الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
29. بَابُ قِبْلَةِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَأَهْلِ الشَّأْمِ وَالْمَشْرِقِ:
29. باب: مدینہ اور شام والوں کے قبلہ کا بیان اور مشرق کا بیان۔
(29) Chapter. The Qiblah for the people of Al-Madina, Sham and the East.
حدیث نمبر: Q394
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ليس في المشرق ولا في المغرب قبلة، لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «لا تستقبلوا القبلة بغائط او بول ولكن شرقوا او غربوا» .لَيْسَ فِي الْمَشْرِقِ وَلاَ فِي الْمَغْرِبِ قِبْلَةٌ، لِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا» .
‏‏‏‏ اور (مدینہ اور شام والوں کا) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو، یا مغرب کی طرف۔

حدیث نمبر: 394
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن ابي ايوب الانصاري، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا اتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها، ولكن شرقوا او غربوا"، قال ابو ايوب: فقدمنا الشام، فوجدنا مراحيض بنيت قبل القبلة، فننحرف ونستغفر الله تعالى، وعن الزهري، عن عطاء، قال: سمعت ابا ايوب، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلَا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوهَا، وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا"، قَالَ أَبُو أَيُّوبَ: فَقَدِمْنَا الشَّأْمَ، فَوَجَدْنَا مَرَاحِيضَ بُنِيَتْ قِبَلَ الْقِبْلَةِ، فَنَنْحَرِفُ وَنَسْتَغْفِرُ اللَّهَ تَعَالَى، وَعَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أَيُّوبَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے زہری نے عطاء بن یزید لیثی کے واسطہ سے، انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو اس وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف اس وقت اپنا منہ کر لیا کرو۔ ابوایوب نے فرمایا کہ ہم جب شام میں آئے تو یہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے (جب ہم قضائے حاجت کے لیے جاتے) تو ہم مڑ جاتے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرتے تھے اور زہری نے عطاء سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ عطاء نے کہا میں نے ابوایوب سے سنا، انہوں نے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔

Narrated Abu Aiyub Al-Ansari: The Prophet said, "While defecating, neither face nor turn your back to the Qibla but face either east or west." Abu Aiyub added. "When we arrived in Sham we came across some lavatories facing the Qibla; therefore we turned ourselves while using them and asked for Allah's forgiveness."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 388


   صحيح البخاري394خالد بن زيدإذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها ولكن شرقوا أو غربوا
   صحيح البخاري144خالد بن زيدإذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يولها ظهره شرقوا أو غربوا
   صحيح مسلم609خالد بن زيدأتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها ببول ولا غائط ولكن شرقوا أو غربوا
   جامع الترمذي8خالد بن زيدإذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول ولا تستدبروها ولكن شرقوا أو غربوا
   سنن النسائى الصغرى20خالد بن زيدإذا ذهب أحدكم إلى الغائط أو البول فلا يستقبل القبلة ولا يستدبرها
   سنن النسائى الصغرى21خالد بن زيدلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها لغائط أو بول ولكن شرقوا أو غربوا
   سنن النسائى الصغرى22خالد بن زيدإذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولكن ليشرق أو ليغرب
   سنن ابن ماجه318خالد بن زيدنهى رسول الله أن يستقبل الذي يذهب إلى الغائط القبلة
   بلوغ المرام84خالد بن زيدان نستقبل القبلة بغائط او بول،‏‏‏‏ او ان نستنجي باليمين،‏‏‏‏ اوان نستنجي باقل من ثلاثة احجار،‏‏‏‏ او ان نستنجي برجيع او عظم
   سنن أبي داود9خالد بن زيدإذا اتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة
   بلوغ المرام85خالد بن زيدفلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها،‏‏‏‏ ببول او غائط،‏‏‏‏ ولكن شرقوا او غربوا
   المعجم الصغير للطبراني120خالد بن زيد لا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول
   مسندالحميدي382خالد بن زيدلا تستقبلوا القبلة بغائط ولا بول ولا تستدبروها ولكن شرقوا أو غربوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 9  
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے`
«. . . قَالَ: إِذَا أَتَيْتُمُ الْغَائِطَ فَلا تَسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ وَلا بَوْلٍ وَلَكِنْ شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت کے لیے آؤ تو پاخانہ اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف رخ کر لیا کرو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 9]
فوائد و مسائل
➊ مدینہ منورہ میں قبلہ چونکہ جنوب کی طرف ہے اس لیے انہیں مشرق یا مغرب کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا، لہٰذا جن علاقوں میں قبلہ مغرب یا مشرق کی طرف بنتا ہے انہیں شمال یا جنوب کی طرف رخ کرنا ہو گا۔
➋ حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ اس نہی کو عام سمجھتے تھے اور شہر یا جنگل میں تفریق کے قائل نہ تھے اور بہت سے اہل علم کا یہی مذہب ہے اور یہی راجح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 9   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 84  
´قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہونا منع ہے`
«. . . وعن سلمان رضى الله عنه قال: لقد نهانا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ان نستقبل القبلة بغائط او بول،‏‏‏‏ او ان نستنجي باليمين،‏‏‏‏ اوان نستنجي باقل من ثلاثة احجار،‏‏‏‏ او ان نستنجي برجيع او عظم . . .»
. . . سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا کہ ہم قضائے حاجت اور پیشاب کے وقت قبلہ رخ ہوں یا دائیں ہاتھ سے استنجاء کریں یا تین ڈھیلوں سے کم سے استنجاء کریں یا گوبر، لید اور ہڈی سے استنجاء کریں . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 84]

