الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دیتوں کے بیان میں
The Book of Ad-Diyait (Blood - Money)
2. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَمَنْ أَحْيَاهَا} :
2. باب: اللہ تعالیٰ نے (سورۃ المائدہ میں) فرمایا ”جس نے مرتے کو بچا لیا اس نے گویا سب لوگوں کی جان بچا لی“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: “And if anyone saved a life...” (V.5:32)
حدیث نمبر: 6875
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن المبارك، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا ايوب، ويونس، عن الحسن، عن الاحنف بن قيس، قال: ذهبت لانصر هذا الرجل، فلقيني ابو بكرة، فقال: اين تريد؟ قلت: انصر هذا الرجل، قال: ارجع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إذا التقى المسلمان بسيفيهما، فالقاتل والمقتول في النار، قلت: يا رسول الله، هذا القاتل فما بال المقتول، قال: إنه كان حريصا على قتل صاحبه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، وَيُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: ذَهَبْتُ لِأَنْصُرَ هَذَا الرَّجُلَ، فَلَقِيَنِي أَبُو بَكْرَةَ، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قُلْتُ: أَنْصُرُ هَذَا الرَّجُلَ، قَالَ: ارْجِعْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ، قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ".
ہم سے عبدالرحمٰن بن المبارک نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے، کہا ہم سے ایوب اور یونس نے، ان سے امام حسن بصری نے، ان سے احنف بن قیس نے کہ میں ان صاحب (علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کی جنگ جمل میں مدد کے لیے تیار تھا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے میری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے پوچھا، کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ ان صاحب کی مدد کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ واپس چلے جاؤ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب دو مسلمان تلوار کھینچ کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں جاتے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک تو قاتل تھا لیکن مقتول کو سزا کیوں ملے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ بھی اپنے قاتل کے قتل پر آمادہ تھا۔

Narrated Al-Ahnaf bin Qais: I went to help that man (i.e., `Ali), and on the way I met Abu Bakra who asked me, "Where are you going?" I replied, "I am going to help that man." He said, "Go back, for I heard Allah's Apostle saying, 'If two Muslims meet each other with their swords then (both) the killer and the killed one are in the (Hell) Fire.' I said, 'O Allah's Apostle! It is alright for the killer, but what about the killed one?' He said, 'The killed one was eager to kill his opponent."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 83, Number 14


   صحيح البخاري7083نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فكلاهما من أهل النار قيل فهذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   صحيح البخاري30نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار فقلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   صحيح البخاري6875نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قلت يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   صحيح مسلم7253نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار
   صحيح مسلم7252نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال فقلت أو قيل يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه قد أراد قتل صاحبه
   صحيح مسلم7255نفيع بن الحارثالمسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا
   سنن أبي داود4268نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فالقاتل والمقتول في النار قال يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4128نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار
   سنن النسائى الصغرى4127نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار قالوا يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه أراد قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4126نفيع بن الحارثإذا التقى المسلمان بسيفيهما فقتل أحدهما صاحبه فالقاتل والمقتول في النار
   سنن النسائى الصغرى4125نفيع بن الحارثإذا تواجه المسلمان بسيفيهما كل واحد منهما يريد قتل صاحبه فهما في النار قيل له يا رسول الله هذا القاتل فما بال المقتول قال إنه كان حريصا على قتل صاحبه
   سنن النسائى الصغرى4121نفيع بن الحارثالمسلم على أخيه المسلم بالسلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتله خرا جميعا فيها
   سنن ابن ماجه3965نفيع بن الحارثالمسلمان حمل أحدهما على أخيه السلاح فهما على جرف جهنم فإذا قتل أحدهما صاحبه دخلاها جميعا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 30  
´حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے`
«. . . سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِذَا الْتَقَى الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ، فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟ قَالَ: إِنَّهُ كَانَ حَرِيصًا عَلَى قَتْلِ صَاحِبِهِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 30]

