(مرفوع) فقال فيما اخذ علينا: ان بايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا، وعسرنا ويسرنا، واثرة علينا، وان لا ننازع الامر اهله إلا ان تروا كفرا بواحا عندكم من الله فيه برهان".(مرفوع) فَقَالَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا: أَنْ بَايَعَنَا عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي مَنْشَطِنَا وَمَكْرَهِنَا، وَعُسْرِنَا وَيُسْرِنَا، وَأَثَرَةً عَلَيْنَا، وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ إِلَّا أَنْ تَرَوْا كُفْرًا بَوَاحًا عِنْدَكُمْ مِنَ اللَّهِ فِيهِ بُرْهَانٌ".
انہوں (عبادہ بن صامت) نے بیان کیا کہ جن باتوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد لیا تھا ان میں یہ بھی تھا کہ خوشی و ناگواری، تنگی اور کشادگی اور اپنی حق تلفی میں بھی اطاعت و فرمانبرداری کریں اور یہ بھی کہ حکمرانوں کے ساتھ حکومت کے بارے میں اس وقت تک جھگڑا نہ کریں جب تک ان کو اعلانیہ کفر کرتے نہ دیکھ لیں۔ اگر وہ اعلانیہ کفر کریں تو تم کو اللہ کے پاس سے دلیل مل جائے گی۔
He said, "The Prophet called us and we gave him the Pledge of allegiance for Islam, and among the conditions on which he took the Pledge from us, was that we were to listen and obey (the orders) both at the time when we were active and at the time when we were tired, and at our difficult time and at our ease and to be obedient to the ruler and give him his right even if he did not give us our right, and not to fight against him unless we noticed him having open Kufr (disbelief) for which we would have a proof with us from Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 88, Number 178
بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره، وأن لا ننازع الأمر أهله، وأن نقول بالحق حيث ما كنا لا نخاف في الله عز وجل لومة لائم
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866
´بیعت کا بیان۔` عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔
(2) زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:
(ا) مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔
(ب) راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔
(ج) بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔
(د) بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔ حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔
(3) حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔
(4) اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔ اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔
(5) جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2866