الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
12. بَابُ الأَذَانِ بَعْدَ الْفَجْرِ:
12. باب: صبح ہونے کے بعد اذان دینا۔
(12) Chapter. The Adhan after Al-Fajr (dawn).
حدیث نمبر: 619
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا شيبان، عن يحيى، عن ابي سلمة، عن عائشة" كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَالْإِقَامَةِ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف سے، انہوں نے عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے تھے۔

Narrated `Aisha: The Prophet used to offer two light rak`at between the Adhan and the Iqama of the Fajr prayer.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 592


   صحيح البخاري619عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح
   صحيح البخاري626عائشة بنت عبد اللهسكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يستبين الفجر ثم اضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المؤذن للإقامة
   صحيح البخاري1171عائشة بنت عبد اللهيخفف الركعتين اللتين قبل صلاة الصبح حتى إني لأقول هل قرأ بأم الكتاب
   صحيح البخاري1161عائشة بنت عبد اللهإذا صلى سنة الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة
   صحيح البخاري1160عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن
   صحيح مسلم1683عائشة بنت عبد اللهكان يصلي ركعتين بين النداء والإقامة من صلاة الصبح
   صحيح مسلم1684عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتي الفجر فيخفف حتى إني أقول هل قرأ فيهما بأم القرآن
   صحيح مسلم1681عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتي الفجر إذا سمع الأذان ويخففهما
   صحيح مسلم1685عائشة بنت عبد اللهإذا طلع الفجر صلى ركعتين أقول هل يقرأ فيهما بفاتحة الكتاب
   صحيح مسلم1732عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع
   سنن أبي داود1263عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر فإن كنت نائمة اضطجع وإن كنت مستيقظة حدثني
   سنن أبي داود1255عائشة بنت عبد اللهيخفف الركعتين قبل صلاة الفجر حتى إني لأقول هل قر
   سنن أبي داود1262عائشة بنت عبد اللهإذا قضى صلاته من آخر الليل نظر فإن كنت مستيقظة حدثني وإن كنت نائمة أيقظني وصلى الركعتين ثم اضطجع يأتيه المؤذن فيؤذنه بصلاة الصبح فيصلي ركعتين خفيفتين ثم يخرج إلى الصلاة
   سنن النسائى الصغرى947عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتي الفجر فيخففهما حتى أقول أقرأ فيهما بأم الكتاب
   سنن النسائى الصغرى1781عائشة بنت عبد اللهيصلي ركعتين خفيفتين بين النداء والإقامة من صلاة الفجر
   سنن النسائى الصغرى1763عائشة بنت عبد اللهإذا سكت المؤذن بالأولى من صلاة الفجر قام فركع ركعتين خفيفتين قبل صلاة الفجر بعد أن يتبين الفجر يضطجع على شقه الأيمن
   سنن ابن ماجه1198عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الأيمن
   بلوغ المرام287عائشة بنت عبد اللهيخفف الركعتين اللتين قبل صلاة الصبح حتى إني اقول: اقرا بام الكتاب
   بلوغ المرام289عائشة بنت عبد اللهإذا صلى ركعتي الفجر اضطجع على شقه الايمن
   مسندالحميدي181عائشة بنت عبد اللهإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي ركعتي الفجر فأقول هل قرأ فيهما بفاتحة الكتاب من التخفيف؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 947  
´فجر کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فجر کی سنتیں پڑھتے دیکھتی، آپ انہیں اتنی ہلکی پڑھتے کہ میں (اپنے جی میں) کہتی تھی: کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں میں سورۃ فاتحہ پڑھی ہے (یا نہیں)۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 947]
947 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ مبالغہ ہے جس سے مقصود تخفیف ہے، نہ کہ انہیں شک تھا۔ خصوصاً رات کی نماز (تہجد) کے مقابلے میں تو یہ بہت ہی خفیف معلوم ہوتی ہوں گی، چنانچہ اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ فجر کی دو سنتیں ہلکی پڑھنا مستحب ہے۔
➋ مذکورہ قرأت سورۂ فاتحہ کے علاوہ ہے۔ یہ نہیں کہ صرف یہ آیات یا یہ سورتیں ہی پڑھتے تھے۔ سورۂ فاتحہ کے بارے میں تو آپ کا صریح فرمان ہے کہ جو فاتحہ نہ پڑھے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ [صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 756، و صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 874]

