الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
57. بَابُ غَزْوَةُ الطَّائِفِ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ ثَمَانٍ:
57. باب:غزوہ طائف کا بیان جو شوال سنہ ۸ ھ میں ہوا۔
(57) Chapter. The Ghazwa of At-Ta’if was in the month of Shawwal, during the 8th year (of Al-Hijrah).
حدیث نمبر: 4333
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا ازهر، عن ابن عون، انبانا هشام بن زيد بن انس، عن انس رضي الله عنه، قال: لما كان يوم حنين التقى هوازن ومع النبي صلى الله عليه وسلم عشرة آلاف، والطلقاء فادبروا، قال:" يا معشر الانصار"، قالوا: لبيك يا رسول الله، وسعديك، لبيك نحن بين يديك، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" انا عبد الله ورسوله"، فانهزم المشركون، فاعطى الطلقاء والمهاجرين ولم يعط الانصار شيئا، فقالوا: فدعاهم، فادخلهم في قبة، فقال:" اما ترضون ان يذهب الناس بالشاة والبعير وتذهبون برسول الله صلى الله عليه وسلم؟" فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لو سلك الناس واديا وسلكت الانصار شعبا لاخترت شعب الانصار".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، أَنْبَأَنَا هِشَامُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ حُنَيْنٍ الْتَقَى هَوَازِنُ وَمَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشَرَةُ آلَافٍ، وَالطُّلَقَاءُ فَأَدْبَرُوا، قَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ"، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَسَعْدَيْكَ، لَبَّيْكَ نَحْنُ بَيْنَ يَدَيْكَ، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَنَا عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ"، فَانْهَزَمَ الْمُشْرِكُونَ، فَأَعْطَى الطُّلَقَاءَ وَالْمُهَاجِرِينَ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَقَالُوا: فَدَعَاهُمْ، فَأَدْخَلَهُمْ فِي قُبَّةٍ، فَقَالَ:" أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَسَلَكَتْ الْأَنْصَارُ شِعْبًا لَاخْتَرْتُ شِعْبَ الْأَنْصَارِ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے ازہر بن سعد سمان نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عون نے، انہیں ہشام بن زید بن انس نے خبر دی اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ حنین میں جب قبیلہ ہوازن سے جنگ شروع ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار فوج تھی۔ قریش کے وہ لوگ بھی ساتھ تھے جنہیں فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا تھا پھر سب نے پیٹھ پھیر لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا: اے انصاریو! انہوں نے جواب دیا کہ ہم حاضر ہیں، یا رسول اللہ! آپ کے ہر حکم کی تعمیل کے لیے ہم حاضر ہیں۔ ہم آپ کے سامنے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری سے اتر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں پھر مشرکین کی ہار ہو گئی۔ جن لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد چھوڑ دیا تھا اور مہاجرین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا لیکن انصار کو کچھ نہیں دیا۔ اس پر انصار رضی اللہ عنہم نے اپنے غم کا اظہار کیا تو آپ نے انہیں بلایا اور ایک خیمہ میں جمع کیا پھر فرمایا کہ تم اس پر راضی نہیں ہو کہ دوسرے لوگ بکری اور اونٹ اپنے ساتھ لے جائیں اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگ کسی وادی یا گھاٹی میں رہیں اور انصار دوسری گھاٹی میں رہیں تو میں انصار کی گھاٹی کو اختیار کروں گا۔

Narrated Anas: When it was the day of (the battle of) Hunain, the Prophet confronted the tribe of Hawazin while there were ten-thousand (men) besides the Tulaqa' (i.e. those who had embraced Islam on the day of the Conquest of Mecca) with the Prophet. When they (i.e. Muslims) fled, the Prophet said, "O the group of Ansari" They replied, "Labbaik, O Allah's Apostle and Sadaik! We are under your command." Then the Prophet got down (from his mule) and said, "I am Allah's Slave and His Apostle." Then the pagans were defeated. The Prophet distributed the war booty amongst the Tulaqa and Muhajirin (i.e. Emigrants) and did not give anything to the Ansar. So the Ansar spoke (i.e. were dissatisfied) and he called them and made them enter a leather tent and said, Won't you be pleased that the people take the sheep and camels, and you take Allah's Apostle along with you?" The Prophet added, "If the people took their way through a valley and the Ansar took their way through a mountain pass, then I would choose a mountain pass of the Ansar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 622


