الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
21. بَابُ قَوْلِهِ: {إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ} :
21. باب: آیات کی تفسیر ”صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے اور جو کوئی خوشی سے اور کوئی نیکی زیادہ کرے سو اللہ تو بڑا قدر دان، بڑا ہی علم رکھنے والا ہے“۔
(21) Chapter. The Statement of Allah: “Verily! As-Safa and Al-Marwa (two mountains in Makkah) are of the Symbols of Allah...” (V.2:158)
حدیث نمبر: Q4495
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
شعائر: علامات واحدتها شعيرة , وقال ابن عباس: الصفوان الحجر , ويقال: الحجارة الملس التي لا تنبت شيئا والواحدة، صفوانة بمعنى: الصفا، والصفا للجميع.شَعَائِرُ: عَلَامَاتٌ وَاحِدَتُهَا شَعِيرَةٌ , وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: الصَّفْوَانُ الْحَجَرُ , وَيُقَالُ: الْحِجَارَةُ الْمُلْسُ الَّتِي لَا تُنْبِتُ شَيْئًا وَالْوَاحِدَةُ، صَفْوَانَةٌ بِمَعْنَى: الصَّفَا، وَالصَّفَا لِلْجَمِيعِ.
‏‏‏‏ «شعائر» کے معنی علامات کے ہیں۔ اس کا واحد «شعيرة» ہے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «صفوان» ایسے پتھر کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز نہ اگتی ہو۔ واحد «صفوانة» ہے۔ «صفاهى» کے معنی میں اور «صفا» جمع کے لیے آتا ہے۔

حدیث نمبر: 4495
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف , اخبرنا مالك , عن هشام بن عروة , عن ابيه , انه قال: قلت لعائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وانا يومئذ حديث السن:" ارايت قول الله تبارك وتعالى: إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158، فما ارى على احد شيئا ان لا يطوف بهما، فقالت عائشة:" كلا، لو كانت كما تقول، كانت فلا جناح عليه ان لا يطوف بهما إنما انزلت هذه الآية في الانصار كانوا يهلون لمناة، وكانت مناة حذو قديد، وكانوا يتحرجون ان يطوفوا بين الصفا والمروة، فلما جاء الإسلام سالوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فانزل الله إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت او اعتمر فلا جناح عليه ان يطوف بهما سورة البقرة آية 158.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , أَخْبَرَنَا مَالِكٌ , عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ , عَنْ أَبِيهِ , أَنَّهُ قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ حَدِيثُ السِّنِّ:" أَرَأَيْتِ قَوْلَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158، فَمَا أُرَى عَلَى أَحَدٍ شَيْئًا أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ:" كَلَّا، لَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، كَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا إِنَّمَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فِي الْأَنْصَارِ كَانُوا يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، وَكَانَتْ مَنَاةُ حَذْوَ قُدَيْدٍ، وَكَانُوا يَتَحَرَّجُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا (ان دنوں میں نوعمر تھا) کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں۔ پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان آمدورفت (یعنی سعی) کرے۔ میرا خیال ہے کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہونا چاہئیے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہرگز نہیں جیسا کہ تمہارا خیال ہے۔ اگر مسئلہ یہی ہوتا تو پھر واقعی ان کے سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہ تھا۔ لیکن یہ آیت انصار کے بارے میں نازل ہوئی تھی (اسلام سے پہلے) انصار منات بت کے نام سے احرام باندھتے تھے، یہ بت مقام قدید میں رکھا ہوا تھا اور انصار صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے سعی کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏» صفا اور مروہ بیشک اللہ کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، سو جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی بھی گناہ نہیں کہ ان دونوں کے درمیان (سعی) کرے۔

Narrated `Urwa: I said to `Aisha, the wife of the Prophet, and I was at that time a young boy, "How do you interpret the Statement of Allah: "Verily, Safa and Marwa (i.e. two mountains at Mecca) are among the Symbols of Allah." So it is not harmful of those who perform the Hajj to the House of Allah) or perform the Umra, to ambulate (Tawaf) between them. In my opinion it is not sinful for one not to ambulate (Tawaf) between them." `Aisha said, "Your interpretation is wrong for as you say, the Verse should have been: "So it is not harmful of those who perform the Hajj or Umra to the House, not to ambulate (Tawaf) between them.' This Verse was revealed in connection with the Ansar who (during the Pre-Islamic Period) used to visit Manat (i.e. an idol) after assuming their Ihram, and it was situated near Qudaid (i.e. a place at Mecca), and they used to regard it sinful to ambulate between Safa and Marwa after embracing Islam. When Islam came, they asked Allah's Messenger about it, whereupon Allah revealed:-- "Verily, Safa and Marwa (i.e. two mountains at Mecca) are among the Symbols of Allah. So it is not harmful of those who perform the Hajj of the House (of Allah) or perform the Umra, to ambulate (Tawaf) between them." (2.158)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 22


