مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2990
´عمرہ کا بیان۔`
عبداللہ بن ابی او فی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا ہم آپ کے ساتھ تھے، آپ نے طواف کیا، اور ہم نے بھی آپ کے ساتھ طواف کیا، آپ نے نماز پڑھی، ہم نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، اور ہم مکہ والوں سے آپ کو آڑ میں کیے رہتے تھے کہ وہ آپ کو کوئی اذیت نہ پہنچا دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2990]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ذوالقعدہ 6ھ میں طے پانے والے صلح کے معاہدے (صلح حدیبیہ)
میں یہ طے پایا تھا کہ مسلمان اس سال عمرہ نہیں کرینگے تاہم اگلے سال وہ عمرہ کرنے کے لیے آ سکیں گے۔
اس شرط کے مطابق ذوالقعدہ 7ھ میں رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ ادا فرمایا۔
اس سفر میں دو ہزار مرد اور ان کے علاوہ کچھ عورتیں اور بچے بھی آپ کے ہمراہ تھے۔
اس عمرے کو عمرۃالقضاء بھی کہتے ہیں۔ (فتح الباري: 7/ 627)
(2)
اس موقع پر مشرکین اپنے گھروں سے نکل کر جبل قعیقعان پر جمع ہوگئے تھے تاہم خطرہ تھا کہ کوئی مشرک دھوکے سے رسول اللہ ﷺ کو گزند پہنچانے کی کوشش نہ کرے۔
(3)
ظاہری اسباب اختیار کرنا اللہ پر توکل کے منافی نہیں۔
(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول اکرم ﷺ سے اس قدر محبت رکھتے تھےکہ آپ کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے پر تیار رہتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2990