الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
8. بَابُ مَنِ اسْتُرْعِيَ رَعِيَّةً فَلَمْ يَنْصَحْ:
8. باب: جو شخص رعیت کا حاکم بنے اور ان کی خیر خواہی نہ کرے اس کا عذاب۔
(8) Chapter. If somebody is assigned the authority of ruling some people but, he does not look after them in an honest manner!
حدیث نمبر: 7151
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا حسين الجعفي، قال زائدة، ذكره عن هشام، عن الحسن، قال: اتينا معقل بن يسار نعوده، فدخل علينا عبيد الله، فقال له معقل: احدثك حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" ما من وال يلي رعية من المسلمين فيموت وهو غاش لهم إلا حرم الله عليه الجنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، قَالَ زَائِدَةُ، ذَكَرَهُ عَنْ هِشَامٍ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: أَتَيْنَا مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ نَعُودُهُ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ مَعْقِلٌ: أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو حسین الجعفی نے خبر دی کہ زائدہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے اور ان سے حسن نے بیان کیا کہ ہم معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے ان کے پاس گئے پھر عبیداللہ بھی آئے تو معقل رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مر گیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔

Narrated Ma'qil: Allah's Apostle said, "If any ruler having the authority to rule Muslim subjects dies while he is deceiving them, Allah will forbid Paradise for him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 265


   صحيح البخاري7151معقل بن يسارما من وال يلي رعية من المسلمين فيموت وهو غاش لهم إلا حرم الله عليه الجنة
   صحيح البخاري7150معقل بن يسارما من عبد استرعاه الله رعية فلم يحطها بنصيحة إلا لم يجد رائحة الجنة
   صحيح مسلم364معقل بن يسارلا يسترعي الله عبدا رعية يموت حين يموت وهو غاش لها إلا حرم الله عليه الجنة قال ألا كنت حدثتني هذا قبل اليوم قال ما حدثتك أو لم أكن لأحدثك
   صحيح مسلم4729معقل بن يسارما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة
   صحيح مسلم363معقل بن يسارما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة
   بلوغ المرام1285معقل بن يسارما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7150  
´حکام و امراء پر عوام کو دھوکہ دینا حرام و کبیرہ گناہ ہے`
«. . . يَقُولُ: مَا مِنْ عَبْدٍ اسْتَرْعَاهُ اللَّهُ رَعِيَّةً فَلَمْ يَحُطْهَا بِنَصِيحَةٍ إِلَّا لَمْ يَجِدْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو کسی رعیت کا حاکم بناتا ہے اور وہ خیر خواہی کے ساتھ اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَحْكَامِ: 7150]

لغوی توضیح:
«اسْتَرْعَـاهُ» حاکم و سربراہ بنائے۔
«رَعِيَّة» اس کی جمع رعایا ہے، مراد ہے عوام و محکومین۔

فہم الحدیث:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حکام و امراء پر عوام کو دھوکہ دینا اور ان کے حقوق غضب کرنا حرام و کبیرہ گناہ ہے اور ایسے حکام پر جنت حرام ہے۔ اس لیے اگر کوئی حاکم و امیر چاہتا ہے کہ اسے جنت میں داخلہ مل جائے تو وہ اپنی رعایا کے مکمل حقوق ادا کرے، ان پر ظلم و زیادتی نہ کرے، ان سے ناانصافی نہ کرے، ان پر ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ نہ ڈالے، انہیں دہشت گردوں اور لٹیروں سے تحفظ فراہم کرے وغیرہ وغیرہ۔ حکمران کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ عادل حاکم روز قیامت ان سات خوش نصیبوں میں سے ایک ہو گا جسے اللہ اپنا سایہ عطا فرمائیں گے۔ [أخرجه البخاري: 660 و مسلم: 1031]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 86   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1285  