لغوی تشریح:
«نَسْتَنْجِي» «اَلْاِسْتِنْجَاء» سے ماخوذ ہے، یعنی پتھر یا پانی سے گندگی کو دور کرنا۔
«اَلنَّجو» اس گندگی کو کہتے ہیں جو مقعد سے خارج ہوتی ہے۔
«اَلرَّجِیع» لید یا گوبر۔

راویٔ حدیث: (سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ) ان کی کنیت ابوعبداللہ اور لقب سلمان الخیر ہے۔ اصل میں ان کا تعلق فارس سے تھا۔ دین (حق) کی تلاش میں گھر سے نکلے اور نصرانی (عیسائی) بن گئے۔ پھر مدینہ میں منتقل ہو گئے۔ مدینہ میں آتے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد اسے بڑی اچھی طرح نبھایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مدائن کا والی مقرر کیا۔ محنت مزدوری کر کے جو کچھ کماتے اسے راہِ الٰہی میں خیرات کر دیتے۔ مدینے میں 32 یا 33 ہجری کو وفات پائی۔ ان کی عمر 250 یا 350 برس بیان کی جاتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 84   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 85  
´قضائے حاجت اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رخ نہ بیٹھو`
«. . . وللسبعة من حديث ابي ايوب الانصاري رضي الله عنه:‏‏‏‏فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها،‏‏‏‏ ببول او غائط،‏‏‏‏ ولكن شرقوا او غربوا . . .»
. . .سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قضائے حاجت اور پیشاب کرتے وقت قبلہ رخ نہ بیٹھو اور نہ اس کی طرف پشت کرو، بلکہ مشرق یا مغرب کی جانب کرو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 85]

لغوی تشریح:
«لَا تَسْتَدْبِرُوْھَا» اس کی طرف پشت نہ کرو۔
«وَلٰکِنْ شَرِّقُوْا أَوْ غَرِّبُوْا» تشریق وتغریب سے امر کے صیغے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنے چہرے مشرق یا مغرب کی طرف کرو۔ یہ خطاب اہل مدینہ سے ہے۔ ان کا قبلہ بجانب جنوب پڑتا ہے۔ اہل مدینہ یا اسی طرح کے دوسرے لوگ جن کا قبلہ جنوب یا شمال میں پڑے گا، وہ اپنے رخ مشرق یا مغرب کی طرف کریں گے، اس طرح وہ لوگ استقبال اور استدبار دونوں سے بچ جائیں گے۔ اور جن کا قبلہ مشرق یا مغرب ہو گا تو وہ اپنا رخ شمال یا جنوب کی طرف کریں گے۔ چونکہ استقبال و استدبار قبلہ سے بچنے کے لیے ہی اہل مدینہ کو مشرق اور مغرب کا رخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس لیے حکم کا دار ومدار اسی علت وسبب پر ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں «لَا تَسْتَقْبِلُوْا الْقِبْلَةَ وَلَا تَسْتَدْبِرُوھَا» کا حکم نہی ایسی جگہ کے لیے ہے جہاں کوئی اوٹ وغیرہ نہ ہو اور کھلا میدان ہو۔
➋ گھروں میں جہاں آدمی کے سامنے دیوار وغیرہ حائل ہو وہاں کے لیے یہ حکم نہیں ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے واضح ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں اپنی ہمشیرہ سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا کے حجرے کی چھت پر کسی ذاتی ضرورت کے لیے چڑھا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کر رہے تھے اور اس وقت آپ کا رخ شام کی طرف تھا اور پشت بیت اللہ کی جانب۔ [صحيح مسلم، الطهارة، باب الاستطابة، حديث: 265]
➌ مشرق اور مغرب کی طرف رخ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قضائے حاجت کے وقت اپنا رخ قبلے کی طرف کرے نہ پشت۔ یہ حکم اہل مدینہ کے لیے مخصوص ہے، اس لیے کہ ان کے لیے قبلہ جنوب کی طرف پڑتا ہے۔
راوی حدیث: (سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ) ابوایوب ان کی کنیت ہے۔ ان کا نام خالد بن زید بن کلیب ہے۔ مدینہ میں تشریف آوری کے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ان کے دولت کدہ پر فروکش ہوئی تھی۔ آپ کا شمار جلیل القدر اور اکابر صحابہ میں ہوتا ہے۔ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ ارض روم میں جہاد کرتے ہوئے 50 ہجری میں جام شہادت نوش کیا۔ ان کی قبر دیوار قسطنطینیہ کے زیر سایہ ہے۔ یہ جگہ یزار کے نام سے مشہور ومعروف ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 85   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 144  
´ پاخانہ کے وقت قبلہ رخ ہونے سے بچنا ضروری ہے`
«. . . عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا أَتَى أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلَا يَسْتَقْبِل الْقِبْلَةَ وَلَا يُوَلِّهَا ظَهْرَهُ، شَرِّقُوا أَوْ غَرِّبُوا . . .»
. . . ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے (بلکہ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ لاَ تُسْتَقْبَلُ الْقِبْلَةُ بِغَائِطٍ أَوْ بَوْلٍ إِلاَّ عِنْدَ الْبِنَاءِ جِدَارٍ أَوْ نَحْوِهِ: 144]