   صحيح البخاري4333أنس بن مالكأما ترضون أن يذهب الناس بالشاة والبعير وتذهبون برسول الله لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لاخترت شعب الأنصار
   صحيح البخاري2376أنس بن مالكأراد النبي أن يقطع من البحرين فقالت الأنصار حتى تقطع لإخواننا من المهاجرين مثل الذي تقطع لنا سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني
   صحيح البخاري3146أنس بن مالكأعطي قريشا أتألفهم لأنهم حديث عهد بجاهلية
   صحيح البخاري3778أنس بن مالكأولا ترضون أن يرجع الناس بالغنائم إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم
   صحيح البخاري4334أنس بن مالكقريشا حديث عهد بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار
   صحيح البخاري4337أنس بن مالكألا ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار
   صحيح البخاري3147أنس بن مالكأما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعوا إلى رحالكم برسول الله فوالله ما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا بلى يا رسول الله قد رضينا سترون بعدي أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله على الحوض
   صحيح البخاري4332أنس بن مالكأما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون برسول الله قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم
   صحيح البخاري4331أنس بن مالكأعطي رجالا حديثي عهد بكفر أتألفهم أما ترضون أن يذهب الناس بالأموال وتذهبون بالنبي إلى رحالكم فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به قالوا يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا
   صحيح مسلم2440أنس بن مالكأما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا إلى بيوتهم وترجعون برسول الله إلى بيوتكم لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعب الأنصار
   صحيح مسلم2436أنس بن مالكأفلا ترضون أن يذهب الناس بالأموال وترجعون إلى رحالكم برسول الله فوالله لما تنقلبون به خير مما ينقلبون به فقالوا بلى يا رسول الله قد رضينا ستجدون أثرة شديدة فاصبروا حتى تلقوا الله ورسوله إني على الحوض
   صحيح مسلم2441أنس بن مالكأما ترضون أن يذهب الناس بالدنيا وتذهبون بمحمد تحوزونه إلى بيوتكم قالوا بلى يا رسول الله رضينا لو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لأخذت شعب الأنصار
   جامع الترمذي3901أنس بن مالكقريشا حديث عهدهم بجاهلية ومصيبة وإني أردت أن أجبرهم وأتألفهم أما ترضون أن يرجع الناس بالدنيا وترجعون برسول الله إلى بيوتكم قالوا بلى لو سلك الناس واديا أو شعبا وسلكت الأنصار واديا أو شعبا لسلكت وادي الأنصار أو شعبهم
   مسندالحميدي1229أنس بن مالكإنكم سترون بعدي أثرة، فاصبروا حتى تلقوني
   مسندالحميدي1235أنس بن مالكلو سلك الناس واديا وسلكت الأنصار شعبا لسلكت شعب الأنصار، ولولا الهجرة لكنت امرأ من الأنصار، الأنصار كرشي، وعيبتي، فأحسنوا إلى محسنهم، وتجاوزوا عن مسيئهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3901  
´انصار اور قریش کے فضائل کا بیان`
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (فتح مکہ کے وقت) انصار کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کیا ۱؎ اور فرمایا: کیا تمہارے علاوہ تم میں کوئی اور ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: نہیں سوائے ہمارے بھانجے کے، تو آپ نے فرمایا: قوم کا بھانجا تو قوم ہی میں داخل ہوتا ہے، پھر آپ نے فرمایا: قریش اپنی جاہلیت اور (کفر کی) مصیبت سے نکل کر ابھی نئے نئے اسلام لائے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ کچھ ان کی دلجوئی کروں اور انہیں مانوس کروں، (اسی لیے مال غنیمت میں سے انہیں دیا ہے) کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ لوگ دنیا لے کر اپنے گھروں کو لوٹیں اور تم اللہ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3901]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ غزوہ حنین کے بعد کا واقعہ ہے،