اپنی رعیت کو دھوکا دینے والے پر جنت حرام ہے
«وعن معقل بن يسار رضى الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يقول: ‏‏‏‏ما من عبد يسترعيه الله رعية يموت يوم يموت وهو غاش لرعيته إلا حرم الله عليه الجنة ‏‏‏‏ متفق عليه»
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی بھی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا حاکم بنا دے اسے جس دن موت آئے وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعیت کو دھوکا دینے والا ہو تو اللہ اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1285]
تخریج:
[بخاري 7150]،
[مسلم، الايمان142]،
[تحفة الاشراف 464/8،461/8]

فوائد:
➊ بخاری رحمہ الله نے حسن رضی اللہ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے اس میں ایک قصہ ہے کہ عبید الله بن زیاد معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بیمار پرسی کرنے کے لئے آئے، یہ اس بیماری کا واقعہ ہے جس میں معقل رضی اللہ عنہ فوت ہوئے۔ عبید اللہ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے یزید کے زمانے میں بصرے کے عامل تھے تو اس موقعہ پر معقل رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ حدیث سنائی۔
بلوغ المرام میں مذکور الفاظ مسلم کی ایک روایت کے ہیں۔
مسلم کی دوسری روایت ہے یہ ہے کہ فرمایا:
«ما من امير يلي امر المسلمين ثم لا يجهد لهم وينصح إلا لم يدخل معهم الجنة» [ مسلم / الايمان 366]
جو کوئی امیر مسلمانوں کی حکو مت کا والی بنے، ان کے ساتھ نہ پوری کوشش کرے، نہ ان کی خیر خواہی کرے تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
➋ اس حدیث میں ان حکمرانوں کے لئے سخت وعید آئی ہے جو اپنی رعایا کی بہتری کے لئے پوری کوشش نہیں کرتے، نہ ان کی خیر خواہی کرتے ہیں بلکہ انہیں دھوکا دیتے ہیں اور توبہ کئے بغیر اسی حالت میں دنیا سے چلے جاتے ہیں کہ ان کے لئے جنت حرام ہے۔ کیونکہ اتنے بندوں کے حق وہ قیامت کے دن کہاں سے ادا کریں گے؟ اللہ تعالیٰ بھی اپنی طرف ہے بندوں کو راضی نہیں کرے گا کہ ان کے حقوق اپنے پاس سے ادا کرے اور ان کو دھوکا دینے والے اور ظالم حکمرانوں کو جنت میں بھیج دے بلکہ انہیں ضرور ہی ان حقوق کے بدلے جہنم میں پھینکے گا۔
جنت حرام ہونے کا مطلب اس حدیث میں یہ ہے کہ جہنم میں جانے کے بغیر شروع میں ہی جنت میں داخل ہو جانا ان پر حرام ہے۔ یہ مطلب اس لئے کیا گیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے جنت صرف کفار کے لئے حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«إِنَّهُ مَن يُشْرِكْ بِاللَّـهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ» [5-المائدة:72]
یقیناً جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانا آگ ہے۔
اور جنت کے پانی اور رزق کے متعلق فرمایا:
«إِنَّ اللَّـهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ» [7-الأعراف:50 ]
اللہ نے یہ دونوں چیزیں کافروں پر حرام کر دی ہیں۔
اس لئے کسی مسلمان کے متعلق اگر یہ الفاظ آئیں کہ اس پر جنت حرام ہے تو اس سے مراد یہی ہو گا کہ جنت میں شروع میں داخلہ اس پر حرام ہے۔