تخريج الحديث:
[149۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 29 باب قبلة أهل المدينة وأهل الشام والمشرق 144، مسلم 264]
لغوی توضیح:
«الْغَائِط» پاخانہ۔
«شَرِّقُوْا» مشرق کی جانب رخ کر لو۔
«غَرِّبُوْا» مغرب کی جانب رخ کر لو۔
«مَرَاحِيْضَ» جمع ہے «مِرْحَاض» کی، معنی ہے بیت الخلاء۔
«نَنْحَرِفُ» ہم مڑتے، ٹیڑھے ہوتے۔
فھم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مشرق یا مغرب کی جانب رخ یا پشت کر کے قضائے حاجت نہیں کرنی چاہیے جبکہ آئندہ دونوں احادیث بظاہر اس کے خلاف ہیں۔ ان میں تطبیق کا پہلو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یوں نکالا ہے کہ (اگر صحراء یا کھلی زمین ہو تو قبلہ رخ ہونے سے بچنا ضروری ہے، لیکن) اگر تمہارے اور قبلہ کے درمیان کوئی اوٹ ہو (یعنی عمارت یا تعمیر شدہ بیت الخلاء) تو پھر اس (قبلہ رخ ہو کر قضائے حاجت کرنے) میں کوئی حرج نہیں۔ [حسن: صحيح أبوداود 8، كتاب الطهارة: باب الرخصة فى ذلك، أبوداود 11]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 149   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 20  
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت۔`
رافع بن اسحاق سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مصر میں ان کے قیام کے دوران کہتے سنا: اللہ کی قسم! میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کھڈیوں کو کیا کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جب تم میں سے کوئی پاخانے یا پیشاب کے لیے جائے تو قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 20]
20۔ اردو حاشیہ:
➊ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت میں مصر کی بجائے شام کا ذکر ہے۔ [صحیح البخاري، الصلاۃ، حدیث: 394، و صحیح مسلم، الطھارۃ، حدیث: 364]
ممکن ہے دونوں جگہ یہ صورت حال پیش آئی ہو ورنہ صحیحین کی روایت کو ترجیح ہو گی۔
منہ کرے، نہ پیٹھ۔ ظاہر الفاظ تو ہر جگہ ممانعت پر دلالت کرتے ہیں اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی یہی ہے، احتیاط بھی اسی میں ہے، اگرچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس حکم کو صحرا کے ساتھ خاص قرار دیا ہے، یعنی عمارت (چار دیواری) کے اندر قبلہ رخ ہو جانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے تو بیت الخلا میں بھی قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع سمجھا ہے۔ مزید تفصیل ان شاء اللہ آگے آئے گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 20   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 21  
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پیٹھ کرنے کی ممانعت۔`
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پاخانہ و پیشاب کے لیے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ پورب یا پچھم کی طرف کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 21]
21۔ اردو حاشیہ:
مشرق یا مغرب کی طرف کرو ان الفاظ کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مشرق یا مغرب کی طرف نہیں جیسے کہ اہل مدینہ ہیں، ان کا قبلہ جنوب کی جانب ہے۔ پاک و ہند کے لوگ شمال یا جنوب کو منہ کریں گے۔
➋ کھلے میدان میں قضائے حاجت کے وقت قبلے کی طرف منہ کرنا بھی منع ہے اور پیٹھ کرنا بھی کیونکہ ایسا کرنا احترام قبلہ کے منافی ہے جبکہ چاردیواری کے اندر قبلہ رخ منہ یا پیٹھ ہو سکتی ہے جیسا کہ بعض احادیث میں آتا ہے، لیکن افضل اور احوط یہی ہے کہ وہاں بھی منہ یا پیٹھ کرنے سے بچا جائے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 21   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث318  
´پیشاب اور پاخانے میں قبلہ کی طرف منہ کرنا منع ہے۔`
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے سے منع فرمایا، اور فرمایا: مشرق (پورب) کی طرف منہ کرو، یا پچھم کی طرف ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 318]
اردو حاشہ:
(1)
مدینہ منورہ سے بیت اللہ شریف جنوب کی طرف ہے اس لیے جو شخص جنوب کی طرف منہ کرے اس کا منہ قبلہ کی طرف ہوگا اور جو شخص شمال کی طرف منہ کرے اس کی پشت قبلہ کی طرف ہوگی جب کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے سے قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ نہیں ہوگی۔
رسول اللہ ﷺ نے مدینہ کے لحاظ سے مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا۔
جو مقامات کعبہ شریف سے مشرق یا مغرب میں واقع ہیں ان کے لیے شمال یا جنوب کی طرف منہ کرنا درست ہوگا۔
اورمشرق یا مغرب کی طرف منہ کرنا ممنوع ہوگا کیونکہ اصل وجہ کعبہ کی طرف منہ یا پشت ہونا ہے نہ کہ کسی خاص سمت کو اہمیت دینا۔