   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 947   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1198  
´وتر کے بعد اور فجر کی دو رکعت سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی دو رکعت سنت پڑھ لیتے تو دائیں کروٹ لیٹ جاتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1198]
اردو حاشہ:
فائده:
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا سنت ہے۔
لیکن نبی اکرمﷺ سے بعض اوقات نہ لیٹنا بھی ثابت ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہی سے مروی ہے۔
انھوں نے فرمایا نبی اکرمﷺ جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے بات چیت كرتے ورنہ لیٹ جائے حتیٰ کہ آپ کو نماز (کی اقامت ہوجانے)
کی اطلاع دی جاتی۔ (صحیح البخاري، التهجد، باب من تحدث بعدالرکعتین ولم یضطع، حدیث: 1161)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1198   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 287  
´نفل نماز کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر سے پہلے دو رکعت ہلکی پڑھتے تھے۔ میں خیال کرتی کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف «‏‏‏‏ام الكتاب» ‏‏‏‏ (سورۃ الفاتحہ) ہی پڑھی۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 287»
تخریج:
«أخرجه البخاري، التهجد، باب ما يقرأ في ركعتي الفجر، حديث:1171، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب ركعتي سنة الفجر، حديث:724.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صبح کی دو سنتیں مختصر اور ہلکی پڑھتے تھے۔
امام شافعی اور جمہور علماء رحمہما اللہ نے اسی بنا پر کہا ہے کہ ان دو رکعتوں میں مختصر قیام افضل ہے جبکہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ان میں بھی لمبا قیام افضل قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ صحیح نہیں۔
ان کے دونوں شاگرد امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ نے بھی ان کی مخالفت کی ہے۔
سورۂ فاتحہ کے علاوہ آپ چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے جیسا کہ آئندہ حدیث میں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 287   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1262  
´فجر کی سنت کے بعد لیٹنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری رات میں اپنی نماز پوری کر چکتے تو اگر میں جاگ رہی ہوتی تو آپ مجھ سے گفتگو کرتے اور اگر سو رہی ہوتی تو مجھے جگا دیتے، اور دو رکعتیں پڑھتے پھر لیٹ جاتے، یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آتا اور آپ کو نماز فجر کی خبر دیتا تو آپ دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے، پھر نماز کے لیے نکل جاتے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1262]
1262۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں وتروں کے بعد گفتگو کرنے اور دو رکعتیں پڑھ کر لیٹ جانے کا ذکر ہے۔ جس سے یہ استدلال کیا جاتا ہے کہ فجر کی دو سنتوں کے بعد لیٹنا سنت نہیں ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم تو یوں ہی استرحت کے لیے لیٹ جاتے تھے، کبھی نماز تہجد کے بعد (جیسا کہ اس حدیث میں ہے) اور کبھی فجر کی سنتوں کے بعد۔ لیکن یہ استدلال اس لیے صحیح نہیں کہ اس حدیث میں گفتگو کرنے اور وتروں کے بعد لیٹنے والی بات محفوظ نہیں ہے یعنی ایک راوی کو وہم ہوا ہے، جب کہ دوسرے تمام راویوں نے لیٹنے کا ذکر سنتوں کے بعد ہی کیا ہے۔ اس لیے فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنے کو غیر مستحب قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ ملاحظہ ہو: [فتح الباري، باب من تحدث بعد الركعتين ولم يضطجع: 3/56]
علاوہ ازیں شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی فجر کی سنتوں سے پہلے لیٹنے اور گفتگو کرنے کو شاذ قرار دیا ہے۔ [ضعيف ابوداؤد]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ وتروں کے بعد دو رکعتیں نفل پڑھنا بھی جائز ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو یہ فرمایا ہے کہ تم وتر کو اپنی رات کی آخری نماز بناؤ۔ تو یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں، استحباب کے طور پر ہے۔ [مرعاة المفاتيح]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1262   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:619  
619. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ نبی ﷺ نماز صبح کی اذان اور اقامت کے درمیان دو ہلکی سی رکعات پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:619]
حدیث حاشیہ:
ظاہر کے اعتبار سے اس حدیث کا عنوان سے کوئی تعلق معلوم نہیں ہوتا کیونکہ عنوان طلوع فجر کے بعد اذان دینے سے متعلق ہے جبکہ حدیث اقامت اور اذان کے درمیان دورکعت پڑھنے کے بارے میں ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ کا اپنی صحیح میں یہ اسلوب ہے کہ بعض اوقات ایک حدیث کے ذریعے سے کسی دوسری حدیث کی طرف اشارہ مقصود ہوتا ہے، چنانچہ اس مقام پر بھی آپ نے یہی انداز اختیار کیا ہے کہ آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک دوسری حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسی سے عنوان ثابت ہوتا ہے، چنانچہ ان سے روایت ہے کہ جب مؤذن نماز صبح کی اذان دے کر خاموش ہو جاتا تو رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوتے اور نماز فجر ادا کرنے سے پہلے ہلکی پھلکی دورکعت ادا کرتے۔
سنتوں کی یہ ادائیگی فجر کے روشن ہونے کے بعد ہوتی۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 626)
اس روایت میں وضاحت ہے کہ صبح کی نماز کےلیے طلوع فجر کے بعد اذان دی جاتی تھی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 619   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.