الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
2. بَابُ: {مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلاَةَ وَلاَ تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ} :
2. باب: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ”اللہ پاک کی طرف رجوع کرنے والے (ہو جاؤ) اور اس سے ڈرو اور نماز قائم کرو اور مشرکین میں سے نہ ہو جاؤ“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: (And remain always) turning in repentance to Him (only), and be afraid and dutiful to Him; and perform As-Salat (Iqamat-as-Salat) and be not of Al-Mushrikun (the disbelievers in the Oneness of Allah, polytheists.idolaters)." (V.30:31)
حدیث نمبر: 523
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا عباد هو ابن عباد، عن ابي جمرة، عن ابن عباس، قال: قدم وفد عبد القيس على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالوا: إنا من هذا الحي من ربيعة ولسنا نصل إليك إلا في الشهر الحرام، فمرنا بشيء ناخذه عنك وندعو إليه من وراءنا، فقال:" آمركم باربع وانهاكم عن اربع، الإيمان بالله، ثم فسرها لهم شهادة ان لا إله إلا الله واني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وان تؤدوا إلي خمس ما غنمتم، وانهى عن، الدباء، والحنتم، والمقير، والنقير".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَدِمَ وَفْدُ عَبْدِ الْقَيْسِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: إِنَّا مِنْ هَذَا الْحَيِّ مِنْ رَبِيعَةَ وَلَسْنَا نَصِلُ إِلَيْكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ، فَمُرْنَا بِشَيْءٍ نَأْخُذْهُ عَنْكَ وَنَدْعُو إِلَيْهِ مَنْ وَرَاءَنَا، فَقَالَ:" آمُرُكُمْ بِأَرْبَعٍ وَأَنْهَاكُمْ عَنْ أَرْبَعٍ، الْإِيمَانِ بِاللَّهِ، ثُمَّ فَسَّرَهَا لَهُمْ شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَأَنْ تُؤَدُّوا إِلَيَّ خُمُسَ مَا غَنِمْتُمْ، وَأَنْهَى عَنْ، الدُّبَّاءِ، وَالْحَنْتَمِ، وَالْمُقَيَّرِ، وَالنَّقِيرِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عباد بن عباد بصریٰ نے، اور یہ عباد کے لڑکے ہیں، ابوجمرہ (نصر بن عمران) کے ذریعہ سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انہوں نے کہا کہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ ہم اس ربیعہ قبیلہ سے ہیں اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں صرف حرمت والے مہینوں ہی میں حاضر ہو سکتے ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسی بات کا ہمیں حکم دیجیئے، جسے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھ لیں اور اپنے پیچھے رہنے والے دوسرے لوگوں کو بھی اس کی دعوت دے سکیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور چار چیزوں سے روکتا ہوں، پہلے اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفصیل بیان فرمائی کہ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں، اور دوسرے نماز قائم کرنے کا، تیسرے زکوٰۃ دینے کا، اور چوتھے جو مال تمہیں غنیمت میں ملے، اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرنے کا اور تمہیں میں تونبڑی حنتم، قسار اور نقیر کے استعمال سے روکتا ہوں۔ (نوٹ: یہ تمام برتن شراب بنانے کے لیے استعمال ہوتے تھے)۔

Narrated Ibn `Abbas: "Once a delegation of `Abdul Qais came to Allah's Apostle and said, "We belong to such and such branch of the tribe of Rab'a [??] and we can only come to you in the sacred months. Order us to do something good so that we may (carry out) take it from you and also invite to it our people whom we have left behind (at home)." The Prophet said, " I order you to do four things and forbid you from four things. (The first four are as follows): -1. To believe in Allah. (And then he: explained it to them i.e.) to testify that none has the right to be worshipped but Allah and (Muhammad) am Allah's Apostle -2. To offer prayers perfectly (at the stated times): -3. To pay Zakat (obligatory charity) -4. To give me Khumus (The other four things which are forbidden are as follows): -1. Dubba -2. Hantam -3. Muqaiyat [??] -4. Naqir (all these are utensils used for the preparation of alcoholic drinks).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 501


