عَلَى اللَّبَنِ حَتَّى بَرَدَ أَسْفَلُهُ، فَقُلْتُ: اشْرَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَشَرِبَ حَتَّى رَضِيتُ، ثُمَّ قَالَ: أَلَمْ يَأْنِ لِلرَّحِيلِ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَارْتَحَلْنَا بَعْدَ مَا مَالَتِ الشَّمْسُ وَاتَّبَعَنَا سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ، فَقُلْتُ: أُتِينَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا فَدَعَا عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارْتَطَمَتْ بِهِ فَرَسُهُ إِلَى بَطْنِهَا أُرَى فِي جَلَدٍ مِنَ الْأَرْضِ شَكَّ زُهَيْرٌ، فَقَالَ: إِنِّي أُرَاكُمَا قَدْ دَعَوْتُمَا عَلَيَّ فَادْعُوَا لِي فَاللَّهُ لَكُمَا أَنْ أَرُدَّ عَنْكُمَا الطَّلَبَ فَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَجَا فَجَعَلَ لَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا، قَالَ: كَفَيْتُكُمْ مَا هُنَا فَلَا يَلْقَى أَحَدًا إِلَّا رَدَّهُ، قَالَ: وَوَفَى لَنَا".
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن یزید بن ابراہیم ابوالحسن حرانی نے، کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے ابواسحٰق نے بیان کیا اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک پالان خریدا۔ پھر انہوں نے میرے والد سے کہا کہ اپنے بیٹے کے ذریعہ اسے میرے ساتھ بھیج دو۔ براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا چنانچہ میں اس کجاوے کو اٹھا کر آپ کے ساتھ چلا اور میرے والد اس کی قیمت کے روپے پرکھوانے لگے۔ میرے والد نے ان سے پوچھا اے ابوبکر! مجھے وہ واقعہ سنائیے جب آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار ثور سے ہجرت کی تھی تو آپ دونوں نے وہ وقت کیسے گزارا تھا؟ اس پر انہوں نے بیان کیا کہ جی ہاں، رات بھر تو ہم چلتے رہے اور دوسرے دن صبح کو بھی لیکن جب دوپہر کا وقت ہوا اور راستہ بالکل سنسان پڑ گیا کہ کوئی بھی آدمی گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا تھا تو ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی، اس کے سائے میں دھوپ نہیں تھی۔ ہم وہاں اتر گئے اور میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جگہ اپنے ہاتھ سے ٹھیک کر دی اور ایک چادر وہاں بچھا دی۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ یہاں آرام فرمائیں میں نگرانی کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے اور میں چاروں طرف حالات دیکھنے کے لیے نکلا۔ اتفاق سے مجھے ایک چرواہا ملا۔ وہ بھی اپنی بکریوں کے ریوڑ کو اسی چٹان کے سائے میں لانا چاہتا تھا جس کے تلے میں نے وہاں پڑاؤ ڈالا تھا۔ وہی اس کا بھی ارادہ تھا، میں نے اس سے پوچھا کہ تو کس قبیلے سے ہے؟ اس نے بتایا کہ مدینہ یا (راوی نے کہا کہ) مکہ کے فلاں شخص سے، میں نے اس سے پوچھا کہ کیا تیری بکریوں سے دودھ مل سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ میں نے پوچھا کیا ہمارے لیے تو دودھ نکال سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں۔ چنانچہ وہ ایک بکری پکڑ کے لایا۔ میں نے اس سے کہا کہ پہلے تھن کو مٹی، بال اور دوسری گندگیوں سے صاف کر لے۔ ابواسحٰق راوی نے کہا کہ میں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے پر مار کر تھن کو جھاڑنے کی صورت بیان کی۔ اس نے لکڑی کے ایک پیالے میں دودھ نکالا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک برتن اپنے ساتھ رکھ لیا تھا۔ آپ اس سے پانی پیا کرتے تھے اور وضو بھی کر لیتے تھے۔ پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (آپ سو رہے تھے) میں آپ کو جگانا پسند نہیں کرتا تھا۔ لیکن بعد میں جب میں آیا تو آپ بیدار ہو چکے تھے۔ میں نے پہلے دودھ کے برتن پر پانی بہایا جب اس کے نیچے کا حصہ ٹھنڈا ہو گیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! دودھ پی لیجئے، انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا جس سے مجھے خوشی حاصل ہوئی۔ پھر آپ نے فرمایا کیا ابھی کوچ کرنے کا وقت نہیں آیا؟ میں نے عرض کیا کہ آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا: جب سورج ڈھل گیا تو ہم نے کوچ کیا۔ بعد میں سراقہ بن مالک ہمارا پیچھا کرتا ہوا یہیں پہنچا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اب تو یہ ہمارے قریب ہی پہنچ گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غم نہ کرو۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ آپ نے پھر اس کے لیے بددعا کی اور اس کا گھوڑا اسے لیے ہوئے پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ میرا خیال ہے کہ زمین بڑی سخت تھی۔ یہ شک (راوی حدیث) زہیر کو تھا۔ سراقہ نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگوں نے میرے لیے بددعا کی ہے۔ اگر اب آپ لوگ میرے لیے (اس مصیبت سے نجات کی) دعا کر دیں تو اللہ کی قسم میں آپ لوگوں کی تلاش میں آنے والے تمام لوگوں کو واپس لوٹا دوں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دعا کی تو وہ نجات پا گیا۔ پھر تو جو بھی اسے راستے میں ملتا اس سے وہ کہتا تھا کہ میں بہت تلاش کر چکا ہوں۔ قطعی طور پر وہ ادھر نہیں ہیں۔ اس طرح جو بھی ملتا اسے وہ واپس اپنے ساتھ لے جاتا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس نے ہمارے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کیا۔

Narrated Al-Bara' bin `Azib: Abu Bakr came to my father who was at home and purchased a saddle from him. He said to `Azib. "Tell your son to carry it with me." So I carried it with him and my father followed us so as to take the price (of the saddle). My father said, "O Abu Bakr! Tell me what happened to you on your night journey with Allah's Apostle (during Migration)." He said, "Yes, we travelled the whole night and also the next day till midday. when nobody could be seen on the way ( because of the severe heat) . Then there appeared a long rock having shade beneath it, and the sunshine had not come to it yet. So we dismounted there and I levelled a place and covered it with an animal hide or dry grass for the Prophet to sleep on (for a while). I then said, 'Sleep, O Allah's Apostle, and I will guard you.' So he slept and I went out to guard him. Suddenly I saw a shepherd coming with his sheep to that rock with the same intention we had when we came to it. I asked (him). 'To whom do you belong, O boy?' He replied, 'I belong to a man from Medina or Mecca.' I said, 'Do your sheep have milk?' He said, 'Yes.' I said, 'Will you milk for us?' He said, 'Yes.' He caught hold of a sheep and I asked him to clean its teat from dust, hairs and dirt. (The sub-narrator said that he saw Al-Bara' striking one of his hands with the other, demonstrating how the shepherd removed the dust.) The shepherd milked a little milk in a wooden container and I had a leather container which I carried for the Prophet to drink and perform the ablution from. I went to the Prophet, hating to wake him up, but when I reached there, the Prophet had already awakened; so I poured water over the middle part of the milk container, till the milk was cold. Then I said, 'Drink, O Allah's Apostle!' He drank till I was pleased. Then he asked, 'Has the time for our departure come?' I said, 'Yes.' So we departed after midday. Suraqa bin Malik followed us and I said, 'We have been discovered, O Allah's Apostle!' He said, Don't grieve for Allah is with us.' The Prophet invoked evil on him (i.e. Suraqa) and so the legs of his horse sank into the earth up to its belly. (The subnarrator, Zuhair is not sure whether Abu Bakr said, "(It sank) into solid earth.") Suraqa said, 'I see that you have invoked evil on me. Please invoke good on me, and by Allah, I will cause those who are seeking after you to return.' The Prophet invoked good on him and he was saved. Then, whenever he met somebody on the way, he would say, 'I have looked for him here in vain.' So he caused whomever he met to return. Thus Suraqa fulfilled his promise."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 812


   صحيح البخاري3908براء بن عازبتبعه سراقة بن مالك بن جعشم فدعا عليه النبي فساخت به فرسه قال ادع الله لي ولا أضرك فدعا له عطش رسول الله فمر براع قال أبو بكر فأخذت قدحا فحلبت فيه كثبة من لبن فأتيته فشرب حتى رضيت
