الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن کے فضائل کا بیان
The Book of The Virtues of The Quran
19. بَابُ مَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ:
19. باب: اس شخص کے بارے میں جو قرآن مجید کو خوش آوازی سے نہ پڑھے۔
(19) Chapter. Whoever does not recite the Quran in a pleasant tone.
حدیث نمبر: 5024
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ما اذن الله لشيء، ما اذن للنبي ان يتغنى بالقرآن". قال سفيان: تفسيره يستغني به.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا أَذِنَ اللَّهُ لِشَيْءٍ، مَا أَذِنَ لِلنَّبِيِّ أَنْ يَتَغَنَّى بِالْقُرْآنِ". قَالَ سُفْيَانُ: تَفْسِيرُهُ يَسْتَغْنِي بِهِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی چیز توجہ سے نہیں سنی جتنی توجہ سے اپنے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بہترین آواز کے ساتھ قرآن مجید پڑھتے سنا ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا «يتغنى بالقرآن» سے مراد ہے کہ قرآن پر قناعت کرے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet I said, "Allah does not listen to a prophet as He listens to a prophet who recites the Qur'an in a loud and pleasant tone." Sufyan said, "This saying means: a prophet who regards the Qur'an as something that makes him dispense with many worldly pleasures."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 61, Number 542


   صحيح البخاري5023عبد الرحمن بن صخرلم يأذن الله لشيء ما أذن للنبي يتغنى بالقرآن
   صحيح البخاري7482عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن للنبي يتغنى بالقرآن
   صحيح البخاري5024عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن للنبي أن يتغنى بالقرآن
   صحيح البخاري7544عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت بالقرآن يجهر به
   صحيح مسلم1849عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء كأذنه لنبي يتغنى بالقرآن يجهر به
   صحيح مسلم1845عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي يتغنى بالقرآن
   صحيح مسلم1847عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن يجهر به
   سنن أبي داود1473عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن يجهر به
   سنن النسائى الصغرى1018عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي حسن الصوت يتغنى بالقرآن يجهر به
   سنن النسائى الصغرى1019عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء يعني أذنه لنبي يتغنى بالقرآن
   مسندالحميدي979عبد الرحمن بن صخرما أذن الله لشيء ما أذن لنبي يتغنى بالقرآن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1018  
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: اللہ تعالیٰ کوئی چیز اتنی پسندیدگی سے نہیں سنتا جتنی خوش الحان نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے، جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلند آواز سے پڑھتا ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1018]
1018۔ اردو حاشیہ:
خوب صورت آواز والے نبی سے مراد بعض کے نزدیک خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد انبیاء کی جماعت ہے۔ جنھوں نے اس سے مراد صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیے ہیں، انہیں وہم ہوا ہے۔ [فتح الباري: 87/9، تحت حدیث: 5023]
➋ اس حدیث مبارکہ سے اللہ کی صفت سماع ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1018   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1019  
´خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی کے خوش الحانی سے قرآن پڑھنے کو اللہ تعالیٰ جس طرح سنتا ہے اس طرح کسی اور چیز کو نہیں سنتا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/باب سجود القرآن/حدیث: 1019]
1019۔ اردو حاشیہ: بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے ایسی احادیث سن کر بڑے پیچاں و غلطاں ہو جاتے ہیں کہ کان لگانا، غور کرنا، توجہ فرمانا، سنتا تواللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں، لہٰذا تاویل کرنی چاہیے۔ گزارش ہے کہ ان تاویلات سے تو یہ احادیث ہی بے معنیٰ ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے اسمائے حسنیٰ ہی سے محروم ہو جاتا ہے۔ تف ہے ایسی عقل پر جواللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھانے بیٹھ جائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو جاننے والے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1019   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1473  
´قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کسی کی اتنی نہیں سنتا جتنی ایک خوش الحان رسول کی سنتا ہے جب کہ وہ قرآن کو خوش الحانی سے بلند آواز سے پڑھ رہا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1473]
1473. اردو حاشیہ: یہاں [يتغنی بالقرآن]
كے معنی [يجهر به]
یعنی بلند آواز سے پڑھنا لیے گئے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1473   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5024  
5024. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے کسی چیز کی اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر اپنے نبی کو قرآن کریم سے غنا حاصل کرنے کی دی ہے۔ سفیان نے کہا کہ اس کی تفسیر قرآن کریم سے غنا حاصل کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5024]
حدیث حاشیہ:
اب مخالف کتابوں یا دنیا کے مال و دولت کی اس کو پر واہ نہ رہے اور قر آن ہی کو اپنی سب سے بڑ ی دولت سمجھے۔
خوش آوازی سے قرآن کا پڑھنا مسنون ہے یعنی ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ متوسط آواز سے پڑھنا۔
خوش آوازی سے یہ مراد نہیں کہ گانے کی طرح پڑھے۔
مالکیہ نے اسے حرام کہا ہے اور شافعیہ اور حنفیہ نے مکروہ رکھا ہے، حافظ نے کہا اس کا یہ مطلب ہے کہ کسی حرف کے نکالنے میں خلل نہ آئے اگر حروف میں تغیر ہو جائے تو بالاجماع حرام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5024   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5024  
5024. سیدنا ابو ہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: اللہ تعالٰی نے کسی چیز کی اس قدر اجازت نہیں دی جس قدر اپنے نبی کو قرآن کریم سے غنا حاصل کرنے کی دی ہے۔ سفیان نے کہا کہ اس کی تفسیر قرآن کریم سے غنا حاصل کرنا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5024]
حدیث حاشیہ:

عربی زبان میں (تَغَنِّي)
کے کئی معنی ہیں جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
۔
(تحسين الصوت)
یعنی قرآن کریم کو خوش الحانی اور بہترین آواز سے پڑھنا۔
۔
(استغنا)
قرآن کریم کی وجہ سے دیگر کتب سے بے پروا ہو جانا اور ان کی طرف کوئی توجہ نہ دینا۔
۔
(التحزن)
یعنی قرآن کریم کو غم و اندوہ سے پڑھا تا کہ فکر آخرت پیدا ہو۔
۔
(التشاغل)
یعنی قرآن کریم میں اس قدر مصروف ہو جانا کہ دوسری کسی چیز کی طرف توجہ نہ جائے۔
۔
(التلذز)
یعنی قران کریم پڑھتے وقت الذت و سرور حاصل کرنا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دوسرے معنی کو ترجیح دی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کسی دوسری کتاب کی طرف توجہ نہ دی جائے اور نہ ان کی پروا ہی کرے۔
تائید کے لیے انھوں نے درج ذیل بالا آیت کریمہ پیش کی ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5024   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.