   سنن النسائى الصغرى5034عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله
   صحيح البخاري7556عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع آمركم بالإيمان بالله هل تدرون ما الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة
   صحيح البخاري6176عبد الله بن عباسأربع وأربع أقيموا الصلاة آتوا الزكاة صوموا رمضان أعطوا خمس ما غنمتم لا تشربوا في الدباء والحنتم والنقير والمزفت
   صحيح البخاري53عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصيام رمضان وأن تعطوا من المغنم الخمس ونهاهم عن أربع عن الح
   صحيح البخاري3095عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وعقد بيده وإقام الصلاة
   صحيح البخاري7266عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة
   صحيح البخاري4369عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وعقد واحدة وإقام الصلاة
   صحيح البخاري4368عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله هل تدرون ما الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة
   صحيح البخاري3510عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله شهادة أن لا إله إلا الله وإقام الصلاة
   صحيح البخاري87عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وتعطوا الخمس من المغنم ونهاهم عن الدباء و
   صحيح البخاري523عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله
   صحيح البخاري1398عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله وشهادة أن لا إله إلا الله وعقد بيده هكذا
   صحيح مسلم115عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وأن تؤدوا خمس ما غنمتم أنهاكم عن الدباء والحنتم والنقير والمقير
   صحيح مسلم116عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وأن تؤدوا خمسا
   جامع الترمذي2611عبد الله بن عباسآمركم بأربع الإيمان بالله ثم فسرها لهم شهادة أن لا إله إلا الله وأني رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة
   سنن أبي داود3692عبد الله بن عباسآمركم بأربع وأنهاكم عن أربع الإيمان بالله وشهادة أن لا إله إلا الله وعقد بيده واحدة
   سنن أبي داود4677عبد الله بن عباسشهادة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وإقام الصلاة وإيتاء الزكاة وصوم رمضان وأن تعطوا الخمس من المغنم
   مشكوة المصابيح17عبد الله بن عباسفامرهم باربع ونهاهم عن اربع: امرهم بالإيمان بالله وحده

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 53  
´مال غنیمت سے پانچواں حصہ ادا کرنا بھی ایمان سے ہے`
«. . . فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار قسم کے برتنوں کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 53]

تشریح:
یہاں بھی مرجیہ کی تردید مقصود ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ومذهب السلف فى الايمان من كون الاعمال داخلة فى حقيقته فانه قد فسرالاسلام فى حديث جبرئيل بما فسربه الايمان فى قصة وفدعبدالقيس فدل هذا على ان الاشياءالمذكورة وفيها اداءالخمس من اجزاءالايمان وانه لا بدفي الايمان من الاعمال خلافا للمرجئة۔» [مرعاة، جلد اول، ص: 45]
یعنی سلف کا مذہب یہی ہے کہ اعمال ایمان کی حقیقت میں داخل ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبرئیل علیہ السلام (مذکورہ سابقہ) میں اسلام کی جو تفسیر بیان فرمائی وہی تفسیر آپ نے وفد عبدالقیس کے سامنے ایمان کی فرمائی۔ پس یہ دلیل ہے کہ اشیاء مذکورہ جن میں مال غنیمت سے خمس ادا کرنا بھی ہے یہ سب اجزاء ایمان سے ہیں اور یہ کہ ایمان کے لیے اعمال کا ہونا لابدی ہے۔ مرجیہ اس کے خلاف ہیں۔ (جو ان کی ضلالت و جہالت کی دلیل ہے)۔

جن برتنوں کے استعمال سے آپ نے منع فرمایا ان میں عرب کے لوگ شراب رکھا کرتے تھے۔ جب پینا حرام قرار پایا تو چند روز تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان برتنوں کے استعمال کی بھی ممانعت فرما دی۔

یادرکھنے کے قابل:
یہاں حضرت مولانامبارک پوری رحمہ اللہ نے ایک یاد رکھنے کے قابل بات فرمائی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
«قال الحافظ وفيه دليل على تقدم اسلام عبدالقيس على قبائل الذين كانوا بينهم وبين المدينة ويدل على سبقهم الي الاسلام ايضا مارواه البخاري فى الجمعة عن ابن عباس قال ان اول جمعة جمعت بعدجمعة فى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم فى مسجد عبدالقيس بجواثي من البحرين وانما جمعوا بعدرجوع وفدهم اليهم فدل على انهم سبقوا جميع القريٰ الي الاسلام انتهي واحفظه فانه ينفعك فى مسئلة الجمعة فى القريٰ۔» [مرعاة، جلد: اول، ص: 44]
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ عبدالقیس کا قبیلہ مضر سے پہلے اسلام قبول کر چکا تھا جو ان کے اور مدینہ کے بیچ میں سکونت پذیر تھے۔ اسلام میں ان کی سبقت پر بخاری کی وہ حدیث بھی دلیل ہے جو نماز جمعہ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ مسجد نبوی میں اقامت جمعہ کے بعد پہلا جمعہ جواثی نامی گاؤں میں جو بحرین میں واقع تھا، عبدالقیس کی مسجد میں قائم کیا گیا۔ یہ جمعہ انہوں نے مدینہ سے واپسی کے بعد قائم کیا تھا۔ پس ثابت ہوا کہ وہ دیہات میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے ہیں۔ اسے یاد رکھو یہ گاؤں میں جمعہ ادا ہونے کے ثبوت میں تم کو نفع دے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 53   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 87  
´علم کی باتیں یاد کرنا اور دوسروں کو بتانا`
«. . . قَالَ: احْفَظُوهُ وَأَخْبِرُوهُ مَنْ وَرَاءَكُمْ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان (باتوں کو) یاد رکھو اور اپنے پیچھے (رہ جانے) والوں کو بھی ان کی خبر کر دو . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 87]