جس کے اندر آپﷺ نے قریش کے نئے مسلمانوں کو مال غنیمت میں سے بطورتالیف قلب عطا فرمایا تو بعض نوجوان انصاری حضرات کی طرف سے کچھ ناپسندیدہ رنجیدگی کا اظہار کیا گیا تھا،
اسی پر آپﷺ نے انصار کو جمع کر کے یہ اردشاد فرمایا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3901   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4333  
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: اے انصار کی جماعت! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی ﷺ (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ﷺ لے کر جاؤ؟ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:
روایت میں طلقاء سے مراد وہ لوگ ہیں جن کو آپ نے فتح مکہ کے دن چھوڑدیا (احساناً)
ان کے پہلے جرائم پر ان سے کوئی گرفت نہیں کی جیسے ابو سفیان، ان کے بیٹے معاویہ، حکیم بن حزام رضي اللہ عنهم وغیرہ۔
ان لوگوں کو عام معافی دے دی گئی اور ان کو بہت نوازا بھی گیا۔
بعد میں یہ حضرات اسلام کے سچے جاں نثار مددگار ثابت ہوئے اور ﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ کا نمونہ بن گئے۔
انصار کے لیے آپ نے جو شرف عطا فرمایا دنیا کا مال ودولت اس کے مقابلہ پر ایک بال برابر بھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
چنانچہ انصار نے بھی اس کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی اور اول سے آخر تک آپ کے ساتھ پوری وفاداری کا برتاؤ کیا، رضي اللہ عنهم ورضوا عنه اسی کا نتیجہ تھا کہ وفات نبوی کے بعد جملہ انصار نے بخوشی ورغبت خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کوئی منصب نہیں چاہا۔
﴿صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ﴾ جنگ حنین میں حضرت ابو سفیان ؓ آنحضرت ﷺ کی سواری کی لگام تھامے ہوئے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4333   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4333  
4333. حضرت انس ؓ سے ایک اور روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جس روز غزوہ حنین تھا، ہوازن کے لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں آئے جبکہ نبی ﷺ کے ہمراہ دس ہزار کی نفری اور طلقاء بھی تھے۔ وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ گئے تو آپ نے آواز دی: اے انصار کی جماعت! انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم حاضر ہیں اور آپ کی مدد کو آ گئے ہیں۔ پھر نبی ﷺ (اپنی سواری سے) اترے اور فرمایا: میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ جب مشرکین شکست خوردہ ہو کر بھاگ گئے تو آپ نے طلقاء اور مہاجرین کو اموال دیے اور انصار کو کچھ نہ دیا۔ انہوں نے جو کچھ کہنا تھا کہا۔ آپ ﷺ نے انہیں ایک خیمے میں جمع کر کے فرمایا: تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکریاں اور اونٹ وغیرہ لے جائیں اور تم اللہ کا رسول ﷺ لے کر جاؤ؟ نبی ﷺ نے مزید فرمایا: اگر لوگ کسی وادی میں چلیں اور انصار کوئی پہاڑی راستہ اختیار کریں تو میں انصار کا پہاڑی راستہ اختیار۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4333]
حدیث حاشیہ:

طلقاء، طليق کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ لوگ ہیں جنھیں فتح مکہ کے موقع پر آپ نے نہ قتل کیا اور نہ انھیں قیدی ہی بنایا لیکن ان پر احسان فرماتے ہوئے آزاد کردیا اور فرمایا:
"آج تم پر کوئی ملامت نہیں تم آزاد ہو۔
" (عمدة القاري: 306/12)
ان حضرات پر سابقہ جرائم کے متعلق بھی کوئی گرفت نہ کی گئی بلکہ انھیں عام معافی سے نوازاگیا۔
انھیں گرانقدر عطیے دیے گئے۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ اس کے بعد وہ جاں نثار مددگار ثابت ہوئے۔

انصار کو رسول اللہ ﷺ نے جو شرف عطا فرمایا اس کے مقابلے میں دنیا کا مال ایک بال برابربھی وزن نہیں رکھتا تھا۔
انصار نے بھی اس حقیقت کو سمجھا اور اس شرف کی قدر کی، پوری وفاداری کے ساتھ اس عہد کونبھایا۔
چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جملہ انصار نے خلفائے قریش کی اطاعت کو قبول کیا اور اپنے لیے کسی بھی منصب کا مطالبہ نہیں کیا۔
رضوان اللہ عنھم أجمعین۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4333   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.