   صحيح البخاري4861عائشة بنت عبد اللهكان من أهل بمناة الطاغية التي بالمشلل لا يطوفون بين الصفا والمروة فأنزل الله إن الصفا والمروة من شعائر الله
   صحيح البخاري4495عائشة بنت عبد اللهلو كانت كما تقول كانت فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزلت هذه الآية في الأنصار كانوا يهلون لمناة وكانت مناة حذو قديد وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله عن ذلك فأنزل الله إن الصفا والمروة من
   صحيح مسلم3080عائشة بنت عبد اللهلو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما إنما أنزل هذا في أناس من الأنصار كانوا إذا أهلوا أهلوا لمناة في الجاهلية فلا يحل لهم أن يطوفوا بين الصفا والمروة فلما قدموا مع النبي للحج ذكروا ذلك له فأنزل الله هذه الآية فلعمري
   صحيح مسلم3083عائشة بنت عبد اللهالأنصار كانوا قبل أن يسلموا هم وغسان يهلون لمناة فتحرجوا أن يطوفوا بين الصفا والمروة وكان ذلك سنة في آبائهم من أحرم لمناة لم يطف بين الصفا والمروة وإنهم سألوا رسول الله عن ذلك حين أسلموا فأنزل الله في ذلك إن الصفا والمروة من شعائ
   صحيح مسلم3079عائشة بنت عبد اللهما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة ولو كان كما تقول لكان فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما وهل تدري فيما كان ذاك إنما كان ذاك أن الأنصار كانوا يهلون في الجاهلية لصنمين على شط البحر يقال لهما إساف ونائلة ثم يجيئون فيطوفون بين الصفا والمروة
   سنن أبي داود1901عائشة بنت عبد اللهإن الصفا والمروة من شعائر الله
   سنن النسائى الصغرى2971عائشة بنت عبد اللهالطواف بينهما فليس لأحد أن يترك الطواف بهما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1901  
´صفا اور مروہ کا بیان۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا اور میں ان دنوں کم سن تھا: مجھے اللہ تعالیٰ کے ارشاد «إن الصفا والمروة من شعائر الله» کے سلسلہ میں بتائیے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کے درمیان سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: ہرگز نہیں، اگر ایسا ہوتا جیسا تم کہہ رہے ہو تو اللہ کا قول «فلا جناح عليه أن يطوف بهما» کے بجائے «فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما» تو اس پر ان کی سعی نہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہوتا، یہ آیت دراصل انصار کے بارے میں اتری، وہ مناۃ (یعنی زمانہ جاہلیت کا بت) کے لیے حج کرتے تھے اور مناۃ قدید ۱؎ کے سامنے تھا، وہ لوگ صفا و مروہ کے بیچ سعی کرنا برا سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا، اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1901]
1901. اردو حاشیہ: قرآن مجید کو محض لغت کی بنیاد پر سمجھنے کی کوشش کرنا اور احادیث صحیحہ سے اعراض کرنا بہت بڑی جہالت ہے قرآن مجید کا وہی فہم معتبر ہے۔اور اسلام کی حقیقی تعبیر وہی ہے۔جو سلف صالحین (صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین)نے کی ہے۔ شان نزول جو صحیح احادیث و اسانید سے ثابت ہیں۔ ان سے استفادہ کرنا بھی از حد ضروری ہے۔جیسے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے وضاحت فرمائی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1901   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4495  
4495. حضرت عروہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ابھی نوعمر تھا کہ میں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے دریافت کیا کہ اللہ تعالٰی کے اس ارشاد کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے: "بےشک صفا اور مروہ اللہ تعالٰی کی یادگار چیزوں میں سے ہیں، لہذا جب کوئی بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے تو اس پر کوئی حرج نہیں کہ وہ ان کے درمیان سعی کرے۔" میرے خیال کے مطابق اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ اس پر حضرت عائشہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: ایسا ہرگز نہیں۔ اگر مسئلہ تیرے خیال کے مطابق ہوتا تو آیت کے الفاظ اس طرح ہوتے: "اگر کوئی ان کا طواف نہ کرے تو چنداں گناہ نہیں۔" درحقیقت یہ آیت انصار کے متعلق نازل ہوئی تھی جو (قبل از اسلام) منات بت کے نام سے لبیك کہتے تھے۔ وہ بت مقام قدید پر رکھا تھا اور انصار صف و مروہ کی سعی کو اچھا خیال نہیں کرتے تھے۔ جب اسلام آیا تو انہوں نے اس کے متعلق۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4495]
حدیث حاشیہ:

صفاء مسجد حرام کے نزدیک ایک پہاڑی کا نام ہے، اسی طرح مروہ بھی اس کے شمالی جانب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے۔
ان دونوں کے درمیان نشیب میں وادی تھی۔
حضرت ہاجرہ ؑ اپنے بچے اسماعیل ؑ کی پیاس بجھانے کے لیے پانی کی تلاش میں دونوں پہاڑیوں کے درمیان دوڑلگانے لگیں۔
صفا مروہ کے درمیان سعی اُسی دوڑ کی یاد گار ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی سعی کو مناسک میں شامل فرمایا جو اس نے اپنے بندے ابراہیم ؑ کو سکھائے تھے۔

اہل مدینہ اوس اور خزرج اسلام سے پہلے منات طاغیہ کی پوجا کرتے تھے اور اس کا تلبیہ پڑھتے تھے، اسی طرح اہل مکہ نے صفا اور مروہ پر اساف اور نائلہ نام کے دو بت نصب کررکھے تھے۔
مشہور تھا کہ اہل مدینہ اوراہل مکہ کے بتوں کے درمیان عداوت تھی، اسی وجہ سے ان کے متعلقین کے تعلقات بھی کشیدہ تھے۔
دور جاہلیت میں صورت حال اس طرح تھی کہ اہل مدینہ منات سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے وہ حج کے موقع پر بیت اللہ کا طواف تو کرتے لیکن صفا اور مروہ پر نہیں جاتے تھے کیونکہ وہاں اہل مکہ کے بت اساف اور نائلہ نصب تھے اور اہل مکہ حج کے موقع پر بیت اللہ کاطواف بھی کرتے تھے۔
اوراپنے بتوں سے عقیدت کی بنا پر صفا اور مروہ کی سعی بھی کرتے۔
جب اہل مدینہ اور اہل مکہ مسلمان ہوئے تو اساف اور نائلہ کے متعلقین اہل مکہ کہنے لگے کہ ہم مسلمان ہیں، اس لیے حج کے موقع پر بیت اللہ کاطواف تو کریں گے لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کریں گے کیونکہ یہ جاہلیت کاعمل ہے اور اہل مدینہ کو دوشبہات کی بناپر صفا اور مروہ کی سعی سے ہچکچاہٹ تھی:
ایک تو طبعی نفرت تھی جو پہلے سے ان کے اندر موجود تھی، دوسرا یہ کہ دورجاہلیت کافعل تھا۔
اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں اہل مکہ اور اہل مدینہ دونوں کو نصیحت فرمائی ہے۔

حضرت عائشہ ؓ کے بھانجے حضرت عروہ بن زبیر ؓ کو شبہ لاحق ہوا کہ (لَاجُنَاحَ)
کامطلب ہے کہ صفا اور مروہ کی سعی ضروری نہیں کیونکہ (لَاجُنَاحَ)
کامصداق تومباحات کے دائرے میں ہوتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ جو کچھ تم نے سمجھاہے وہ مبنی برحقیقت نہیں کیونکہ گناہ کی نفی توسعی کے کرنے میں ہے، یعنی اس کے کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
اس میں چار چیزیں آسکتی ہیں:
ممکن ہے وہ فرض ہو، واجب ہو۔
سنت ہو یا مباح ہو، حضرت عروہ ؒ نے عدم طواف پر نفیِ جُنَاح خیال کیا، حالانکہ یہ انداز تو کسی چیز کے حرام اور مکروہ ہونے پر اختیار کیا جاتا ہے اور یہ بات تب ثابت ہوتی جب آیت اس طرح ہوتی:
"اگر ان کا طواف نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔
" لیکن آپ کا اسلوب اس کے برعکس ہے۔
دراصل یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں ہے جنھیں طواف کرنے میں شبہ تھا، انھیں عدم طواف میں تو کوئی شبہ نہیں تھا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4495   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.