تشریح:
نوٹ: یہ حدیث کتاب الایمان کے اخیر میں گزر چکی ہے۔ حضرت امام نے اس سے ثابت فرمایا ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو تحصیل علم کے لیے ترغیب و تحریص سے کام لے سکتا ہے۔ مزید تفصیل وہاں دیکھی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 87   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 17  
´وفد عبدالقیس کو ایمانیات کی تعلیم`
«. . . وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: إِنَّ وَفْدَ عَبْدِ الْقَيْسِ لَمَّا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ الْقَوْمُ؟ أَوْ: مَنِ الْوَفْدُ؟ " قَالُوا: رَبِيعَةُ. قَالَ: " مَرْحَبًا بِالْقَوْمِ أَوْ: بِالْوَفْدِ غَيْرَ خَزَايَا وَلَا نَدَامَى ". قَالُوا: يَا رَسُول الله إِنَّا لَا نستطيع أَن نَأْتِيَكَ إِلَّا فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ وَبَيْنَنَا وَبَيْنَكَ هَذَا الْحَيُّ مِنْ كُفَّارِ مُضَرَ فَمُرْنَا بِأَمْرٍ فصل نخبر بِهِ مَنْ وَرَاءَنَا وَنَدْخُلُ بِهِ الْجَنَّةَ وَسَأَلُوهُ عَنِ الْأَشْرِبَةِ. فَأَمَرَهُمْ بِأَرْبَعٍ وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: - [13] - أَمَرَهُمْ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ وَحْدَهُ قَالَ: «أَتَدْرُونَ مَا الْإِيمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ؟» قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ. قَالَ: «شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ وَصِيَامِ رَمَضَانَ وَأَنْ تُعْطُوا مِنَ الْمَغْنَمِ الْخُمُسَ» ‏‏‏‏وَنَهَاهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنِ الْحَنْتَمِ وَالدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ وَقَالَ: «احْفَظُوهُنَّ وَأَخْبِرُوا بِهِنَّ مَنْ وَرَاءَكُمْ» وَلَفظه للْبُخَارِيّ ‏‏‏‏ . . .»
. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ وفد کس قبیلے کا ہے یا کس قوم کا ہے؟ (اس میں راوی حدیث کا شبہہ ہے کہ آپ نے لفظ «قوم» فرمایا یا لفظ «قبيله» فرمایا) انہوں نے کہا: ہم ربیعہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحبا اور خوش آمدید فرمایا، اس وفد یا قوم کو مبارک ہو، نہ دنیا میں ذلت و رسوائی ہو اور نہ آخرت میں شرمندگی نصیب ہو (یہ ان کے حق میں دعائے خیر اور بشارت ہے) ان لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! (ہم دور دراز مسافت طے کر کے آئے ہیں) صرف عزت و احترام والے مہینے میں آ سکتے ہیں جن میں جنگ حرام ہے (دیگر مہینوں میں نہیں آ سکتے اس لیے کہ ہمارے اور آپ کے درمیان کفار مضر کا قبیلہ حائل ہے جب غیر محرم کے مہینے میں حاضر ہوں گے تو مضر والے جنگ کریں گے اس لیے ہم انہیں مہینوں میں حاضر ہو سکتے ہیں جن میں کافروں کے نزدیک بھی لڑائی حرام ہے) اس لیے آپ کوئی ایسی فیصل بات بتا دیجیے کہ جو لوگ پیچھے رہ گئے ہیں انہیں جا کر بتائیں اور ہم خود بھی اس پر عمل کر کے جنت میں داخل ہونے کے لائق ہو جائیں۔ اور اسی کے ساتھ ہی ان لوگوں نے ان برتنوں کی بابت بھی دریافت کیا جن میں پہلے نبیذ بنائی جاتی تھی کہ اب ان برتنوں کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع فرمایا: انہیں اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم دیا کہ تم صرف ایک اللہ پر ایمان لاؤ۔ (یہ کہہ کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جانتے ہو اللہ تعالیٰ پر ایمان کس طرح ہوتا ہے؟ (یا اللہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے؟) ان لوگوں نے عرض کیا کہ اس کو اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پر ایمان لانا اس طرح ہوتا ہے کہ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے وہی عبادت کے لائق ہے، اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ (بیت المال) کو دینا۔ اور ان چار برتنوں کے استعمال سے منع فرمایا۔ «حنتم» یعنی لاکھی ٹھلیا یا لاکھی مرتبان سے، «اَلدُّبَا» یعنی کدو کے تونبے سے، «نقير» یعنی لکڑی کے بنے ہوئے برتن سے، اور «مزفت» یعنی روغن دار رال کے برتن سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان باتوں کو یاد کر لو اور جو تمہارے پیچھے رہ گئے ہیں ان کو جاکر بتا دو۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 17]

