الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: حکومت اور قضا کے بیان میں
The Book of Al-Ahkam (Judgements)
43. بَابُ كَيْفَ يُبَايِعُ الإِمَامُ النَّاسَ:
43. باب: امام لوگوں سے کن باتوں پر بیعت لے؟
(43) Chapter. How do the people give the Baia (pledge) to the Imam (ruler).
حدیث نمبر: 7199
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل، حدثني مالك، عن يحيى بن سعيد، قال: اخبرني عبادة بن الوليد، اخبرني ابي، عن عبادة بن الصامت، قال:" بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في المنشط والمكره.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَادَةُ بْنُ الْوَلِيدِ، أَخْبَرَنِي أَبِي، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ:" بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ.
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو عبادہ بن الولید نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے خبر دی، ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی سننے اور اطاعت کرنے کی بیعت کی، خوشی اور ناخوشی دونوں حالتوں میں۔

Narrated 'Ubada bin As-Samit: We gave the oath of allegiance to Allah's Apostle that we would listen to and obey him both at the time when we were active and at the time when we were tired.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 89, Number 307


   صحيح البخاري7056عبادة بن الصامتبايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا وعسرنا ويسرنا
   صحيح البخاري7199عبادة بن الصامتعلى السمع والطاعة في المنشط والمكره لا ننازع الأمر أهله
   صحيح مسلم4768عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره
   صحيح مسلم4771عبادة بن الصامتبايعنا على السمع والطاعة في منشطنا ومكرهنا وعسرنا ويسرنا أثرة علينا
   سنن النسائى الصغرى4158عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في عسرنا ويسرنا ومنشطنا ومكارهنا
   سنن النسائى الصغرى4154عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في اليسر والعسر والمنشط والمكره
   سنن النسائى الصغرى4157عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره
   سنن النسائى الصغرى4159عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في عسرنا ويسرنا ومنشطنا ومكرهنا
   سنن النسائى الصغرى4156عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في اليسر والعسر والمنشط والمكره
   سنن ابن ماجه2866عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره
   مسندالحميدي393عبادة بن الصامتبايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة في العسر واليسر والمنشط والمكره، وأن لا ننازع الأمر أهله، وأن نقول بالحق حيث ما كنا لا نخاف في الله عز وجل لومة لائم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 15  
´اتباع رسول کا بیان`
«. . . 505- مالك عن يحيى بن سعيد عن عبادة بن الوليد بن عبادة بن الصامت قال: أخبرني أبى عن عبادة بن الصامت قال: بايعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم على السمع والطاعة، فى اليسر والعسر، والمكره والمنشط، ولا ننازع الأمر أهله، وأن نقول أو نقوم بالحق حيثما كنا، لا نخاف فى الله لومة لائم. . . .»
. . . سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس چیز پر بیعت کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے چاہے آسانی ہو یا تنگی، چاہے خوش ہوں یا ناخوش، اور حکمرانوں سے جنگ نہیں کریں گے۔ ہم جہاں بھی ہوں گے حق کہیں گے اور حق پر ثابت قدم رہیں گے۔ ہم اللہ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی پروا نہیں کریں گے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 15]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 7199، 7200، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی بیعت اور ہر دور میں قیامت تک آپ کی اطاعت ہر حال میں فرض ہے۔
➋ دینِ اسلام میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحیح العقیدہ مسلمان اصحابِ اقتدار «اولي الامر منكم» کی بیعت کے علاوہ تیسری کسی بیعت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
➌ حق پر ہمیشہ ثابت قدم رہنا چاہئے خواہ ساری دنیا اس کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔
➍ مسلمان اہلِ ایمان حکمرانوں کے خلاف جنگ یا تصادم نہیں کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «کلمة عدل عند إمام جائر» یعنی افضل جہاد یہ ہے کہ ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ انصاف بیان کیا جائے۔ [مسند أحمد 5 / 256 ح22207، وسنده حسن لذاته، ابن ماجه: 4012]
➎ سیدنا عبادہ بن الصامت البدری الانصاری رضی اللہ عنہ بہت زیادہ فضیلت کے حامل صحابی تھے۔
➏ کتاب وسنت پر عمل کے دوران میں لوگوں کے اعتراضات کی کوئی پروا نہیں کرنی چاہئے۔
➐ سختی میں صبر اور کشادگی میں شکر ادا کرتے رہنا چاہئے۔
➑ اہل ایمان نہ آسانی وخوشی میں ایمان کا سودا کرتے ہیں اور نہ تنگی وغمی میں متزلزل ہوتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 505   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2866  
´بیعت کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے تنگی اور فراخی، خوشی و ناخوشی، اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دئیے جانے کی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے اور اطاعت کرنے پر بیعت کی، نیز اس بات پر بیعت کی کہ حکمرانوں سے نہ جھگڑیں، اور جہاں بھی ہوں حق بات کہیں، اور اللہ کے سلسلے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2866]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امیر کی اطاعت ملک و سلطنت کے نظم وضبط میں نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