   صحيح البخاري3615براء بن عازبأسرينا ليلتنا ومن الغد حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق لا يمر فيه أحد فرفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تأت عليه الشمس فنزلنا عنده وسويت للنبي مكانا بيدي ينام عليه وبسطت فيه فروة وقلت نم يا رسول الله وأنا أنفض لك ما حولك فنام وخرجت أنفض م
   صحيح البخاري2439براء بن عازبانطلقت فإذا أنا براعي غنم يسوق غنمه فقلت لمن أنت قال لرجل من قريش فسماه فعرفته فقلت هل في غنمك من لبن فقال نعم فقلت هل أنت حالب لي قال نعم فأمرته فاعتقل شاة من غنمه ثم أمرته أن ينفض ضرعها من الغبار ثم أمرته أن ينفض كفيه فقال هكذا ضرب إ
   صحيح البخاري3917براء بن عازبأخذ علينا بالرصد فخرجنا ليلا فأحثثنا ليلتنا ويومنا قام قائم الظهيرة ثم رفعت لنا صخرة فأتيناها ولها شيء من ظل فرشت لرسول الله فروة معي ثم اضطجع عليها النبي فانطلقت أنف
   صحيح البخاري3652براء بن عازباشترى أبو بكر من عازب رحلا بثلاثة عشر درهما فقال أبو بكر لعازب مر البراء فليحمل إلي رحلي فقال عازب لا حتى تحدثنا كيف صنعت أنت ورسول الله حين خرجتما من مكة والمشركون يطلبونكم قال ارتحلنا من مكة فأحيينا أو سرينا ليلتنا ويو
   صحيح مسلم7521براء بن عازبأسرينا ليلتنا كلها حتى قام قائم الظهيرة وخلا الطريق فلا يمر فيه أحد حتى رفعت لنا صخرة طويلة لها ظل لم تأت عليه الشمس بعد فنزلنا عندها فأتيت الصخرة فسويت بيدي مكانا ينام فيه النبي في ظلها ثم بسطت عليه فروة ثم قلت نم يا رسول الله وأنا أنف
   صحيح مسلم5239براء بن عازبأخذت قدحا فحلبت فيه لرسول الله كثبة من لبن فأتيته به فشرب حتى رضيت
   صحيح مسلم5238براء بن عازبحلبت له كثبة من لبن فأتيته بها فشرب حتى رضيت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  صحيح مسلم مختصر مع شرح نووي: تحت الحديث صحيح مسلم 7521  
´حربی کا مال`
. . . میں مدینہ والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں (مراد مدینہ سے شہر ہے یعنی مکہ والوں میں سے) میں نے کہا: تیری بکریوں میں دودھ ہے؟ وہ بولا: ہاں ہے۔ میں نے کہا: تو دودھ دوہئے گا ہم کو؟ وہ بولا: ہاں۔ پھر اس نے ایک بکری کو پکڑا، میں نے کہا: اس کا تھن صاف کر لے بالوں اور مٹی اور کوڑے سے تا کہ دودھ میں یہ چیزیں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا:) میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے تھے، جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے دودھ دوھا لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا دودھ اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا جس میں پانی رکھتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کرنے کے لیے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں رسول اللہ کے پاس آیا اور مجھے برا معلوم ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگانا لیکن میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بخود جاگ اٹھے ہیں۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا۔ پھر میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ دودھ پیجئیے . . . [صحيح مسلم/كِتَاب الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ: 7521]

تشریح:
نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ جو آپ نے اس لڑکے کے ہاتھ سے دودھ پیا حالانکہ وہ اس دودھ کا مالک نہ تھا اس کی چار توجیہیں کی ہیں ایک یہ کہ مالک کی طرف سے مسافروں اور مہمانوں کو پلانے کی اجازت تھی۔ دوسرے یہ کہ وہ جانور کسی دوست کے ہوں گے جس کے مال میں تصرف کر سکتے ہوں گے۔ تیسرے یہ کہ وہ حربی کا مال تھا جس کو امان نہیں ملی اور ایسا مال لینا جائز ہے۔ چوتھے یہ کہ وہ مضطر تھے۔ اول کی دو توجیہیں عمدہ ہیں۔
   مختصر شرح نووی، حدیث\صفحہ نمبر: 7521   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3615  
