الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قسموں اور نذروں کے بیان میں
The Book of Oaths and Vows
1. بَابُ قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا عَقَّدْتُمُ الأَيْمَانَ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاكِينَ مِنْ أَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ أَهْلِيكُمْ أَوْ كِسْوَتُهُمْ أَوْ تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ ذَلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمَانِكُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا أَيْمَانَكُمْ كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} :
1. باب: اللہ تعالیٰ نے سورۃ المائدہ میں فرمایا ”اللہ تعالیٰ لغو قسموں پر تم کو نہیں پکڑے گا، البتہ ان قسموں پر پکڑے گا جنہیں تم پکے طور سے کھاؤ۔ پس اس کا کفارہ دس مسکینوں کو معمولی کھانا کھلانا ہے، اس اوسط کھانے کے مطابق جو تم اپنے گھر والوں کو کھلاتے ہو یا ان کو کپڑا پہنانا یا ایک غلام آزاد کرنا۔ پس جو شخص یہ چیزیں نہ پائے تو اس کے لیے تین دن کے روزے رکھنا ہے۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جس وقت تم قسم کھاؤ اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے حکموں کو کھول کر بیان کرتا ہے۔ شاید کہ تم شکر کرو۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “Allah will not punish you for what is unintentional in your oaths, but He will punish you for your deliberate oaths; for its expiation (a deliberate oath) feed ten poor persons, on a scale of the average of that with which you feed your own families; or clothe them; or manumit a slave. But whosoever cannot afford (that), then he should fast for three days. That is the expiation for the oath when you have sworn. And protect your oaths (i.e., do not swear much). Thus Allah make clear to you His Ayat (proofs, evidances, verses, lessons, signs, revelations, etc.) that you may be grateful." (V.5:89)
حدیث نمبر: 6622
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو النعمان محمد بن الفضل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا الحسن، حدثنا عبد الرحمن بن سمرة، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا عبد الرحمن بن سمرة، لا تسال الإمارة، فإنك إن اوتيتها عن مسالة وكلت إليها، وإن اوتيتها من غير مسالة اعنت عليها، وإذا حلفت على يمين فرايت غيرها خيرا منها، فكفر عن يمينك، وات الذي هو خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُوتِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُوتِيتَهَا مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا، وَإِذَا حَلَفْتَ عَلَى يَمِينٍ فَرَأَيْتَ غَيْرَهَا خَيْرًا مِنْهَا، فَكَفِّرْ عَنْ يَمِينِكَ، وَأْتِ الَّذِي هُوَ خَيْرٌ".
ہم سے ابونعمان محمد بن فضل سدوسی نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا، کہا ہم سے امام حسن بصری نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! کبھی کسی حکومت کے عہدہ کی درخواست نہ کرنا کیونکہ اگر تمہیں یہ مانگنے کے بعد ملے گا تو اللہ پاک اپنی مدد تجھ سے اٹھا لے گا، تو جان، تیرا کام جانے اور اگر وہ عہدہ تمہیں بغیر مانگے مل گیا تو اس میں اللہ کی طرف سے تمہاری اعانت کی جائے گی اور جب تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو۔

Narrated `Abdur-Rahman bin Samura: The Prophet said, "O `Abdur-Rahman bin Samura! Do not seek to be a ruler, because if you are given authority for it, then you will be held responsible for it, but if you are given it without asking for it, then you will be helped in it (by Allah): and whenever you take an oath to do something and later you find that something else is better than the first, then do the better one and make expiation for your oath."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 78, Number 619