(2)
اگلے باب کی احادیث سے واضح ہے کہ یہ پابندی کھلے مقام کے لیے ہے بیت الخلاء اگر اس رخ بنے ہوئے ہوں تو ان میں بیٹھنا جائز ہے تاہم بیت الخلاء بناتے وقت اگر یہ خیال رکھا جائے کہ وہ قبلہ رخ نہ ہوں تو بہتر ہے۔
 
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 318   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 8  
´پیشاب یا پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنے کی ممانعت​۔`
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو پاخانہ یا پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کرو اور نہ پیٹھ، بلکہ منہ کو پورب یا پچھم کی طرف کرو ۱؎۔ ابوایوب انصاری کہتے ہیں: ہم شام آئے تو ہم نے دیکھا کہ پاخانے قبلہ رخ بنائے گئے ہیں تو قبلہ کی سمت سے ترچھے مڑ جاتے اور ہم اللہ سے مغفرت طلب کرتے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 8]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ خطاب اہل مدینہ سے اور ان لوگوں سے ہے جن کا قبلہ مدینہ کی سمت میں مکہ مکرمہ اور بیت اللہ الحرام سے شمال والی جانب واقع ہے،
اور اسی طرح مکہ مکرمہ سے جنوب والی جانب جن کا قبلہ مشرق (پورب) یا مغرب (پچھم) کی طرف ہے وہ قضائے حاجت کے وقت شمال یا جنوب کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے بیٹھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 8   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 394  
394. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ اس کی طرف اپنی پشت ہی کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم ملک شام گئے تو ہم نے وہاں بیت الخلا قبلہ رخ پائے، چنانچہ ہم وہاں ترچھے ہو کر بیٹھتے اور حق تعالیٰ سے اس پر معافی مانگتے۔ امام زہری ؓ حضرت عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ایوب ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے اس (روایت) کے مثل بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:394]
حدیث حاشیہ:
اصل میں یہ حدیث ایک ہے جو دوسندوں سے روایت ہے۔
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ سفیان نے علی بن عبداللہ مدینی سے یہ حدیث دوبار بیان کی، ایک بار میں توعن عطاءعن أبي أیوب کہا، اور دوسری بار میں سمعت أباأیوب کہا تو دوسری بار میں عطاء کے سماع کی ابوایوب سے وضاحت ہوگئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 394   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:394  
394. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو قبلے کی طرف منہ نہ کرو اور نہ اس کی طرف اپنی پشت ہی کرو بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لو۔ حضرت ابو ایوب انصاری ؓ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد ہم ملک شام گئے تو ہم نے وہاں بیت الخلا قبلہ رخ پائے، چنانچہ ہم وہاں ترچھے ہو کر بیٹھتے اور حق تعالیٰ سے اس پر معافی مانگتے۔ امام زہری ؓ حضرت عطاء سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا: میں نے حضرت ابو ایوب ؓ سے سنا، انھوں نے نبی ﷺ سے اس (روایت) کے مثل بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:394]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مدینے کے مشرقی جانب والے شہروں کا قبلہ بتایا ہے جب کہ مغربی جانب والوں کا بھی قبلہ یہی ہے۔
اس کے متعلق ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ یہاں مشرق کا ذکر اکتفا کی قبیل سے ہے۔
کیونکہ مراد مشرق ومغرب دونوں ہیں، یعنی أحد المتقابلین کے ذکر پر اکتفا کرلیا یا اس لیے صرف مشرق کاذکر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی آبادی زیادہ تر اسی جانب تھی، مغرب میں اتنے مسلمان نہیں تھے۔
(شرح ابن بطال: 55/2)