زیر بحث حدیث میں مسلم کی دوسری روایت اس مطلب کی تائید کرتی ہے کہ آپ نے فرمایا: «لم يدخل معهم الجنة» اپنی رعیت کی خیر خواہی نہ کرنے والا ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا۔ البتہ اپنے گناہوں اور زیادتیوں کی سزا پانے کے بعد کسی وقت جنت میں چلا جائے تو الگ بات ہے۔
➌ رعایا کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کے لئے وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے ان کی جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت کرے۔ ان کی عقل برباد کرنے کی ہر کوشش کو ناکام کرے اس مقصد کے لئے قتل، ڈاکے، چوری، زنا، بہتان، شراب نوشی پر اللہ کی بتائی ہوئی حدیں نافذ کرے، بے حیائی کو پھیلنے سے روکے، مظلوم کی فریاد سنے۔ رعایا سے علیحدگی اور فاصلہ اختیار نہ کرے۔ فیصلہ کرتے وقت اپنی خواہش کی بجائے حق کے مطابق فیصلہ کرے اسلام اور مسلمانوں کی حفاظت کے لئے جہاد جاری رکھے۔ ان کی تربیت کے لئے قرآن و سنت کی تعلیم کا اہتمام کرے اور ان کے تمام معاملات پر صرف ان لوگوں کو ذمہ دار مقرر کرے جو اس کی پوری محنت کوشش اور جستجو کے بعد اسے دوسرے تمام لوگوں سے زیادہ اس کام کے اہل معلوم ہوئے ہیں۔ اموال اور دوسرے فوائد کی تقسیم میں عدل کرے ایسا حکمران اللہ کے ہاں بہت ہی بلند درجے والا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے سائے میں جگہ دے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہو گا۔ ان میں سب سے پہلا شخص جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شمار فرمایا امام عادل ہے۔ [بخاري۔ الاذان / 36]
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إن المقسطين عند الله على منابر من نور عن يمين الرحمن عز وجل وكلتا يديه يمين الذين يعدلون في حكمهم واهليهم وما ولوا» [مسلم / الامارة: 4721 ]
انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں رحمان عزوجل کے دائیں ہاتھ نور کے منبروں پر ہوں گے اور اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو فیصلے میں عدل کرتے ہیں اور اپنے گھر والوں میں اور جس کے بھی ذمہ دار ہیں عدل کرتے ہیں۔
➍ خیرخواہی کے مقابلے میں دھوکا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر کام میں اپنی خواہش نفس کو مقدم رکھے۔ رعایا کی جان مال اور آبرو برباد کرے، حدود اور جہاد کو باطل کرے، مسلمانوں کے مال میں اپنی مرضی سے ناحق تصرف کرے، ان پر ظلم کا مداوا نہ کرے، ناجائز ٹیکس لگا کر ان کی زندگی تلخ کر دے۔ مفسدوں کو رعایا پر ظلم کی کھلی چھٹی دے دے، حکو مت کی ذمہ داریوں پر اہل لوگوں کی بجائے اپنی خوشامد کرنے والے جا و بیجا حمایت کرنے والے نااہل اور مفس لوگوں کو مقرر کرے، مسلمانوں کے دشمنوں سے ساز باز کر کے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچائے ایسے حکمرانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت حرام ہونے کی وعید سنائی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 163   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1285  
´برے اخلاق و عادات سے ڈرانے اور خوف دلانے کا بیان`
سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ جس بندے کو حاکم بنا کر رعیت اس کے سپرد کر دی جائے اگر اسے ایسی حالت میں موت آئے کہ رعیت و عوام میں خیانت کا ارتکاب کرتا رہا ہو تو ایسے حاکم پر اللہ تعالیٰ اپنی جنت حرام کر دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1285»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأحكام، باب من استرعي رعية فلم ينصح، حديث:7150، ومسلم، الإيمان، باب استحقاق الوالي الغاش لرعيته النار، حديث:142.»