تخریج الحدیث:
[صحیح بخاری 53]،
[صحيح مسلم 115،116]

فقہ الحدیث
➊ حصول علم اور جنت میں جانے کا جذبہ کس قدر صادق ہے کہ ہر قسم کی آزمائش کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میلوں کا سفر طے کیا، اسی طرح معرفت حق کے بعد دوسرے تک پہنچانے کا جذبہ بھی لائق تحسین ہے۔ سبحان اللہ
➋ اس حدیث میں واضح ثبوت ہے کہ اعمال ایمان میں داخل ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور مال غنیمت کی ادائیگی کو ایمان میں سے قرار دیا ہے۔ اس فرمان نبوی کے سراسر برعکس گمراہ فرقہ مرجیہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اعمال ایمان سے خارج ہیں۔!!
➌ سلام و کلام کے بعد مہمانوں کو خوش آمدید کہنا صحیح ہے۔ نیز شبہات سے بچنے میں ہی احتیاط ہے۔
➍ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث یاد کر کے دوسرے لوگوں تک پہنچانا جنت میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ اس حدیث سے محدثین کرام کی زبردست فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
➎ سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں تین باتوں سے منع کیا تھا، اب میں تمہیں ان کے بارے میں حکم دیتا ہوں، میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا، اب ان کی زیارت کو چلے جایا کرو، یقیناً ان کی زیارت میں عبرت اور نصیحت ہے۔ میں نے تمہیں چمڑے کے برتنوں کے علاوہ کئی برتنوں میں پینے سے روکا تھا، تو (اب) ہر قسم کے برتنوں میں پی سکتے ہو لیکن کوئی نشہ آور چیز مت پیو۔ میں نے تمہیں قربانی کا گوشت تین دن کے بعد استعمال کرنے سے روکا تھا، اب اسے کھا سکتے ہو اور اپنے سفروں میں اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ [صحيح مسلم: 977، سنن ابي داود: 3298وللفظ له]
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں جو ممانعت وارد ہوئی ہے وہ منسوخ ہے۔ واللہ اعلم
➏ بعض اوقات مومن کمزور بھی ہو سکتا ہے، مگر اسے ہر حال میں کتاب و سنت پر ڈٹا رہنا چاہیے۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2611  
´ایمان میں دوسرے فرائض و واجبات کے داخل ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عبدقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، انہوں نے آپ سے عرض کیا: (اے اللہ کے رسول!) ہمارے اور آپ کے درمیان ربیعہ کا یہ قبیلہ حائل ہے، حرمت والے مہینوں کے علاوہ مہینوں میں ہم آپ کے پاس آ نہیں سکتے ۱؎ اس لیے آپ ہمیں کسی ایسی چیز کا حکم دیں جسے ہم آپ سے لے لیں اور جو ہمارے پیچھے ہیں انہیں بھی ہم اس کی طرف بلا سکیں، آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار چیزوں کا حکم دیتا ہوں (۱) اللہ پر ایمان لانے کا، پھر آپ نے ان سے اس کی تفسیر و تشریح بیان کی «لا إلہ الا اللہ» اور «محمد رسول ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2611]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حرمت والے مہینے چار ہیں:
رجب،
ذی قعدہ،
ذی الحجہ اور محرم،
چونکہ زمانہ جاہلیت میں ان مہینوں کو چھوڑ کر باقی دوسرے مہینوں میں جنگ و جدال جاری رہتا تھا،
اسی لیے قبیلۂ عبدقیس کے وفد کے لوگوں نے آپ ﷺ سے دوسرے مہینوں میں آپ تک نہ پہنچ سکنے کی معذرت کی اور آپﷺ سے دین کی اہم اور بنیادی باتیں پوچھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2611   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3692  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عبدالقیس کا وفد آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ بنو ربیعہ کا ایک قبیلہ ہیں، ہمارے اور آپ کے درمیان مضر کے کفار حائل ہیں، ہم آپ تک حرمت والے مہینوں ۱؎ ہی میں پہنچ سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں کچھ ایسی چیزوں کا حکم دے دیجئیے کہ جن پر ہم خود عمل کرتے رہیں اور ان لوگوں کو بھی ان پر عمل کے لیے کہیں جو اس وفد کے ساتھ نہیں آئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں، اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن کا حکم دیتا ہوں وہ یہ ہیں ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3692]
فوائد ومسائل:

حق کی معرفت لازمی طور پر اس بات کا تقاضا کرتی ہے۔
کہ انسان اس پر کاربند ہو اور دوسروں کو اس کی دعوت دے اور یہی فطرت سلیمہ ہے۔
جیسے کہ ان لوگوں نے اپنی ابتدائی گفتگو میں از خود اس کا اظہار کیا۔


دین واحکام کچھ احکام اور کچھ نواہی پر مشتمل ہے جس کی پاسداری کے بغیر اسلام اور دین مکمل نہیں ہوسکتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3692   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:523  
523. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: عبدالقیس کا وفد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، انھوں نے عرض کیا: ہمارا تعلق ربیعہ قبیلے سے ہے اور ہم آپ ﷺ کے ہاں صرف حرمت والے مہینوں میں حاضری دے سکتے ہیں، اس لیے آپ ہمیں ایسی باتوں کی تلقین کریں جن پر ہم خود بھی عمل کریں اور اپنے باقی ماندہ لوگوں کو بھی دعوت دیں۔ آپ نے فرمایا: میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اور چار باتوں سے منع کرتا ہوں: اللہ پر ایمان لانا۔۔۔ پھر اس کی وضاحت فرمائی۔۔ اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں، نیز نماز قائم کرنا، زکاۃ دینا اور مال غنیمت سے پانچواں حصہ مجھے ادا کرنا۔ اور میں دباء، حنتم، مقيراورنقير کے استعمال سے منع کرتا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:523]
حدیث حاشیہ:
(1)
باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ آیت مبارکہ میں نفئ شرک کو اقامتِ صلاۃ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور مذکورہ حدیث میں توحید اور اقامت صلاۃ کو اکٹھا بیان کیا گیا ہے، ایمان اور ترک شرک ایک ہی چیز ہے۔
(عمدة القاري: 9/4) (2)
عرب کے دو خاندان ربیعہ اور مضر دور جاہلیت ہی سے ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے تھے۔
ظہور اسلام کے بعد ربیعہ قبیلہ مسلمان ہوگیا۔
انھیں مدینہ طیبہ آنے کے لیے مضر قبیلے کے پاس سے ہو کرگزرنا پڑتا تھا۔
خونریزی اور باہمی جنگ وقتال سے بچنے کے لیےوہ صرف حرمت والے مہینوں میں ہی سفر کرسکتے تھے، کیونکہ ان کااحترام تمام اہل عرب کرتے تھے۔
حدیث میں وفد عبدالقیس نے اپنی اسی مجبوری کا ذکر کیا ہے۔
(3)
عرب لوگ شراب کے رسیا تھے اور شراب کے لیے مندرجہ ذیل برتنوں کو استعمال کرتے تھے:
٭دباء:
خشک کدو، جسے صاف کرکے بطور برتن استعمال کیا جاتا تھا۔
٭حنتم:
سرخی مائل سبز رنگ کا روغنی مرتبان۔
٭ مقير:
تار کول سے روغن کیا ہوا برتن۔
٭نقير:
کھجور کے تنے کوکرید کر تیار کردہ ایک برتن۔
ان برتنوں میں شراب رکھنے سےاس کا نشہ دوآتشہ بلکہ سہ آتشہ ہوجاتا۔
جب شراب کو حرام کردیا گیا تو سد ذرائع کے طور پران برتنوں کا استعمال بھی ممنوع کردیا۔
جسےبعد میں منسوخ کردیا کہ ان برتنوں کے استعمال میں اب کوئی حرج نہیں۔
(4)
حدیث میں ہے کہ جس نے دانستہ نماز ترک کردی وہ کافر ہوگیا۔
(صحیح الترغیب والترھیب، الصلاة، حدیث: 575)
امام بخاری ؒ آیت کریمہ اور حدیث مذکور سے اس کے معنی متعین کرنا چاہتے ہیں کہ ترک صلاۃ سے انسان حقیقی کافر نہیں بن جاتا بلکہ اس شخص نے کافروں جیسا طرز عمل اختیار کرلیا ہے، اسے چاہیے کہ وہ اپنے اس رویے پر غور کرے۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 523   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.