   صحيح البخاري6722عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها من غير مسألة أعنت عليها وإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
   صحيح البخاري7147عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها إن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير وكفر عن يمينك
   صحيح البخاري7146عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
   صحيح البخاري6622عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أوتيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أوتيتها من غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وأت الذي هو خير
   صحيح مسلم4715عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة أكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   صحيح مسلم4281عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير
   جامع الترمذي1529عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أتتك عن مسألة وكلت إليها إن أتتك عن غير مسألة أعنت عليها إذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فأت الذي هو خير ولتكفر عن يمينك
   سنن أبي داود2929عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إذا أعطيتها عن مسألة وكلت فيها إلى نفسك وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   سنن النسائى الصغرى5386عبد الرحمن بن سمرةلا تسأل الإمارة فإنك إن أعطيتها عن مسألة وكلت إليها وإن أعطيتها عن غير مسألة أعنت عليها
   بلوغ المرام1173عبد الرحمن بن سمرة وإذا حلفت على يمين فرأيت غيرها خيرا منها فكفر عن يمينك وائت الذي هو خير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1173  
´(قسموں اور نذروں کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ اور اس کام کے خلاف کو بہتر دیکھو تو قسم کا کفارہ ادا کر دو اور جو بہتر ہے وہ کر لو۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری کے الفاظ یہ ہیں کہ جو کام بہتر ہے اسے کرو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔ اور ابوداؤد کی روایت میں اس طرح ہے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے کر وہ کام کرو جو بہتر ہے۔ دونوں احادیث کی سند صحیح ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1173»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأيمان والنذور، باب قول الله تعالي: "لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم"، حديث:6622، ومسلم، الأيمان، باب ندب من حلف يمينًا فرأي غير ها خيرًا منها...، حديث:1652، وأبوداود، الأيمان والنذور، حديث:3277.»
تشریح:
حدیث کے مجموعی الفاظ کفارے کی ادائیگی قسم توڑنے سے پہلے بھی اسی طرح جائز قرار دیتے ہیں جس طرح قسم توڑنے کے بعد۔
جمہور کا یہی مسلک ہے مگر احناف کے نزدیک قسم کا کفارہ قسم توڑنے سے پہلے ادا کرنا کسی صورت درست نہیں ہے۔
لیکن ابوداود کی مذکورہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے کیونکہ اس میں کفارے کے بعد ثُـمَّ کے لفظ سے امر خیر کا حکم ہے‘ اور ثُـمَّ کا لفظ ترتیب کا مقتضی ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوسعید ہے۔
شرف صحابیت سے مشرف ہیں۔
فتح مکہ کے بعد دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔
سجستان اور کابل کے فاتح ہیں۔
بصرہ میں سکونت پذیر ہوئے اور یہیں ۵۰ ہجری میں یا اس کے بعد وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1173   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1529  
´کسی کام پر قسم کھانے کے بعد اس سے بہتر کام جان جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبدالرحمٰن! منصب امارت کا مطالبہ نہ کرو، اس لیے کہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اسی کے سپرد کر دیئے جاؤ گے ۱؎، اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی مدد و توفیق تمہارے شامل ہو گی، اور جب تم کسی کام پر قسم کھاؤ پھر دوسرے کام کو اس سے بہتر سمجھو تو جسے تم بہتر سمجھتے ہو اسے ہی کرو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النذور والأيمان/حدیث: 1529]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی اللہ کی نصرت وتائید تمہیں حاصل نہیں ہوگی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1529   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2929  
´حکومت و اقتدار کو طلب کرنا کیسا ہے؟`
عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت و اقتدار کی طلب مت کرنا کیونکہ اگر تم نے اسے مانگ کر حاصل کیا تو تم اس معاملے میں اپنے نفس کے سپرد کر دئیے جاؤ گے ۱؎ اور اگر وہ تمہیں بن مانگے ملی تو اللہ کی توفیق و مدد تمہارے شامل حال ہو گی ۲؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2929]
فوائد ومسائل:
انسان کا کوئی معاملہ ایسا نہیں۔
جو اللہ عزوجل کی خاص رحمت اور مدد کے بغیر درست ہوسکے جب کہ حکومت تو بہت بڑی اور کٹھن ذمہ داری ہے۔
اس لئے مانگ کر حکومت لینا اللہ کی رحمت سے محرومی کا سبب بنتا ہے۔


حضرت یوسف ؑ کا یہ فرمانا کہ (اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ) (یوسف:55) مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کر دیجئے۔
کسی منصب کے طلب کےلئے نہیں، بلکہ ایک عمومی پیش کش پر نوعیت کی تعین کے لئے تھا۔
کیونکہ یہ بات اس وقت انہوں نے کہی جب عزیز مصر نے ذمہ داری کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ (إِنَّكَ الْيَوْمَ لَدَيْنَا مَكِينٌ أَمِينٌ) (یوسف:54) آپ آج سے ہمارے ہاں ذی مرتبہ اور امانت دار ہیں، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جب ملک وقوم کے حالات دگرگوں ہوں اور کوئی باصلاحیت فرد نیک نیتی سے یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس صورت حال سے عہدہ برآ ہ ہو سکتا ہے۔
تو اس کو آگے آنا چاہیے۔
ایسا شخص اگر امام عادل کے جیسے وصف سے موصوف ہو تو اس کے متعلق بشارتوں کا بھی اعلان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2929   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6622  
6622. حضرت عبدالرحمن بن سمرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: اے عبدالرحمن بن سمرہ! امارت طلب نہ کرنا کیونکہ اگر طلب کرنے سے تجھے امارت دی گئی تو تو اس کے سپرد کر دیا جائے گا اور اگر طلب کے بغیر تجھے امارت سونپ دی گئی تو تیری مدد کی جائے گی۔ اور جب تو قسم کھائے، پھر اس کی خلاف ورزی میں تجھے بہتری نظر آئے تو اپنی قسم توڑ کر اس کا کفارہ دے دو اور جو کام بہتر ہو اسے ضرور کرو،۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6622]
حدیث حاشیہ:
اگر کوئی آدمی خود کسی کو منصب کے اہل سمجھتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ کوئی دوسرا اس منصب پر آ کر ملک و ملت کا نقصان کرے گا تو امارت طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے وزارت مال کا قلمدان خود طلب کیا تھا۔
اس کی تفصیل کتاب الاحکام حدیث: 7146، 7147 میں بیان ہو گی، البتہ اس مقام پر یہ حدیث بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھاتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ قسم توڑ کر وہ کام کرنا یا نہ کرنا بہتر ہے تو اپنی قسم کا کفارہ دے دے جیسا کہ ایک دوسری حدیث میں ہے:
اگر کوئی قسم اٹھاتا ہے، پھر دیکھتا ہے کہ اس کے غیر میں بھلائی ہے تو بہتر کام کو کرے اور اپنی قسم کو چھوڑ دے۔
(مسند أحمد: 258/4)
ایک حدیث میں ہے:
بہتر کام کر گزرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 4277 (1651)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6622   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.