تشریح:
1. سربراہ مملکت اور امیر کو چاہیے کہ اپنی رعایا کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے‘ ہر ایک کو انصاف مہیا کرے‘ کسی سے ناانصافی نہ کرے اور نہ دوسرے سے ناانصافی ہونے دے‘ ان کے کاموں میں آسانی اور نرمی پیدا کرے‘ انھیں مشکلات اور مشقتوں میں نہ ڈالے‘ عوام کے معمولی قصور پر مؤاخذہ نہ کرے‘ درگزر اور معافی کا رویہ اپنائے‘ انھیں حتی الوسع ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرے‘ ان کے مال پر ہاتھ صاف نہ کرے‘ان کی عزت و ناموس پر ڈاکہ نہ ڈالے‘ ٹیکسوں کی بھرمار سے عوام کا جینا دشوار نہ کرے اور انھیں چوروں‘ ڈاکوؤں اور دہشت گردوں سے تحفظ مہیا کرے۔
او ر اگر وہ اس کے برعکس عوام کا خون چوستا ہے تو ایسے حاکموں کے لیے اس حدیث میں شدید وعید ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنی جنت میں داخل نہیں فرمائے گا۔
2.جنت کا حرام ہونا صاف بتا رہا ہے کہ رعیت کو دھوکا دینا گناہ کبیرہ ہے‘ اس لیے اگر حاکمین اور امراء جنت میں داخلہ چاہتے ہیں تو انھیں ایسے فعل سے باز رہنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1285   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7151  
7151. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا معقل بن یسار ؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں حاضر ہوئے۔ وہاں عبیداللہ بن ذیاد آیا تو سیدنا معقل ؓ نے اس سے کہا: میں تجھے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ آپ نے فرمایا: جو بادشاہ مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملات میں خیانت کی پھر وہ اسی حالت میں مرگیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7151]
حدیث حاشیہ:
حضرت معقل بن یسار مزنی اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔
سنہ 60ھ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7151   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7151  
7151. سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا: ہم سیدنا معقل بن یسار ؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں حاضر ہوئے۔ وہاں عبیداللہ بن ذیاد آیا تو سیدنا معقل ؓ نے اس سے کہا: میں تجھے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔ آپ نے فرمایا: جو بادشاہ مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملات میں خیانت کی پھر وہ اسی حالت میں مرگیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7151]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس کا سبب اس طرح بیان ہوا ہے کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بصرے کا گورنرتھا اور بہت خونریزی کرتا تھا۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نصیحت کرنی چاہی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے یہ واقعہ دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پیش آیا ہو۔
بہرحال ظالم حکمرانوں کے لیے اس میں بہت سخت وعید بیان ہوئی ہے کہ جو حاکم مسلمانوں کے حقوق ضائع کرتا اور ان کی خیانت کامرتکب ہوتا ہے تو قیامت کیے دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑا کیا جائے گا وہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جنت حرام کردی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔
اگر وہ عوام کی خیر خواہی میں کوتاہی کرے گا تو جنت سے بلکہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔
(فتح الباری 13/159)
الحکم التفصیلی:
المواضيع 1. مسئولية الأمير أو الراعي (الأقضية والأحكام)
موضوعات 1. امیر یا ذمہ دار کی مسؤولیت (عدالتی احکام و فیصلے)
Topics 1. Leader will be questioned about his subjects (Legal Orders and Verdicts)
Sharing Link:
https:
//www.mohaddis.com/View/Sahi-
Bukhari/T8/7151 تراجم الحديث المذكور المختلفة موجودہ حدیث کے دیگر تراجم × ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
٣. شیخ الحدیث مولانا محمد داؤد راز (مکتبہ قدوسیہ)
5. Dr. Muhammad Muhsin Khan (Darussalam)
حدیث ترجمہ:
سیدنا حسن بصری سے روایت ہے انہوں نے کہا:
ہم سیدنا معقل بن یسار ؓ کی عیادت کے لیے ان کے ہاں حاضر ہوئے۔
وہاں عبیداللہ بن ذیاد آیا تو سیدنا معقل ؓ نے اس سے کہا:
میں تجھے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی تھی۔
آپ نے فرمایا:
جو بادشاہ مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملات میں خیانت کی پھر وہ اسی حالت میں مرگیا تو اس پر اللہ تعالیٰ نے جنت حرام کردی ہے حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں اس کا سبب اس طرح بیان ہوا ہے کہ عبیداللہ بن زیاد حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بصرے کا گورنرتھا اور بہت خونریزی کرتا تھا۔
حضرت معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے نصیحت کرنی چاہی۔
اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن معقل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے جسے امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ممکن ہے یہ واقعہ دونوں صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سے پیش آیا ہو۔
بہرحال ظالم حکمرانوں کے لیے اس میں بہت سخت وعید بیان ہوئی ہے کہ جو حاکم مسلمانوں کے حقوق ضائع کرتا اور ان کی خیانت کامرتکب ہوتا ہے تو قیامت کیے دن اسے اللہ تعالیٰ کی عدالت میں کھڑا کیا جائے گا وہ کسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات نہیں پاسکے گا۔
اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص پر جنت حرام کردی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاکم وقت کا فرض ہے کہ وہ اپنے ماتحت لوگوں کی خیرخواہی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔
اگر وہ عوام کی خیر خواہی میں کوتاہی کرے گا تو جنت سے بلکہ اس کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔
(فتح الباری 13/159)
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو حسین الجعفی نے خبردی کہ زائدہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے اور ان سے حسن نے بیان کیا کہ ہم معقل بن یسار ؓ کی عیادت کے لیے ان کے پاس گئے پھر عبیداللہ بھی آئے تو معقل ؓ نے ان سے کہا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جسے میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم بنایاگیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت معقل بن یسار مزنی اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔
سنہ 60ھ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
حدیث ترجمہ:
Narrated Ma'qil (RA)
:
Allah's Apostle (ﷺ) said, "If any ruler having the authority to rule Muslim subjects dies while he is deceiving them, Allah will forbid Paradise for him." حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حضرت معقل بن یسار مزنی اصحاب شجرہ میں سے ہیں۔
سنہ 60ھ میں وفات پائی۔
رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
حدیث ترجمہ:
حدیث حاشیہ:
رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر)
١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم7217٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)
ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)
7151٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)
انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)
6618٤. ترقيم فتح الباري (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم فتح الباری (کتب تسعہ پروگرام)
7151٥. ترقيم د. البغا (برنامج الكتب التسعة)
ترقیم ڈاکٹر البغا (کتب تسعہ پروگرام)
6732٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6888٧. ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
7151٨. ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
7151١٠.ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
7151 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × احکام،حکم کی جمع ہے۔
فقہی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کے وہ اوامرونواہی احکام کہلاتے ہیں جن کی بجاآوری اس نے اپنے بندوں پر عائد کی ہے لیکن اس مقام پر حکومت اور قضاء کے آداب وشرائط مراد ہیں کیونکہ حاکم کا لفظ خلیفہ اور قاضی ہردورپرمشتمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت نظام عدالت اور نظام حکومت کو بیان فرمایا ہے اور ان کے متعلق ضروری امور کی وضاحت کی ہے۔
واضح رہے کہ دین اسلام انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی ہے۔
ان کا تعلق عقائد وایمانیات سے ہویاعبادات واخلاقیات سے یا دیگر معاملات سے،اسلام ان تمام کی وضاحت کرتا ہے اور ان کے متعلق ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے پھر لوگوں کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات اور جھگڑوں کا فیصلہ کرنے اورحقداروں کو ان کا حق دلوانے،نیز تعزیر وسزا کے مستحق جرائم پیشہ لوگوں کو سزادینے کے لیے نظام عدالت کا قیام بھی انسانی معاشرے کے لیے ایک ناگزیر ضرورت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہاں اجتماعیت اور مل جل کر رہنے کی ایک شکل پیدا ہوگئی تو اس وقت نظام عدالت بھی اپنی ابتدائی سادہ شکل میں قائم ہوگیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اللہ تعالیٰ کا نبی ہونے کے ساتھ اسلامی مملکت کے سربراہ اور حاکم عدالت بھی تھے۔