(2)
زندگی میں کئی معاملات ایسے پیش آ سکتے ہیں جب ایک انسان امیر کی اطاعت سے جی چراتا اور اس کی حکم عدولی کی طرف مائل ہوسکتا ہے مثلاً:

(ا)
مشکل حالات میں انسان قانونی شکنی پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

(ب)
راحت کے موقع پر آرام چھوڑ کر مشکل حکم کی تعمیل کو جی نہیں چاہتا۔

(ج)
بعض اوقات کام ایسا ہوتا ہے کہ جس کے طبیعت قدرتی طور پر نا پسند کرتی ہے۔

(د)
بعض اوقات انسان خود کوایک منصب کا اہل سمجھتا ہے یا کسی انعام کا مستحق سمجھتا ہے لیکن وہ منصب یا انعام کسی اور کو مل جاتا ہےاور انسان محسوس کرتا ہے کہ اس کی حق تلفی یا بے قدری ہوئی ہے اس سے دلبرداشتہ ہوگر وہ مسلمانوں کے اجتماعی معاملات یا اپنے فرائض میں دلچسپی کم کردیتا ہے۔
حدیث میں وضاحت کی گئی ہے کہ ایسے تمام مواقع پر اللہ کی رضا کو سامنے رکھتے ہوئے اطاعت امیر میں سرگرم رہنا قرب الہی اور بلندی جذبات کا باعث ہے۔

(3)
حکمران بھی انسان ہوتے ہیں ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ غلطیاں بغاوت کا جواز نہیں بنتی کیونکہ بغاوت سے جو بد نظمی پیدا ہوتی ہے اس کا نقصان غلط کار حکمران کی غلطیوں کے نقصان سے بھی زیادہ ہوسکتا ہے۔

(4)
اطاعت امیر کا مطلب یہ نہیں کہ ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی تائید کی جائے۔
اس کی غلطی کو واضح کرنا چاہیے لیکن مقصد مسلمانوں کا اجتماعی مفاد اور امیر سے خیر خواہی ہو نہ کہ اس پر بے جا تنقید کرکے عوام کو اس کے خلاف ابھارنا اور ملک کے امن وامان کو تباہ کرنا۔

(5)
جس کا م پر ضمیر مطمئن ہو کہ یہ صحیح ہے اور وہ خلاف شریعت بھی نہ ہواور اس سے کوئی بڑی خرابی پیدا ہونے کا خطرہ بھی نہ ہو وہ کرلینا چاہیے اگرچہ لوگ اسے اپنے رسم ورواج یا مفاد کے خلاف سمجھ کر طعن و تشنیع کریں تاہم تنقید کرنے والوں کو دلائل کے ساتھ سمجھانے اور قائل کرنے کی کوشش کرنا مستحسن ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2866   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.