3615. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر ؓ میرے والد کے گھرتشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر انھوں نے(میرےوالد محترم)حضرت عازب سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ اسے اٹھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہمراہ کجاوہ اٹھایا۔ جب میرے ابو ان سے اس کی قیمت لینے گئے تو ان سے میرے والد نے کہا: ابو بکر ؓ !مجھے بتائیں، جب آپ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کر کےگئے تھےتو تمھارے ساتھ کیا بیتی تھی؟حضرت ابو بکر نے فرمایا: ہم رات بھر چلتے رہے، اگلے دن بھی سفر جاری رکھا حتی کہ دوپہر ہو گئی۔ راستہ بالکل سنسان تھا۔ ادھر سے کوئی آدمی گزرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس دوران میں ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کے نیچے دھوپ نہ تھی بلکہ سایہ تھا، لہٰذا ہم نے وہاں پڑاؤکیا۔ میں نے خود نبی ﷺ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جگہ ہموار کی، وہاں پوستین بچھائی اور عرض کیا: اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3615]
حدیث حاشیہ:
واقعہ ہجرت میں آنحضرت ﷺ سے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا جن کی تفاصیل مختلف روایتوں میں نقل ہوئی ہیں۔
یہاں بھی آپ کے کچھ معجزات کا ذکر ہے جس سے آپ کی صداقت اور حقانیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
اہل بصیرت کے لیے آپ کے رسول برحق ہونے میں ایک ذرہ برابر بھی شک وشبہ کرنے کی گنجائش نہیں اور دل کے اندھوں کے لیے ایسے ہزار نشانات بھی ناکافی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3615   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3615  
3615. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ حضرت ابو بکر ؓ میرے والد کے گھرتشریف لائے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر انھوں نے(میرےوالد محترم)حضرت عازب سے فرمایا کہ اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ اسے اٹھائے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان کے ہمراہ کجاوہ اٹھایا۔ جب میرے ابو ان سے اس کی قیمت لینے گئے تو ان سے میرے والد نے کہا: ابو بکر ؓ !مجھے بتائیں، جب آپ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ ہجرت کر کےگئے تھےتو تمھارے ساتھ کیا بیتی تھی؟حضرت ابو بکر نے فرمایا: ہم رات بھر چلتے رہے، اگلے دن بھی سفر جاری رکھا حتی کہ دوپہر ہو گئی۔ راستہ بالکل سنسان تھا۔ ادھر سے کوئی آدمی گزرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ اس دوران میں ہمیں ایک لمبی چٹان دکھائی دی جس کے نیچے دھوپ نہ تھی بلکہ سایہ تھا، لہٰذا ہم نے وہاں پڑاؤکیا۔ میں نے خود نبی ﷺ کے لیے اپنے ہاتھ سے ایک جگہ ہموار کی، وہاں پوستین بچھائی اور عرض کیا: اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3615]
حدیث حاشیہ:

سفر ہجرت میں رسول اللہ ﷺ سے بہت سے معجزات کا ظہور ہوا جن کی تفاصیل مختلف روایات میں بیان ہوئی ہے۔
اس حدیث میں بھی آپ کے کچھ معجزات کاذکر ہے جن سے آپ کی صداقت اور حقانیت پر کافی روشنی پڑتی ہے۔
اہل بصیرت کے لیے ایک ذرہ بھر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔
واقعی آپ اللہ کے رسول ہیں البتہ عقل کے اندھوں کے لیے ایے ہزاروں،لاکھوں نشانات بھی ناکافی ہیں۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تابع کو اپنے متبوع کی خد مت کرنی چاہیے۔

دوران میں سفر چھاگل یا کوزہ وغیرہ پاس رکھنا چاہیے تاکہ پانی پینے اور وضو کرنے میں آسانی رہے نیز اس میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کی فضیلت ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی عظیم شخصیت محو استرحت ہو تو اس کی حفاظت کرنا بہت ضروری ہے۔

اس حدیث میں بکریوں کے چرواہے کے متعلق شک ہے کہ مدینے یا مکے کا رہنے والا تھا۔
درحقیقت وہ مکہ مکرمہ کے ایک قریشی کا غلام تھا کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ یثرب کے نام سے مشہور تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے تشریف لانے کے بعد اسے مدینہ کا نام دیا گیا نیز اتنی دور سے مسافت طے کر کے بکریاں چرانے کے لیے جانا بہت مشکل ہے ایک روایت میں صراحت ہے کہ وہ کسی قریشی کا غلام تھا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا نہیں تھا کیونکہ اس وقت مدینہ طیبہ میں کوئی قریشی رہائش پذیر نہیں تھا۔
(عمدة القاري: 351/11)
ہجرت سے متعلقہ دیگر واقعات کی تفصیل ہم حدیث 3906کے تحت بیان کریں گے۔
إن شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3615   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.