تشریح:
اس بات کا مقصد خوارج اور معتزلہ کی تردید ہے جو کبیرہ گناہ کے مرتکب کو کافر قرار دیتے ہیں۔ احنف بن قیس جنگ جمل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مددگاروں میں تھے۔ جب ابوبکرہ نے ان کو یہ حدیث سنائی تو وہ لوٹ گئے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوبکرہ نے اس حدیث کو مطلق رکھا۔ حالانکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلاوجہ شرعی دو مسلمان ناحق لڑیں اور حق پر لڑنے کی قرآن میں خود اجازت ہے۔ جیسا کہ آیت «فَإِنْ بَغَتْ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى» [الحجرات: 9] سے ظاہر ہے اس لیے احنف اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور انہوں نے ابوبکرہ کی رائے پر عمل نہیں کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کرتے وقت اس کا موقع محل بھی ضروری مدنظر رکھنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6875  
6875. حضرت احنف بن قیس سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اس شخص (حضرت علی بن ابی طالب ؓ) کی مدد کرنے کے لیے نکلا تو مجھے حضرت ابوبکرہ ؓ ملے۔ انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: اس صاحب کی مدد کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: واپس چلے جاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: جب دو مسلمان تلوار سونت کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! قاتل تو جہنمی ہوا مقتول کو یہ سزا کیوں ملے گی؟ آپ نےفرمایا وہ بھی اپنے حریف کے قتل پر آمادہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6875]
حدیث حاشیہ:
مگر اتفاق سے یہ موقع اس کو نہ ملا خود مارا گیا۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب بلا وجہ شرعی ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو مارنے کی نیت کرے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6875   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3965  
´جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب دو مسلمان ایک دوسرے پر ہتھیار اٹھاتے ہیں تو وہ جہنم کے کنارے پر ہوتے ہیں، پھر جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3965]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جہنم کے کنارے پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس غلطی کی وجہ سے ان دونوں کے جہنمی ہونے کا خطرہ ہوتا ہے لیکن ان کے لیے جہنم سے بچنے کا موقع باقی ہوتا ہے کہ لڑائی سے باز آجائیں۔

(2)
مومن کا قتل جہنم میں پہنچانے والا عمل ہے البتہ توبہ یا قصاص سے یہ گناہ معاف ہوسکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3965   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4268  
´فتنہ و فساد کے دنوں میں لڑائی کرنا منع ہے۔`
احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں لڑائی کے ارادہ سے نکلا (تاکہ علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف لڑوں) تو مجھے (راستہ میں) ابوبکرہ رضی اللہ عنہ مل گئے، انہوں نے کہا: تم لوٹ جاؤ کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جب دو مسلمان اپنی تلوار لے کر ایک دوسرے کو مارنے اٹھیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! قاتل (کا جہنم میں جانا) تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کا حال ایسا کیوں ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے بھی اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہا تھا۔‏‏‏۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4268]
فوائد ومسائل:
1) جب معاملہ کوئی واضح اور صریح نہ ہو اور دونوں جانب حق کا ایک پہلو موجود ہو تو ایسی صورت می الگ تھلگ رہنا مفید تر ہو تا ہے۔

2) اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے۔
جب دو شخص برسرِ پیکار ہوں معاملے اور نیتوں میں واضح فرق نہ ہو تو مقتول بھی قاتل کی طرح کہا گیا ہے، یہ الگ بات ہے کہ ایک کا داؤ چل گیا اور دوسرا گھائل ہو گیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4268   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6875  
6875. حضرت احنف بن قیس سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں اس شخص (حضرت علی بن ابی طالب ؓ) کی مدد کرنے کے لیے نکلا تو مجھے حضرت ابوبکرہ ؓ ملے۔ انہوں نے پوچھا: کہاں کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: اس صاحب کی مدد کرنے جا رہا ہوں۔ انہوں نے فرمایا: واپس چلے جاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: جب دو مسلمان تلوار سونت کر ایک دوسرے سے بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! قاتل تو جہنمی ہوا مقتول کو یہ سزا کیوں ملے گی؟ آپ نےفرمایا وہ بھی اپنے حریف کے قتل پر آمادہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6875]
حدیث حاشیہ:
مطلب یہ ہے کہ مقتول بھی اپنے مد مقابل کو قتل کرنے پر آمادہ تھا مگر اسے موقع نہ مل سکا، اس لیے وہ خود مارا گیا۔
بدنیتی کی وجہ سے وہ بھی جہنم میں جائے گا۔
یہ وعید اس وقت ہے جب وہ کسی تاویل کے بغیر کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔
اس کا مطلب صرف دشمنی اور طلب دنیا ہو لیکن جس نے بغاوت ختم کرنے کے لیے باغیوں سے جنگ کی یا کسی حملہ اور کا حملہ روکنے کے لیے ہتھیار اٹھائے اور انھیں قتل کر دیا تو وہ اس وعید میں داخل نہیں ہوگا۔
اس کے علاوہ اگر کوئی انسان اپنے مال اور اپنی عزت کے دفاع پر مامور ہے اور اس دوران میں اس سے قتل ہو جائے تو وہ بھی مذکورہ وعید کا حق دار نہیں ہوگا کیونکہ اس کا مقصود اس کا قتل نہیں بلکہ اپنا دفاع کرنا ہے۔
(فتح الباري: 245/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6875   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.