امام بخاری ؒ نے جس حدیث کو مدار استدلال بنایا ہے اس میں یہ ہے کہ قبلہ رخ ہوکر قضائے حاجت نہ کرو اور نہ پشت ہی اس طرف کرو بلکہ قضائے حاجت کرتے وقت مشرق یامغرب کی طرف منہ کرو۔
اس سے معلوم ہوا مدینہ منورہ اور اس کے مشرق ومغرب میں واقع شہروں کا قبلہ جنوب ہے۔
اس لیے ان کے لیے جنوب کی جہت بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے نہ پشت۔
ابن بطال ؒ کہتے ہیں کہ مدینہ منورہ اور اس کے مشرقی شہروں کےعلاوہ جو شہر مکہ مکرمہ کے مشرق میں واقع ہیں ان کا قبلہ بھی جنوب یا شمال ہے مشرق ومغرب نہیں، لہذا ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف بوقت قضائے حاجت منہ کرناجائز ہے، سوائے ان لوگوں کے جو کعبے کیسیدھ میں مشرق سے مغرب تک واقع ہیں، ان کے لیے مشرق ومغرب کی طرف منہ یا پشت کرنا جائز نہیں۔
(شرح ابن بطال: 54/2)
اب اگرامام بخاریؒ کی مراد صرف اہل مدینہ، اہل شام اور مدینے سے مشرق کی طرف والے بلادعرب ہوں تو بات صاف ہے اور اگرابن بطال والی توجیہ مراد ہوتو بھی کوئی حرج نہیں کہ مشرق ومغرب سے مراد مشرق ومغرب کی تمام سمتیں ہوسکتی ہیں۔
ٹھیک درمیانی خط مشرق اور خط مغرب کو چھوڑ کر جنوب وشمال کی طرف تھوڑا سا انحراف بھی بول وغائط کے وقت کافی ہے اور یہی تشریق وتغریب ہے جس میں خانہ کعبہ کی تعظیم کے خلاف کوئی بات نہیں ہے۔
چونکہ ٹھیک درمیانی خط والے بہ نسبت دوسروں کے بہت کم لوگ ہیں ان کی طرف گویا اس عام حکم میں کچھ تعرض نہیں کیا گیا۔
اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ توجہ الی الکعبہ کے لحاظ سے ساری دنیا کے لوگوں کی مثال مرکز کے گرد دائرے کی ہے۔
اب جو شخص کعبے سے مغربی جانب ہے اس کا قبلہ مشرق ہوگا اور جو مشرق کی جانب ہے اس کا قبلہ مغرب ہوگا۔
اگرروئے زمین کو دائرہ خیال کیاجائے توظاہر ہے کہ محیط کی طرف وسعت اورپھیلاؤ اور مرکز کی جانب تنگی اور سمٹاؤ ہوگا۔
انحراف کی صورت میں جہت قبلہ سے وہ انحراف مانا جائے گا جو ربع دائرہ کے بقدر ہو، کیونکہ کسی بھی دائرے کا مرکز سے زیادہ سے زیادہ پھیلاؤ ربع تک ہی ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ نہیں خواہ مرکز سے جوانب دائرہ تک فاصلہ ایک میل ہو یا ہزاروں میل کا۔
اس بنا پر کعبے سے اوجھل نماز پڑھنے والے کا شرعی حکم ایک ہی رہے گا، خواہ وہ کعبے سے کتنے ہی فاصلے پر ہو کہ دائرہ کے چوتھائی (نوے درجے)
سے کم انحراف ہوتواس کی نماز درست ہواور نوے درجے یا زیادہ کا انحراف ہوتو نماز صحیح نہیں ہوگی۔
یعنی کعبے سے 45 درجے تک دائیں طرف اور اتنا ہی بائیں طرف انحراف کا جواز ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 394   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.