اختلافی معاملات آپ کے سامنے آتے اور آپ ان کا فیصلہ فرماتے۔
جن پر زیادتی ہوتی انھیں ان کا حق دلواتے اورحق غصب کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق سزادیتے۔
اللہ تعالیٰ نے براہ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرکے حکم دیا ہے:
"آپ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ اللہ کی نازل کردہ ہدایات کے مطابق کریں۔
"(المآئدۃ 5/49)
جب یمن کا علاقہ اسلامی اقتدار کے دائرے میں آگیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں قاضی بنا کر بھیجا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ہدایات دیں کہ وہ اس ذمہ داری کو عدل وانصاف کے ساتھ ادا کرنے کے کوشش کریں اور ایسا کرنے والوں کو آخرت میں عظیم انعامات اوربلند درجات کی بشارتیں دیں،نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اگر ایسےی لوگوں سے نادانستہ طور پر کوئی اجتہادی غلطی ہوجائے تو اس پر انھیں کوئی مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ ا پنی نیک نیتی قاور حق بینی کی کوشش اور محنت کااجروثواب ملے گا اور اس کے مقابلے میں آپ نے جانبداری اور بے انصافی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کے قہر وغضب سے ڈرایا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے:
"فیصلہ کرنے والے تین طرح کے ہوتے ہیں،جن میں سے دو جہنمی اور ایک جنتی ہے:
ایک تو وہ شخص جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے۔
دوسرا وہ جس نے حق کی پہچان کرلی مگر اس کے مطابق فیصلہ نہ کیا بلکہ فیصلہ کرتے وقت ظلم وزیادتی سے کام لیا،ایسا شخص دوزخی ہے۔
تیسرا وہ جس نے نہ حق کو پہچانا اور نہ حق کے مطابق فیصلہ کیا بلکہ اس نے لوگوں میں جہالت اور نادانی سے فیصلہ کیا یہ شخص بھی دوزخی ہے۔
"(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2315)
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سربراہ مملکت کی حیثیت سے نظام حکومت کے ایسے اصول مقرر فرمائے جن سے اسلامی حکومتوں اور ان کے سربراہوں کو پوری پوری رہنمائی ملتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدحکومتی نظام چلانے والے خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اپنے دور کے تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے پوری کوشش کی کہ حکومت کے متعلق تمام معاملات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طور طریقوں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کی پوری پابندی اور پاسداری کی جائے۔
اسی امتیازی خصوصیت کی وجہ سے انھیں خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین کہا جاتاہے۔
ان تمہیدی گزارشات کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوانات اور ان کے تحت پیش کردہ احادیث کو پورے غوروفکر اور انہماک سے پڑھا جائے۔
آپ نے نظام عدالت اور نظام حکومت کے متعلق امت کی بھر پور رہنمائی کی ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ چند عنوانات حسب ذیل ہیں:
اسلامی سربراہ اگر خلاف شرع حکم نہ دے تو اس کی بات سننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔
۔
حکومتی عہدہ خود نہیں مانگنا چاہیے،اس طرح اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے شامل حال ہوگی۔
۔
جو شخص حکومتی عہدہ طلب کرے گا وہ اس کے حوالے کردیا جائے گا۔
۔
حکومتی عہدے کی حرص کرنا منع ہے۔
۔
جو شخص لوگوں کو تنگ کرے گا،اللہ تعالیٰ اسے مشقت میں ڈالے گا۔
۔
جو شخص رعایا کی خیر خواہی نہ کرے،اسے سخت ترین عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا۔
چلتے چلتے راستے میں کوئی فیصلہ کرنا۔
۔
قاضی کو غصے کی حالت میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔
۔
جج بننے کی کیا شرائط ہیں؟
۔
حکام اور عُمال کا تنخواہیں لینا۔
۔
فیصلے کرنے والوں کا تحفے قبول کرنا۔
۔
یک طرفہ فیصلہ کرنے کی شرعی حیثیت۔
حاکم وقت کو چاہیے کہ وہ اپنے ماتحت کا محاسبہ کرتا رہے۔
ان کے علاوہ اور بہت سے اصول وضوابط ہیں جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7151   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.